محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
28 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام پر خصوصی اشاعت)
قرآن مختلف خاندانی حالتوں کے تحت وراثت کی تقسیم کے لئے واضح قوانین اور ہدایات کا تعین کرتا ہے۔ یہ قوانین قانونی لب و لہجے میں ایک طویل صفحہ پر مشتمل دو آیتوں میں بیان کیے گئے ہیں(12-4:7، 4:33، 4:176) جسے پڑھنے اور سمجھنے میں عام قارئین کو مشکلیں اور پریشانیاں ہو سکتی ہیں۔ لہذا، ہم نے آسانی کے لیے ان قوانین کے مختلف عناصر کو آیتوں کے حوالے کے ساتھ، مختلف عناوین کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بعض اہل علم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موضوع قانونی نظم و ضبط سے متعلق ہے لہٰذا، اسے فقہاء کے لیے ہی چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
38.1. وراثت کے متعلق قرآنی قوانین کی وسیع تر منطق اور توجیہات
وراثت کے متعلق قرآنی قوانین مندرجہ ذیل وجوہات پر مبنی ہیں:
• بیٹی، بیوی اور ایک ماں کی شکل میں ایک عورت کی میراث کو کسی بھی ابہام کے بغیر پوری وضاحت کے بیان کر دیا گیا ہے، تاکہ اس کی وراثت اور اس کے حقوق کو پوری طرح محفوظ کیا جا سکے، اور کسی بھی پدرانہ بدعنوانی سے اس کی حفاظت کی جائے (کاش! کہ آج ایسا کیا جاتا)
• ایک عورت کے مقابلے میں ایک بیٹا، ایک شوہر یا ایک بھائی کے طور پر وراثت میں ایک مرد کا زیادہ حصہ اس کے گھر والوں کے لئے اس کی مالی ذمہ داری کی وجہ سے ہے (4:34 / باب 33.6)
• ایک میت کی اولاد کے طور پر ماں اور باپ کا برابر کا حصہ ان میں سے ہر ایک کے لئے بڑھاپے کی برابر ضرورت کے لیے ہے۔
• بعض صورتوں میں ایک بیٹا، ایک بھائی اور ایک باپ کی شکل میں ایک مرد کا حصہ غیر معین ہے، لیکن اس کا تصفیہ کل میراث سے مخصوص حصے کی تخفیف کر کے کیا جا سکتا ہے۔
38.2. وراثت کے عام اصول و ضوابط
وراثت کے متعلق قرآنی قوانین میں مندرجہ ذیل اصول و ضوابط کار فرما ہیں:
• زندہ والدین، شریک حیات، اور بچوں کو براہ راست وارث کی حیثیت دی گئی ہے (4:7، 4:11، 4:12)۔
• اگر کوئی براہ راست وارث (والدین، شریک حیات یا بچے) نہ ہوں تو، موجودہ بھائیوں اور بہنوں کو میراث میں شامل کیا جائے گا (4:176)۔
• براہ راست وارث کی غیر موجودگی میں وراثت کا حقدار اخیافی بھائیوں اور اخیافی بہنوں کو بنایا جائے گا (4:12)۔
• اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دیا جائے (10-4:8)۔
• وراثت کی تقسیم بقایا جات، ٹیکس اور تمام معاملات کے تصفیہ کے بعد ہی کی جانی چاہیے (4:11، 4:12، اور 4:33)۔
38.3. زندہ بچ جانے والوں کے درمیان وراثت کی تقسیم
اگر والدین، شریک حیات، بیٹے اور بیٹیاں زندہ ہوں:
• ماں اور باپ میں سے ہر ایک کو میراث کا چھٹا حصہ ملےگا (4:11)۔
• بیوی کو اس کے شوہر کے ترکہ سے ایک آٹھواں ملے گا، جبکہ شوہر کو اس کی بیوی کے ترکہ کا چوتھا حصہ ملے گا (4:12)۔
• ہر بیٹے کو ہر بیٹی کے مقابلے میں دوگنا حصہ حاصل ہو گا، لیکن وارث اگر صرف ایک بیٹی کے علاوہ اور کوئی نہ ہو تو اسے وراثت کا نصف حصہ حاصل ہو گا (4:11)۔
• اگر بیٹیاں دو یا دو سے زیادہ ہوں اور کوئی بیٹا نہیں ہو تو ان کا مشترکہ حصہ وراثت کا دو تہائی ہے (4:11)۔
• اگر صرف ایک یا ایک سے زادہ بیٹے ہوں اور کوئی نہیں، تو والدین کے حصص دینے کے بعد انہیں یکساں طور پر ان کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا۔
اگر صرف والدین اور شریک حیات موجود ہوں اور ان کے علاوہ کوئی اولاد نہ ہو تو اس صورت میں جائداد کی تقسیم:
• بیوی کو اس کے شوہر کے ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ ملے گا، جبکہ شوہر کو اس کی بیوی کے ترکہ کا نصف حصہ حاصل ہوگا (4:12)۔
• اگر میت نے اپنے پیچھے بھائیوں اور بہنوں کو چھوڑا ہو تو والدین میں سے ہر ایک کو وراثت کا ایک چھٹا حصہ ملےگا، اور بھائیوں اور بہنوں کو ان کا متناسب حصہ حاصل ہو گا، یعنی مردوں کو خواتین کے مقابلے میں دوگنا حصہ حاصل ہو گا (4:11)
• اگر کوئی بھائی یا بہن نہ ہو تو ماں کو وراثت کا ایک تہائی ملے گا (4:11)۔
اگر نہ والدین ہوں نہ شریک حیات ہو اور نہ ہی کوئی اولاد ہو تو اس صورت میں جائداد کی تقسیم:
· اگر میت نے اپنے پیچھے صرف ایک بہن کو چھوڑ ہو تو اسے ترکہ کا نصف حصہ حاصل ہو گا، لیکن اگر بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو انہیں ترکہ کا دو تہائی حصہ حاصل ہو گا (4:176)۔
· اگر ایک میت عورت نے اپنے پیچھے صرف ایک بھائی کو چھوڑا ہو تو اسے مکمل ترکہ حاصل ہوگا (4:176)
· ایک میت مرد یا عورت نے اپنے پیچھے بھائی اور بہن دونوں کو چھوڑا ہو تو مرد کو عورتوں کا دوگنا حصہ حاصل ہو گا (4:176)
· اگر میت مرد یا عورت نے اپنے پیچھے اپنی ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن چھوڑا ہو توان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ حاصل ہو گا- اور اگر بھائی اور بہن دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مشترکہ طور پر ترکہ کا ایک تہائی حصہ ملے گا (4:12)۔
No comments:
Post a Comment