Extremism: The Biggest Challenge شدت پسندی سب سے بڑا چیلنج
اعجاز ذکاء سید
15 ستمبر، 2015
یہ غلط فہمی عام ہے کہ جنوبی ایشیا کے ایک بڑے رقبے پر اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔ اس کےبرعکس حقیقت یہ ہےکہ اس خطے میں جن لوگوں نے اسلام کو گلے لگایا وہ عرب تاجروں کی ایمانداری ، محبانہ برتاؤ اور سادگی سےمتاثر ہوئے تھے ۔اجمیر کے خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ ، دہلی کے نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ اور لاہور کے سید ابوالحسن ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عقائد کی طاقت اور تعلیمات سے جو پیغام محبت سنایا اس سے سننے والے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور انہیں اسلام کے دامن میں ہی حقیقی اطمینان نصیب ہوا۔ ہندوستان میں جب بھی اسلام کی بات کی جاتی ہے تو مغلوں اور ان کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں کا حوالہ دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کےعوام کےقلب و ذہن کو جنہوں نے فتح کیا وہ اللہ کے بندے دوسرے ہی تھے جن کی طاقت کااظہار توپوں اور تلواروں سے نہیں ہوا۔
مسلم حکمرانوں او ربادشاہوں نے کئی عظیم الشان مسجدیں تعمیر کیں لیکن یہ بھی حقیقیت ہے کہ انہوں نے جو جنگیں لڑیں وہ مذہب کیلئے نہیں لڑیں اور نہ ہی انہوں نے اسلام کی نمائندگی کی۔ انہوں نے اگر ہندو ریاستوں پر حملہ کیا تو اس کے پیچھے کوئی مذہبی تحریک کار فرمانہیں تھی، نہ ہی وہ دینی جذبہ و جوش سےبھرے ہوئے تھے ۔ ان کی لڑائیاں اور جنگیں صرف اقتدار کیلئے تھیں ۔ مغل حکمرانوں کے اقدامات او رکارناموں نے صرف اسلام کی شبیہ کو ہی داغدار کیا ہے اور پھر الزام لگانے والوں نے یہی الزام لگایا کہ مغلوں ، خلجیوں اور لودھیوں کی تلواروں سے اسلام کو فروغ ملا۔ دنیا کی کل مسلم آبادی میں سے نصف اگر آج جنوبی ایشیا میں آباد ہیں تو اس کا سہرا اللہ کے ان صالح بندوں کے سر بند ھنا چاہئے جن کا بالائی سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔ اب وہ عناصر کون اور کیسے ہیں جو اولیاء اللہ اور ان سےمحبت اور عقیدت رکھنے والوں کو نشانہ بناتے ہیں ؟ کیا اس سے بڑھ کر جرم اور کچھ نہیں ہوسکتا ہے کہ ان شْخصیات کو نشانہ بنایا جائے جنہوں نے اپنی پوری زندگیاں خدا کے دین اور انسانیت کی خدمت کےلئے وقف کردیں ۔ پھرایسے عناصر سےکیا توقع رکھی جاسکتی ہے کہ جو اللہ کے گھروں کوبھی نہیں چھوڑتے اور ان بے قصوروں کو بھی اپنی جارحیت کا نشانہ بناتے ہیں اور جو وہاں عبادت میں مصروف رہتے ہیں او ریہ سب کرتے ہوئے وہ خدا کا نام لینے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں!
ایسے عناصر مسلمانوں کے تحفظ او ران کے دین کے دفاع کے نام پر کھڑے ہوئے ہیں اور عجب تماشا ہےکہ ہمیں ، ہمارے دشمنوں سے بچانے کیلئے وہ ہمارا ہی قتل کررہے ہیں! میرا کبھی لاہور یا پاکستان جانانہیں ہوا ۔ لیکن چونکہ لاہور سے اقبال اور فیض جیسی شخصیات کا تعلق رہا ہے، اس لئے میرے دل میں اس شہر کےلئے خصوصی جگہ رہی ہے ۔ بہر حال پاکستان اور ہندوستان میں لاہور کو ‘داتا کی نگری’ کے نام سے بھی جانا جاتاہے۔ اس شہر کو یہ نام صوفی بزرگ سید ابوالحسن ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی وجہ سےملا ہے جو داتا گنج بخش کے نام سے معروف ہیں ۔ بر صغیر میں تلاش و جستجو کے ایک طویل مرحلے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور اپنا مقام منتخب کیا اور یہیں سے اپنی تعلیمات اور پیغام محبت کو عام کیا اور اپنا مشن جاری رکھا۔ علی ہجویری کی ایک مشہور تصنیف کشف المحجوب ’ ہے جسے خدا کے راستے میں مجاہدہ کے طریقے کو خراج عقیدت سےتعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ تمام صوفی بزرگوں نے انسانیت کو محبت، رواداری، رحمدلی، صبر و سخاوت کی ہی تعلیم دی۔ عظیم صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی نے جن سے علامہ اقبال حد درجہ متاثر تھے، لکھتے ہیں ‘‘عشق کا طریقہ تمام طریقوں سےمختلف ہے، عاشقان خدا، خدا کے سوا کسی بھی جماعت او رکسی بھی قوم سے عہد وفا نہیں کرتے’’۔
یہ صوفیوں کا طریقہ تھا ۔ ان کےدروازے سبھی کےلئے کھلے ہوئے تھے ۔ ان کے دروں پربھوکوں کوکھانا ملتا تھا اور کمزوروں کو پناہ۔ لیکن آج مٹھی بھر شدت پسند اسلام کے نام پر جو کچھ کررہےہیں وہ مسلمانوں کےلئے حد درجہ خطرناک ہے۔ یہ اسلام کی ہی لافانی تعلیمات میں سے ہے کہ کسی ایک بے قصور کاقتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے ۔ قرآن مجید میں بار بار متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ زمین پر فساد اور غارتگری پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ یہ باتیں ہم بار ہا کہتے او رسنتے آئے ہیں لیکن کیا اس سے ہم میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ کیا اس صورتحال پرہم میں سے کوئی سنجیدگی سے غور کرنے کو تیار نہیں ہے؟ ایک طرف اسلام کے پیغامات او راس کی تعلیمات کے ابدی ہونے پر فخر محسوس کرتےہیں اور دوسری طرف دنیا کی نظر میں ہماری شبیبہ ‘قاتلوں’ کی بنی ہوئی ہے۔ ہمارے پاس آسمانی کتاب ہے اور اس کی تعلیمات بھی سب کے سامنے ہے لیکن دنیا خدا کی کتاب سےاسلام کے بارےمیں فیصلہ نہیں کریگی بلکہ ہمارے اعمال دنیا والوں کیلئے اسلام کا آئینہ ہیں۔ جیسے ہمارے اعمال ہوں گے، غیروں کو اسلام ویسا ہی نظر آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ سب کب تک جاری رہے گا؟ کیا موت کے اس رقص کو روکنے والا کوئی نہیں ہے؟ شدت پسندی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سرطان کی طرح پورے عالم اسلام کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ کچھ جنوبی ذہنیت رکھنے والے اسلام کا دفاع کرنے کے نام پر کھڑے ہوگئے ہیں اور باقی مسلمان بے بس اور مجبو ر ہوکر بس تماشاہی دیکھ رہے ہیں ۔ اپنی پوری تاریخ میں مسلمانوں پر ایسا دور کبھی نہیں آیا جب شدت پسندی کی وجہ سے ان کی مجموعی شناخت اورو جود خطرے میں پڑ گئی ہو۔ یہ جنونی اور بیمار ذہنیت کتنی خطرناک ہے، اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ان مسائل پر منطقی دلائل کے ساتھ آواز اٹھانے والے مسلمان کہاں ہیں؟ ہمارے علماء اور دانشور کہاں ہیں جو دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کیلئے آواز اٹھائیں اور ان کے خلاف متحدہوں جنہوں نے اسلام کے نام پر شدت پسندی اور غارتگری پھیلا رکھی ہے۔ ان جنونیوں کو روکنے کا اس کے علاوہ او رکوئی راستہ نہیں ہے اور یہ وقت خاموش بیٹھنے کا نہیں ہے۔
15 ستمبر ، 2015 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
No comments:
Post a Comment