Wednesday, September 23, 2015

Reflecting On The Actual Thoughts Of Allama Iqbal فقہ اسلامی، جمہوریت، خلافت، تصوف، روحانیت اور سیکولرازم وغیرہ کے احیائے نو کے بارے میں علامہ اقبال کے افکار و نظریات کا تجزیہ





 غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
16 اپریل 2015
 [یہ مضمون نیو ایج اسلام پر شائع کیے درج ذیل دو مضامین کے اعزاز میں ہے:
(Reconstruction of Religious Thoughts in Islam Has Been a Perennial Message of Muslim Scholars) راشد سمناکے
(On the Reconstruction of Religious Thought) نصیر احمد
بہت سے لوگوں کے لیے علامہ اقبال کی ذات اتنی کثیر جہت اور ان کی باتیں اتنے کثیر معانی ہیں کہ انہیں ان کے افکار و نظریات بمشکل سمجھ ہی میں آتی ہیں۔ ان کی شخصیت اور ان کے فلسفہ میں مسلسل تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی انگریزی تحریریں ان کی اردو تحریروں سے بالکل بر عکس ظاہر ہوتی ہیں۔ جب ہم مختلف اوقات اور سیاق و سباق سے متعلق ان کی زندگی اور افکار و نظریات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم ان کے اندر ایک مارکسس، ایک سیکولر، ایک ملا، اور ایک ہی وقت میں ایک صوفی اور تصوف کا مخالف، ایک ہی وقت میں ڈیموکریٹ اور اسلام پسند شخصیت بھی پاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی کثیر جہت شخصیت گہری سوچ اور مطالعہ اور تجزیہ کی ایک یکسر مختلف نقطہ نظر کی تخلیق تھی۔ ان کے خیالات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے فلسفہ اور خاص طور پر ان کے مذہبی اور سیاسی افکار و نظریات میں ایک منطقی ارتقا تھا۔ یہ اسلامی فقہ کی تعمیر نو سے متعلق ان کے خیالات سے بھی واضح ہے۔
اس شاندار فلسفی نے اس وقت مسلمانوں کے مذہبی ڈھانچے کی تعمیر نو پر اپنے خیالات پیش کیے جب وہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی اور سیاسی حقوق کا دفاع کرنے کی ترغیب و تحریک دینے کی کوشش کر رہے تھے اس لیے کہ ایک آزاد ہندوستان ابھر کر سامنے آنے والا تھا۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے مذہبی ڈھانچے کی تعمیر اور تشکیل نو کی ضرورت سختی کے ساتھ محسوس کی۔ روایتی اور جدید مذہبی افکار و نظریات کا باریکی سے مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ صدیوں تک اکثر مسلم مدارس کا حصہ بنے رہنے والے قدامت پسند، سائنس مخالف اور خلاف منطق فقہ ناقص اور فرسودہ ہیں اور امت مسلمہ کو درپیش ابھرتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب نہیں ہے۔ لہذا، انہوں نے اپنی پوری ہمت اور جوانمردی کے ساتھ اپنی یہ رائے پیش کی کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی افکار و نظریات کی تعمیر نو کرنا اشد ضروری ہے ۔
اس سے قبل، انہوں نے اسرارِ خودی اور رموز بےخودی نامی اپنی مشہور نظموں میں اپنے چند اصلاح پسند خیالات و نظریات کو پیش کیا تھا۔ تاہم، انہوں نے اس وقت تک نثر کی شکل میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا جب تک 1932 میں انہیں مدراس، حیدرآباد، اور علی گڑھ میں چھ خطابات پیش کرنے کی دعوت نہیں ملی۔ اسلامی فلسفے پر علامہ اقبال کے ان خطابات کو "اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو" کے نام سے جانا گیا۔ اس کتاب کا بنیادی لب لباب یہ ہے کہ بنیادی عناصر سمیت اسلامی فقہ کی علمی بنیادوں کا دوبارہ جائزہ لینا ضروری ہے۔ اپنے مقالہ میں علامہ نے کہا کہ، چونکہ دنیا مسلسل تبدیل ہو رہی ہے اسی لیے مسلمانوں کو اس دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے اسلامی فقہ میں مسلسل ارتقاء کی ضرورت ہے۔
 یہ ان کے اس مذہبی خیال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جدید جمہوریت اس مقصد کے حصول میں ایک طویل راستہ طئے کر سکتی ہے اور "خلافت" کے متضاد اور غیر افادیت بخش تصور کو "جمہوریہ" کے معقول تصور سے تبدیل کر دیا جانا چاہئے۔ اس خیال کو فروغ دینے کے مقصد سے انہوں نے مسلم دنیا میں پھیلے ہوئے جمود و تعطل کو چیلنج پیش کرنے کی ہمت کی۔ اب یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کیوں علامہ کی کتاب "مذہبی افکار کی تعمیر نو" پر سعودی عرب میں کیوں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اسلامی فقہ کی تعمیر نو کا علامہ کا مقالہ اسلام میں مذہبی فلسفہ سے علماء کی اجارہ داری کو ختم کرتا ہے۔ ایک بڑی تعداد میں مسلم جدت پسند ، مصلح اور ماہرین سماجیات جدید اسلامی فکر پر ان کے اس بنیادی کام سے انتہائی متاثر ہوئے۔ آج تک یہ کتاب معاصر مسلم مصلحوں کی رہنمائی کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس نے اسلامی فقہ کے معتقدات و معمولات کو سمجھنے میں علی شریعتی اور طارق رمضان کی بہت مدد کی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے انتہائی قدامت پسند اور سخت گیر رویہ پر نالاں تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں مذہبی فکر صدیوں سے جمود کا شکار ہے۔ اور ان کی نظر میں یہ قرآن مجید کے بنیادی اور متحرک پیغامات کے لئے زبردست نقصاندہ تھا۔ انہوں نے مذہبی افکار و نظریات پر اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید سے کافی شواہد کے ساتھ دلچسپ خطبات پیش کیے۔ اپنے ایک خطاب میں انہوں نے کہا کہ قرآن بنی نوع انسان کو روحانی ترقی کے سفر کا کافی موقع فراہم کرتا ہے ، جو کہ انتہائی جامع اور وسیع ہے، اور اس کے باجود یہ تمام مومنوں کو خدا کے ساتھ رشتہ عبودیت میں جمع کر دیتا ہے۔ اپنی کتاب میں، اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو، میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:
"اگر مذہب کا مقصد دل میں روحانیت پیدا کرنا ہے تو اسے انسان کی روح میں جذب ہونا چایئے، اور یہ انسان کے باطن میں بہتر طور پر سرایت کر سکتا ہے..........ہم یہ پاتے ہیں کہ جب اسپین کے أبو عبد الله محمد ابن تومرت‎ اقتدار میں آیا جو کہ قومیت کے اعتبار سے بربر تھا، اور جب اس نے موحدین کی پاپائی حکومت قائم کی تو اس نے جاہل بربر لوگوں کی خاطر یہ حکم دیا کہ بربر زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا جائے اور نماز کے لیے اذان بھی بربر زبان میں ہی دی جانی چاہئے۔"
تاہم، یہ بات قابل ذکر ہے کہ "تعمیر نو" یا اصلاح سے علامہ اقبال کی مراد در اصل ضروری اسلامی تعلیمات اور اقدار کی بحالی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اسلامی قوانین اور معمولات میں بدعنوانیاں پیدا ہو گئیں تو انہوں نے اسلام کی حقیقی اور اصل شکل کو بحال کرنے کی وکالت کی۔ تاہم، یہ بھی واضح رہے کہ تعمیر نو سے ان کا مقصد کبھی بھی خود اسلام کو ہی تبدیل کرنا نہیں تھا، بلکہ اسلام کے کسی عمل یا مسلمانوں کے مذہبی رویہ میں تبدیل پیدا کرنا تھا۔ مثال کے طور پر، ان کی نظر میں اسلامی مذہبی فکر حقیقت کے بجائے روایت میں سرایت کر چکی ہے۔ مذہبی افکار کی تعمیر نو کے ذریعہ انہوں نے روایت کو حقیقت سے تبدیلی کرنے کی وکالت کی۔ یہی اسلامی اصلاح کی حقیقی روح تھی جو اقبال کے مذہبی افکار میں بسی ہوئی تھی۔
علامہ اقبال جن گہرے مذہبی خیالات کے حامل تھے وہ حسب ذیل ہیں۔ اول، یہ کائنات متحرک ہے، اور اسی طرح خدا بھی ہے۔ وہ خالق ہے اور اپنی تخلیق اور ان کے معاملات میں مسلسل مصروف ہے۔ دوم، خدا نے انسان کو انتخاب کی مکمل آزادی دی ہے، اور وہ اپنی قسمت کا پابند نہیں ہے۔ سوم، مسلمانوں نے فقہ اسلامی کے کا دروازہ بند کر کے اسے مذہب (مکتبہ فکر)، مسلک (اسلامی فرقے) اور مشرب (صوفی سلسلہ) کی ایک تنگ نظر ترجمانی میں محدود کر کے ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ چہارم، صوفیانہ تجربات اور مذہبی معمولات ہی حتمی مذہب اسلام کو تلاش کرنے کا واحد راستہ ہے۔ اسلام کے حقیقی صوفیانہ روایت کی بازیابی کی کوشش میں، علامہ اقبال نے اپنے اولین کام میں جدید دور کے لیے تصوف کی اصلاح کی۔ اپنی کتاب، اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو، میں انہوں نے اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں تصوف کو ایک ترقی پسند سمت دینے کی کوشش جسے مندرجہ ذیل ریمارکس میں دیکھا جا سکتا ہے:-
"اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حقیقی مکتبہ تصوف نے اسلام میں مذہبی تجربہ کے ارتقاء کی تشکیل اور ہدایات میں اچھا کارنامہ انجام دیا ہے؛ لیکن بعد کے زمانے کے ان کے نمائندے جدید رجحان اور افکار و نظریات سے جہالت کی وجہ سے، جدید رجحان اور افکار و نظریات سے کوئی نئی تحریک حاصل کرنے سے بالکل عاجز ہیں۔ وہ اب بھی انہیں راستوں پر عمل پیرا ہیں جنہیں اہم معاملات میں ہم سے مختلف ثقافتی اقدار کی حامل نسلوں تیار کیے گئے تھے۔" (اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو)
تاہم، یہ واضح ہونا چاہئے کہ، علامہ اقبال کے اس دعویٰ سے کہ تصوف کو جدید رجحان اور افکار و نظریات سے تحریک و ترغیب حاصل کرنی چاہیے، موروثی طور پر مادیت پرست 'جدید افکار و نظریات' مراد نہیں ہیں، جو کہ بنیادی طور پر دنیاوی امور کے ساتھ متعلق ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے اسلامی تصوف کے جوہر کو کلیدی اہمیت دی جو کہ فطری اعتبار سے مادیت پسند جدید افکار و نظریات سے بالکل متضاد ہے۔
بدقسمتی سے، اس سے پہلے کہ علامہ اقبال کے افکار و نظریات کو عملی شکل دی جاتی وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ بے شک، انہوں نے اپنے پیچھے ان لوگوں کے لیے ایک متواتر روایت چھوڑی ہے جو مذہبی افکار و نظریات کی تجدید اور تعمیر کے اس عظیم مقصد میں مصروف عمل ہیں ۔ انہیں علامہ اقبال کے تعمیری نقطہ نظر کو نافذ کرنے کی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذہبی افکار و نظریات کی اصلاح یا تعمیر نو ایک مشکل ترین ذمہ داری ہے، اور وہ ابھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں سائنس مخالف، غیر عقلیت پسندی اور انتہائی قدامت پسندی کا غلبہ ہو۔ بہر حال، تقلید کرنے کی مسلمانوں کی شاندار روایت رہی ہے۔ علامہ اقبال ان میں سے ایک ہے۔ اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم ان کے اصلاحات پر مبنی ترقی پسند نقطہ نظر کے ساتھ اپنے مذہبی افکار و نظریات کی تجدید اور ان کا احیائے نو کریں۔
متعلقہ مضامین:
Preface: The Reconstruction of Religious Thought in Islam By Dr. Muhammad Iqbal

Lecture 1: Knowledge and Religious Experience

Lecture 2: The Philosophical Test of the Revelations of Religious Experience

Lecture 3: The Conception of God and the Meaning of Prayer

Lecture 4: The Human Ego – His Freedom and Immortality

Lecture 5: The Spirit of Muslim Culture

Lecture 6: The Principle of Movement in the Structure of Islam
---

No comments:

Post a Comment