ثمر فاطنی
19 ستمبر 2015
حج اسلام کا پانچواں ستون ہے۔ یہ ہر مسلمان کے لئے زندگی بھر میں ایک بار ضروری ہے۔ یہ حصول بخشش اور مغفرت کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کا روحانی اجتماع ہے۔ حج کے ہر ہر رکن سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ ہم سب خدا کے سامنے برابر ہیں۔ امیر یا غریب، سفید یا سیاہ، اعلی یا کمتر، کمزور یا طاقتور، مرد یا عورت، مشرقی یا مغربی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہمیں منکسر المزاج اور مشفق ہونے کی تربیت دیتا ہے۔ حج کا مقصد حقیقی لالچ، نفرت، خود غرضی اور نسلی پرستی پر مبنی ان تمام رویوں سے روح کو پاک کرنا ہے جو لوگوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے تئیں رحم اور ہمدردی کے جذبہ سے محروم کر دیتے ہیں۔
حج نفس کے لیے روحانی طہارت کا سبب ہے۔ یہ لوگ کو اپنے ماضی پر غور و فکر کرنے اور نیکی اور راستبازی کے ساتھ ایک بہتر زندگی گزارنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ حجاج کرام ایک نئی شروعات کرنے اور خود کو ان تمام برائیوں سے پاک و صاف کرنے کے کیے حج پر آتے ہیں جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے خلاف کر دیتے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے آخری خطبہ میں مومنوں کو اس بات سے آگاہ کیا تھا کہ انہیں ایک دن خدا کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے اور انہیں ان کے اعمال کا جواب دینا ہے۔ انہوں نے تمام مومنوں کو اپنے بعد ہدایت کے راستے سے ہٹ کر گمراہی کے راستے پر چلنے سے منع کیا ہے۔
بدقسمتی سے آج بہت سے مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر غور نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ گمراہ ہو چکے ہیں۔ یہ بڑی تکلیف کی بات ہے کہ کس طرح ان کے ظالمانہ اعمال اور ان کی لالچ نے انہیں رحمت اور ہمدردی کے تمام احساسات سے خالی کر دیا ہے۔ رحمت اور ہمدردی پر مبنی مذہب کی روح کو ایک عسکریت پسند نظریہ نے اغوا کر لیا گیا ہے جو اب بھی قتل کرنے اور تباہ مچانے کے لیے جاہل اور گم گشتہ راہوں کومتاثر کر رہا ہے۔ آج مسلم دنیا ان بدعنوان اور خودغرض قائدوں کا شکار ہے، جو حکومت کرنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے دہشت گردی کی ایک شیطانی مہم چلا رہے ہیں۔
دریں اثنا مختلف فرقوں اور مکتبہ فکر کے مسلم علماء جمود و تعطل کا شکار ہیں،اور اپنے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں، ایسی فرقہ وارانہ جنگ کو فروغ دے رہے جس نے مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر بہت سے لاچار انسانوں کی جا نیں لی ہیں اور انہیں تباہ و برباد کر دیا ہے۔ متحارب جماعتوں کے درمیان اسلامی رواداری کا حقیقی پیغام مکمل طور پر مفقود ہو چکا ہے۔
اس طرح کی بری جنگوں میں کوئی بھی فاتح نہیں ہے۔ اس میں صرف تباہی اور بربادی ہی ہے۔ مسلم دنیا عدم روادار اور قدامت پرستی سے تفرقہ اور تقسیم کا شکار ہے۔ یہ دیکھنا بڑی تکلیف کی بات ہے کہ آج کس طرح مسلمان دنیا بھر میں تنازعات کا شکار ہیں اور موجودہ تنازعات اور اختلاف و انتشار سے باہر نکلنا ان کے لیے مشکل نظر آ رہا ہے۔ وہ ہر اس شخص کو تباہ کرنے کے لئے تیار ہیں جو ان کے مسخ شدہ افکار و نظریات کو تسلیم نہیں کرتے۔
انتہا پسند نظریہ کی مذمت اور "اعتدال پسندی" کے فروغ میں مسلم دنیا سے بہت مضبوط آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ تاہم، اب بھی ایسے بہت سے دوسرے لوگ موجود ہیں جو اس دنیا کی تقسیم مسلم اور غیر مسلم میں کرتے ہیں اور اسلام کے اندر دیگر فرقوں کو مسترد کرتے ہیں۔
آج بہت سے مسلمان اپنے ان معمولات پر عمل کرنے میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے جو ان کے مطابق ان کے مذہب کے حقیقی اصول ہیں۔ انہیں ان بے رحم انتہا پسندوں سے خطرہ لاحق ہے جو خود کو تو مسلمان کہتے ہیں لیکن خدا کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ زمین پر انسانوں کا فیصل صرف خدا ہے۔
کسی کو بھی اپنے مسخ شدہ نظریہ کی اندھی تقلید کرنے کا پابند نہیں کیا جانا چاہئے۔ اسلام میں کسی کو بھی اس مومن کے ایمان پر شک کرنے کا حق حاصل نہیں ہے جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ قرآن مجید کی انتہا پسند تشریحات پیش کرنا بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے۔
اسلام میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دنیا بھر کے تمام مسلم علماء کو متحد ہونا اور سختی کے ساتھ اس بات کا اعلان کرنا چاہیے کہ مسلمان دیگر مذاہب اور فرقوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں۔ افسوس کی بات ہے بہت سے مسلمان مسخ شدہ مذہبی افکار و نظریات کا شکار ہیں؛ انہیں ہدایت اور ایک پرامن دنیا میں رہنے کے ایک موقع کی ضرورت ہے۔
تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو اب قدم اٹھانا ہوگا اور دنیا کے کئی حصوں میں اثر و رسوخ حاصل کرنے والی مذہبی انتہاپسندی کو اس کے شر اور انتہاء پسند نظریات کو پھیلانے سے روکنا ہو گا۔
مسلم ممالک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ہمیں ان نظریاتی بحرانوں کو حل کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے جس نے شام، عراق، یمن اور لیبیا کو تباہ کر دیا ہے اور جس کی وجہ سے بچوں کی جانیں جا رہی ہیں، خاندان بے گھر ہو رہے ہیں، خواتین غلام بنائی جا رہی ہیں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو آلودہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ دہشت گرد مزید تنازعات اور انتشار پھیلائیں اور عرب اور مسلم دنیا کے باقی حصے کو بھی تباہ و برباد کر دیں ہمیں قدم آگے بڑھانے ہوں گے۔
ہمیں امید ہے کہ اس سال حج کی روح مسلم معاشروں کے اندر تشدد کو مسترد کرنے اور رواداری اور امن کو فروغ دینے کی ہمت اور طاقت فراہم کرے گی۔ ہم دعا کرتے ہیں مسلمان اسلام کے حقیقی اصولوں کی پاسداری کریں گے اور ان اختلافات، تنازعات اور جنگوں کو ختم کر دیں گے جن کی وجہ سے اس دنیا کے ہزاروں بے گناہ مسلمان مصائب و آلام کا شکار ہیں۔
ماخذ:
saudigazette.com.sa/index.cfm?method=home.regcon&contentid=20150919257072
No comments:
Post a Comment