Against Unlawful Intimacy: Essential Message of Islam: Chapter 34 نا جائز جنسی تعلقات کی ممانعت؛ اسلام کا اصل پیغام
محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
25 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
34۔ طلاق طریقہ کار اور شرائط
34.1. قرآن طلاق کے جذباتی صدمے کو تسلیم کرتا ہے
قرآن زوجین میں سے کسی ایک یا دونوں اور ان کی اولاد کے حق میں بھی طلاق کے سنگین جذباتی اور مالی اثرات اور نقصانات کو تسلیم کرتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن متعدد احکامات و شرائط کے ذریعہ طلاق کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، لیکن اگر طلاق کا متبادل خاندان کے لئے زندگی بھر کے لیے بے چینی، پریشانی اور مصیبت ہو تو قرآن اس کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم، قرآن مطلقہ عورتوں کو ایک سماجی بوجھ تصور نہیں کرتا ہے۔ بلکہ قرآن ان کے اور ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے مالی مفادات کی حفاظت کرتا ہے اور انہیں دوبارہ شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے اور عملی طور ان کے ساتھ کسی بھی دوسری غیر شادی شدہ خواتین کی طرح پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قبل از اسلام عرب میں دنیا کے دیگر حصوں کی طرح، اپنی بیوی کو طلاق دینا ایک مرد کا استحقاق تھا عورتوں کا نہیں۔ ایک وسیع تر تناظر میں مردوں نے انسانی معاشرے پر حکومت کی، قوانین وضع کیے اور عورتوں کو معاملات کی منصوبہ بندی میں لب کشائی کرنے کا کوئی حق نہیں تھا، خاص طور پر جب معاملہ مردوں کی جانب سے علیحدگی کا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سماجی اصلاحات کے مقصد سے اکثر قرآنی ہدایات میں کمیونٹی کے رہنما کی حیثیت سے مردوں سے خطاب کیا گیا ہے، لہٰذا، اس سے صنفی امتیاز کا کوئی منفی معنیٰ اخذ نہیں کیا جانا چاہئے۔ اب ہم اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں۔
ابتدائی نزول وحی کے سیاق و و سباق میں قرآن قبل از اسلام کی روایت کو ختم کرتا ہے جو مردوں کو محض ایک قسم کے ذریعہ اپنی بیوی کو غیر معینہ مدت تک چھوڑ دینے کی آزادی عطا کرتا ہے، بلکہ انہیں اپنے نکاح میں رکھ کر ان کی شادی اور آزادی کو برقرار رکھتا ہے۔ لہٰذا قرآن کا اعلان ہے (2:226):
‘‘اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں چار ماہ کی مہلت ہے پس اگر وہ (اس مدت میں) رجوع کر لیں تو بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے’’ (2:226)۔
آیت کے آخر میں خدا کی بخشش اور رحمت کے ذکر سے میاں بیوی کے درمیان مصالحت اور موجودہ ازدواجی رشتے کی بحالی کے لیے قرآن کی حوصلہ افزائی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ لیکن اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو طلاق دینے اور مسلسل چار ماہ کے دوران اپنی بیوی کو چھوڑ نے کا اٹل فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اسے اپنی بیوی کو ان کے ایام مخصوصہ کے بعد چھوڑنا چاہیے (2:227)۔
‘‘اور اگر انہوں نے طلاق کا پختہ ارادہ کر لیا ہو تو بیشک اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے’’(2:227)۔
34.2. مردوں کی جانب سے دیے جانے والے ایک طلاق کے بارے میں اصول و ضوابط
ایک حلف کے ذریعہ رشتہ ازدواج منقطع کرنے کے لیے چار ماہ کی ایک مدت کی وضاحت کرنے کے بعد (مندرجہ بالا 2:226)، قرآن ایک طلاق پر ایک مرحلہ وار انداز میں عملدرآمد کو مشروع کرتا ہے:
"طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتۂ زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں (2:229)"۔
قرآن ان خواتین تین ماہ رکنے کا حکم دیتا ہے جنہیں ان کے شوہروں نے طلاق کا نوٹس دیا ہے، تاکہ اگر کوئی حمل ہو تو اس کا تعین ہو سکے؛ اور اس آیت میں ان کی اس ذمہ داری کی یاد دہانی کی گئی ہے کہ اگر ان کی بیویاں حاملہ ہوں تو انہیں واپس روک لیا جائے(2:228)۔
‘‘اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اﷲ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو، اگر وہ اﷲ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اور اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹا لینے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کر لیں، اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے’’(2:228)۔
مذکورہ مسلسل آیات (2:228، 2:229) میں طلاق واقع ہونے کے لیے تین ماہانہ حیض (عدت) کی حد کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرح قرآن نے قبل از اسلام عرب میں حلف کے ذریعہ طلاق سے قبل علیحدگی کی مدت کو غیر معینہ سے چار ماہ میں گھٹایا اور اس کے بعد اپنے آخری حکم میں اسے تین ماہ تک گھٹا دیا ہے (مذکورہ بالا 2:228)۔ قرآن نے مزید اس کی وضاحت آیت 2:231 اور 65:2، میں کی ہے جس میں مردوں کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر وہ رشتہ ازدواج کو ختم کرنا ہی چاہتے ہیں تو انہیں ایک مہذب انداز میں ایسا کرنا چاہیے۔
"اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیّت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور انہیں محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو، اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا، اور اﷲ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو، اور یاد کرو اﷲ کی اس نعمت کو جو تم پر (کی گئی) ہے اور اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے اور دانائی (کی باتوں) کو (جن کی اس نے تمہیں تعلیم دی ہے) وہ تمہیں (اس امر کی) نصیحت فرماتا ہے، اور اﷲ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اﷲ سب کچھ جاننے والا ہے"(2:231)۔
"پھر جب وہ اپنی مقررہ میعاد (کے ختم ہونے) کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک لو یا انہیں بھلائی کے ساتھ جدا کردو۔ اور اپنوں میں سے دو عادل مَردوں کو گواہ بنا لو اور گواہی اللہ کے لئے قائم کیا کرو، اِن (باتوں) سے اسی شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے (65:2)۔
ان آیات میں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کرتا ہے، تو اسے تین ماہ کی ایک مخصوص مدت تک انتظار کرنا ضروری ہے، اور وہ اس مدت کے دوران اپنے ارادے پر کم از کم دو مرتبہ باضابطہ نظر ثانی کرے۔ تاہم، اس مدت کے گزر جانے کے بعد یا تو وہ اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں برقرار رکھے اور خوش اسلوبی کے ساتھ وہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں، یا ایک پرامن انداز میں وہ اس رشتہ ازدواج کو ختم کر دیں۔ پھر اس کے بعد اگر اس نے پہلے اپنی بیوی کو کوئی چیز تحفے میں دی ہو تو قرآن اسے واپس لینے سے شورہر کو روکتا ہے (2:229)۔ اس بات کے پیش نظر کہ ہو سکتا ہےکہ مردوں کو یہ بات اچھی نہ لگے کہ ان کی مطلقہ بیویاں وہ تحفے لیکر اس جدا ہوں جو انہوں نے اپنی بیویوں کو دیا تھا، خاص طور پر اگر وہ تحفے قیمتی ہوں- قرآن اعلان کرتا ہے:
"اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو (4:20)۔ اور تم اسے کیسے واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم ایک دوسرے سے پہلو بہ پہلو مل چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد (بھی) لے چکی ہیں"(4:21)؟
تاہم، اس شخص کے اوپر کسی بھی ظلم سے بچنے کے لئے جس نے ہو سکتا ہے کہ اپنی بیوی کو اپنی جائداد کا ایک بڑا حصہ تحفے میں دے دیا ہو، قرآن مطلقہ عورتوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اگر انہیں یہ محسوس ہو کہ وہ خدا کی جانب سے مقرر کردہ حد سے تجاوز کر رہی ہیں تو وہ اپنے شوہر کی جانب سے حاصل ہونے والی دولت کا ایک حصہ اپنے شوہروں کو لوٹا دیں (مذکورہ بالا 2:229)۔
34.3. ایک عورت یک طرفہ طور پر طلاق لے سکتی ہے (خلع)
(مذکورہ بالا میں) آیت 2:229 میں یہ حکم کہ (بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے) بیویوں کو یہ حق عطا کرتا ہے کہ وہ معاوضے کی کچھ رقم ادا کر کے یک طرفہ طور پر طلاق لے لے، جس میں اس کی مہر شامل ہو سکتی ہے (4:4 / باب 33.4) اور ساتھ ہی ساتھ اس کے شوہر سے تحفے کے طور پر جو کچھ بھی حاصل ہو اس کے ایک حصے کو بھی وہ معاوضے میں دے سکتی ہے۔ بیوی کے اصرار پر رشتہ ازدواج کو منقطع کرنا خلع ہے اور مختلف احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی مکمل تائید و توثیق ہوتی ہےجیسا کہ محمد اسد نے اس کا تجریہ پیش کیا ہے2۔
34.4. طلاق مغلظہ کے بعد دوبارہ میاں بیوی کے درمیان شادی
قرآن ایک مرد کو اس وقت تک اپنی سابقہ بیوی سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کر لےاور دوسرا شوہر بھی اسے طلاق نہ دے دے (2:230)۔
‘‘پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے’’(2:230)۔
قرآن کی اس شرط کے پیچھے تین وجوہات ہو سکتےہیں:
• دوبارہ اپنی سابقہ بیوی سے شادی کے لیے تقریبا ناممکن شرائط عائد کرنا اور اس طرح پوری سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کیے بغیر اپنی بیویوں کو طلاق دینے کے لیے مردوں کی حوصلہ شکنی کرنا- یوسف علی۔3
• ایک طلاق شدہ عورت کے لیے دوسرے مرد سے شادی کے حق کو یقینی بنانا، ورنہ اس کا سابق شوہر عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ اسے خود سے شادی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
• کسی بھی بے ایمان اور بد معاش زوجین کو شرمناک دھوکہ دھڑی کرنے سے روکنا اس لیے کہ مطلقہ بیوی کسی مالدار طالب نکاح کو راضی کرنے اور اس سے مالی فوائد حاصل کرنے اور پھر اپنے سابق شوہر کے پاس لوٹ جانے کے لیے فرضی طلاق کا ڈھونگ رچ سکتی ہے۔
اس معاملے میں کسی بھی ابہام کو دور کرنے کے لیے قرآن مزید اعلان کرتا ہے (2:232):
‘‘اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، اس شخص کو اس امر کی نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اﷲ پراور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو، یہ تمہارے لئے بہت ستھری اور نہایت پاکیزہ بات ہے، اور اﷲ جانتا ہے اور تم (بہت سی باتوں کو) نہیں جانتے’’ (2:232)۔
بہت سے مشہور مترجمین نے اس کے ترجمہ کے ساتھ لفظ ‘روجین’ پہلے بریکٹ میں لفظ (سابق) کا اضافہ کیا ہے، اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کہ مطلقہ عورت تین ماہ کی عدت ختم ہو جانے کے بعد اس کے سابق شوہر سے دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ اس طرح تشریح نا معقول ہے اس لیے کہ یہ مندرجہ ذیل امور کے مطابق نہیں ہے:
• قرآن ایام عدت کے اختتام پر مرودوں کو اپنی مطلقہ بیویوں کو طلاق دینےکا حکم دیتا ہے (2:229، 2:231 اور 65:2 مندرجہ بالا 34.2)۔
• قرآن کی یہ شق کہ ایک طلاق شدہ عورت اپنے سابق شوہر سے شادی کر سکتی ہے اسی وقت جائز ہے جب وہ کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور وہ بھی اسے طلاق دیدے (2:230)۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/books-and-documents/muhammad-yunus---ashfaque-ullah-syed/against-unlawful-intimacy--essential-message-of-islam--chapter-34-to-36/d/104366
No comments:
Post a Comment