ایازا میر
14 جنوری، 2015
آپ تحریر کردہ لفظ سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں،ا سکرین پر دکھائے جانے والے مناظر کے بارے میں آپ کی ایک رائے ہوسکتی ہے، بنائے گئے کارٹونوں پر آپ مسکرا کر آگے بڑھ سکتے ہیں یا چراغ پاہوسکتے ہیں، تاہم ان کے جواب میں آپ کا رد ِعمل کیا ہونا چاہئے؟ تحریر کا جواب آپ تحریر سے دے سکتے ہیں جبکہ کارٹون کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو آپ اسے نظر انداز کردیں یا اس پر تنقیدکرتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار کریں اور آگے بڑھ جائیں۔
لیکن ہمیں اپنے عقیدے کی کون سی چیز مجبور کرتی ہے کہ جو کچھ ہمیں ناپسندہو یا جس پر ہمیں اشتعال آجائے، اس پر ہم تشدد اور مرنے مارنے پر اتر آئیں؟ہاں، اگر ظلم و جبر ہو تو اس کے مقابلے پر زبان کھولنا، بلکہ گولی تک چلاناایک قابل ِ قدر جذبہ قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن علمی اور فکری اختلاف پر تشدد کرنا جہالت اور حیوانیت کے سوا اور کچھ نہیں۔ دنیا بھر کے کتب خانے ایسے مواد سے بھرے ہوئے ہیں جو ہمیں پسند نہیں۔ دانتے اور گبن کی تصنیفات میں ایسے پیراگراف موجود ہیں جوکسی عام مولوی کوغصے پاگل کردیں ، لیکن کیا ہم منگول اور تاتاری لشکر ہیں جولائبریریوں کو نذر ِ آتش کرکے دریائوں کو کتابوں کی راکھ سے بھر دیں؟ہم کتنے ’’بغداد ‘‘جلا سکتے ہیں اور کتنے ’’دریائے فرات‘‘ راکھ اور خون سے بھر سکتے ہیں؟ میں نے سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ پڑھنے کی کوشش کی لیکن طبیعت پر انتہائی ناگوار بوجھل پن کا احساس ہوا۔ اور پھر اسے پڑھنا کسی کی مجبوری بھی نہیں۔ کیلی فورنیا کے کسی پاگل کی بنائی ہوئی گھٹیا درجے کی فلم دیکھنے کے لئے کس کے پا س وقت ہے؟تاہم اس کی وجہ سے دنیائے اسلام میں ایک ہنگامہ بپا ہوگیا حالانکہ زیادہ تر افراد نے اسے دیکھا تک نہیں تھا۔ اگر اس پر کوئی رد ِعمل نہ ہوتا توایسی فلم کادنیا کو علم تک نہیں ہونا تھا۔تاہم اس کی وجہ سے پاکستان میں یوٹیوب بند کردی گئی اور کسی حکومت کو اسے کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اب یہی حکومت، جو ملائوں کے ڈر سے یوٹیوب بھی کھول سکتی، نے انتہا پسندوں کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔ پاکستانی دانش میں ایسے شگوفوں کی بھی کمی نہیںکہ سینڈی نامی جس طوفان نے نیویارک کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچائی، اس کی وجہ توہین آمیز فلم تھی۔ کسی نے نہ سوچا کہ وہ گستاخانہ فلم کیلی فورنیا میںبنی جو کہ مغربی ساحل پر ہے جبکہ طوفان امریکہ کے دوسری طرف آیا۔ سینڈی کا اُس فلم سے تعلق جوڑنے والے کیا یہ کہنے کی کوشش کررہے تھے کہ آسمانی طاقتیں جغرافیے کا زیادہ علم نہیں رکھتیں؟
مغرب میں آزادی ِ اظہار کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔تاہم جب اسرائیل کے بارے میں لب کشائی کی جاتی ہے تو اس آزادی کی حدود حیرت انگیز حد تک سمٹ جاتی ہیں۔اگر امریکی مین اسٹریم میڈیا سے تعلق رکھنے والا کوئی رپورٹر مغربی کنارے پر اسرائیلی کی طرف سے روا رکھے جانے والے مظالم پر قلم اٹھائے تو اُسے اپنی ملازمت بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ کیاکوئی امریکی رکن ِ کانگریس یا سینیٹر برملا ، کھلے لفظوں میں، اسرائیل کے مظالم کے بارے میں بات کرسکتا ہے؟اس پر یہ بات پوچھی جاسکتی ہے کہ کیا آزادی ِ اظہار کا تعلق صرف ایسے مواد کی اشاعت سے ہی ہے جو اس کرہ ِ ارض کے کروڑوں انسانوں کی دل آزاری کرنے کا موجب ہو؟ تاہم اصل سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اب کوئی مواد ہمیں ناپسندہے یا اُس کی وجہ سے ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو اس پر ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہئے؟کیا اس کو جواز بنا کر قتل وغارت کی جاسکتی ہے؟مغرب میں بہت سے معاملات پر دہرے روئیے پائے جاتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے عراق پر حملہ کیا۔ ان کے مکر و فریب کی داستان بہت طویل ہے لیکن اسلام، یا کوئی اور مذہب صرف کسی مواد کی اشاعت ،چاہے وہ کتناہی اشتعال انگیز کیوں نہ ہو، کی وجہ سے صحافیوں اور بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنے کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟ہم اس روئیے کو کیا نام دیں؟ فسطائیت کی یہ نئی شکل عقیدے کی غلط تشریح کا شاخسانہ ہے۔ عیسائیت، یا اس کی بگڑی ہوئی شکل یا نتیجہ Inquisition تھیں جب ہزاروں افراد کو چڑیل قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔امریکہ میں اس کی شکل میکارتھی ازم(McCarthyism)کی صورت دیکھنے میں آئی ۔ امریکی جمہوریت نے میکارتھی ازم کو بھی برداشت کیا اور سیاہ فام شہریوں کو کچلنے والی تحریک Ku Klux Klan کو بھی۔آج کی کہانی مختلف ہے کیونکہ مذہب (اسلام) کو بنیاد بنا کر تشدد کا جواز پیدا کیا جارہا ہے....شہریوں کو بم دھماکوں میں ہلاک کرنا، قیدیوں کے گلے کاٹنا، صحافیوں کو ہلاک کرنا اوراسکول کے بچوں کو فائرنگ کر کے قتل کرنا۔
اگرچہ اچھا مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں لیکن یہ دیکھ کر سخت صدمہ پہنچتا ہے کہ ا سکول کے بچوں اور ان کے اساتذہ پر گولیاں برساتے ہوئے قاتل ’’اﷲ اکبر‘‘ کے نعرے بلند کررہے ہوں۔ اسی طرح یہ بات بھی میرے انتہائی تکلیف دہ ہے کہ پیرس میں شارلی ہیبڈو کے دفاتر پر حملہ کرنے والے مسلح قاتل بھی نعرہ ٔ تکبیر بلند کررہے ہوں۔ میں یہ بات قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ایسی قتل وغارت گری کاخدا سے کوئی تعلق نکلتا ہے، لیکن گلے کاٹنا، عبادت گاہوں، جیسا کہ مساجد، چرچوں اور مزارات پر حملے کرنا، اہل ِ تشیع کو چن چن کر ہلاک کرنا اور تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کوخون میں نہلا دینااسلام کے نام پر ہی کیا جارہا ہے۔ کیا یہ اسلام ہے؟ اور پھر ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو طالبان کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، اس لئے وہ ان روح فرسا واقعات کی کھل کر مذمت بھی نہیں کرتے… یا پھر ہو سکتا ہے کہ وہ طالبان سے خوفزدہ ہوں اور ابھی اپنی گردن نہیں کٹوانا چاہتے ہوں۔
یہاں کچھ نہ کچھ بنیادی غلطی موجود ہے۔ رائف بداوی(Raif Badawi)، جو کہ بلاگ لکھنے والے ایک عرب ملک کےشہری ہیں ، کو اس ملک کے ایک مسلک رکھنے والے علما پر تنقید کرنے کی پاداش میں دس سال قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزاسنائی گئی ہے۔ جمعے کی نماز کے بعد اُسے پچاس کوڑوں کی پہلی ’’قسط‘‘ دی گئی.....اُسے اگلے بیس ہفتوں تک ہر جمعہ پچاس کوڑے مارے جائیں گے۔ سلیوٹ ہے مسٹر رائف کو کیونکہ اُنھوںنے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور کوڑے لگنے کے دوران اُن کے منہ سے ایک آہ تک نہ نکلی۔کیا اس جرم پر اُسے ملنی والی سزا اسلام کی توہین نہیں؟ تھائی لینڈ میں بادشاہ کی توہین کرنے کے خلاف سخت قوانین ہیں۔ کیا اسلام تھائی لینڈ کے بادشاہ جیسا ہے کہ اس کی اتنی آسانی سے توہین ہوجاتی ہے؟ہمارے اپنے ہاں رائج توہین کے قوانین کا جائزہ لیں۔ بطور ایک پاکستانی میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب میں ایک غریب عیسائی عورت ، آسیہ بی بی ، کے بارے میں سوچتا ہوں کہ وہ ایک مقدس کتاب کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکتی لیکن اُسے توہین کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ یہ ظاہر کرکے کہ یہ اس آفاقی مذہب کی عظمت کو ایک غریب اور لاچار عور ت سے خطرہ ہے، ہم اسلام کی کوئی خدمت نہیں کررہے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ انقلاب ،چاہے وہ انقلاب ِروس ہو، یاچین ، کیوبا اور ویت نام کے انقلاب ہوں، ان کی رہنمائی ذہین افراد نے کی۔ اگر اُن کے ایک ہاتھ میں بندوق تھی تو دوسرے میں کتاب ۔ وہ بہت عظیم جدوجہد کی داستانیں تھیں اور اُن میں بہت خونریزی بھی ہوئی اور انسانی المیے نے بھی جنم لیا، تاہم کیا کبھی سنا کہ کسی نے قیدیوں کے گلے کاٹے ، بچوں کو ہدف بنا کر قتل کیا یا عبادت گاہوں کو بموں سے اُڑایا ؟کیا ویت نامی باشندوں نے امریکہ کے ہاتھ تکلیف نہیں اٹھائی؟لیکن کیا اُنھوں نے سیاگون اور جنوبی ویت نام کے شہروں میں شہریوں کو قتل کیا؟امریکیوں نے بھی درندگی کی انتہا کردی.... نیپام بم اور کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے، کارپٹ بمباری کی ، لیکن کیا کسی نے بچوں کو ہدف بنا کر گولیاں ماریں یا ذبح کیا؟اس کے علاوہ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ وہ جدوجہد کسی الہامی عقیدے کو جواز بنا کرنہیں بلکہ اپنے وطن کو آزاد کرنے کے لئے تھی اور اُن کو کسی آسمانی نجات کی تلاش نہیں تھی بلکہ وطن کی آزادی ہی سب سے بڑا انعام تھا۔ تاہم دنیائے اسلام میں سراٹھانے والے مذہبی شدت پسند گروہ انقلابی نہیں بلکہ اُنھوں نے عقید ے کی غلط تشریح سے سر کاٹنے کا جواز اخذ کیا ہوا ہے۔ وہ ذہنی طور پر معاشرے کے پست ترین افراد ہیں اوروہ طاقت کے بے رحم استعمال سے معاشروں پر اپنی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
اب ہمارے پاس متبادل کیا ہے؟ رجعت پسندی سے جنم لینے والی مذہبی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کے مقابلے میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟دنیا ئے اسلام میں زیادہ تر غیر جمہوری حکومتیں اپنی آمریت اور جابرانہ سوچ مسلط کیے ہوئے ہیں۔ نام اسلام کا لیتے ہیں لیکن ناچتے مغربی دھنوں پر ہیں!اگر آپ داعش کی بات نہ مانیں تو سرقلم اور اگر کسی مسلک پر تنقید کریں تو ایک ہزار کوڑے۔ ستم یہ ہے کہ ہماری آزادی انہی دو آپشنز کے گرد گھومتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی حقیقت سمجھنے والا دانائے راز کہاں سے آئے گا؟یاپھر سرود ِ رفتہ کا وقت جاچکا ہے اور اب کہیں سے بھی باد ِ نسیم نہیں آئے گی اور ہم اپنی تاریخ کے آپ ہی قیدی بن کر ذبح ہونے یا کوڑے کھانے کا انتظار کریں گے؟
14 جنوری، 2015 بشکریہ : روز نامہ جنگ، کراچی
URL:
No comments:
Post a Comment