Wednesday, January 28, 2015

Why this waywardness in Muslim society? مسلم معاشرے میں یہ زیادتی کیوں ؟

Why this waywardness in Muslim society? مسلم معاشرے میں یہ زیادتی کیوں ؟


غلام غوث ، بنگلور ،نیو ایج اسلام
28 جنوری، 2015
آج جو اخلاقی برائیا ں ہمارے سماج میں ہیں انکے متعلق زبان کھولنا اور قلم اٹھانا بہت مشکل کام ہے . والدیں کی لاپرواہی ، نوجوانوں کی اندھی آزادی ، موبائل فون ، ٹی وی سیریلس اور انٹر نیٹ ہمارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو برباد کر رہے ہیں . ہماری شادیاں خانہ آبادی سے ہٹ کر خانہ بربادی بنتی جا رہی ہیں . شادیاں اور برتھ ڈے پارٹیوں پر جو فضول خرچی ، شور شرابہ اور ناچ گانے ہو رہے ہیں وہ کم ہو نے کا نام نہیں لے رہی ہیں . علماء حضرات تقریریں کر تے کرتے تھک سے گئے ہیں .. کوئی انکے کہنے پر عمل نہیں کر تا . اخلاقی اور مالی طور پر بربادی ہو رہی ہے اور غیر مسلم انگلیاں اٹھا رہے ہیں . دیندار حلیے کی آڑ میں بے دینی ، جھوٹ ، دھوکہ ، انا اور بے علمی عام ہو تی جا رہی ہے . ایسے لڑکے جو خود سے کما نہیں سکتے انکے والدین جھوٹ بول کر اور دھوکے میں رکھ کر اچھی خاصی معصوم لڑکیوں سے شادی کروا رہے ہیں اور لڑکیوں کی زندگی دوزخ بنا رہے ہیں . ایسے بیشمار واقعات سامنے آئے ہیں جہاں دھوکہ باز اور شاطر والدین لڑکی کو دیکھنے جا تے ہیں تو ہزار دو ہزار روپیے رکھکر ایسی تاثیر دیتے ہیں جیسے وہ کافی مالدار ہیں اور لڑکا اچھا خاصا کما تا ہے . پھر چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کے بہانے اپنے بے روزگار لڑکے کی شادی کروا کر بہو کو گھر لے آتے ہیں ۔
لڑکے میں خود سے کچھ خریدنے کی طاقت نہیں ہو تی اور نہ ہی لڑ کی پر کچھ خرچ کر نے کی . پھر لڑائی جھگڑے ، گالی گلوج اور مارا پیٹی شروع ہو تی ہے اور نوبت طلاق پر آ جا تی ہے . کچھ لڑکے کے والدین خود گھر چلاتے ہیں اور بہو کو بار بار ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیتے ہیں مگر بیٹے کا آزادی کے ساتھ روزی روٹی کمانے کے لئے موقعہ نہیں دیتے . ہو نا تو یہ چاہیے کہ لڑکوں کی شادی اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ وہ خود نہیں کما تے . زمانے دراز سے ادارے اور انجمنوں نے کوشش کی کہ لڑکیوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہو مگر آج بھی وہ ناانصافی اور ظلم کا شکار ہیں . کئی جکہ معاملہ الٹا بھی ہے اور لڑکے ناانصافی کے شکار ہیں . جہاں معاملہ طلاق کی حد تک پہنچ جا تا ہے وہاں ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں جہاں دونوں طرف سے بزرگ حضرات بیٹھ کر فیصلے کر تے ہیں مگر بعد میں لڑکے یا لڑکی والے اس سے مکر جا تے ہیں اور معاملہ ایک مسجد اور ایک دارالقضاء سے دوسری مسجد اور دوسرے دارالقضاء جاتا رہتاہے اور اس چکر میں برسوں لگ جا تے ہیں جس سے سب سے زیادہ تکلیف دوسری پاٹی کو ہو تی ہے . اللہ کا فرمان ہے کہ ایسے معاملے احسن طریقے سے سلجھالو مگر حالت یہ ہے کہ ہر طرف انتقام کا جذبہ کام کر رہا ہے اور ایک دوسرے کو ستا کر خوش ہو رہے ہیں ۔ اس سے سب سے زیادہ تکلیف لڑکی والوں کو ہو رہی ہے ۔
 طلاق کا معاملہ بھی عجب ہے . ایک ساتھ تین طلاق پکار دینا اور اسے تین طلاق ہی تسلیم کر لینا نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں مگر کچھ لوگ اس پر باقائدہ عمل کر رہے ہیں اور لڑکیوں کو تکلیف میں ڈال رہے ہیں . لڑکا جب نکاح کر تا ہے تو دو گواہ ، ایک وکیل اور ایک قاضی کی موجودگی ضروری ہوتی ہے اور لڑکے لڑکی کے دستخط بھی ضروری ہو تے ہیں مگر جب لڑکا طلاق دینا چاہتا ہے تو فون پر یا یس یم یس کے ذریعہ یا کہیں دور سے خط لکھ کر روانہ کر دیتا ہے اور معاشرہ والے اسے طلاق مان لیتے ہیں . کیا یہ صحی ہے ؟ آجکل کے چند بے شرم اور کمینے نوجوان طلاق دینے کے بجائے قلع کو ترجیج دیتے ہیں کیونکہ اس میں مہر اور معاوضہ دینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا . اگر لڑکی نہ مانے تو اسے برسوں ستاتے ہیں . کہتے تو ہر کوئی ہیں کہ شادی ایک کنٹراکٹ ہے مگر اسے ایک ایسی بندش بنا دیا گیا ہے کہ صرف چند ضدی لوگوں کی وجہ سے لڑکیاں پریشان رہتی ہیں . جب بیوی اپنے شوہر سے تنگ آ کر اور طلاق نہ دیکر ستانے سے تنگ آ کر کچھ مال دیکر یا شوہر کا دیا ہوا سب کچھ لوٹا کر خلع کا حق استعمال کر تی ہے تو مذہبی حضرات کہہ دیتے ہیں کہ اس خلع نامے ہر شوہر کے دستخط ہو نا ضروری ہے ۔
 کیوں بھائی شوہر کے دستخط کیوں ضروری ہیں . یہ نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں . سوچنا یہ ہے کہ کیا یہ زیادتی نہیں ہے . میرے مشاہدے میں ایسے واقعات بھی آئے ہیں جہاں شوہر غصہ اور جذبہ انتقام کے سبب نہ صرف طلاق دینے سے انکار کر دیتا ہے بلکہ بلکہ خلع نامے پر دستخط کر نے سے انکار کر کے برسوں ٹالتا رہتا ہے . ایسے میں ہماری لڑکیاں اگر معاشرے سے بیزار ہو کر کوئی غلط قدم اٹھا دیتی ہیں تو ہمارا بے حس معاشرہ ان کے اس اقدام پر شرمندگی کا اظہار کیوں کر تا ہے . کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں کہ آج کے غلط ماحول میں جس طرح مرد قرآنی طریقے سے ہٹ کر طلاق دے دیتا ہے ویسے ہی عورت کو بھی خلع دینے کا حق دے دیں یا اگر عورت اپنے شوہر کو مال کے بدلے میں خلع لکھ کر دے دے تو اگر مرد اسے ستانے کے لئے دستخط نہ کرے تو ایک مہینہ کے بعد نکاح فسخ قرار دے دیا جائے . سوچنا یہ بھی ہے کہ کیا یہ طریقہ بہتر ہے یا معاملہ کو پولیس اور عدالت میں پانچ دس سال لٹکائے رکھاجائے اور عدالت کے چکر لگاتے ہوے ہزاروں لاکھوں روپیے خرچ کریں . ایسے معاملات عدالتوں میں لے جانے سے جو ذہنی تکلیف ہو تی ہے وہ خدا کی پناہ . اگر ہمارے مذہبی حضرات ایسے معاملات پر توجہ دیں اور خلع کو آسان بنا دیں تو یہ تمام عورتوں پر احسان عظیم ہو گا ۔
مجھے یہ سوال بھی پریشان کر تا ہے کہ آخر عورتیں یہ سب برداشت کیوں کر تی ہیں . عورتوں کو اتنی آزادی کیوں نہیں جتنی حضورْﷺ کی بیویوں کو دی گئی تھی . الگ ہو نے کا احسن طریقہ پولیس اور عدالت کے بجائے کسی ایک مسجد میں طئے ہو جائے تو دونوں خاندانوں کے لئے بہتر ہے . سوسائٹی کو چاہیے کہ خلع دینے پر مجبور کر نے والے مردوں کو معاشرے میں عزت نہ دیں اور انہیں حقارت سے دیکھیں . بڑھتے تنازعات کے چلتے اچھا ہے اگر نسبت ہو نے کے بعد چھ ماہ تک شادی نہ کریں بلکہ تحقیقات کریں اور شادی نہایت ہی سادگی اور کم تحفے تحائف کے ساتھ کریں . خلع کے معاملہ میں مرد کے دستخط پر اسرار ہے تو دستخط کر نے کی مدت بھی مقرر کر دیں . پولیس اور عدالت کو کوئی بھی ایسا معاملہ جانے نہ دیں ورنہ شریعت میں خواہ مخواہ مداخلت ہو گی . معاملہ ایک ہی مسجد یا ایک ہی دارالقضاء میں طئے ہو جائے نہ کہ الگ الگ جگہ اور الگ الگ مسجد اور دارالقضاء میں ۔

No comments:

Post a Comment