Saturday, January 31, 2015

Uphold Active Quranic Morality قرآن کی عملی اخلاقیات کی پاسداری  

Uphold Active Quranic Morality قرآن کی عملی اخلاقیات کی پاسداری

 قاضی ودود نواز، نیو ایج اسلام
08 دسمبر، 2014
قرآن مجید کا نزول پوری تاریخ انسانیت میں سب سے عظیم واقعہ ہے۔ اس کا آغاز خالق کو سمجھنے کے لیے علم کی دعوت سے ہوتا ہے (سورہ علق: 1-6) اور اس کا اختتام ایک مذہب اور نظام حیات اور عمل کی رہنمائی کے طور پر اسلام کی کاملیت کے اعلان کے ساتھ ہوتا ہے۔ (آیات: 5:3، سورہ النصر: آیت 110، سورہ بقرہ: 281: 2)۔
قرآن میں ایک مذہب کی حیثیت سے اسلام کے کمال کا بیان اصول و معمولات کا جامع ایک عملی تجربہ پر مشتمل ہے۔ اسلام کے بنیادی فلسفے اور بنیادی تصورات کا ذکر مکہ میں نازل کی گئی 'مکی' آیات میں ہے۔ مدینہ میں نازل کی گئی 'مدنی' آیات میں تمام تاریخی مراحل میں قابل عمل حکمت عملی کے اصول اور "مکی آیات" میں مذکور بنیادی قرآنی اصول کی بنیاد پر ایک معاشرے اور ریاست کی تعمیر کے لئے مخصوص تاریخی ادوار، جغرافیائی علاقے اور برادری کے لیے مناسب سرگرمیوں کی حکمت عملی پر مبنی ایک پیمانہ فراہم کیا گیا ہے۔ اس میں ابتدائی طور پر مدینہ میں ایک اسلامی ریاست کے قیام اور آخر میں مکہ پر فتح حاصل کرنے اور وہاں ایک مسلم ریاست کے قیام کے ذریعے بنیادی قرآنی تصورات کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مشن کی تکمیل کا اعلان کیا گیا ہے گیا۔
یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو اس حقیقت کی واضح علامت ہے کہ قرآن مجید ہدایت کی ایک ایسی آسمانی کتاب ہے جس کا مقصد حقیقی عمل یعنی اس دنیا، انسانی زندگی اور معاشرے میں تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ اسلام حقیقی زندگی سے علیحدہ ہو کر اور نفس کشی کر کے اندرونی طہارت و پاکیزگی کے کسی بھی مجہول عمل کی اجازت نہیں دیتا۔
قرآن مجید میں کسی گمان یا قیاس و احتمال کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے جو کچھ بھی قرآن مجید میں کہا ہے وہ سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے۔ پوری فطرت اور کائنات، تمام جسمانی عمل اور تاریخ کو قرآن مجید نے ہمارے سامنے ایک نصیحت اور مظاہرے کی شکل میں پیش کر دیا ہے، تاکہ انسانیت کو کائنات کے خالق اور رازق طور پر اللہ کے وجود کا قائل کیا جا سکے اور صفات الٰہیہ کی ہماری سمجھ اور مقصد تخلیق کائنات کی سوجھ بوجھ گہری ہو سکے۔ قرآنی اخلاقیات کی بنیادوں کی رو سے تخلیق کا الہی مقصد اور خالق کائنات کے تئیں بنی نوع انسان کی ، ذمہ داری، زمین پر اللہ کے نائب کی حیثیت سے 'اللہ کی راہ' میں مدد کرنا بنی نوع انسان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ قرآن کا اعلان ہے: "اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ﺛابت قدم رکھے گا"(47:7)۔ اللہ کی راہ میں مدد کرنے کا مطلب زمین پر اس کے نائب کی حیثیت سے اپنے فریضہ سے سبکدوش ہونا ہے۔ اللہ کی راہ میں مدد کرنے کا مطلب "انصاف کے عالمی توازن 'کے قیام اور بحالی کے لئے جد و جہد کرنا ہے۔
مسلم ہونے کے ناطے ہم قرآن کریم کے بنیادی تصورات اور اصولوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان اصولوں کے مطابق اپنی زندگی اور حقائق کی تعمیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم عالمی انصاف کے توازن اور متعین نظریاتی اور اخلاقی اصول و ضوابط کے بنیادی اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ بہت سے عظیم علماء اور سائنسدان اخلاقیات کو سماجی رجحان مانتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اخلاقیات اس وقت تک ایک سماجی رجحان ہے جب تک یہ انسان، فطرت اور معاشرے کو محیط مادی زندگی سے متعلق انسانی فلاح و بہبود کے ساتھ منسلک ہو۔ قول کے قرآنی نقطہ نظر سے انسانیت کی حقیقی فلاح و بہبود روحانی زندگی کے فروغ کی صلاحیت اور 'الہی مقصد' کی خدمت میں پنہاں ہے۔
تاریخ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ روحانیت کے شعبے میں اس کی توسیع سے خالی ایک سماجی رجحان کے طور پر اخلاقیات کا تصور فرقہ وارانہ اور طبقاتی مفادات کی نظر ہو چکا ہے ۔ اخلاقیات اور انسانی فلاح و بہبود کے نام پر مجموعی طور پر پوری دنیا اور انسانیت کو سائنسی ایجادات کی تلخیوں اور سختیوں کا شکار بنایا گیا ہے۔ محض مادی فلاح و بہبود پر مبنی انسانی حقوق کی موجودہ تصور کسی مخصوص طبقے یا جماعت کے مفادات کو پورا کرنے کے لئے ایک منافقانہ چال بن گیا ہے۔
قرآنی اخلاقیات کا تعلق تخلیق کائنات کے الہی مقصد یعنی صداقت اور انصاف سے ہے۔ قرآن عملی اخلاقیات کی پاسداری کرتا ہے۔ اور اور زمین پر اللہ کے نائب کی حیثیت سے انصاف کے عالمی توازن کو قائم کرنے کے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل انفرادی امن کو روحانی نجات کے لئے ایک غیر فعال اور مجہول اور خوش فہم حکمت عملی میں تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش نفاق کا کام ہے اور قرآن مقدس نے اس کی سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی کی ہے۔
قرآنی نقطہ نظر سے اخلاقی تبدیلی یا اندرونی طہارت کا حصول صرف دنیاوی زندگی میں بری قوتوں کے خلاف مسلسل جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اندرونی طہارت اور دنیاوی زندگی میں برے محرکات کے خلاف جدوجہد ایک دوسرے کے ساتھ جزو لاینفک کی مانند جڑے ہوئے ہیں۔
قرآن کریم کی سورۃ الشوریٰ کی آیات [221-226] میں واضح طور پر شیطان کے پیروکاروں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ ظالموں کے نقش قدم کی اتباع میں گہری دلچسپی رکھنے والے جھوٹے اور بدکار افراد ہیں۔ وہ منافق ہیں جن کے الفاظ ان کے اعمال سے مختلف ہیں، وہ شیطان کے پیروکار اور برائی اور بے حیائی کی علامت ہیں۔
اللہ خالص، لامتناہی اور ابدی منبع ہے اور آسمانوں اور زمین کے نور کا [24:35]۔ اس کائنات کی تمام مخلوق اور قرآن مجید کی ہر آیت اس روشنی کی شاندار عکاسی کرتی ہیں۔ شیطان کے پیروکار کے علاوہ ہر انسانی روح نصیحت کی شکل میں اس روشنی کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شیطان ان کی روح پر نازل ہوتا ہے اور انہیں اندھا بنا دیتا ہے۔
 جنت اور زمین کے درمیان اللہ کی تخلیق کے طور پر تمام چیزیں الہی صفات کی شکل میں اس روشنی کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس روشنی کو حاصل کرنے کے لئے صرف ایک خالص دل کی ضرورت ہے۔ اس کائنات میں ہر جگہ روشنی ہے اور کہیں بھی تاریکی نہیں ہے اس لیے کہ یہ تمام الہی صفات کی عکاسی کرتی ہیں۔ اندھیرا صرف انسان کے دلوں میں ہے جس کے اندر اس روشنی کو حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اس قابلیت کو دوبارہ حاصل کرنے کا واحد راستہ اپنے اعمال کی رہنمائی کرنا اور قرآن کے الہی نور سے اپنے دلوں کو روشن کرنا ہے۔ قرآن کریم آیت 47:24 میں ہے کہ :
"کیا یہ قران میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟" اللہ کی راہ میں مدد کے لئے دلوں کو کھولنا ایک لازمی امر ہے جس کے لیے قرآن مقدس کا عملی مطالعہ اور تحقیق کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنا ضروری ہے ۔

انجینئر قاضی ودود نواز ایک این جی او ڈیولپمنٹ کسنلٹنٹ ہیں
URL for English article:

No comments:

Post a Comment