Understanding Deen in the light of Quran دین کی تفہیم
آفتاب احمد، نیو ایج اسلام
31 جنوری، 2015
دین کی تعبیر و تفہیم مختلف علما نے کی ہے اور ہم عصر علما نے بھی دین کے نئے مفاہیم پیش کئے ہیں۔ اس طرح دین کے کئی اسکول مسلمانوں میں مروج ہوچکے ہیں۔ جہاں تک دین کے اطلاق کا سوال ہے اس کے لئے دین کی کسی نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دین کی تفہیم کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت ہر عہد میں رہی ہے اور رہے گی۔عہد بہ عہد نہ دین بدلتا ہے اور نہ اس میں اضمحلال آتاہے۔ پس فطرت ثابتہ کی طرح دین مستقل ہے اور ناقابل تبدیل بھی۔
دین کی تعبیر و تشریح کے عمل نے دین میں نئے بدعات کو جنم دیا۔ ہر عالم نے اپنے صواب دید کے مطابق دین کی تعبیر و تشریح کی اور اس عمل میں وہ قرآن سے دور جا پڑے۔ بعد کے مسلمانوں نے علما کی ذاتی تعبیر و تشریح کو ہی اصل دین سمجھ لیا اور اسی پر عمل کرنے پر اصرار کرنے لگے۔ضرورت دین کی تعبیر جدید یا تشریح جدید کی نہیں بلکہ دین کو نئی سماجی تبدیلیوں کے پس منظر میں برتنے کی ضرورت ہے نہ کہ سماج کو دین کے ساتھ چلانے کے لئے اسے صدیوں پیچھے لے جانے کی۔ پس تعبیر جدید اور تشریح جدید وغیرہ بے معنی چیزیں ہیں۔
دراصل لفظ ’’اسلام‘‘ اور ’’اسلامی ‘‘ کو اتنا دہرایاگیا ہے کہ لفظ دین کا اصل مفہوم ہمارے ذہنوں سےکھوگیا اور ہم گم گشتہ راہ ہوکر رہ گئے۔ در اصل قرآن ، انبیا سابقہ اور حضرت محمد ؐ نے عامتہ الناس کو دین کی طرف بلایا ہےاور ہمیں قرآن نے بتایاہے کہ دین ہے اللہ کے فرمان کے آگے جھک جانے کا نام۔
ان الدین عنداللہ الاسلام
قرآن میں جگہ جگہ اقمو الدین کا حکم ہے یعنی یہ کہ دین کو حیات میں برت لو۔
پس معلوم ہوا کہ دین وہ بنیادی پیغام ہے جو ابنیا لے کر آئے اور قرآن کریم نے کفا ر مکہ کے سامنے صاف طور پر اعلان کردیا کہ دین محمدی ؐ، دین عیسوی، دین موسوی اور دین داؤدی ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں۔ دین زبور میں بھی تھا، دین انجیل میں بھی تھا اور دین قرآن کریم میں بھی ہے۔ بس فرق عہد کا ہے۔
دین کی تفہیم اپنی اپنی بساط علم کے مطابق اور اپنی انفرادیتوں کے اظہار کے بطور چوٹی کے علما نے کی ہے۔ علامہ مودودی نے اقامت دین کی تحریک پیش کی اور فرمایا کہ اللہ کی زمین پہ اللہ کی حکومت قائم کرنا ہی دین ہے، بس وحی الہی کو سماج میں نافذ کرنے کی ایک کاوش مسلسل ہوتی رہے ۔ یہی حیات مسلم کا مطمح نظر ہونا چاہئے۔
حضرت الیاس رحمتہ اللہ علیہ نے تبلیغ دین کے بطور ذوق و شوق نماز کو زندہ کرنے کی کوششیں کیں۔ ابوالحسن علی ندوی نے دین کی تفہیم کے ذیل میں بڑے امور انجام دئیے۔ تاریخ دعوت و عزیمت کے خد و خال سنوارے، اسلام کی عالمگیریت اور اسلامی ابدیت کا راز سمجھایا اور حالات سے نبردآزمائی کی ایک عمدہ مثال پیش کی۔تو حسین احمد مدنی نے پوپ ڈم اور خلافت کے زوال کے تناظر میں قومیت کا راگ الاپا اور عثمانی اقدار اور ترکی کے آثار کے علی الرغم مسلم ایشیا میں عرب قومیت کے نمائندے عبدالوہاب نجدی کو مشعل راہ بنایا تو عثمانی اقدار کی گرتی ہوئی دیوار کا نوحہ لکھا۔
اقبال نے اپنے طور پر دین کی تعبیر و تشریح پیش کی ۔ انہوں نے اللہ سے شکوہ کیا اور قومیت کو مذہب کا کفن بتایا بلکہ وطن کو وطنی و قومی جذبا ت کو تازہ خداؤں میں سب سے بڑا بت قراردیا۔لہٰذا اقبال نے حضرت حسین احمد مدنی پر ہجو لکھی۔ یہ ہجو دراصل قومیت و وطنیت کے بڑھتے ہوئے طوفان کے خلاف تھا۔
عجم ہنوز نہ نداند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد این چہ بوالعجبی است
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است
اور اس ہجو کے بعد اقبال نے ترکی بین الاقوامیت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی اور عہد گزشتہ کی مسلم میراث کی بازیابی کا حوصلہ پیدا کیا۔
سر سید نے بھی اپنے طور پر دین کی تعبیر پیش کی ۔ انہوں نے یورپ کے نئے نظام تعلیم کو ہندوستان میں مردج کیا، یوروپ کے جدید کلچر اور تمدن کے تئیں نرم مزاجی دکھائی ، اکبر الہ آبادی کی قدامت پسندی کو چیلنج کیا۔اس طرح ہندوستان میں دین کی تفہیم و تعبیر کی کوششیں ہوتی رہیں۔
لیکن جس طرح زیادہ بولنے سے مدعا عنقا ہوجاتاہے یہی ہندوستان میں دین کے ساتھ ہوا۔طرح کی تعبیروں میں دین کا اصل مدعا اور مفہوم گم ہوگیا۔ہندوستان میں دین کو نئے تقاضوں کے مطابق برتنے کی ضرورت ہے۔اس کی صحیح قرآنی تفہیم کی ضرورت ہے۔یہ دور نظریاتی فلسفہ طرازی کا نہیں بلکہ عمل کا ہے۔اس سے قبل کہ دنیا ہمیں خس و خاشاک سمجھ کر ہمیں روندکر آگے نکل جائے ، ہم دین کی صحیح تفہیم کرکے اور اسے انی زندگی میں برت لیں تاکہ ہم جئیں تو مسلمان جئیں اور مریں تو مسلمان مریں ۔
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
URL:
No comments:
Post a Comment