Wednesday, May 21, 2014

Illusion Of Truth حق کا وہم


باسل حجازی، نیو ایج اسلام
21 مئی 2014
قرآن کہتا ہے: قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (سورہ یونس آیت 35) -  پوچھو کہ بھلا تمہارے شریکوں میں کون ایسا ہے کہ حق کا رستہ دکھائے۔ کہہ دو کہ خدا ہی حق کا رستہ دکھاتا ہے۔ بھلا جو حق کا رستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے یا وہ کہ جب تک کوئی اسے رستہ نہ بتائے رستہ نہ پائے۔ تو تم کو کیا ہوا ہے کیسا انصاف کرتے ہو؟
حق کا لفظ قرآن میں دسیوں بار آیا ہے اور ہر بار اس میں انسان کو حق کے اتباع کی تلقین کی گئی ہے کہ حق کے مقابل فریق باطل پر ہے اور ظاہر ہے کہ حق کے بعد صرف باطل ہی رہ جاتا ہے، قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں، یا تو وہ مؤمن ہیں یا کافر، ان کے درمیان کوئی تیسرا یعنی درمیانہ مقام نہیں ہے، درحقیقت ماضی میں یہی کلچر رائج تھا چاہے وہ علماء تھے یا فلسفی، حق تک رسائی انسان کا عظیم ترین مقصد تھا بلکہ انسان کی زندگی کا مقصد ہی حق اور حقیقت کی تلاش سمجھا جاتا تھا، یہ تصور اتنا پختہ تھا کہ حق کے بغیر انسان کی کوئی قدر وقیمت نہیں سمجھی جاتی تھی، مثال کے طور پر شیعہ حضرات حضرت امام حسین پر روتے پیٹتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ حق پر تھے اور یزید باطل پر تھا، اہلِ سنت کو بھی صحابہ بہر صورت حق پر نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے صحابہ کو تقدس کا درجہ حاصل ہوگیا ہے، مسلمانوں کے ذہنوں میں حق وباطل کا یہ معنی اس قدر پختہ ہوچکا ہے کہ انہیں یہ نظر ہی نہیں آتا کہ حضرت امام حسین محض اس لیے قتل ہوئے کیونکہ انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا تھا اور وجہ محض اتنی تھی کہ وہ اپنی پوری انسانیت اور آزادی کے ساتھ جینا چاہتے تھے یعنی مسئلہ یہ نہیں تھا کہ امام حسین دینِ حق پر اور یزید دینِ باطل پر تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ پہلا فریق اپنی پوری عزت وآبرو کے ساتھ جینا چاہتا تھا جبکہ فریقِ ثانی امام حسین اور ان کے حامیوں کی یہ عزت وآبرو اور انسانیت چھین لینا چاہتا تھا، تاہم عام شیعہ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت امام حسین اسلام اور دینِ حق کی خاطر قتل ہوئے، اور یہی قدیم ثقافت میں انسان کی مرکزیت کے مقابلے میں حق کی مرکزیت کا مفہوم ہے، انسان اگرچہ پسا ہوا تھا پھر بھی اس کی قدر ومنزلت کا انحصار اس امر پر تھا کہ وہ حق کے کس قدر قریب ہے، حالانکہ انسان کو حق کا محور ہونا چاہیے تھا جیسا کہ سید الشہداء حلاج نے کہا تھا کہ: انا الحق۔
تاہم جدیدیت نے حق کے مرکزیت کے تمام تر قدیم مفہوم بدل کر رکھ ڈالے اور انسان اور اس کی عزت وآبرو کو اصل بنا ڈالا، اب حق وہاں جاتا ہے جہاں انسان جاتا ہے، اب انسان حق کے فلک میں نہیں گھومتا۔۔ یعنی کہ حقِ محض بغیر انسان کے ایک وہم ہے جس سے بے وقوف ہی دھوکہ کھا سکتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ قدروں اور نظریات میں یہ انقلاب کیسے آیا کہ انسان جو پہلے تابع تھا اب متبوع ہوگیا؟ یہ کیا ہوا کہ جو پہلے غلام تھا اب مالک ہوگیا؟ اس میں بہت سارے عوامل کار فرما ہیں:

No comments:

Post a Comment