Saturday, February 29, 2020

Terror Attacks in a Nuclear Age – Jihad or Transgression? Global Muslim Community Should Introspect نیوکلیر دور میں دہشت گردانہ حملے: جہاد یا اعتداء؟ دنیا کے مسلمانوں کے لئے مقام غور


غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
۹ مارچ ۲۰۱۹
(انگریزی سے ترجمہ)
آئیے ہم مسلمان دنیا بھر میں دہشت گردوں کی تنظیم کے ذریعے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کا جائزہ لیں اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تمام حدود پر غور وفکر کریں۔ کئی سالوں کی چھان بین نے مجھے دلجمعی کے ساتھ اس بات پر یقین کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یقیناً جہاد اور اسلام کے نام پر جرائم کا ارتکاب کرنے والی دہشت گرد افراد  معتدین اور حد سے زیادہ بڑھنے والوں میں سے  ہیں۔
تلواروں کی لڑائی کے اس دور کے بر عکس جس میں جہاد کی شروعات مذہبی ظلم و ستم کے خاتمے کے لئے کی گئی تھی لیکن وہاں بھی  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ کچھ حدود و قیود تھے۔ لیکن یہ اکیسویں صدی نیوکلیئر اور لامحدود تباہی کے دیگر ہتھیاروں کا دور ہے۔ تلوار سے لڑائی کرنے والے دور  میں جنگجوؤں کو جنگ کے متعلق حدود و شرائط کو زیر عمل لانا  آسان تھا لیکن اب ڈبلیو ایم ڈی ، آئی ای ڈی ، ڈرون ، وغیرہ کے دور میں ، جنگجوؤں کے لیے یہ تقریبا ناممکن ہے کہ وہ اعتدا ء سے بچ سکیں۔
اسلام کا تصور جہاد دو اہم قسموں میں منقسم ہے: جہاد بالقتال اور جہاد بالنفس ۔جہاد بالنفس تقوی کا ایک نمایاں حصہ ہے جسے کسی بھی مقام پر ادا کیا جا سکتا ہے ۔مگر جہاد بالقتال ، جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔اس صورت میں صرف اسلامی نظام ہی جہاد کا اعلان کر سکتی ہے اور وہ بھی اپنے ملک کے مسلم اور غیر مسلم باشندوں سمیت تمام شہریوں کی حفاظت ، دہشت گردی ، تشدد ، ظلم وستم  اور دیگر کسی بھی طرح کی اذیت کی خاطر ہی لڑی جاتی ہے ۔حالانکہ اس صورت میں  اسلامی نظام کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جنگی حالت سے متعلق تمام صورت حال کا جائزہ لے اور یہ یقین دہانی کر لے کہ  دفاعی جہاد ہر طرح کے اعتدا اور حد سے زیادہ بڑھنے کی کسی صورت سے خالی ہو۔  
ہم جمہوری ممالک میں رہ رہے ہیں جو آئینی طور پر ہمیں مذہبی آزادی اور تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں۔ ایسے جمہوری ممالک میں جہاد بالقتال کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں ہم جو کر سکتے ہیں وہ جہاد بالنفس ہے جس کے ذریعے ہمیں نفسانی خواہشات، برے خیالات، ہوس، غصہ، جھوٹ، دھوکہ دہی، تعصب، انتہا پسندی اور ذاتی اور غیر قانونی انتقام کی خواہش کے خلاف روحانی جدوجہد فراہم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ در حقیقت جہاد بالنفس کا عمل ہمیں ذہنی سکون برقرار رکھنے کی روحانی طاقت فراہم کرتا ہے اور جب ہمیں سیاسی، مذہبی اور دنیاوی تصادم کے ناپسندیدہ نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس وقت ہمیں صبر و استقامت کے مظاہرے کا اہل بناتا ہے۔
جہاں تک اسلامی جہاد کے دوسرے تصور یعنی جہاد بالقتال کا تعلق ہے  جس کا بنیادی مقصد اسلامی نظام حکومت کے بینر تلے  اسلامی حاکم کے اعلان پر مذہبی حقوق اور زندگی کے تحفظ کا دفاع کرنا ہے، تو اس جہاد کو  آج کی نیوکلیئردور میں ممکن نہیں اور اس کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے ایک سبب اعتداء ہے۔
تمام باشعور لوگ یہ جانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ جنگ کے تمام حدود قیود سے معمولی سا تجاوز کرنے والا بھی قانون شکن جانا جاتا ہے۔ قرآن و سنت میں حد سے تجاوز کرنے والوں کے لئے جو لفظ بار بار استعمال کیا جاتا ہے وہ "اعتدا" ہے اور اسی سے مشتق ‘‘معتدین یا معتدون’’ ہے ۔قرآن و سنت نے انتہائی سختی سے مومنوں کو منع کیا ہے کہ وہ جنگ سمیت دیگر تمام امور میں اعتدا یعنی حد سے زیادہ بڑھنے  سے باز رہیں۔ لہٰذا آئیے ہم خلوص دل سے کچھ متعلقہ حوالہ جات کا مطالعہ کریں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : "اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو" (۲:۱۹۰)
اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان مستند علماء اسلام کے اکثریت کے مطابق محکم ہے منسوخ نہیں۔ وہ اس خدائی حکم کو جنگی قوانین بنانے میں استعمال کرتے ہیں، مثلا حالت جنگ میں بھی عورتوں، بچوں، بوڑھے، درویشوں، کنیزوں، بیماروں اور کسانوں کے قتل کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، قرآن کریم کے الفاظ "حدود سے تجاوز مت کرو’’ کا مطلب ہے  ‘‘عورتوں، بچوں، ضعیفوں یا ان میں سے جو امن پسند ہو اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھے انہیں قتل مت کرو’’ اور اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم ان کے خلاف حد سے زیادہ بڑھنے والوں میں سے ہوگے’’ (جامع البیان جلد ٢، دار المعرفۃ بیروت)
جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر کے کمانڈر کو روانہ کرتے تھے تو آپ ذاتی طور پر انہیں اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرتے تھے حد سے تجاوز کرنے، بچوں کو قتل کرنے،  مثلہ کرنے  اور غداری سے باز رہنے کا حکم فرماتے’’ (ترمذی ابن ماجہ، ابو داؤد وغیرہ)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے لشکر کو یہ ہدایت کرتے تھے کہ کبھی بھی بچوں کو قتل کرنا، اور نہ ہی عورتوں اور عمر دراز لوگوں کو قتل کرنا، درختوں کو کوئی نقصان نہ پہنچانا اور نہ ہی انہیں آگ سے جلانا ، خاص کر انہیں جو پھل دار ہوں۔ دشمن کے کسی بھی ریوڑ کو مت مارنا، ممکن ہے کہ آپ لوگ ایسی جماعت سے ہو گزریں جنہوں نے اپنی ساری زندگی راہبانہ خدمت میں گزار دی ہو اس لئے انہیں تنہا ہی رہنے دو، یعنی نقصان نہ پہنچانا’’ (موطا امام ابن مالک صفحہ 466)
آئیے مزید قرآنی آیات ملاحظہ فرمائیں جن میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو اعتدا یعنی حد سے بڑھنے سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔
 ‘‘اور حد سے نہ بڑھو، بیشک حد سے بڑھنے والے اللہ کو ناپسند ہیں’’ (5:87)
‘‘اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ، بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں’’ (7:55)
‘‘ہم یونہی مہر لگادیتے ہیں سرکشوں کے دلوں پر’’ (10:74)
 ‘‘اور خدا کے غضب میں لوٹے یہ بدلہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے یہ بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے کا’’ (2:61)
‘‘اور بیشک ضرور تمہیں معلوم ہے تم میں کے وہ جنہوں نے ہفتہ میں سرکشی کی تو ہم نے ان سے فرمایا کہ ہوجاؤ بندر دھتکارے ہوئے’’ (۲:۶۵)
اے ایمان والوں تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی۔ تو بھلائی سے تقا ضا ہو اور اچھی طرح ادا، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ پر ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے (۲:۱۷۸)
یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں، (۲:۲۲۹)
پوری آیت میں خاص طور پر طلاق کے معاملات کے متعلق بتایا گیا ہے لیکن دیگر آیات کی طرح اس آیت میں بھی عام طور پر یہ بات بتائی گئی ہے کہ کسی بھی مسئلے میں اللہ کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔
 ‘‘اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی میعاد آلگے تو اس وقت تک یا بھلائی کے ساتھ روک لو یا نکوئی (اچھے سلوک) کے ساتھ چھوڑ دو اور انہیں ضرر دینے کے لئے روکنا نہ ہو کہ حد سے بڑھو اور جو ایسا کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور اللہ کی آیتوں کو ٹھٹھا نہ بنالو اور یاد کرو اللہ کا احسان جو تم پر ہے اور و ہ جو تم پر کتاب اور حکمت اتاری تمہیں نصیحت دینے کو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے’’ (۲:۲۳۱)
 ‘‘اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی کل حدوں سے بڑھ جائے اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے خواری کا عذاب ہے’’ (4:14)
 ‘‘اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر نہ ابھارے اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے’’ (5:2)
آئیے ہم ان آیات پر روک کر کچھ وقت غور و فکر کرنے میں صرف کریں جس سے ہمیں خدائی رہنمائی حاصل ہو سکے جو ہمیں جارحیت اور حد سے بڑھنے سے باز رہنے اور راست بازی میں تعاون کا حکم دیتی ہیں۔ اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف بھی اعتدا اور حد سے نہ بڑھے  جو ان سے نفرت کرتے ہوں۔
 ‘‘اور ان میں تم بہتوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور زیادتی اور حرام خوری پر دوڑتے ہیں بیشک بہت ہی برے کام کرتے ہیں’’ (5:62)
 ‘‘اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ نے تمہارے لیے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو، بیشک حد سے بڑھنے والے اللہ کو ناپسند ہیں’’ (5 :87)
‘‘اور بیشک بہتیرے اپنی خواہشوں سے گمراہ کرتے ہیں بے جانے بیشک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے’’ (۶:۱۱۹)
‘‘کسی مسلمان میں نہ قراب کا لحاظ کریں نہ عہد کا اور وہی سرکش ہیں’’ (۹:۱۰)
 ‘‘اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھا بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا، تمہیں نہیں معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی نیا حکم بھیجے’’ (۶۵:۱)  ہم نے یکے بعد دیگرے  جنگ اور حملوں کے سبب شام اور عراق میں انتہائی جسیم ہلاکت اور موت کا مشاہدہ کیا ہے۔ دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کے حملے کے نتیجے میں بہت سے قاتلوں اور امن پسند شہریوں کی موت ہوئی ان میں سے سبھی اپنے آپ کو مسلمان بتاتے تھے اور قاتلوں نے اپنے دشمنوں کو سزا دلانے کے لیے اسلامی القابات کا استعمال کرکے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بےدریغ سرکشی کیا جس کی وجہ سے آج تک دونوں ممالک انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں جسے امن و سکون اور استحکام حاصل کرنے میں ابھی سالوں لگیں گے۔
آج کل تقریباً تمام مسلمان اپنے آپ کو اپنے ہی ملک کے شہریوں کی نگاہ میں مشکوک ومشتبہ پاتے ہیں۔وہ چیخ چیخ کر ساری دنیا کو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں اور جنہوں نے دہشت گردانہ اعمال کا ارتکاب کیا وہ بھی ہم میں سے نہیں ہیں۔ ہمارے لئے اس وقت صبر کرنا انتہائی مشکل عمل ہوتا ہے جب ہم کوئی ایسی تقریر سنتے یا پڑھتے ہیں جس میں تشدد، دہشت گردی اور تباہی کا ذمہ دار اسلام کو بتایا جا رہا ہوتا ہے لیکن جہاں تک ہو سکے ہمیں ہر حال میں صبر سے کام لینا ہوگا کیونکہ اس طرح کے غیر متحمل حالات کی ذمہ داری ان کےسر جاتی ہے جنہوں نے ہمارے اسلامی القابات واصطلاحات کا استعمال کیا جو اتنی بھیانک تباہی و بربادی کا سبب بنا۔ اس نے غیر مسلموں کو ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھنے کا جواز فراہم کیا۔  اسلامی عقیدے اور ایمان کی روشنی کا گہرا احساس ہمارے اندر پنہاں ہے اور صرف ہم ہی اسے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ بغیر کسی  منفی رد عمل کے ہمیں اس محاذ پر کچھ مؤثر کام کرنے کی ضرورت ہے، مثلا ضرورت ہے کہ اسلام کا امن پسندی کا پیغام نہ صرف غیر مسلموں میں پھیلانے کی ضرورت ہے بلکہ بنیادی طور پر ان مسلم نوجوانوں کو بھی اچھی طرح بتانے کی ضرورت ہے جو اسلام کے اس نظریے میں ناسمجھی کے شکار ہو چکے ہیں۔ اگر ہم اس طرح کے کسی اقدامات اٹھانے میں ناکام ہیں تو ہمیں کم از کم اپنی زندگی صبر واستقامت کے ساتھ گزارنا چاہیے اور ہر چیز کو اللہ کے بھروسے چھوڑ دینا چاہئے۔
دور جدید کے کچھ مسلمان  شریعت کی اپنی سطحی فہم وبصارت کی بنیاد پر صوفیاء کرام کا مذاق بناتے ہیں۔ وہ اسلامی تصوف کو قرآن و سنت سے متصادم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے صوفیاء کرام نے اسلام کی روح کے ساتھ ساتھ زمانے کی ضروریات کو بھی بخوبی سمجھا ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کس طرح حکمرانوں نے اپنی ناپاک اور ناجائز عزائم حاصل کرنے کے لئے اسلام کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے وقت کے بدلتے ہوئے مرحلے کو بخوبی دیکھا تھا اس لئے انہوں نے اسلام کو اپنے تقویٰ اور جہاد بالنفس کے ذریعے پھیلایا ہے۔
یہ دعویٰ کرنا بہت بڑی بےایمانی ہوگی کہ صوفیاء کرام کو علم دینی اور فقہی سمیت اسلامی شریعت میں کوئی سمجھ نہیں تھی۔ در اصل انہوں نے اسلام کی شریعت کو روحانی مرشدوں کی بارگاہ میں اس کے مکمل روح کے ساتھ سمجھا ہے۔ جیسے سرکار غوث اعظم عبدالقادر جیلانی، حضرت مولانا رومی، حضرت شمس تبریز، حضرت ابن عربی ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت خواجہ قطب الدین، خواجہ نظام الدین جیسے اولیاء و صالحین  اس کی اعلی مثال ہیں۔ یہ ساری مقدس شخصیات نہ صرف علم الکلام اور علم الفقہ کے ماہر تھے بلکہ اسلامی تصوف کے بھی ماہر  تھے۔ شریعت اور طریقت کی تربیت لیتے ہوئے انہوں نے حقیقت ومعرفت کی منزلیں طے کیں۔ شریعت و طریقت کی گہرائی کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے زمانے کے حالات وکوائف پر اچھی دسترس رکھتے تھے۔ اور ایسے سیدھے راستے پر گامزن ہوئے جس نے پوری دنیا کے لاکھوں لوگوں کو اسلام اور اس کی خوبصورتی کی طرف راغب کیا۔
ہم اس نیوکلیئر اور انٹرنیٹ کے دور میں اپنے متقی اور روحانی مرشدوں اور رہبروں کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ تاہم آپ کو ان کی تلاش کرنی چاہئے اور ان کی سرپرستی میں اسلام کی صحیح تفہیم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو یقینی طور پر آپ کے دماغ کے لئے امن، صبر، استقامت اور رہنمائی کا باعث بنے سکے ۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اختیار ہے تو وہ یہ ہے کہ اسلام اور جہاد کے نام پر کی جانے والی جنگ کی تمام سیاست سے دور رہیں یا امن کی طرف پیش قدمی کی حمایت کرنے اور لوگوں کے دل جیتنے کے لئے آگے آئیں، یہ اعلان کرتے ہوئے کہ مختلف ڈبلیو ایم ڈی کے اس ایٹمی دور میں چلنے والی کوئی بھی جنگ ہو تو وہ یقینا اعتدا اور حد سے بڑھنے کا باعث بنے گی، اور ہم نے اوپر یہ جان لیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو رب العالمین ہے اسے یہ سب بالکل بھی پسند نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment