Saturday, February 29, 2020

Subject Of Nahi (Prohibition) In Principle Of Islamic Jurisprudence And Its Significance In The Present Era- Part 1 اصول فقہ میں نہی کی بحث اور موجودہ دور میں اس کی اہمیت وافادیت


غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
قسط اول
نھی اصول فقہ کا ایک اہم موضوع ہے ، اسے یہاں  پیش کرنے کا مقصد موجودہ حالات کے بیشتر مسائل کو از سر نو جائزہ لینے کی طرف توجہ دلانا ہے ۔ حالات زمانہ کی رعایت کا مشہور چرچہ ہمارے مدارس کے دینی درسگاہوں ، بالخصوص فتاوی نویسی (تخصص فی الفقہ) کے درجہ کے اساتذہ وطلبہ کے مابین خوب رہا ہے ۔ہمیں یہ بنیادی بات خوب یاد رہتی ہے کہ فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت ہوتی ہے اور نت نئے مسائل پر ہمارے مفتیان کرام اپنے علم وہنر کی طبع آزمائی آئے دن کرتے رہتے ہیں ، خاص طور پر اس کے لیے سالانہ سیمنیار بھی منعقد کئے جاتے ہیں،جس میں ملک اور بسا اوقات بیرون ملک کے ماہرین افتا کو بھی مدعو کیا جاتا ہے ، وہ اپنی اپنی تحقیقات وتجربات کی بنیاد پر سیمینار کے منتخب مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔گزشتہ کئی سالوں کے سیمیناروں میں ہونے والے منتخب مسائل کا مطالعہ کیا جائے ، تو ایک طرف ان کے علمی جواہر کی داد دیتے زبان نہیں تھکتی تو دوسری طرف جو کمی بڑی شدت سے محسوس کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آخر ان مسائل پر گفتگو کو اتنی اہمیت کیوں نہیں دی جاتی جو عالمی سطح پر عوام کے لیے پریشان کن ثابت ہو رہے ہیں۔عوام کو جن  ضرورت وحاجت  کا زیادہ سامنا ہے ان میں نہ تو سیر بحث گفتگو ہوتی ہے اور نہ کوئی عمدہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔کبھی گفتگو ہوئی بھی تو عوام کے لیے مفید ہونے کی بجائے تنازعات واختلافات  کی بھینٹ چڑھی۔خواص کا علمی اور سنجیدہ طبقہ علمی اختلافات پر نرم گوشہ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن عوام کا کیا جو ان اختلافات میں پس کر رہ جاتے ہیں ۔ مقام افسوس ہے کہ ماضی کے حل شدہ مسائل، خواہ ایمان ابو طالب کا مسئلہ ہو یا حضرت امیر معاویہ کی شان صحابیت کا تقدس ، ان  پر از سر نو تو گفتگو کرنے کا ماحول بنایا جاتا ہے مگر موجودہ مسائل پر صرف مذمتی بھرا بیان  یا پھر یہ کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا ہی خوب ہوتا کہ اگر سیلیکٹیو میتھڈ اپناکر فتوی آن ٹیررزم لکھنے والے حضرات جہادی  نظریات کے ذریعے پیش کئے جانے والی آیات واحادیث پر کام کرتے ، ان کی جزئیات وتفریعات کو موجودہ حالات ومسائل کے تعلق سے پیش کرتے تاکہ عوام وخواص سبھی مستفید ہوتے  اور بنام اسلام ہونے والی، بلکہ اسلام ومسلمان کو بدنام کرنے والی  دہشت گردی کا پردہ فاش کر سکتے۔
یہ کوئی ایک مسئلہ نہیں جس کی طرف توجہ دلائی جائے بلکہ متعدد مسائل ہیں جن پر مفتیان کرام کو  ضرورت ہے کہ وہ ماضی اور حال کے مختلف حالات کا مقارنہ کرکے دور حاضر کے سلگتے مسائل اور پھر ان کے  مقتضیات کو پورا  کرنے کی طرف سعی کامل کرکے عوام کے اندر اسلام کے متعلق پھیلتی بد گمانیوں کا  قلع قمع کر یں ۔اول تو انہیں ان مسائل کا مجموعہ تیار کرنا پڑے گا پھر ان کا ماضی اور حال کے مختلف حالات میں اپنی علمی اور فقہی تجربات کی روشنی میں پوری دیانتداری کے ساتھ مسائل  کے حل کو عوام تک پیش کرنا چاہیے۔لیکن وقت کا المیہ ہے کہ جس قوم کی قیادت ہی مر چکی ہو اسے یہ فکر واحساس کیسے پیدا ہو ۔پوری دنیا میں اسلامی عقائد ونظریات پر طوفان برپا ہے ، لوگوں کے ذہنوں میں سوالات کے انبار ہیں لیکن ہماری قوم کے نام نہاد قائدین  مردہ دلی اور خواب غفلت کی دبیز چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ایسے میں انہیں جگانا جوئے شیر  لانے کے مترادف  ہے ۔
 اب ہمیں خود آگے بڑھ کر ان فقہی رموز واسرار میں غوطہ لگانا چاہیے جن سے ہم سلگتے بھڑکتے مسائل پر اپنا اور اپنی عوام کا ذہن صاف وشفاف کر سکیں ، ان میں ایمان وتیقن کی بلند عمارت قائم کر سکیں تاکہ وہ برملا لکھ بول سکیں کہ جس اسلام کے ہم ماننے والے ہیں وہ یقینا ایک معجزاتی پہلو کی حامل ہے  جو ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرتی ہے اور امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے مفید وموثر  اور فلاخ وخیر کی راہ کی رہنمائی کرتی ہے۔ اسلام کوئی ایسا دین نہیں جس پر عمل کرنا کسی بھی دور میں مشکل ہو جائے ۔اگر فقہیات کے تناظر میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے ہمارے سلف صالحین اور ائمہ ومجتہدین  نے خلوص للہیت سے اپنی ساری زندگی علم ومعرفت کی منزلیں طے کرنے میں لگادیں اور فقہ کے ایسے اصول وضع کر گئے جن کی بنیاد پر ہر دور کے مسائل کا حل پیش کا جا سکتا ہے ۔ان کے اصولوں پر غور کیا جائے تو عقل حیران ہوجاتی ہے کہ آخر انہیں اللہ رب العزت نے کتنے علوم ومعارف سے نواز دیا تھا کہ ان کے اصولوں کو ہی بعد میں آنے والے مجتہدین نے اپنے اجتہاد کا اصول ومنہج بنایا ، آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان اصولوں کی اہمیت مسلم ہے ۔ انہی میں سے ایک بحث نہی کا موضوع ہے ، جسے راقم الحروف ایک خاص نقطہ کی طرف توجہ دلانے کے لیے پیش کر رہا ہے ۔اس سے قبل لازم سمجھتا ہوں کہ نہی کی تعریف واقسام اور ان پر ہونے والی کلاسیکل بحث کو یہاں قلمبند کر دوں تاکہ عوام بھی مستفید ہو سکیں ۔
نہی کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
لغت میں نہی کے معنی‘‘منع کرنے’’ یعنی  ‘‘روکنے’’ کے ہیں۔
نہی کی اصطلاحی تعریف : نہی امر کی ضد ہے  لہذا نہی کی تعریف امر کی تعریف کے برعکس یوں ہوگی : ‘‘استدعاء ترک الفعل بالقول  ممن ھو دونہ’’ یعنی کسی بلند مرتبہ شخص کا اپنے سے کم مرتبہ سے ترک فعل کا مطالبہ کرنا نہی کہلاتا ہے ۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں ‘‘قول القائل لغیرہ لا تفعل علی سبیل الاستعلا’’، قائل کا بطور استعلا اپنے غیر کو لا تفعل کہنا نہی کہلاتا ہے ۔
نہی کے لیے ضروری نہیں کہ خاص صیغہ واحد مذکر حاضر  (لا تفعل )مراد  ہو بلکہ ہر وہ صیغہ  جس میں ترک فعل  طلب کیا گیا ہو ، خواہ  وہ حاضر ، غائب، متکلم ، مجہول ، معروف  کا صیغہ ہو، لہذا جو کلمات فعل کی ممانعت پر دلالت کرتے ہیں وہ بھی نہی میں شمار ہیں ، مثلا نھی، منع ، کف، امتنع، اجتنب ، اترک، ذر ، دع  وغیرہ ، اور اسی طرح جس صیغے سے حلت کی نفی ہو رہی ہو مثلا  ‘‘لا یحل لکم ان ترثو النساء کرھا ’’، ۔۔۔‘‘حرمت علیکم ۔۔’’ وغیرہ، بھی نہی میں شمار ہیں۔
نہی اور نفی میں فرق
نہی اور نفی دونوں فعل پر داخل ہوتے ہیں ، مثلا ‘‘لا تفعل’’ لام کے کسرہ کے ساتھ (یعنی تم مت کرو)  اور ‘‘لا تفعل ’’ لام کے ضمہ کے ساتھ (یعنی تم نہیں کرتے ہو)۔دونوں میں وجہ افتراق یہ ہے کہ نہی سے بندے کو ایسے کام سے روکنا مقصود ہوتا ہے جس میں اسے قدرت ہوتی ہے ، مثلا کسی پڑھے لکھے انسان سے کہا جائے ‘‘لا تقرا’’(مت پڑھو)  یا ‘‘لا تکتب’’ (مت لکھو)، تو یہاں اس پڑھے لکھے شخص کو پڑھنے نہ پڑھنے  یا لکھنے یا نہ لکھنے دونوں میں قدرت حاصل ہے ۔چونکہ نہی سے شارع کا بندے کی جانب سے  ترک فعل کی طلب مقصود ہوتی ہے لہذا  ارتکاب فعل پر گناہ اور اجتناب فعل پر ثواب ہوگا۔ نہی کے بر عکس نفی میں چونکہ کام فی نفسہ معدوم ہوتا ہے ، لہذا بندے کو اس معدوم فعل پر قدرت ہی نہیں لہذا  اس پر گناہ یا ثواب کا سوال ہی نہیں۔
نہی کے معانی
فقہیات میں نہی کئی معانی کے لیے آتا ہے ، جن میں بعض یہ ہیں:
(۱) تحریم کے لیے ، جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے :‘‘وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلا’’ یعنی ‘‘اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے’’ (سورہ الاسراء ، ۳۲)
(۲) ارشاد کے لیے ، مثلا ‘‘يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ’’ یعنی ‘‘اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں’’ (سورہ مائدہ ، آیت ۱۰۱)
(۳) کراہت کے لیے : مثلا ، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ’’ یعنی  اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو’’ (سورہ الجمعہ ، آیت ۹)
(۴) شفقت کے لیے ، مثلا :   لا تتخذوا دوابكم كراسيا   (الحديث) یعنی : تم لوگ اپنے جانوروں کو کرسی نہ بنا لو (یعنی جب ضرورت نہ ہو تو اس سے اتر جاو بے ضرورت راستوں اور بازاروں میں گفتگو کرنے کے انہیں کرسی نہ بنا لو) (جامع الاحادیث ، ۴۰۴،  سنن ابی داود ) 
  (5) دعا کے لیے: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ (یعنی: اے رب ہمارے! ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چوُکیں اے رب ہمارے! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا، اے رب ہمارے! اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں سہار (برداشت) نہ ہو) (سورۃ البقرہ: آیت ۲۸۶)
(۶) تسویہ کے لیے : مثلا  ارشاد باری تعالی ہے : (اصْلَوْهَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ) یعنی اس میں جاؤ اب چاہے صبر کرو یا نہ کرو، سب تم پر ایک سا ہے تمہیں اسی کا بدلہ جو تم کرتے تھے (سورۃ الطور، آیت، آیت ۱۶)
(۷) تحقیر کے لیے: ارشاد باری ہے: (لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ) ترجمہ : ‘‘اپنی آنکھ اٹھاکر اس چیز کو نہ دیکھو جو ہم نے ان کے جوڑوں کو برتنے کو دی اور ان کا کچھ غم نہ کھاؤ اور مسلمانوں کو اپنی رحمت کے پروں میں لے لو’’ (سورۃ الحجر، آیت ۸۸)
(۸) مایوسی کے لیے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ترجمہ: ‘‘اے کافرو! آج بہانے نہ بناؤ تمہیں وہی بدلہ ملے گا جو تم کرتے تھے’’ (سورۃ التحریم، آیت ۷)
(۹) کراہت تنزیہی کے لیے: (وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ) ترجمہ: ‘‘اور آپس میں ایک دوسرے پر احسان کو بُھلا نہ دو بیشک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے’’ (سورۃ البقرہ، آیت ۲۳۷)
(۱۰) انجام کے لیے، (وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّـهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ) ترجمہ: اور اللہ کو ان کاموں سے ہرگز بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم انجام دے رہے ہیں، بس وہ تو ان (ظالموں) کو فقط اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس میں (خوف کے مارے) آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی’’ (سورۃ ابراھیم، آیت ۴۲)
مذکورہ بالا نہی کے معانی مستعملہ کی چند مثالیں ہیں ۔ان کے علاوہ نہی کے دیگر معانی بلاغت اور اصول فقہ کی کتب میں بلغا اور اصولیوں نے سیاق وسباق کے ساتھ بیان کیے ہیں۔لیکن نہی کے جس معنی پر اصولیین کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ کراہت وتحریم نہی کے حقیقی معنی ہیں باقی دیگر معانی مجازی ہیں ، نیز یہ کہ نہی جب قرائن سے خالی واقع ہو تو اس کا موجب تحریم ہے اور یہ کہ  کسی چیز سے نہی اس چیز کے قبیح ہونے پر دلالت کرتی ہے  یعنی کسی کام سے نہی اسی وقت ہوتی ہے جب وہ کام قبیح ہو۔ 
نہی کی اس بنیادی اور ضروری تعریف وتوضیح کو سمجھ لینے کے بعد اگلی قسط میں نہی کی دونوں قسمیں (۱) نہی عن الافعال الحسیہ یعنی افعال حسیہ سے نہی (۲) نہی عن التصرفات  او الافعال الشرعیہ  یعنی افعال شرعیہ سے نہی ، کے معنی ومفہوم کو پیش کرنے کے بعد اپنے اصل مقصودکی طرف توجہ مبذول کرنےکی سعی ہوگی ۔ بتوفیق اللہ سبحانہ وتعالی۔

No comments:

Post a Comment