Thursday, August 29, 2019

Flagbearers of Feminist Movement in 20th Century Bengal بیسویں صدی میں بنگال میں تانیثی تحریک کے علمبردار





سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
بیسویں صدی کے اوائل سے ہی بنگال میں مسلمانوں میں سماجی اور شعوربیدار ہونے لگا تھا۔ یہ ریاست تحریک آزادی کا ایک اہم مرکز بن چکی تھی اور یہاں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لے رہے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں تانیثی تحریک بھی زور پکڑنے لگی تھی اور مسلم دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کا ایک قافلہ تیار ہورہاتھا جو مسلم عورتوں کے اندر سماجی اور سیاسی بیداری لانے کی کوشش کررہاتھا۔برطانوی حکومت میں اردو اور فارسی کو اہم مقام حاصل تھا اور اردو اور فارسی میں مسلمانوں کا مذہبی سرمایہ محفوظ ہونے کی وجہ سے اردو کو بنگلہ پر فوقیت حاصل تھی اور اس کی  وجہ سے بنگلہ بولنے والے مسلم طبقے کو اردو داں طبقے سے کمتر سمجھا جاتاتھا۔ یہ وجہ تھی کہ رفتہ رفتہ بنگلہ بولنے والے مسلمانوں میں اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور فروغ کے تئیں بیداری پیداری ہونے لگی۔ بنگلہ داں مسلم طبقے میں ادبی اور ثقافتی انجمنوں کا قیام عمل میں آنے لگا۔
اس دور میں مسلمانوں کی شراکت بیوروکریسی اور سرکاری ملازمتوں میں بہت کم تھی۔ ان کی شراکت عیسائیوں کے مقابلے میں بھی کم تھی۔ 1911ء کی مردم شماری کے مطابق بنگال میں مسلم سرکاری ملازمین کی تعداد صرف چھ ہزار تھی اور ان کا تناسب ۱: ۷تھا۔
1905ء میں بنگال کی عارضی تقسیم نے بہرحال مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ انہیں سرکاری ملازمتوں میں ترجیحی بنیادوں پر نوکریاں دی گئیں اور مسلمانوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ چونکہ مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور ان کی مادری زبان بنگلہ تھی اس لئے اس علاقے میں مغربی بنگال کے مقابلے مسلمانوں میں تعلیمی اور سیاسی بیداری کی رفتار زیادہ تھی۔ یہاں مسلمانوں کے تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور انہیں سیاسی برتری بھی حاصل ہوئی۔
اس دور میں دونوں بنگال میں بنگالی مسلمانوں میں تانیثی تحریک کو فروغ ہوا۔ کئی دانشور ادیب اور ماہرین تعلیم نے عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے تحریک چلائی، انجمنیں قائم کیٰں اور عورتوں کی تعلیم  کے لئے تحریک چلائی،۔ اس زمانے عورتوں کی تعلیم کو معیوب اور خلاف شریعت سمجھاجاتاتھا اور پردہ کی پابندی عورتوں کو سختی سے کرنی پڑتی تھی۔ پردہ کی پابندی کی وجہ سے لڑکیوں کو گھر سے باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی تھی۔ بلکہ ایک طبقہ تو یہ بھی سمجھتاتھا کہ لڑکیوں کو زیادہ تعلیم دلوانے سے ان کے خیالات فاسد ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر باغیانہ خیالات نجم لینے لگتے ہیں۔ وہ آزادی پسند ہوجاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ مردوں کا ایک طبقہ اگر لڑکیوں کی تعلیم کا حامی تھا تو وہ صرف گھر پر ہی لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت دیتاتھا۔
ایسے ماحول میں بنگال کی ایک روشن خیال خاتون بیگم رقیہ سخاوت حسین نے بنگال میں لڑکیوں کا پہلا عصری تعلیم کا اسکول کلکتہ میں قائم کیا جو آج بھی بیگم رقیہ سخاوت میموریل گرلس ہائی اسکول کے نام سے قائم ہے۔ مگر اس اسکول میں داخلہ  کے لئے انہیں مسلم گارجین حضرات کو راضی کرانے میں بہت پاپڑ بیلنے پڑے اور انہیں بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس اسکول میں لڑکیوں کو لانے کے لئے ایک وین کا انتظام کیا گیاتھا جو پوری طرح با پردہ ہوتاتھا۔ بیگم رقیہ کا خہال تھا کہ مسلم مردو ں جو سماجی بیداری کی باتیں کرتے ہیں وہ سب مسلم خواتین کی عدم شراکت میں لایعنی ہیں۔ ان کی ترقی ان کی عورتوں کی ترقی کے بغیر ادھوری ہے۔ رقیہ بیگم نے اپنے دور کی عورتوں میں بیداری لانے کے لئے کتایں بھی لکھیں اور ناول بھی لکھے۔
بنگال میں تانیثی تحریک نے زور پکڑا اور عوتوں کی آزادی کے حامی دانشوروں کا ایک گروہ تیار ہوا جو  پردہ کا مخالف تھا۔ اس گروہ کا ماننا تھا کہ پردہ عورتوں کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم عورتیں دوسری قوموں کی خواتین کے مقابلے میں تعلیم اور سماجی میدان میں پیچھے ہیں۔اس دور میں بنگالی مسلم ساہتیہ سمیتی ، سنٹرل محمڈن ایسوسی ایشن،  اور آل انڈیا ائجوکیشنل کانفرنس نام کے  ادارے  قائم ہوئے۔ بدھی مکتی اندولن شروع ہوا اور دانشوروں کی ایک ٹیم نے Anti Purdah Leagure نام کا گروپ بھی تشکیل دیا۔ اس گروپ نے مذہبی تنگ نظری، عورتوں میں پردہ کے رواج، دقیانوسی طرز فکر کی مخالفت کی اور عورتوں کی آزادی کے لئے تحریک چلائی۔خواتین کے خلاف مردوں کا تعصب اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف ان دانشوروں نے آواز بلند کیا۔ قاضی نذرالاسلا م نے بھی گن بانی، لانگل اور دھوم کیتو نام کے رسائل کی ادارت کی جس میں وہ ملاؤں کے دقیانوسی خیالا ت پر ضرب لگاتے تھے  جس کی وجہ سے انکی تحریروں کو مذہبی حلقے میں غیر اسلامی اور شیطانی تحریریں قراردیاجاتاتھا۔
اس تحریک کا ایک اہم رسالہ سوغات تھا جو خواتین کی آزادی  کی حمایت اور مذہبی تنگ نظری کی مخالفت میں جاری کیاگیاتھا۔ اس کا دفتر کلکتہ میں تھا اور ا س کے مدیر محمد نصیرالدین تھے۔ وہ خود تو ادیب نہیں تھے  مگر ادبی اور سیاسی شعور رکھتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اسلام پردہ کا مخالف نہیں ہے اور عورتوں کو سیاسی، سماجی اور معاشی ؤزادی دیتاہے  اور تنگ نظر ملاؤں نے عورتوں کو قیدی بناکر رکھ دیاہے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں ”وسوغات اور نذرل“ میں لکھتے ہیں:
”اس دور میں مسلم سماج میں جو رسائل و جرائد شائع ہوتے تھے ان میں زیادہ تر  کا طرز فکر مذہبی  اور سماجی موضوعات کی طرف ہی تھا۔  ان کا موضوع  ادبی بحث و تمحیص  نہیں تھا۔ اسی وجہ سے  ان سب کا مزاج  لگ بھگ ایک جیسا تھا۔  سماج میں روشن خیالی  اور آزاد خیالی  کی تبلیغ  نہیں کے برابر تھی۔  یہی وجہ  تھی کہ جو لوگ روشن خیالی  اور ؤزاد خیالی  کا اظہار کرتے تھے  انہیں سماج میں مذمت و لعنت کا نشانہ بنایاجاتاتھا۔“
بنگال میں مسلم سماج میں پردہ کی کتنی سختی تھی اس بات کااندازہ ایک واقعے سے لگایاجاسکتاہے۔ نیترکونا میں کمیونسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے تعاون سے فرقہ وارانہ فسادات کے موضوع پر ایک سمینار ہورہاتھا۔ جس کے روح رواں مسلم لیگی لیڈرر ابوالہاشم تھے۔ اس جلسے میں مسلم لیگ کے کئی علماء موجود تھے۔ اس جلسے میں جب ایک مسلم طالبہ بلقیس نے  تقریر کرنے کی اجازت چاہی تو مولویوں نے بے پردہ ہوکر اسٹیج پر آنے پر اس کو اجازت نہیں دی ۔ پھر یہ تجویز پیش کی گئی کہ وہ پاس کے اسکول کے کمرے سے لاؤڈ اسپیکر سے تقریر کرے۔ مگر مولویوں نے ”آواز کا پردہ“ کی دہائی دیکر اس کی بھی اجازت نہیں دی۔
سوغات کا اجرا 1918ء میں ہواتھا۔ اس رسالے نے پردہ کے خلاف جنگ چھیڑی اور عورتوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے میں بہت بڑا رول اداکیا۔ یہ رسالہ بنگلہ زبان میں تھا اور اس کی وجہ سے بنگلہ زبان میں کئی مسلم خواتین  ادیب پیداہوئیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں مسلم عورتوں کے مسائل اور ان کے ساتھ ترقی میں کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کیا۔ رقتہ سخاوت حسین، شمس النہار محمود، حسینہ مرشد، آسیہ مجید، فضیلت النساء، رحیمہ خانم، بیگم فاطمہ لوہانی، مسماۃ ایم خاتون، رضیہ خاتون چودھرانی، عمدتن خاتون،انورہ رحمان جیسی خاتون قلمکار پیداہوئیں۔اس رسالے نے بنگالی مسلم عورتوں کی فکری اور ذہنی پرورش کی۔ اس زمانے میں عورتوں کا ادی سرگرمیوں میں حصہ لینا بھی گناہ سمججاجاتاتھا۔ اور اگر کوئی خاتون لکھتی بھی تھی تو اس کی تحریر کے ساتھ اس کی تصویر کا شائع ہوان بھی براسمجھاجاتاتھا۔ کچھ خواتین تو اپنی تحریروں کے ساتھ اپنا اصل نام بھی ظاہر نہیں کرتھیں جیسے مسماۃ  ایم خاتون۔سوغات نے نے نہ صرف ان کی تحریریں شائع کیں بلکہ ان کی تصویریں بھی؎ شائع کیں۔ اس پر مذہبی حلقے سے ان پر سخت تنقید کی گئی۔
اس تحریک سے متاثر ہوکر اس دور کی ایک مسلم طالبہ فضیلت النساء جو بعد میں ادیبہ بھی ہوئیں پردہ کی مخالفت میں کالج بغیر پردہ کے ساڑی میں جانا شروع کیا۔ ان کے اس اقدام کی سخت مخالفت ہوئی اور ان پر پتھر بھی پھینگے گئے۔ یہی فضیلت النساء آگے چلکر ڈھاکہ یونیورسٹی کی پہلی خاتون مسلم گریجویٹ ہوئی او ر وہ بھی ریاضی جیسے مشکل مضمون میں۔ انہوں نے 1927ء میں اسی یونیورسٹی سے ایم اے فرسٹ کلاس سے پاس کیا اور اعلی تعلیم لئے ملک سے باہر گئیں۔ اعلی تعلیم کے لئے باہر جانے میں  سوغات کے مدیر محمد نصیرالیدن نے فضیلت النساء کی کافی مدد کی جس کی  پاداش میٰں محمد نصیرالدن کو مسلمانوں کے عتاب کا شکار ہونا پڑا اور انہوں نے محمد نصرالدین کو کلتہ میں سڑک پر زدو کوب بھی کیا۔
محمد نصیرالدین نے بعد میں سوغات کے ساتھ ساتھ خواتین کا مکمل رسالہ بیگم بھی جاری کیا۔ فضیلت النساء کی طرح  انورہ خاتون نے بھی اعلی تعلیم کی اورکلتہ میڈیکل کالنج سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے اولی وہ پہلی مسلم خاتون تھیں۔
سوغات سے کی طرح اور بھی کئی بنگلہ رسالے نکلے جن میں خواتین کی تحریروں کی پذیرائی کی جاتی تھی اور ان میں روشن خیالی اور سماجی بیداری کو فروغ دیاجاتاتھا۔ اسی تحریک کا ایک حصہ کلکتہ میں مسلم لڑکیوں کے لئے لیڈی برابورن کالج کا قیا م تھا جو جو بنگال کے پہلے وازیر اعظم اے کے فضل الحق کی کوششوں سے قائم ہوا۔
بنگلہ دیش میں آج جو روشن خیالی اور صنفی مساوات کی ایک مساوی تحریک چلتی ہے اور جس کے نتیجے میں یہاں کا روشن خیال طبقہ انتہاپسندوں کے نشانے پر رہتاہے وہ در اصل اسی تانیثی تحریک کا نتیجہ ہے جسے  سید امری علی، محمد نصیرالدین، سید اسمعیل حسین شیراز ی  اور قاضی نذرالاسلام جیسی شخصیتوں نے فروغ دیاتھا۔

No comments:

Post a Comment