Monday, January 21, 2019

We need a Comprehensively Objective Study of Ahadith -- 2 راویوں کی تعداد اور ان کی قوت و ضعف کے اعتبار سے احادیث کی قسمیں اور ان کے احکامات و تفصیلات


مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
12 جنوری 2019
حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۶ھ) اپنی مایہ ناز تصنیف تحفۃ الدرر شرح نخبۃ الفکر فی مصطلح اہل الأثر میں رقم طراز ہیں:
الخبر: اِما ان یکونَ لہ طرق بلا عدد معین او مع حصر بما فوق الاثنین، او بھما، او بواحد فالاول، المتواترُ المفید للعلم الیقینی بشروطہ۔ و الثانی: المشھورُ و ھو المستفیض علی رای والثالث: العزیز و لیس شرطھا للصحیح خلافا لمن زعمہ، والرابع : الغریب۔ و سوی الاول احادٌ۔
خبر کی یا تو بلا تعینِ تعداد متعدد سندیں ہوں گی یا تعداد کے تعین کے ساتھ (اس کی سندیں) ہوں گی، اب وہ سند یا تو دو سے زیادہ ky تعین کے ساتھ ہوگی، یا دو کے ساتھ ہوگی یا ایک سند کے ساتھ۔ پس قسم اول (کی خبر یعنی بلاتعینِ تعداد متعدد سندوں والی خبر) حدیث متواتر ہے جس سے اس کے شرائط کے ساتھ علم یقینی حاصل ہوتا ہے، اور قسم دوم (یعنی جس کی سند دو سے زائد ہو لیکن حد تواتر سے کم ہو) حدیث مشہور ہے، اور ایک رائے یہ ہے کہ وہی (یعنی خبر مشہور ہی) حدیث مستفیض بھی ہے، اور قسم سوم (یعنی جس کی سند دو راویوں کی تعیین کے ساتھ ہو) حدیث عزیز ہے، اور قسم سوم (یعنی جس حدیث کی سند میں کسی بھی جگہ راوی اس روایت میں منفرد ہو) حدیث غریب ہے۔
توضیح و تشریح عبارات مذکورہ:
بنیادی طور پر روات کے اعتبار سے حدیث کی دو قسمیں ہیں:
(۱)خبر متواتر اور (۱) خبر واحد
پھر خبر متواتر کی بھی دو قسمیں ہیں:
(۱) متواتر لفظی اور (۱) متواتر معنوی
پہلی قسم خبر متواتر کی تعریف اور اس کے شرائط:
علوم الحدیث میں خبر متواتر اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے بیان کرنے والے (رواۃ) اتنی کثرت کے ساتھ ہوں کہ ان سب کا کسی جھوٹ بات پر متفق ہونا محال ہو
خبر متواتر کے تحقق کے لئے ضروری شرائط حسب ذیل ہیں:
اس کے راویوں کی تعداد کثیر ہو
خبر متواتر کے بارے میں بعض ائمہ محدثین نے کہا ہے کہ اس کے راوی کم از کم دس ہوں، بعض نے کہا چالیس ہوں، بعض نے کہا ستر ہوں جبکہ بعض نے کہا کہ اس کے رواۃ تین سو تیرہ ہوں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا کہ چونکہ عدد کثیر کو کسی خاص عدد میں محدود کرنا درست نہیں لہٰذا، خبر متواتر کے روات کا اتنا ہونا ضروری ہے کہ عادتہً اتنے لوگوں کا کسی جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو۔
روات کی کثرت اس حدیث کی سند کے تمام طبقات میں پائی جائے ۔
اس حدیث کی سند کا سب سے پہلا راوی کوئی خبر اپنے احساس یا مشاہدے کی بنیاد پر دے رہا ہو، مثلاً وہ کہے میں نے سنا، میں نے دیکھا، میں نے مس کیا یا میں نے سونگھا۔ (ملخصاً شرح صحیح مسلم للسعیدی)
خبر متواتر کے اقسام کی تفصیل مع مثال:
خبر متواتر لفظی وہ خبر ہے جس کے الفاظ و معانی دونوں متواتر ہوں اور اس کی مثال صرف یہ ایک حدیث ہے جسے محدثین نے صحابہ کی ایک بڑی جماعت سے روایت کیا ہے:
عن انس ان النبی ﷺ قال من تعمد علی کذبا فلیتبوا مقعدہ من النار (صحیح بخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے عمداً مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا دوزخ جانے۔(ملخصاً شرح صحیح مسلم للسعیدی)
 اس حدیث کے متعلق محدثین کی رائے:
حافظ ابن الصلاح نے لکھا یہ حدیث صحابہ کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے ، بخاری اور مسلم نے بھی اپنی صحیح میں اس حدیث کو صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت سے روایت کیا ہے، بزار اپنی مسند میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث چالیس سے زائد صحابہ کرام سے مروی ہے اور بعض حفاظِ (احادیث) نے کہا کہ اس حدیث کو ستر سے زائد صحابہ کرام نے روایت کیا ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں نیز اس حدیث کا تفرد یہ ہے کہ اس کے علاوہ دنیا میں کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس کے روای تمام عشرہ مبشرہ ہوں، اور اس حدیث کے علاوہ کوئی دوسری کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جسے ساٹھ سے زیادہ صحابہ نے روایت کیا ہو۔ (ملخصاً تدریب الراوی)
خبر متواتر کی دوسر ی قسم متواتر معنوی کے متعلق علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
معنی متواتر احادیث بہ کثرت ہیں ان میں سے حوض کے متعلق حدیث ہے جو پچاس سے زیادہ صحابہ سے مروی ہے ، موزوں پر مسح کی حدیث سترصحابہ سے مروی ہے ،نماز میں رفع یدین کرنے کی حدیث پچاس صحابہ سے مروی ہے نضر اللہ امرا سمع مقالتی ’’ اللہ اس کو تروتازہ رکھے جس نے میری حدیث سنی‘‘یہ تقریباً تیس صحابہ سے مروی ہے ، اور قرآن مجید سات حرفوں پر نازل ہوا’ یہ حدیث ستائیس صحابہ سے مروی ہے جس نے اللہ کے لئے مسجد بنائی ،اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا،یہ حدیث بیس صحابہ سے مروی ہے ، اسی طرح ‘‘ہر نشہ آور چیز حرام ہے’’، ‘‘ اسلام ابتداء میں اجنبی تھا’’ ‘‘ منکر و نکیر کا سوال ’’ اور بہت سی احادیث معنیً متواتر ہیں۔ (بحوالہ: شرح صحیح مسلم مصنفہ غلام رسول سعیدی۔ جلد ۱۔ صفحہ۱۰۴۔ ناشر فاروقیہ بک ڈپو)
جیساکہ ماقبل میں یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ تعددِ رواۃ اور کثرت اسناد کے اعتبار سے ہم تک پہنچنے والی احادیث کی دوسری قسم خبر واحد ہے اور اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ خبر واحد وہ حدیث ہے کہ جس میں خبر متواتر کی کوئی ایک شرط نہ پائی جاتی ہو، اور اس کی تین قسمیں ہیں،
(۱)حدیث مشہور، (۲) حدیث عزیز اور (۳) حدیث غریب۔
حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۶) نے اخبار احاد کی ان تینوں قسموں کی تعریف بالترتیب اس طرح بیان کی ہے:
حدیث مشہور کی تعریف
المشھور ھو المستفیض علی راٰی و منھم من غایر بین المستفیض و المشھور بان المستفیض یکون فی ابتدائہ و انتھائہ سواء و المشھور اعم من ذالک:
ترجمہ: ایک رائے کے مطابق حدیث مستفیض ہی حدیث مشہور ہے، جبکہ بعض ائمہ نے مستفیض اور مشہور کے درمیان فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ حدیث مشہور وہ حدیث ہے جس کی ابتداء اور انتہاء دونوں میں کثرت طرق اسانید برابر ہوں۔ اور حدیث مشہور مستفیض سے عام ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے حدیث مشہور کی تعریف اس طرح کی ہے:
المشھور ما لہ طرق محصورۃ باکثر من اثنین و لم یبلغ حد التواتر (تدریب الراوی۔ ج۲)۔
ترجمہ حدیث مشہور وہ حدیث ہے جو دو سے زائد سندوں سے مروی ہو لیکن (اس کی سندیں )حد تواتر سے کم ہوں۔
حدیث عزیزکی تعریف
العزیز و ھو ان لا یرویہ اقل من اثنین عن اثنین۔
ترجمہ: حدیث عزیز وہ حدیث ہے جس کی سند کے کسی بھی طبقے میں دو سے کم راوی نہ ہوں۔
حدیث غریب کی تعریف
الغریب ھو ما یتفرد بروایۃ شخص واحد فی ای موضع وقع التفرد بہ من السند۔
ترجمہ: غریب وہ حدیث ہے جس کی سند میں کسی بھی مقام پر راوی اس روایت میں متفرد ہو۔
حدیث مشہور کی مثالیں
 اصطلاحی حدیث مشہور کی مثال یہ ہے ‘‘ اللہ تعالیٰ بندوں کے سینوں سے نکال کر علم کو نہیں اٹھائے گا’ اور یہ حدیث : جوشخص جمعہ کے لیے آئے وہ غسل کرے اور حاکم اور ابن صلاح نے اس کی یہ مثال دی ہے: ‘‘ اعمال کا مدار نیات پر ہے’’ ۔ یہ تینوں صحیح حدیثیں ہیں۔( علامہ جلاالدین سیوطی متوفی ۹۱۱ ھ، تدریب الراوی ج۲ص۱۷۳، مطبوعہ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ ،۳۱۹۲ھ۔ بحوالہ: شرح صحیح مسلم مصنفہ غلام رسول سعیدی۔ جلد ۱۔ صفحہ۱۰۵۔ ناشر فاروقیہ بک ڈپو)
حدیث عز یز کی مثالیں:
اس کی مثال یہ حدیث ہے جس کو امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ‘‘تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے نزدیک میں اس کے والداور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو’’، اس حدیث کو حضرت انس سے قتادہ اور عبدالعزیز بن صہیب نے روایت کیا ہے،اور قتادہ سے شعبہ اور سعید نے روایت کیا ہے اور عبدالعزیز سے اسماعیل بن علیہ اور عبدالوارث نے روایت کیا ہے اور اسی طرح ہر راوی سے ایک جماعت نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (حافظ ابوالفضل احمدبن علی بن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ھ، شرح نخبۃ الفکر ص ۱۶،مطبوعہ رحیم اکیڈمی کراچی بحوالہ: شرح صحیح مسلم مصنفہ غلام رسول سعیدی۔ جلد ۱۔ صفحہ۱۰۵۔ ناشر فاروقیہ بک ڈپو)
حدیث غریب کی مثال:
‘‘اس کی مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ولار کی بیع اور ہبہ سے منع فرمایا ہے، اس کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اور ان سے اس کی روایت میں عبداللہ بن دینار متفرد ہے ، اور کبھی اس متفرد سے پھر ایک راوی متفرد ہوتاہے مثلاً حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ‘‘ایمان کے ستّر سے زیادہ حصے ہیں’ اور افضل حصہ لا الہ الااللہ کہنا ہے( الحدیث) اس میں حضرت ابوہریرہ سے ابو صالح تابعی متفرد اور ابوصالح سے عبداللہ بن دینار متفرد ہے او رکبھی (راویوں کا)یہ تفرد تمام راویوں میں مستمر (جاری) رہتا ہے، مسند بزار اور طبرانی کے معجم اوسط میں اس کی بہت مثالیں ہیں۔ (مل علی بن سلطان محمد قاری متوفی ۱۰۱۴ھ، شرح شرح نخبۃ الفکر صفحہ ۴۹-۵۰، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ- بحوالہ: شرح صحیح مسلم مصنفہ غلام رسول سعیدی)
اخبار احاد یعنی حدیث مشہور، حدیث عزیز اور حدیث غریب کی اسانید (Chain of narrator) میں راویوں کی قوت و ضعف کے اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۶ھ) اپنی مایہ ناز تصنیف تحفۃ الدرر شرح نخبۃ الفکر فی مصطلح اہل الأثرمیں فرماتے ہیں:
و فیھا المقبول و فیھا المردودُ لتوقف الاستدلال بھاعلی البحث عن احوال رواتِھادون الاولِ و قد یقع فیھا ما یفیدُ العلمَ النظری بالقرائنِ علی المختار۔ ثم الغرابۃ اما ان تکون فی اصل السند اولا، فالاول‘‘الفرد المطق’’ والثانی‘‘الفرد النسبی’’و یقلُّ اطلاق الفردیۃِ علیہ۔ و خبرُ الآحاد: بنقل عدل، تام الضبطِ، متصل السند، غیر معللِ و لا شاذ، ھو الصحیح لذاتہ؛ وتتفاوتُ رُتبہ بسبب تفاوت ھٰذہ الاوصافِ و من ثُم قُدمَ صحیح البخاری، ثم مسلم، ثم شرطھما۔ فان خف الضبطُ فالحسن لذاتہ، وبکثرۃ الطرقِ یُصحُ۔ و زیادۃُ روایھما ‘‘مقبولۃ’’ مالم تقع منافیۃ لمن ھو اوثق؛ فان خولفَ بارجحَ، فالراجعُ ‘‘المحفوظ’’، و مقابلہُ ‘‘الشاذ’’، و مع الضعفِ، فالراجع ‘‘المعروف’’ و مقابلہُ ‘‘المنکر’’۔ ثم المقبولُ: ان کان سلِم من المعارضہ فھو ‘‘المحکم’’، و ان عورضَ بمثلہ: فان امکن الجمعُ فھو ‘‘مختلف الحدیث’’، او ثبت المتاخرُ فھو ‘‘الناسخ’’، و الآخرُ ‘‘المنسوخ’’ والا فالترجیح، ثم ‘‘التوقف’’۔ ثم المردود: اما ان یکون لسقط، او طعن، فالسقط: اما ان یکون من مبادی السند، من مصنف، او من آخرہ، بعد التابعی، او غیر ذالک، فالاول: ‘‘معلق’’، والثانی: ‘‘المرسل’’۔
ترجمہ: اور ان (اخبار احاد) میں مقبول بھی ہیں اور مردود بھی، اس لئے کہ اس (خبر واحد) سے استدلال اس کے راویوں کے احوال پر بحث و تمحیص اور ان کی تحقیق و تفتیش پر موقوف ہے بخلاف اول کے (یعنی خبر متواتر سے استدلال روات کے احوال کی تحقیق و تنقیح پر مبنی نہیں ہے)۔ اور قول مختار یہی ہے کہ کبھی ان (اخبار احاد) میں ایسا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے جو علم (یقینی) نظری کا فائدہ دیتا ہے۔ پھر ‘‘غرابت(یعنی راوی کا تنہا ہونا)’’ یا تو سند کے آغاز میں پائی جائے گی(یعنی روایت کی شروعات جس صحابی سے ہو رہی ہے وہی غریب ہے)، یا اس کے برعکس ہوگا (یعنی نیچے کی جانب سب سے آخری راوی غریب ہوگا) پس اول الذکر ‘‘فرد مطلق’’ کہا جائے گا اور ثانی الذکر ‘‘فرد نسبی’’ کہلائے گالیکن اس پر تفرد کا اطلاق شاذ و نادر ہی ہے۔ اور صحیح لذاتہ (حدیث)وہ خبر آحاد ہیں جن کے نقل کرنے والے راوی عادل ہوں، جن کی یاد داشت اور مادہ ضبط قوی اور پختہ ہو، جس کی سند متصل ہو (یعنی جس میں کوئی راوی سلسلہ سند سے ساقط نہ ہوا ہو) اور جو غیر معلل (یعنی اس کے راوی کو کوئی وہم یا شبہ نہ ہوا) ہو اور نہ ہی شاذ (یعنی ثقہ راوی کی روایت اس سے زیادہ ثقہ [اوثق] راوی کی روایت کے خلاف نہ) ہو۔ اور اس (صحیح لذاتہ) کے مراتب میں ان اوصاف (مذکورہ) کے متفاوت ہونے کی وجہ سے تفاوت پید اہو جاتا ہے۔ اور مراتب مذکورہ میں تفاوت کی بنا پر ہی صحیح بخاری اور اس کے بعد صحیح مسلم اور ان دونوں کی شرطیں مقدم کی گئی ہیں۔ لہٰذا، اگر (حدیثوں کو محفوظ کرنے میں کسی راوی کا) مادہ ضبط کمزور ہو تو (وہ حدیث) حسن لذاتہ ہوگی اور اسناد کی کثرت کی وجہ سے بھی (حدیث) صحیح قرار دی جاتی ہے۔ جب تک ثقہ راوی کی زیادتی اس سے اوثق راوی کے بیان کے منافی نہ ہو ان دونوں (یعنی حدیث حسن اور صحیح کے راویوں) کی زیادتی قبول کی جائے گی۔ لہٰذا، اگر ارجح (یعنی اوثق راوی کی روایت ) ثقہ راوی کے خلاف ہو گئی تو راجح (یعنی اوثق راوی کی) روایت ‘‘محفوظ’’ کہلائے گی اور اس کے مقابل میں پیش کی جانے والی روایت ‘‘شاذ’’ قرار پائے گی۔ اور اگر ارجح (یعنی اوثق راوی کی روایت ) میں کوئی ضعف ہے تو اسے ‘‘معروف’’ کہا جائے گا اور اس کے مقابل میں پیش کی جانے والی روایت ‘‘منکر’’ ہو گی۔ پھر اگر حدیث مقبول کسی بھی قسم کے تعارض سے محفوظ ہوتو وہ (حدیث) ‘‘محکم’’ ہے، لیکن اگر حدیث مقبول کا تعارض اسی جیسی کسی دوسری حدیث سے ہو جائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ ان دونوں کو جمع کرنا (یعنی ان میں تطبیق پیدا کرنا) ممکن ہے یا نہیں ، اگر ممکن ہو تو وہ ‘‘مختلف الحدیث’’ کہلائے گی، ورنہ اگر پچھلی روایت ثابت ہو گئی تو وہ ‘‘ناسخ’’ ہو جائے گی اور دوسری ‘‘منسوخ’’۔ اور اگر یہ نہ ہو سکے تو دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جائے گی اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو سکے تو اس پر عمل کرنے میں توقف کیا جائے گا۔ پھر حدیثِ مردود یا تو سَقَط (یعنی اسناد میں کسی راوی کے چھوٹ جانے) کی وجہ سے ہوگی یا طَعَن کی وجہ سے ہوگی (یعنی اسناد میں کسی راوی کے اندر کوئی ایسی خرابی یا کوئی ایساعیب پائے جانے کی وجہ سے ہو جو قبول حدیث میں مانع بن جائے)۔ پھر سَقَط یا تو مصنف کے تصرف کی وجہ سے اسناد کے شروع میں ہی ہوگا یا تابعی کے بعد اسناد کے آخری حصے میں ہوگا۔ پس اولذکر حدیث ‘‘معلق’’ ہوگی اور آخر الذکر حدیث ‘‘مرسل’’ کہلائے گی۔
علوم الحدیث کی اس بنیادی متن کو بالتفصیل مثالوں کے ساتھ سمجھنے کے لئے قارئیں کی خدمت میں علامہ غلام رسول سعیدی کی شرح صحیح مسلم سے ذیل میں چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ملاحظہ ہو:
قوت اور ضعف کے اعتبار سے حدیث کی تقسیم :
خبرالاٰ حاد یعنی مشہور عزیز اور غریب کی قوت اور ضعف کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:
ا۔ مقبول’ یہ دوقسم ہے جس میں خبر کا صدق راحج ہوتا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے استدلال کرنا جائز ہے، اور اس کے مقتضیٰ پر عمل کرنا واجب ہے۔
ب۔ مردود’ یہ وہ قسم ہے جن میں خبر کا صدق راحج نہیں ہوتا، اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کے مقتضیٰ پر عمل کرنا واجب ہے ۔ مقبول اور مردود میں سے ہر ایک کی متعدد اقسام ہیں جن کا ذکر اب آرہا ہے۔
حدیث مقبول کا بیان
 حدیث مقبول کی حسب ذیل اقسام ہیں:
(۱) صحیح لذاتہ (۲) صحیح لغیرہ (۳) حسن لذاتہ (۴) حسن لغیرہ ۔
لعنت میں صحیح تندرست یعنی بیمار کی ضد کو کہتے ہیں اور اس کا اصطلاحی معنی حسب ذیل ہے۔ علامہ نوری نے حدیث صحیح لذاتہ کی تعریف کی ہے:۔
ترجمہ: جس حدیث کی سند متصل ہو اور اس کے راوی عادل اور تام الضبط ہوں وہ حدیث غیر شاذ اور غیر معلل ہو۔
صحیح حدیث کی تعریف میں مندرجہ ذیل امور کا اعتبار ہے:
اتصال سند:۔ اس کا معنی یہ ہے کہ سند حدیث کے ہر راوی نے اس حدیث کو اپنے شیخ سے بلاواسطہ حاصل کیا ہو اور ابتداد سے انتہا ء تک درمیان میں کوئی راوی چھوٹا ہوا نہ ہو۔
عدالت روات:۔ یعنی سند حدیث کا ہر راوی مسلم بالغ عاقل ، صادق صالح غیر مبتدع اور غیر فاسق ہو۔
ضبط روات:۔ یعنی سند حدیث کے ہر راوی کو کامل ضبط صدر یا کا مل ضبط کتاب حاصل ہو، جس وقت وہ حدیث کوسنے یا حدیث کو بیان کرے تو اس میں تساہل اور غفلت نہ کرے۔
عدم شذوذ :۔ یعنی اس کی روایت شاذ نہ ہو، اور شذوذ یہ ہے کہ ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کرے، مثلاً ثقہ کی حدیث میں اوثق کی حدیث سے کوئی لفظ زیادہ ہو تو اس زیادتی کو شاذ کہیں گے او راس کی روایت بھی شاذ کہلائے گی۔
عدم علّت :۔ یعنی اس حدیث میں علّت خفیہ قادحہ نہ ہو مثلاً ثوربن یزید کے تمام شاگردوں نے کاتب مغیرہ بن شعبہ سے اس حدیث کو مرسلاً بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں کے اوپر او رنیچے دونوں حصوں میں مسح کیا اور ولیدبن مسلم نے اس کو ثوربن یزید سے متصلاً بیان کیا ۔( جامع ترمذی ص ۴۰) اس لیے یہ حدیث دراصل مرسل ہے متصل نہیں ہے لیکن اس غلطی کو وہی شخص پکڑ سکتا ہے جس کو ثور بن یزید سے اس حدیث کے روایت کرنے والے تمام راویوں کی روایت پر اطلاع ہو ، اس لیے اس کو علت خفیہ کہتے ہیں ۔
حدیث صحیح کے مراتب
 حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں:
۱۔ جس حدیث پر صحیح بخاری و صحیح مسلم متفق ہوں ( یہ اعلیٰ درجہ کی صحیح حدیث ہے)
۲۔ جس کو صرف امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہو (اس سے تعلیقات خارج ہیں کیونکہ ان کا امام بخاری ذکر کرتے ہیں ، سند کے ساتھ روایت نہیں کرتے۔)
۳۔ جس حدیث کو صرف امام مسلم نے روایت کیا ہو۔
۴۔ جو حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر ہو لیکن انہوں نے اس کو روایت نہ کیا ہو۔
۵۔ جو حدیث صرف امام بخاری کی شرط پر ہو او رانہوں نے اس کااخراج نہ کیا ہو۔
۶۔ جو حدیث صرف امام مسلم کی شرط پر ہو او رانہوں نے اس کااخراج نہ کیا ہو۔
۷۔ جو حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر تو صحیح نہ ہو لیکن دوسرے أئمہ حدیث مثلاً امام ابن حبان اور امام ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہو ۔
حدیث صحیح لغیرہ کی تعریف :
اگر حدیث صحیح لذاتہ کی صفات میں سے ضبط روایت میں کچھ کمی ہو لیکن اس کمی کی تلافی تعدد اسانید سے ہو جائے تو پھر اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں ۔
اس کی مثال یہ ہے؛ امام ترمذی روایت کرتے ہیں:
ترجمہ: محمد بن عمر و ابی سلمہ سے وہ ابی ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے نزدیک امت پر یہ دشوار نہ ہوتا تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔
حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں:
جب حدیث کا راوی اہل حفظ اور اتقان کے درجہ سے متاخر ہو لیکن وہ صدق اور ستر ( عدالت) میں مشہور ہو اور اس کے باوجود اس کی حدیث متعدد اسانید سے مروی ہو تو اس کو دو وجہوں سے تقویت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ حسن کے درجہ سے ترقی کر کے صحیح کے ساتھ لاحق ہوجاتی ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ محمد بن عمر و نے ابی سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے نزدیک امت پر یہ دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ، اس کی سند میں محمد بن عمر و بن حلقہ صدق اور عفت ہیں تو مشہور ہے لیکن یہ اہل ضبط واتقان میں سے نہیں ہے حتی کہ بعض نے اس کو اس کے بدحافظہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے اور بعض ائمہ نے اس کے صدق اور اس کی جلالت کی وجہ سے اس کی توثیق کی ہے، پس اس وجہ سے اس کی حدیث حسن ہے اور جب اس کے ساتھ یہ وجہ بھی لاحق ہوگئی کہ وہ حدیث ایک اور سند سے بھی مروی ہے تو اس کے بدحافظہ ہونے کی وجہ سے ہم کو اس حدیث کی صحت پر جو خدشہ تھا وہ زائل ہوگیا اور اس نقصان کی تلافی ہوگئی اوریہ سند صحیح ہوگئی اور صحیح کے ساتھ لاحق ہوگئی۔
اس حدیث کی دوسری سندوں کے متعلق امام ترمذی لکھتے ہیں:
یہ حدیث از محمد بن اسحاق از محمد بن ابراہیم از ابی سلمہ از زید بن خالد از نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی روایت کی گئی ہے اور ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت زید خالد دونوں سے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور میرے نزدیک یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں کیونکہ یہ دونوں حدیثیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعدد اسانید کے ساتھ روایت کی گئی ہیں، البتہ امام بخاری نے از ابی سلمہ اززید بن خالد کی روایت کو زیادہ صحیح قرار دے کر اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔
امام بخاری نے از محمد بن عمر د از ابی سلمہ از ابوہریرہ کی روایت کواپنی صحیح میں ا س لئے درج نہیں کیا کہ محمد بن عمرو کامل الضبط والا تقان نہیں ہے اور وہ کامل الضبط والا تقان کی روایت کو درج کرتے ہیں۔
حدیث حسن لذتہ کی تعریف :
حسن کی لغوی معنی ہے جمال، اور اس کی اصطلاحی تعریف میں متعدد اقوال ہیں: حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں:
ترجمہ: جس حدیث کی سند میں راوی مستور ہوں، ان کی اہلیت متحقق نہ ہو، البتہ وہ اپنی روایت میں مغفل او رکثیر الخطا ء نہ ہو، یعنی حدیث میں اس کا عمداً جھوٹ بولنا ظاہر نہ ہو، اور نہ کسی وجہ اس میں فسق ہو، اس کے باوجود اس حدیث کامتن معروف ہو، باین طور کہ وہ حدیث انھی الفاظ کے ساتھ یا اس کے ہم معنی دوسرے الفاظ کے ساتھ کسی اور سند یا اسانید کے ساتھی بھی مروہی ہو، حتیٰ کہ اس حدیث کی اس کے متابع یا اس کے شاہد کے ساتھ اس کی تقویت ہو، حتیٰ کہ وہ حدیث شاذ یا منکر ہونے سے خارج ہوجائے۔
امام ترمذی لکھتے ہیں :
ترجمہ: ہر وہ حدیث جس کی سند میں ایسا راوی نہ ہو جو مہتم بالکذیب ہواور نہ وہ حدیث شاذ ہو ، اور وہ حدیث متعدد اسانید سے مروی ہو تو وہ حدیث ہمارے نزدیک حسن ہے
علامہ نووی لکھتے ہیں:
ترجمہ: علامہ خطابی نے کہا ہے کہ حدیث حسن وہ ہے جس کا مخرج معروف ہو اور جس کی سند مشہور ہو۔
علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
ترجمہ:علامہ طیبی نے کہا کہ جس راوی کا درجہ ثقہ کے قریب ہو اس کی متصل حدیث ہو، یا ثقہ راوی کی مرسل حدیث ہو، اور یہ دونوں متعدد اسانید سے مروی ہوں اور غیر شاذ اور غیر معلل ہوں تو یہ حدیث حسن ہے۔ اور یہ جامع اور منضبط تعریف ہے۔
ہمارے شیخ امام تقی الدین شمنی نے کہا ہے کہ حسن وہ حدیث متصل ہے جس کے عادل راوی کاضبط کم ہو، او روہ منکر الحدیث ہونے سے بری ہو اور اس کی حدیث شاذاو رمعلل نہ ہو۔
ترجمہ:بلقینی نے کہا حسن وہ حدیث ہے جو صحیح اور ضعیف کے درمیان متوسط ہو۔
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
ترجمہ:اگر حدیث صحیح کی تمام شرائط پائی جائیں صرف راوی کے ضبط میں کمی ہو تو وہ حدیث حسن لذاتہ ہے کیونکہ اس کا حسن کسی خارجی امر یعنی تعدد طرق روایت کی وجہ سے نہیں ہے۔
حدیث حسن لغیرہ کی تعریف :
کسی خارجی تعدد طرق روایت کی وجہ سے نہیں ہے۔ حدیث حسن لغیرہ در اصل حدیث ضعیف ہے جب وہ حدیث متعدد سندو ں سے مروی ہو۔
حافظ ابن عجرعسقلانی لکھتے ہیں:
ترجمہ:حدیث حسن لغیرہ وہ حدیث ہے جس کا حسن تقویت کی وجہ سے ہو مثلاً مستور الحال کی حدیث جب اس کی متعدد اسانید ہوں۔
اس کی مثال یہ ہے؛ امام ترمذی روایت کرتے ہیں:
ترجمہ:عاصم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عام بن ربیعہ سے سنا وہ اپنے والد عامر بن ربیعہ سے روایت کرتے ہیں کہ بنو فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتوں کے عوض نکاح کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے پوچھا کیا تم اپنے نفس اور مال کے بدلہ میں دو جوتوں کے معاوضہ پر راضی ہو؟ اس نے کہا ہاں! تو آپ نے اس نکاح کی اجازت دے دی، اس باب میں حضرت عمر، حضرت ابوہریرہ ، حضرت سہیل بن سعد،حضرت ابوسعید ، حضرت انس ، حضرت عائشہ، حضرت جابر اور حضرت ابوحدر اسلمی سے بھی حدیث مروی ہے۔ او رعامر بن ربیعہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
یہ حدیث چونکہ متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے اس لئے حسن لغیرہ ہے۔
امام ترمذی جب کسی حدیث کو حسن صحیح کہتے ہیں تو اس کی متعدد توجیہات ہیں۔
۱۔ یہ حدیث حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے۔
۲۔ یہ حدیث بعض سندوں کے اعتبار سے حسن اور بعض سندوں کے اعتبار سے صحیح ہے۔
۳۔ مصنف کو اس کے صحیح یا حسن ہونے میں تردد ہے۔
اس کی مزید توجیہات ہم نے تذکرۃ المحدیثین میں بیان کی ہیں، اس مقدمہ میں جامع ترمذی کی فنّی حیثیت میں ان کا ذکر کیا ہے۔
علامہ نودی لکھتے ہیں:
حدیث حسن جواز استدلال میں بمنزلہ صحیح ہے ،اگر چہ یہ قوت میں اس سے کم ہے،اسی وجہ سے ایک جماعت نے اس کو صحیح کی قسم میں درج کیا ہے،اور جب محدثین یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن الاسناد ہے یا صحیح الا سناد ہے تو ان کا یہ قول اس قول سے کم مرتبہ کا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا حسن ہے ،کیونکہ کبھی سند صحیح یا حسن ہوتی ہے اور متن اس طرح نہیں ہوتا کیونکہ اس میں کوئی شذو ذیا علت ہوتی ہے، اور جب کوئی مستند حافظ اس پر اقتصار کرے تو اس کامطلب ہے کہ وہ متن کی تصحیح یا تحسین کررہا ہے۔ اورامام ترمذی جو یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے تو اس کامطلب ہے اس کی دو سندیں ہیں ایک کا تقاضا صحت ہے اور دوسری کا حسن ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
جب امام ترمذی یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اس وقت یہ اشکال ہوتاہے کہ حدیث حسن وہ ہوتی ہے جو کئی سندوں سے مروی ہو اور غریب کی صرف ایک سند ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ امام ترمذی کے نزدیک حدیث حسن کئی سندوں سے مروی ہوتی ہے اور جمہور کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے اور جب امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے تو یہاں ان کا حسن کہنا جمہور کی اصطلاح پر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر حدیث صحیح کی صفات میں ہے صرف راوی کے ضبط میں کمی ہو اور اس کمی کی تلافی تعدد طرق روایت سے ہوجائے تو وہ حدیث صحیح لغیرہ ہے اور اگر تعدد طرق روایت سے اس کمی کی تلافی نہ ہوتو وہ حدیث حسن لذاتہ ہے اوراگر راوی میں ضبط کے علاوہ عدالت میں بھی کمی ہو اور اس کی تلافی تعدد اسانید سے ہوجائے تو یہ حدیث حسن لغیرہ ہے او راگر یہ کسی تعدد اسانید سے دور نہ ہوتو پھر یہ حدیث ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث حسن لذاتہ میں تعدد طرق روایت کی قید نہیں ہے لیکن حافظ ابن الصلاح او رامام ترمذی وغیرہ سے جو حدیث حسن کی تعریف منقول ہے اس میں یہ قید ہے۔
ملا علی قاری شرح نخبتہ الفکر کی شرح میں لکھتے ہیں :
ترجمہ: حدیث حسن لغیرہ اور حدیث صحیح لغیرہ دونوں کا تحقق کثرۃ طرق او راسانید سے ہوتا ہے ، مگر صحیح لغیرہ کے راوی کی عدالت ظاہر ہوتی ہے اور حدیث حسن لغیرہ کی عدالت مستور ہوتی ہے۔
اس کامطلب یہ ہے کہ حدیث حسن لذاتہ کی عدالت ظاہر ہوتی ہے اس کے صرف ضبط میں کمی ہوتی ہے اور تعدد طرق سے اس کی تلافی نہیں ہوتی، حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں اسی کی تصریح کی ہے، اور حدیث حسن لغیرہ میں ضبط میں کمی اور عدالت مستور ہوتی ہے او راس کی تلافی تعدد طرق سے ہوجاتی ہے۔
حدیث مردود کا بیان
حدیث مردو وہ حدیث ہے جس میں خبر کاصدق راحج نہ ہو، او راسکی وجہ خبر مقبول کی ایک یا ایک سے زائد شرائط کا فقدان ہے۔ علماء اصولِ حدیث نے خبر مردود کی چالیس سے زیادہ اقسام بیان کی ہیں اور ان میں سے اکثر کا مستقل نام رکھاہے، اور بعض اقسام کا کوئی مستقل نام نہیں ہے ان کو وہ صرف ایک عام نام ’’ ضعیف‘‘ کے ساتھ موسوم کرتے ہیں۔
حدیث کے مردود ہونے کے اسباب توبہت ہیں لیکن عام سبب دو ہیں (ا) سند سے کسی راوی کاسقوط (ب) راوی میں طعن اور ان دو سببو کے تحت متعدد اقسام ہیں۔
حدیث ضعیف کی تعریف
 لعنت کے اعتبار سے ضعیف قوی کی ضد ہے ، اور ضعیف حسی بھی ہوتا ہے او رمعنوی بھی ہوتاہے او ریہاں ضعف سے مراد معنوی ہے۔ اور حدیث ضعیف کی اصطلاحی تعریف یہ ہے؛
حافظ ابن الصلاح کہتے ہیں:
ہر وہ حدیث جس میں حدیث صحیح اور حدیث حسن کی ایک یا ایک سے زائد صفات نہ ہوں وہ حدیث ضعیف ہے، علامہ ابو حاتم بن حبان بستی نے اس کی انچالس اقسام بیان کی ہیں۔ (الی قولہ)حدیث ضعیف کی اقسام میں سے جو مشہور ہیں او ران کا معروف نام ہے وہ یہ ہیں، موضوع، مقلوب ، شاذ ، معلل ، مضطرب، مرسل، منتقطع ، اور معضل ۔
حدیث ضعیف کی مثال یہ حدیث ہے:
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، جس شخص نے حائضہ سے وطی کی ، یا کسی عورت کی دبر میں وطی کی یا جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا اس نے (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ (دین) کاانکار کیا۔
امام ترمذی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
ترجمہ:امام بخاری نے سند کے اعتبار سے اس حدیث کوضعیف قرار دیا ہے۔
پہلے ہم حدیث ضعیف کی وہ اقسام بیان کریں گے جو سند میں راوی کے سقوط کے اعتبار سے ہیں، پھر وہ اقسام بیان کریں گے جو راوی میں طعن کے اعتبار سے ہیں۔
سقوط راوی کے اعتبار سے حدیث ضعیف کی اقسام:
 اس سے مراو یہ ہے کہ راوی نے سلسلہ سند میں سے ایک یا ایک سے زیادہ راویوں کو عمداً یا غیر عمد ساقط کردیا ہو، سند کے اول سے ،آخر سے یا اثناء سند سے خواہ یہ سقوط ظاہر ہو یا خفی۔ظہور اور خفاء کے اعتبار سے سلسلہ سند سے راویوں کے سقوط کی دو قسمیں ہیں:
(۱) سقوط ظاہر : سقوط کی اس قسم کی معرفت میں ائمہ حدیث اور عام علماء حدیث دونوں مشترک ہیں، یہ سقوط راوی اور اس کے شیخ کے درمیان ملاقات نہ ہونے سے پہچانا جاتاہے، اس کا ایک سبب یہ ہے کہ راوی نے اپنے شیخ کا زمانہ نہیں پایا، دوسرا سبب یہ ہے کہ راوی نے اپنے شیخ کازمانہ تو پایا لیکن اس سے ملاقات نہیں کی(اور نہ راوی کوشیخ سے اجازت حاصل ہے، بایں طور کہ شیخ نے کہا ہو کہ میں نے اپنی روایات کی اپنے زمانہ والوں کو روایت کرنے کی اجازت دی، اور نہ اس کو شیخ سے دجاء ت حاصل ہو بایں طور کہ راوی اپنے شیخ کے خط کو پہچانتاہو اور اسے اس خط میں شیخ کی مرویات مل گئی ہوں۔)اس کو جاننے کے لیے راوی کی تاریخ جاننے کی ضرورت پیش آئے گی، جس سے اس کے پیدا ہونے،فوت ہونے،طلب علم کے اوقات اور سفر طلب علم کے اوقات کاپتا چلے گا۔
علماء حدیث نے سقوط ظاہر کے اعتبار سے حدیث کی چار قسمیں کی ہیں، (۱) معلق (۲) مرسل (۳) معضل (۴) منقطع۔
(ب) سقوط خفی: یہ وہ قسم ہے کہ سواء ان ماہر ائمہ کے جو طرق حدیث اور علل حدیث پر مطلع ہوتے ہیں اورکوئی ان کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا ،اس کی دو قسمیں ہیں مدلس اور مرسل خفی۔
حدیث معلق تعریف اور اس کا حکم : تعلیق کالغوی معنی ہے کسی چیز کو کسی چیز کے ساتھ لٹکا نا اورحدیث معلق چونکہ عالی جہت سے متصل اور سافل جہت سے منقطع ہوتی ہے تو یہ اس چیز کی طرح ہوگئی جوچھت سے لٹکی ہوئی ہو، اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
ترجمہ:جب مصنف کے تصرف سے سندکے اوّل سے راوی کو ساقط کردیا جائے تو وہ حدیث معلق ہے۔
حدیث معلق کی ایک صورت یہ ہے کہ پوری سند کو ساقط کردیا جائے مثلاً کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یا صحابی کے سوا تمام سند کو حذف کردیا جائے مثلاً حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یا تابعی اور صحابی کے سواتمام سندکو حذف کردیا جائے مثلاً نافع حضرت ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،۔
اس کی مثال یہ ہے؛ امام بخاری فرماتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین وہ ہے جس میں شرک سے اعراض ہو اور سہل ہو۔
ترجمہ:حضرت انس نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران سے کپڑا ہٹایا۔
ترجمہ:حضرت ابن عباس ،حضرت جرہد اور حضرت محمد بن جحش رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رانِ عورت ( واجب الستر) ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
حدیث معلق کو مردو د کی اقسام میں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جس راوی کو حذف کیا گیا ہے اس کاحال معلوم نہیں ہے، اور اگر اس راوی کاکسی اور سند میں مذکور ہونامعلوم ہوجائے ( اور وہ ثقہ ہو) تو اس حدیث پر صحت کاحکم لگایا جاتا ہے اور اگر مصنف یہ کہے کہ میں نے جن تمام راویوں کو حذف کیا ہے وہ سب ثقہ ہیں تو یہ تعدیل علی الابہام ہے۔ او رجمہور کے نزدیک یہ حدیث اس وقت تک مقبول نہیں ہے جب تک کہ اس راوی کا ذکر نہ کیا جائے۔ لیکن حافظ ابن الصلاح نے یہ کہا ہے کہ اگر وہ کسی ایسی کتاب کی حدیث کی سند میں محذوف ہو جس کے مصنف نے صحت کاالتزام کرلیا ہو، جیسے امام بخاری اور امام مسلم تو اس حدیث کو مصنف جب جزم کے ساتھ ذکر کرے گا (مثلاً ذکر ابن عباس ، یا روی فلان ، یا قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم )تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کی سند اس کے نزدیک ثابت ہے ، اور اس نے کسی غرض ( مثلاً اقتصار یا تکرار سے بچنے) کی وجہ سے سند کو حذف کردیا ہے اور جس حدیث کو بغیر جزم کے ذکر کیا ہے ( مثلاً صیغہ مجہول کے ساتھ یذکر یا یروی لکھاہے) تو اس میں بحث کی گنجائش ہے۔
تحقیق یہ ہے کہ صحیح بخاری کی تعلیقات میں احادیث ضعیفہ بھی ہیں اور بعض احادیث بہت شدید ضعیف ہیں۔
حدیث مرسل کی تعریف اور اس کا حکم:
 لغت میں ارسل کامعنی ہے اطلق ، یعنی کسی چیز کو بغیر قید کے بیان کرنا۔ اور اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
جس حدیث کی سند کے آخر میں تابعی کے بعد راوی ( صحابی) کو حذف کردیا جائے وہ مرسل ہے اس کی صورت یہ ہے کہ تابعی کہے عام ازیں کہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یایہ کام کیا، یا آپ کے سامنے یہ کام کیا گیا ۔
اس کی مثال یہ ہے؛ امام مسلم روایت کرتے ہیں:
ترجمہ:سعید بن المسیب (یہ تابعی ہیں) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزانبہ سے منع فرمایا ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
حدیث مرسل کو مردود کی اقسام میں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جو راوی محذوف ہے اس کے حال کاعلم نہیں ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ ضعیف ہو او ریہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ثقہ ہو، پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس محذوف تابعی نے صحابی سے وہ حدیث سنی ہو یا کسی اور تابعی سے سنی ہو اور اس تابعی میں پھر ضعف اور ثقاہت کے دونوں احتمال ہیں اور دوسرے محذوف تابعی نے ہوسکتا ہے کسی اور تیسرے تابعی سے سناہو اور اس نے چوتھے تابعی سے سناہو عقلاً تو تابعین کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا ،لیکن استقراء سے یہ صورت چھ یا سات تابعین تک پائی گئی ہے۔
حدیث مرسل کو قبول کرنے میں مذاہب ائمہ؛
 حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
اگر کسی تابعی کی یہ عادت معروف ہو کہ وہ صرف ثقہ راوی کو چھوڑتا ہو تو جمہور محدثین پھر بھی توقف کرتے ہیں (کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ راوی اس کے نزدیک ثقہ ہو اور فی نفسہ نہ ہو۔) امام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے۔ فقہا ء مالکیہ ، فقہا ءاحناف اور امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ حدیث مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے۔ اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند سے اس کی تائید ہوجائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں ، خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل ۔ اور امام ابوبکر رازی حنفی اور امام ابوالولید باجی مالکی یہ کہتے ہیں کہ اگر راوی ثقہ وغیر ثقہ دونوں کو چھوڑتا ہو تو اس کی حدیث اتفاقاً مقبول نہیں ہے۔
حدیث مرسل کی فنی حیثیت
 علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جو حدیث قرون ثلٰثہ کی مرسل ہو وہ فقہا ء احناف کے نزدیک مقبول ہے ورنہ نہیں، کیونکہ حدیث میں ہے ‘‘ پھر کذب عام ہوجائے گا’’ ۔ اس حدیث کو امام نسائی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ اور امام ابن جریر نے یہ کہا ہے کہ تمام تابعین کا اس پر اجماع ہے کہ حدیث مرسل مقبول ہوتی ہے اور ان میں سے کسی کا اس سے انکار منقول نہیں ہے، اور ان کے بعد دو سوسال تک ائمہ میں سے کسی کا انکار منقول نہیں ہے، حافظ عبدالبر نے یہ کہا کہ امام شافعی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے حدیث مرسل کو مسترد کیا ہے اور بعض ائمہ نے تو حدیث مرسل کو مسند (متصل) پر بھی ترجیح دی ہے انہوں نے کہا جب کوئی راوی پوری حدیث بیان کر دیتا ہے تو وہ اس کی تحقیق کو تم پر چھوڑ دیتا ہے اور جب وہ حدیث کے کسی راوی کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کی صحت اور ثقاہت کاضامن ہوجاتا ہے (یعنی اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے اس کا میں ضامن ہوں اور سند میں باقی جو راوی میں نے ذکر کیے ہیں ان کی چھان بین تم خود کرلو)۔
نیز علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
امام حاکم نے علوم الحدیث میں لکھا ہے کہ اہل مدینہ سعید بن مسیب سے مراسیل کی روایت کرتے ہیں اوراہل مکہ عطا بن ابی رباح سے مراسیل کی روایت کرتے ہیں اوراہل بصرہ حسن بصری سے اور اہل کوفہ ابراہیم بن یزید نخعی سے اور اہل مصر سعید بن ابی ہلال سے اور اہل شام مکحول سے ، ان میں سے زیادہ صحیح مراسیل ابن المسیب کی ہیں، ابن معین نے بھی یہی کہا ہے کیونکہ وہ اولاد صحابہ میں سے ہیں اور انہوں نے عشرہ مبشرہ کو پایا ہے اور وہ اہل حجاز کے فقیہ اور مفتی تھے، او روہ ان سات فقہاء میں سے سب سے پہلے ہیں جن کے اجماع کو امام مالک نے تمام لوگوں کا اجماع قرار دیا ہے ،ائمہ متقدمین نے سعید بن مسیب کو مراسیل کی چھان بین کی تو ان سب کی سند صحیح تھی اور دوسروں کی مراسیل میں یہ شرائط نہیں پائی جاتیں ، کتاب اور سنت میں حدیث مرسل کی عدم حجیت پر دلیل نہیں ہے۔
امام حاکم نے صرف ابن مسیب کی مرسلات سے بحث کی ہے ہم باقی مرسلات پر بھی گفتگوکرتے ہیں، عطا بن ابی رباح کی مرسلات کے متعلق ابن مدینی نے کہا ہے کہ عطاء ہر قسم کی روایات لے لیتے ہیں او ر مجاہد کی مرسلات میرے نزدیک ان سے کئی درجہ بہتر ہیں ، امام احمد بن حنبل نے کہاکہ سعید بن مسیب کی مرسلات سب سے بہتر ہیں ، اور ابراہیم نخعی کی مرسلات میں بھی کوئی حرج نہیں ہے او رحسن بصری اور عطا بن ابی رباح کی مرسلات سب سے سے زیادہ ضعیف ہیں کیونکہ وہ ہر ایک سے روایات لے لیتے ہیں اور ابن مدینی نے کہا ہے کہ حسن بصری کی مرسلات جو ثقات سے مروی ہیں وہ صحیح ہیں، ان میں سے بہت کم کوئی روایت ساقط کی گئی ہے ، امام ابوزرعہ نے کہا ہر جس روایت میں حسن بصری نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، مجھے اس کی کسی نہ کسی اصل کا ثبوت مل گیا ماسوا چار روایتوں کے ، اور یحییٰ بن سعید قطان نے کہا ایک دو حدیثوں کے سوا جس حدیث میں حسن بصری نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی مجھے اصل مل گئی۔
شیخ الاسلام نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ جس حدیث کے متعلق حسن نے صیغہ جزم استعمال کیا ہو، ایک شخص نے حسن سے کہا: آپ ہم سے حدیث بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کاش آپ ہمیں درمیان کے راوی بیان کرکے حدیث کو متصل بیان کردیا کریں؟ حسن نے کہا، ہم جھوٹ بولتے ہیں او رنہ ہم سے کوئی جھوٹ بولتاہے ، ہم نے خراسان میں جہاد کیا او رہمارے ساتھ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تین سو اصحاب تھے، اوریونس بن عبید نے حسن سے کہا آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حالانکہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں پایا ؟ حسن نے کہا اے بھتیجے ، تم کو معلوم ہے کہ یہ کون سازمانہ ہے (یہ حجاج کازمانہ تھا) ہر وہ حدیث جس میں تم نے مجھ سے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ حدیث دراصل حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، لیکن میں اس دور میں ہوں جس میں حضرت علی کا نام لینے کی ہمت نہیں کرتا ، اور محمد بن سعید نے کہا حسن کی ہر سند ( جس میں راوی سے سماع کی تصریح ہو) حجت ہے، اور مرسل حدیث حجت نہیں ہے۔
نیز علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
یہ تمام بحث مرسل صحابی کے غیر میں ہے ،لیکن جو حدیث مرسل صحابی ہے مثلاً صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ایسے قول یا فعل کی خبر دی ہے جس کے بارے میں یہ متحقق ہوچکا ہے کہ وہ صحابی اپنے صغر سن یا تاخر اسلام کی وجہ سے اس وقت حاضر نہیں تھا تب بھی مذہب صحیح کی بنا پر اس حدیث کی صحت کاحکم لگایا جائے گا اس پر تمام ائمہ او رمحدثین کا قطعی اتفاق ہے ، خصوصاً ان کا بھی جو حدیث مرسل کو قبول نہیں کرتے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایسی بہ کثرت احادیث ہیں کیونکہ وہ صحابہ دوسرے صحابہ سے روایت کرتے ہیں اور تمام صحابہ عادل ہیں ، اور ایسا بہت کم ہے کہ انہوں نے غیر صحابی سے روایت کی ہو، اور جب وہ غیر صحابہ سے روایت کرتے ہیں تو اس کا بیان کردیتے ہیں ، اور صحابہ نے جو تابعین سے احادیث روایت کی ہیں تو وہ ان کا بیان کردیتے ہیں اور وہ احادیث مرفوعہ نہیں ہیں بلکہ اسرائیلیات یا حکایات ہیں یا موقوفات ہیں ۔
حدیث مرسل کے مقبول ہونے پر فقہاء احناف کے دلائل
 ملاّ علی قادری حنفی لکھتے ہیں:
امام ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل کے قبول کرنے پر تمام تابعین کا اجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں ہے اور نہ اس کے بعد دو سو سال تک ائمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہی قرون فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت دی ہے، اور بعض علماء نے تو حدیث مرسل کو حدیث مسند (جس کی پوری سندمذکور ہو) پر ترجیح دی ہے اور اس کی یہ دلیل دی ہے کہ جس شخص نے پوری سند ذکر کردی اس نے اس کی تحقیق تمہارے حوالے کردی اور جس نے حدیث مرسل ذکر کی وہ اس چھوڑے ہوئے راوی کی تحقیق کا خود ضامن ہوگیا۔
علامہ سندی لکھتے ہیں:
شرح نخبتہ الفکر میں علامہ عسقلانی کی عبارت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ امام مالک فقہاء احناف اور امام احمد کے ایک قول کے مطابق حدیث مرسل مقبول ہے اور یہ تابعی کی مرسل ہے اور فی الواقع احناف کے نزدیک اس طرح نہیں ہے کیونکہ توضیح میں لکھا ہے کہ صحابہ کی مرسل حدیث با لا جماع مقبول ہے اور اس کو سماع پر محمول کیا جائے گا، اور قرن ثانی اور قرن ثالث کی احادیث کو امام شافعی رحمۃ اللہ قبول نہیں کرتے ،الاّ یہ کہ کسی دوسری سند سے اس کا اتصال ثابت ہوجائے جیسے سعید بن مسیب کی مراسیل ہیں، امام شافعی نے کہا میں نے ان مراسیل کی ایسی مکمل اسانید دیکھی ہیں جن میں راوی کی صفات مجہول تھیں ، اور اس سبب سے ان کی روایت صحیح ہے، اورہمارے اور امام مالک کے نزدیک حدیث مرسل مقبول ہے اور وہ مسند پر مقدم ہے کیونک راوی نے صحابہ کو چھوڑا ہے اور معروف یہ ہے کہ جب محدث کے نزدیک معاملہ واضح ہوتا ہے تو سند کو حذف کر دیتا ہے اور جب اس کے نزدیک معاملہ واضح نہیں ہوتا تووہ اس کو دوسروں کے اوپر چھوڑدیتا ہے،اور راوی کے مجہول ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ جب مرسل ثقہ ہے تو وہ اس سے سکوت کرنے والے کی غفلت سے متہم نہیں ہوگا،کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر محدث یہ کہے کہ مجھے ثقہ نے حدیث بیان کی ہے تو اس کی حدیث جہل کے باوجود مقبول ہوتی ہے، تو اگر محدث کسی راوی کو ترک کردے تو اس کی حدیث کیوں قبول نہیں ہوگی!
(بحوالہ: شرح صحیح مسلم مصنفہ غلام رسول سعیدی۔ جلد ۱۔ صفحہ۱۰۳ تا ۱۲۰۔ ناشر فاروقیہ بک ڈپو)
مصادر و مراجع:
نخبۃ الفکر
شرح نخبۃ الفکر للعسقلانی
میزان الاعتدال
تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي للسیوطی
علوم الحدیث لابن الصلاح
النکت علی کتاب ابن الصلاح
تہذیب التہذیب
تقریب التہذیب
التقیید و الایضاح
فتح المغیث
المدخل فی اصول الحدیث
شرح صحیح مسلم


No comments:

Post a Comment