مصباح
الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
18
جنوری 2019
آج
اکیسویں صدی میں اگر علم کی ضرورت اور اہمیت پر کچھ کہا یا لکھا جائے تو اس میں
کوئی نئی بات نہیں، کیوں کہ تاریخ انسانی میں یہ دور اور اس کے بعد آنے والے مختلف
ادوار علم اور سائنسی ترقی کے حوالے سے ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے۔ کچھ اہل علم و
نظر یہ مانتے ہیں کہ آج علم و تحقیقی اپنی معراج کو پہنچ چکی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے
کہ آئے دن نئی نئی سائنسی ایجادات ہماری زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ لیکن راقم
کی نظر میں یہ رائے درست نہیں ہے، کیوں کہ ‘‘ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں’’،
اور انسان اب اس سے بھی آگے کی پراوز کے لئے تیار ہو چکا ہے۔ ماضی میں جو انسان
اپنے صرف دو بازؤں کا سہارا لیکر اپنی زندگی کی نَیّا پار لگاتا تھا آج وہی انسان
ایک چھوٹی سی سائنسی ایجاد موبائل فون کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں کر سکتا۔
ایک
لمحہ فکریہ
یہ
کافی افسوس کا مقام ہے کہ علم و تحقیق کی اتنی ترقی اور توسیع کے دور میں بھی
مسلمانوں کا شمار تعلیمی طور پر پسماندہ طبقے میں ہی کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک
نہیں کہ آج مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے پیچھے وجہ ان کا معاشی، اقتصادی اور
سیاسی طور پچھڑے پن کا شکار ہونا ہے، لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ
بحیثیت ایک قوم کے تعلیمی طور پر پسماندگی کا شکار ہونے میں خود مسلمانوں کی
کوتاہی اور غفلت کا بھی بڑا دخل ہے۔ آج اگر کوئی مسلمان اپنے بچے کو پڑھا لکھا کر
کامیاب بناتا ہے اور اللہ کا فضل بھی شامل حال ہوتو وہ مالدار بھی بن جاتا ہے، تو
بالعموم دیکھا یہی گیا ہے کہ وہ مالداری اور عیش و عشرت کی دنیا میں ایسا کھو جاتا
ہے کہ اسے اپنے ہی قوم کے وہ غریب و نادار اور مفلس و قلاش لوگ نظر نہیں آتے جو
غربت اور تنگدستی کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔
انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے ایک قوم کی حیثیت سے
وہ تبھی اس دنیا میں عزت و سرخروئی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں جب ان کی قوم کا ایک
ایک بچہ تعلیم یافتہ اور کامیاب و کامران ہو، ورنہ دنیا یہی کہے گی کہ ‘‘یہ دیکھو
ایک جاہل قوم کا تعلیم یافتہ فرد جا رہا ہے’’، یا ‘‘تم مفلس قوم کے ایک مالدار فرد
ہو’’۔ انہیں تب بھی غربت و جہالت کا طعنہ دیا جائے گا۔ لہٰذا، ہمیں دینی اور
دنیاوی نجات اور فلاح و بہبود تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب ہماری قوم کا ایک ایک فرد تعلیم
و تعلم کے میدان میں جد و جہد کرے۔
صورتحال
اتنی سنگین ہے کہ جو قوم کے مالدار ہیں وہ عیش و عشرت کی زندگی ترک کر کےاپنی مال
کا ایک معتد بہ حصہ تعلیمی منصوبوں پر خرچ کریں۔ اپنی قوم کے ان پسماندہ لوگوں پر
اپنا مال خرچ کریں جو قلت مال کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے عاجز ہیں۔ جو تعلیم
یافتہ افراد مال نہیں خرچ کر سکتے لیکن اپنی قوم کے دوسرے افراد کی تعلیم و تعلم
کے لئے وقت نکال سکتے ہیں وہ اپنا وقت انکی تعلیم و تعلم پر صرف کریں۔ اور جو
دوسروں کی تعلیم و تعلم پر دونوں خرچ کر سکتے ہیں وہ دونوں خرچ کریں۔ بہر صورت اب
مسلمان اس بات کے متحمل نہیں رہے کہ وہ اپنی اور اپنی قوم کے ایک ایک فرد کی تعلیم
و تعلم کے لئے کوشش ، محنت اور جد و جہد سے اپنا دامن بچا کر چین کی سانس لے سکیں۔
تعلیم
و تعلم کی سماجی اور مذہبی تحریک
مسلمانوں
کے سماجی حالات کا تو ایسے ہیں ہی کہ اب بحیثیت قوم مسلمانوں کو اپنی بقاء کے لئے تعلیم
و تعلم کو اپنا شعار زندگی بنانا ناگزیر ہو چکاہے، لیکن مسلمانوں کو ان کا مذہب
بھی علم حاصل کرنے ، علم سیکھنے اور سکھانے کی اس قدر حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ اس
کی نذیر فی الوقت دنیا کے کسی بھی زندہ مذہب میں نہیں ملتی۔
قرآن
مقدس میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
قُلْ
هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا
يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (39:9)
ترجمہ:
فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر
ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔ (عرفان القرآن)
محترم
قارئین! ابھی آپ نے ملاحظہ کیا کہ کس پرزور انداز میں اللہ نے ایک اہل علم اور ایک
لاعلم کے درمیان خط فاصل کھینچا ہے اور فرمایا ہے کہ کسی بھی صورت اہل علم اور
لاعلم برابر نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ ہدایت کا حصول اور ابدی نجات کا راستہ علم سے
ہی ہو کر گزرتا ہے۔ اور جو علم سے عاری ہو وہ نہ تو ہدایت حاصل کر سکتا ہے اور نہ
ہی نجات کا حقدار بن سکتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اللہ جسے چاہے محض اپنے فضل و
کرم سے کسی کو بھی ہدایت اور ابدی نجات کا پروانہ عطا کر دے، لیکن یہ محض اس کے
فضل و کرم پر موقوف ہے، جبکہ نظام قدرت یہ ہے کہ بندہ ہدایت حاصل کرنے اور ابدی
نجات کا حقدار بننے کے لئے سب سے پہلے علم حاصل کرے اور اس پر عمل بھی کرے۔
حصول
علم کی فضیلتیں:
من سلک
طریقاً یطلب بہ علماً سھّل اللہُ لہ طریقا من طُرُق الجنۃ۔ و ان الملائکۃ لتضع
اجنحتھا لطالب العلم رضا بما یصنع و اِن العالم یستغفر لہ کل من فی السماوات و من
فی الارض و الحیتان فی جوف الماء واِن فضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلۃ
البدر علی سائر الکواکب واِن العلماء و رثۃ الانبیاءو اِن الانبیاء لم یورثوا
درھماً و لا دیناراً و اِنما ورثوا العلم؛ فمن اخذ فقد اخذ بحظ وافر۔ (مسند احمد ۔
ابوداؤد۔ ترمذی۔ ابن ماجہ)
ترجمہ
مع مفہوم
جو
شخص حصول علم کے لئے اپنے گھر سے نکل کر سفر کرتا ہے اللہ اس کے بدلے اپنے فضل سے
اس کے لئے جنت کے راستوں میں سے کوئی ایک راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ طلب علم کے
مقصد سے گھر سے نکلنے والوں کی راہ میں فرشتے ان کے عمل سے خوش ہو کر ان کے راستے
میں اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں۔ اور سن لو! زمین و آسمان اور دریا و سمندر میں
رہنے والی اللہ کی تمام مخلوقات علم رکھنے والے کے حق میں دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
اور ایک اہل علم کی فضیلت ہزاروں بکثرت عبادت گزاروں پر ایسی ہی ہےجیسے چودہویں
رات کا چاندتمام سیارگان فلک پر جگمگاتا ہےاور اس کی روشنی میں تمام ستاروں کی ضیاپاشیاں
ماند پڑ جاتی ہیں۔ اور حاملان علم ہی انبیاء کے وارث ہیں اس لئے کہ انبیاء اپنی
وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے بلکہ وہ اپنے بعد وراثت میں علم کا سرمایہ
دنیا میں چھڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا، جس نے علم حاصل کیا اس نے اللہ کی رحمت اور انبیاء
کی وراثت سے پھرپور حصہ لیا۔
No comments:
Post a Comment