The Story of the Prophetic Mission of Muhammad (pbuh) From the Qu’ran (Part 6) قرآنی نقطہ نظر سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تاریخ (حصہ 6): اہل کتاب اور جزیہ کا تصور
نصیر احمد، نیو ایج اسلام
17 اگست 2015
مضمون کے اس حصے میں قرآن کی رو سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور "اہل کتاب" کے درمیان تعلقات کی روایت اور ان حالات کا جائزہ لیا گیا ہےجن کی وجہ سے اللہ کے فیصلے کے طور پر سورہ توبہ میں جزیہ والی آیت 9:29 کا نزول اولین مسلمانوں کے حق میں ہوا۔ اس سورت کا نزول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے اختتامی مرحلے میں اس وقت ہوا جب جزیرہ عرب کے تمام علاقے اور تمام لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاسی کنٹرول کے تحت آ چکے تھے۔ مکہ میں اہل کتاب بہت تھوڑے تھے اور ان کے ساتھ سب پہلاحقیقی خطاب 622 عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ میں ہوا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل مدینہ کے حالات
عرب معاشرے قبائلی قوانین اور معیار کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے اور ہر شخص اپنے قبیلے کے لیے وفادار تھا اور قبیلہ کے ہر رکن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتا تھا۔ مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے درمیان کی ایک لڑائی آسانی کے ساتھ ایک مکمل قبائلی جنگ کی شکل اختیار کر لیتی تھی۔ کفار مدینہ کے بارہ اہم قبیلے تھے اور ان کے درمیان اکثر جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ 617 عیسوی میں خزرج اور اوس قبیلہ کے درمیان جنگ چل رہی تھی۔ خزرج نے جنگ میں غیر جانبداری کی ضمانت کے طور پر بنو قریضہ اور بنو نضیر کے عیسائی قبیلوں سے یرغمالیوں کا مطالبہ کیا۔ ان یرغمالیوں کو خزرج نے ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد بنو قریضہ اور بنو نضیر قبیلوں نے اوس کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور انہوں نے مل کر قبیلہ خزرج کو شکست سے ہمکنار کیا۔ باہمی شک، دھوکہ دہی اور غداری کے اس ماحول میں ایک غیر جانبدار ثالث کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہوئی جو ان تنازعات کافیصلہ انصاف کے ساتھ کرے اور قبائل کے درمیان امن کا قیام کر سکے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو اس قدر نیک نامی حاصل تھی کہ تمام اہل مکہ آپ کو امین کہتے تھے۔
مدینہ کے بارہ اہم قبیلوں کے نمائندوں پر مشتمل مدینہ سے ایک وفد نے مدینہ کے ایک غیر جانبدار بیرونی شخص کی حیثیت سے 621 عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کمیونٹی کے لئے چیف ثالث کے طور پر منتخب کیا۔ ان بارہ نمائندوں نے بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلام کی دعوت کو قبول کی اور ان تمام نے ایک عہد پر دستخط کیا جس میں انہوں نے قتل، زنا یا چوری سے بچنے اور اللہ کی اطاعت کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ عقبہ کے سب سے پہلے عہد کے نام سے مشہور ہے۔ مدینہ کے وفد اور ان کے شہریوں نے اپنی کمیونٹی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے اور جسمانی طور پر آپ کی حفاظت کرنے کا ایک عہد کیا۔ اس کے بعد عقبہ کا دوسرا معاہدہ ہوا جس میں 2 خواتین سمیت مدینہ کے 73 لوگوں نے عہد لیا۔
مدینہ کے لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے درمیان لانے کے زبردست مشتاق تھے ، جبکہ مکہ کے لوگوں نے مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ مکہ میں 615 عیسوی میں مسلمانوں پر کفار قریش کے ظلم و ستم کی انتہاء ہو گئی اور مسلمانوں کا ایک گروہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ پر حبشہ (جدید ایتھوپیا) کو روانہ ہو گیا اور وہاں پناہ لینے کی کوشش کی۔ 616 عیسوی میں ایک سو سے کچھ زیادہ لوگوں پر مشتمل ایک دوسرے گروپ ہجرت نے کیا۔ سال 617 میں ابوجہل کی قیادت میں قریش نے مسلمانوں اور ان کے حامیوں کو ایک خشک وادی میں نکال دیا اور ان کے ساتھ تجارت کرنے سے انکار کر دیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا کاروبار ختم ہو گیا اور مسلمانوں تقریبا تباہی کے دہانے پر تھے۔ کسی زمانے میں ایک امیر تاجر ابو بکر نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ 619 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد 620ء میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ اور چچا ابو طالب بھی اس دنیا سے چل بسے۔
ہجرت مدینہ
اس کے بعد مسلمانوں کو شمال مکہ کے یثرب نامی ایک شہر (جو کہ بعد میں مدینہ کے نام سے مشہور ہوا) میں پناہ کی پیشکش کی گئی۔ 622ء میں مسلمانوں کی یثرب منتقلی کو ہجرت کا نام دیا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنےکے لیے تمام مکی قبیلوں کی مشترکہ سازش کی خبر ملنے پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رات کے وقت میں ایک ساتھ مدینہ کو ہجرت کر گئے، جہاں اس شہر کے رہنماؤں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور تمام لوگوں نے بخوشی اسلام قبول کر لیا۔ اس ہجرت کا ذکر ایک ابتدائی مدنی سورہ انفال کی آیت 8:30 میں اور سورہ توبہ کی آیت 9:40 میں بھی ہے:
(8:30) اور جب کافر لوگ آپ کے خلاف خفیہ سازشیں کر رہے تھے کہ وہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو (وطن سے) نکال دیں، اور (اِدھر) وہ سازشی منصوبے بنا رہے تھے اور (اُدھر) اللہ (ان کے مکر کے ردّ کے لئے اپنی) تدبیر فرما رہا تھا، اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہے۔
(9:40) اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبۂ اسلام کی جد و جہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بیشک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جبکہ دونوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے فرما رہے تھے: غمزدہ نہ ہو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا، اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا ہی ہے، اور اللہ غالب، حکمت والا ہے۔
میثاق مدینہ
مدینہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باہمی دفاع اور تعاون کا معاہدہ قائم کا جسے "میثاق مدینہ" کا نام دیا گیا۔ اس میثاق میں مختلف مسلم (مہاجرین و انصار)، یہودی، کافر اور مدینہ میں عیسائی گروہوں کے درمیان ایک معاہدہ کیا گیا، اور ان تمام کو ‘‘امت وحیدہ’’ یا "ایک قوم" قرار دیا گیا، اور اس طرح مدینہ میں ایک کثیر مذہبی اسلامی ریاست کی بنیاد قائم کی گئی۔ یہ عرب معاشرے کے لیے ایک خالصتا قبائلی معاشرے سے ایک قوم کے تصور کی طرف بڑھنے کا آغاز تھا جس میں کوئی فرد کسی قبیلے کے ایک رکن کی حیثیت سے اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ایک فرد اپنی انفرادی صلاحیت کے مطابق ریاست کے سامنے ذمہ دار تھا۔
میثاق مدینہ کا مقصد تمام مدنی گروپوں کے درمیان امن اور تعاون کا قیام کرنا اور ایک سماجی اور سیاسی وجود یا ایک قوم کی تشکیل کرنا تھا۔ اس میثاق میں تمام شہریوں کے لئے مذہبی معتقدات و معمولات کی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس میں غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ گفت و شنید، بیرونی حملوں سے مدینہ کے دفاع جیسے اس "نئی قوم" سے متعلق تمام اہم معاملات میں تمام متعلقہ جماعتوں کی شرکت کو یقینی بنایا گیا تھا۔ اس میثاق کے ذریعہ خواتین کی سلامتی، تنازعات کے اوقات میں کمیونٹی کی حمایت کے لئے ٹیکس کا نظام اور تنازعات کو حل کرنے کے لئے ایک عدالتی نظام بھی قائم کیا گیا۔ اس میثاق میں مدینہ کو حرمت والا شہر یا "مقدس مقام" قرار دے دیا گیا تھا جہاں نہ تو کوئی ہتھیار لے جایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کا خون بہایا جا سکتا ہے۔
میثاق مدینہ کے تحت غیر مسلموں کے حقوق:
میثاق مدینہ کے تحت غیر مسلموں کے حقوق حسب ذیل تھے:
1۔ بیرونی دشمنوں سے ان زندگی اور تحفظ کی ضمانت۔
2۔ مساوی سیاسی اور ثقافتی حقوق اور مذہبی آزادی۔
ذمہ داریاں
بیرونی دشمنوں کے خلاف لڑنا اور جنگ کے اخراجات میں شریک ہونا.........
اس میثاق میں مکہ والوں کی جانب سے حملے کی صورت میں مکہ کے مسلمانوں سے لڑنے یا ان کی مدد کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، بلکہ اس میں دوسروں کو مکہ کے مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ دینے یا کسی بھی انداز میں ان کے دشمن کی مدد سے روکا گیا تھا۔
مدینہ کی مختلف جماعتیں
اگر چہ مدینہ کے تمام قبیلوں کو اجتماری طور پر ایک ہی قوم قرار دیا گیا تھا لیکن ، مدینہ میں واضح طور پر حسب ذیل بڑی جماعتیں موجودتھیں:
1۔ مہاجرین مکہ
2۔ وہ کافر قبائل جو اب اسلام قبول کر چکے تھے اور جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دی تھی اور جنہوں نے مکہ کے تمام مہاجرین کی مدد کی تھی اور انہیں اپنے شہر میں پناہ دیا تھا جنہیں اب انصار کے نام سے جا نا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مذوکرہ بالا تمام جماعتوں کے مذہبی، روحانی اور سیاسی رہنما تھے، جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
(3:103) اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔
ان کے علاوہ مدینہ میں یہودی اور عیسائی بھی تھے جو بظاہر اس "امت وحیدہ" کا ایک حصہ نہیں بنے، لیکن ہو سکتا ہے کہ انہوں نے تذبذب کے عالم میں ‘‘میثاق مدینہ’’ پر دستخط کیا ہو ۔ جہاں تک ان گروپوں کا تعلق ہے، تو انہوں نے میثاق مدینہ پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے یک طرفہ اعلامیہ کی حیثیت سے اپنے عمل کو جاری رکھا جیسا کہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے:
"اہل کتاب" کے ساتھ ناہموار تعلقات
5|41|اے رسول! وہ لوگ آپ کور نجیدہ خاطر نہ کریں جو کفر میں تیزی (سے پیش قدمی) کرتے ہیں ان میں (ایک) وہ (منافق) ہیں جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور ان میں (دوسرے) یہودی ہیں، (یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے (آپ کو)خوب سنتے ہیں (یہ حقیقت میں) دوسرے لوگوں کے لئے (جاسوسی کی خاطر) سننے والے ہیں جو (ابھی تک) آپ کے پاس نہیں آئے، (یہ وہ لوگ ہیں) جو (اﷲ کے) کلمات کوان کے مواقع (مقرر ہونے) کے بعد (بھی) بدل دیتے ہیں (اور) کہتے ہیں: اگر تمہیں یہ (حکم جو ان کی پسند کا ہو) دیا جائے تو اسے اختیار کرلو اور اگر تمہیں یہ (حکم) نہ دیا جائے تو(اس سے) احتراز کرو، اور اﷲ جس شخص کی گمراہی کا ارادہ فرمالے تو تم اس کے لئے اﷲ (کے حکم کو روکنے) کا ہرگز کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنے کااﷲ نے ارادہ (ہی) نہیں فرمایا۔ ان کے لئے دنیا میں (کفر کی) ذلّت ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے،
5|42|یہ لوگ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے ہیں (مزید یہ کہ) حرام مال خوب کھانے والے ہیں۔ سو اگر (یہ لوگ) آپ کے پاس (کوئی نزاعی معاملہ لے کر) آئیں تو آپ (کو اختیار ہے کہ) ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں یا ان سے گریز فرما لیں، اور اگر آپ ان سے گریز (بھی) فرمالیں تو (تب بھی) یہ آپ کو ہرگز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے، اور اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی) عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (یعنی ان کی دشمنی عادلانہ فیصلے میں رکاوٹ نہ بنے)، بیشک اﷲ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے،
5|43|اور یہ لوگ آپ کو کیوں کر حاکم مان سکتے ہیں در آنحالیکہ ان کے پاس تورات (موجود) ہے جس میں اللہ کا حکم (مذکور) ہے، پھر یہ اس کے بعد (بھی حق سے) رُوگردانی کرتے ہیں، اور وہ لوگ (بالکل) ایمان لانے والے نہیں ہیں،
5|44|بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا، اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں،
5|45|اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے، تو جو شخص اس (قصاص) کو صدقہ (یعنی معاف) کر دے تو یہ اس (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہوگا، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں،
5|46|اور ہم نے ان (پیغمبروں) کے پیچھے ان (ہی) کے نقوشِ قدم پر عیسٰی ابن مریم (علیھما السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور (یہ انجیل بھی) اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والی (تھی) اور (سراسر) ہدایت تھی اور پرہیز گاروں کے لئے نصیحت تھی،
5|47|اور اہلِ انجیل کو (بھی) اس (حکم) کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں،
5|48|اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے،
5|49|اور (اے حبیب! ہم نے یہ حکم کیا ہے کہ) آپ ان کے درمیان اس (فرمان) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور آپ ان سے بچتے رہیں کہیں وہ آپ کو ان بعض (احکام) سے جو اللہ نے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں پھیر (نہ) دیں، پھر اگر وہ (آپ کے فیصلہ سے) روگردانی کریں تو آپ جان لیں کہ بس اﷲ ان کے بعض گناہوں کے باعث انہیں سزا دینا چاہتا ہے، اور لوگوں میں سے اکثر نافرمان (ہوتے) ہیں،
5|50|کیا یہ لوگ (زمانۂ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لئے حکم (دینے) میں اﷲ سے بہتر کون ہو سکتا ہے،
5|51|اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ یہ (سب تمہارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا،
5|52|سو آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں (نفاق اور ذہنوں میں غلامی کی) بیماری ہے کہ وہ ان (یہود و نصارٰی) میں (شامل ہونے کے لئے) دوڑتے ہیں، کہتے ہیں: ہمیں خوف ہے کہ ہم پر کوئی گردش (نہ) آجائے (یعنی ان کے ساتھ ملنے سے شاید ہمیں تحفظ مل جائے)، تو بعید نہیں کہ اﷲ (واقعۃً مسلمانوں کی) فتح لے آئے یا اپنی طرف سے کوئی امر (فتح و کامرانی کا نشان بنا کر بھیج دے) تو یہ لوگ اس (منافقانہ سوچ) پر جسے یہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں شرمندہ ہوکر رہ جائیں گے،
5|53|اور (اس وقت) ایمان والے یہ کہیں گے کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑے تاکیدی حلف (کی صورت) میں اﷲ کی قَسمیں کھائی تھیں کہ بیشک وہ ضرور تمہارے (ہی) ساتھ ہیں، (مگر) ان کے سارے اعمال اکارت گئے، سو وہ نقصان اٹھانے والے ہوگئے،
5|54|اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے،
5|55|بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں،
5|56|اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو (وہی اﷲ کی جماعت ہے اور) اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں،
5|57|اے ایمان والو! ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، ان کو جو تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنائے ہوئے ہیں اور کافروں کو دوست مت بناؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو بشرطیکہ تم (واقعی) صاحبِ ایمان ہو،
5|58|اور جب تم نماز کے لئے (لوگوں کو بصورتِ اذان) پکارتے ہو تو یہ (لوگ) اسے ہنسی اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو (بالکل) عقل ہی نہیں رکھتے،
5|59|اے نبئ مکرّم!) آپ فرما دیجئے: اے اہلِ کتاب! تمہیں ہماری کون سی بات بری لگی ہے بجز اس کے کہ ہم اﷲ پر اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور ان (کتابوں) پر جو پہلے نازل کی جا چکی ہیں ایمان لائے ہیں اور بیشک تمہارے اکثر لوگ نافرمان ہیں،
5|60|فرما دیجئے: کیا میں تمہیں اس شخص سے آگاہ کروں جو سزا کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک اس سے (بھی) برا ہے (جسے تم برا سمجھتے ہو، اور یہ وہ شخص ہی) جس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس پر غضب ناک ہوا ہے اور اس نے ان (برے لوگوں) میں سے (بعض کو) بندر اور (بعض کو) سؤر بنا دیا ہے، اور (یہ ایسا شخص ہے) جس نے شیطان کی (اطاعت و) پرستش کی ہے، یہی لوگ ٹھکانے کے اعتبار سے بدترین اور سیدھی راہ سے بہت ہی بھٹکے ہوئے ہیں،
5|61|اور جب وہ(منافق) تمہارے پاس آتے ہیں (تو) کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ (تمہاری مجلس میں) کفر کے ساتھ ہی داخل ہوئے اور اسی (کفر) کے ساتھ ہی نکل گئے، اور اﷲ ان (باتوں) کو خوب جانتا ہے جنہیں وہ چھپائے پھرتے ہیں،
5|62|اور آپ ان میں بکثرت ایسے لوگ دیکھیں گے جو گناہ اور ظلم اور اپنی حرام خوری میں بڑی تیزی سے کوشاں ہوتے ہیں۔ بیشک وہ جو کچھ کررہے ہیں بہت برا ہے،
5|63|انہیں (روحانی) درویش اور (دینی) علماء ان کے قولِ گناہ اور اکلِ حرام سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بیشک وہ (بھی برائی کے خلاف آواز بلند نہ کر کے) جو کچھ تیار کر رہے ہیں بہت برا ہے،
5|64|اور یہود کہتے ہیں کہ اﷲ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے (یعنی معاذ اﷲ وہ بخیل ہے)، ان کے (اپنے) ہاتھ باندھے جائیں اور جو کچھ انہوں نے کہا اس کے باعث ان پر لعنت کی گئی، بلکہ (حق یہ ہے کہ) اس کے دونوں ہاتھ (جود و سخا کے لئے) کشادہ ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ (یعنی بندوں پر عطائیں) فرماتا ہے، اور (اے حبیب!) جو (کتاب) آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقیناً ان میں سے اکثر لوگوں کو (حسداً) سر کشی اور کفر میں اور بڑھا دے گی، اور ہم نے ان کے درمیان روزِ قیامت تک عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، جب بھی یہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اﷲ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ (روئے) زمین میں فساد انگیزی کرتے رہتے ہیں، اور اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،
5|65|اور اگر اہلِ کتاب (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کر لیتے تو ہم ان (کے دامن) سے ان کے سارے گناہ مٹا دیتے اور انہیں یقیناً نعمت والی جنتوں میں داخل کردیتے،
5|66|اور اگر وہ لوگ تورات اور انجیل اور جو کچھ (مزید) ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا تھا (نافذ اور) قائم کردیتے تو (انہیں مالی وسائل کی اس قدر وسعت عطا ہوجاتی کہ) وہ اپنے اوپر سے (بھی) اور اپنے پاؤں کے نیچے سے (بھی) کھاتے (مگر رزق ختم نہ ہوتا)۔ ان میں سے ایک گروہ میانہ رَو (یعنی اعتدال پسند ہے)، اور ان میں سے اکثر لوگ جو کچھ کررہے ہیں نہایت ہی برا ہے،
5|67|اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بیشک اﷲ کافروں کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتا،
5|68|فرما دیجئے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو، اور (اے حبیب!) جو (کتاب) آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقیناً ان میں سے اکثر لوگوں کو (حسداً) سرکشی اور کفر میں بڑھا دے گی، سو آپ گروہِ کفار (کی حالت) پر افسوس نہ کیا کریں،
5|69|بیشک (خود کو) مسلمان (کہنے والے) اور یہودی اور صابی (یعنی ستارہ پرست) اور نصرانی جو بھی (سچے دل سے تعلیماتِ محمدی کے مطابق) اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے،
5|70|بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے عہد (بھی) لیا اور ہم نے ان کی طرف (بہت سے) پیغمبر (بھی) بھیجے، (مگر) جب بھی ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا حکم لایا جسے ان کے نفس نہیں چاہتے تھے تو انہوں نے (انبیاء کی) ایک جماعت کو جھٹلایا اور ایک کو (مسلسل) قتل کرتے رہے،
5|71|اور وہ (ساتھ) یہ خیال کرتے رہے کہ (انبیاء کے قتل و تکذیب سے) کوئی عذاب نہیں آئے گا، سو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے تھے۔ پھر اﷲ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، پھر ان میں سے اکثر لوگ (دوبارہ) اندھے اور بہرے (یعنی حق دیکھنے اور سننے سے قاصر) ہوگئے، اور اﷲ ان کاموں کو خوب دیکھ رہا ہے جو وہ کر رہے ہیں،
اہل کتاب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت
"اہل کتاب" کے ساتھ تعلقات واضح طور پر قبائلی خطوط پر ہی تھے جس کی صراحت اس امر سے ہوتی ہے کہ پورا قبیلہ ٹکڑوں میں اپنے ارکان کا دفاع کرتا تھا جس کا نتیجہ پورے قبیلے کو اس کے لیے سزا دئے جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔
ایسے قبائل کی مثال بنو قینوقہ، بنو نضیر اور بنو قریضہ ہیں، جنہیں "میثاق" کی سنگین خلاف ورزی کے لیے سزا دی گئی۔
ایک یہودی قبیلہ بنو نضیر کے خلاف یہ الزامات تھے:
1۔ انہوں نے کفار قریش کو بدر میں ان کے نقصان کے بعد احد میں جنگ کا بدلہ لینے کے لئے بھڑکایا
2۔ انہوں نے مذاکرات کی دعوت دیکر ایک حادثے کے انداز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی منصوبہ بندی کی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خوش قسمت تھے کہ ان کی اس سازش سے بال بال بچ گئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کا محاصرہ کیا۔ آپ نے انہیں ان کی املاک سے دست بردار ہونے اور دس دنوں کے اندر مدینہ چھوڑ کرنے بھاگ جانے کا حکم دیا۔ پہلے تو قبیلے نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے کا فیصلہ کیا، لیکن کچھ لوگوں نے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے نہ تھے، بنو نضیر کو ایک پیغام بھیجا کہ رک جاؤ اور اپنا دفاع کرو ہم تمہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے دیں گے، اگر تمہارے اوپر حملہ کیا جاتا ہے تو ہم تمہارےساتھ مل کر جنگ کریں گے گا اور اگر تمہیں مدینہ سے نکالا جاتا ہے تو ہم بھی تمہارےساتھ جائیں گے۔''
قرآن کی جن آیات میں اس واقعہ کا حوالہ موجود ہے وہ حسب ذیل ہیں:
59|1|جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، اور وہی غالب ہے حکمت والا ہے،
59|2|وہی ہے جس نے اُن کافر کتابیوں کو (یعنی بنو نضیر کو) پہلی جلاوطنی میں گھروں سے (جمع کر کے مدینہ سے شام کی طرف) نکال دیا۔ تمہیں یہ گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور انہیں یہ گمان تھا کہ اُن کے مضبوط قلعے انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچا لیں گے پھر اللہ (کے عذاب) نے اُن کو وہاں سے آلیا جہاں سے وہ گمان (بھی) نہ کرسکتے تھے اور اس (اللہ) نے اُن کے دلوں میں رعب و دبدبہ ڈال دیا وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور اہلِ ایمان کے ہاتھوں ویران کر رہے تھے۔ پس اے دیدۂ بینا والو! (اس سے) عبرت حاصل کرو،
59|3|اور اگر اللہ نے اُن کے حق میں جلا وطنی لکھ نہ دی ہوتی تو وہ انہیں دنیا میں (اور سخت) عذاب دیتا، اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) دوزخ کا عذاب ہے،
59|4|یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شدید عداوت کی (ان کا سرغنہ کعب بن اشرف بدنام گستاخِ رسول تھا)، اور جو شخص اللہ (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) مخالفت کرتا ہے تو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے،
مسلمانوں کے درمیان موجود منافقین کا ذکر
59|11|کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے اُن بھائیوں سے کہتے ہیں جو اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے ہیں کہ اگر تم (یہاں سے) نکالے گئے توہم بھی ضرور تمہارے ساتھ ہی نکل چلیں گے اور ہم تمہارے معاملے میں کبھی بھی کسی ایک کی بھی اطاعت نہیں کریں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور بالضرور تمہاری مدد کریں گے، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں،
59|12|اگر وہ (کفّارِ یہود مدینہ سے) نکال دیئے گئے تو یہ (منافقین) اُن کے ساتھ (کبھی) نہیں نکلیں گے، اور اگر اُن سے جنگ کی گئی تو یہ اُن کی مدد نہیں کریں گے، اور اگر انہوں نے اُن کی مدد کی (بھی) تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے، پھر اُن کی مدد (کہیں سے) نہ ہوسکے گی،
59|13|اے مسلمانو!) بیشک اُن کے دلوں میں اللہ سے (بھی) زیادہ تمہارا رعب اور خوف ہے، یہ اس وجہ سے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ ہی نہیں رکھتے،
59|14|وہ (مدینہ کے یہود اور منافقین) سب مل کر (بھی) تم سے جنگ نہ کرسکیں گے سوائے قلعہ بند شہروں میں یا دیواروں کی آڑ میں، اُن کی لڑائی اُن کے آپس میں (ہی) سخت ہے، تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو حالانکہ اُن کے دل باہم متفرّق ہیں، یہ اس لئے کہ وہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے،
59|15|اُن کا حال) اُن لوگوں جیسا ہے جو اُن سے پہلے زمانۂ قریب میں ہی اپنی شامتِ اعمال کا مزہ چکھ چکے ہیں (یعنی بدر میں مشرکینِ مکہ، اور یہود میں سے بنو نضیر، بنو قینقاع و بنو قریظہ وغیرہ)، اور ان کے لئے (آخرت میں بھی) دردناک عذاب ہے،
59|16|منافقوں کی مثال) شیطان جیسی ہے جب وہ انسان سے کہتا ہے کہ تُو کافر ہو جا، پھر جب وہ کافر ہوجاتا ہے تو (شیطان) کہتا ہے: میں تجھ سے بیزار ہوں، بیشک میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے،
59|17|پھر ان دونوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ دونوں دوزخ میں ہوں گے ہمیشہ اسی میں رہیں گے، اور ظالموں کی یہی سزا ہے،
بنو نضیر نے مدینہ سے اپنے اخراج کے بعد جنگ خندق میں دشمنون کا ساتھ دیکر مسلمانوں کے ساتھ اپنی جنگ کو جاری رکھا اور وہ خیبر کی جنگ میں بھی میں بھی مسلمانوں کے خلاف لڑے۔
آیت 59:15 میں بنو قینوقہ قبیلے کا ذکر ہے جسے پہلے ہی متعدد واقعات اور کھلے عام پیغمبر اسلام کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے بعد مدینے سے نکال دیا گیا تھا ۔
بنو قریضہ
627ء میں جب قریش اور ان کے اتحادیوں نے جنگ خندق میں مدینے کا محاصرہ کیا تو قبیلہ بنو قریضہ نے محاصرہ کنندگان کے ساتھ مصالحت کر لی۔ اس کے بعد اس قبیلہ پر غداری کا الزام عائد کیا گیا اور مسلمانوں نے اس کا محاصرہ کر لیا۔ بالآخر بنو قریضہ نے ہتھیار ڈال دیے اور اسلام قبول کرنے والوں کے علاوہ تمام مردوں کا سر قلم کر دیا گیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا۔
قرآن مجید کی جن آیات میں اس واقعہ کا ذکر ہے وہ حسب ذیل ہیں:
(33:26) اور (بنو قُرَیظہ کے) جن اہلِ کتاب نے ان (کافروں) کی مدد کی تھی اﷲ نے انہیں (بھی) ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں (اسلام کا) رعب ڈال دیا، تم (ان میں سے) ایک گروہ کو (ان کے جنگی جرائم کی پاداش میں) قتل کرتے ہو اور ایک گروہ کو جنگی قیدی بناتے ہو۔
(27) اور اس نے تمہیں ان (جنگی دشمنوں) کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے اموال کا اوراس (مفتوحہ) زمین کا جِس میں تم نے (پہلے) قدم بھی نہ رکھا تھا مالک بنا دیا، اور اﷲ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔
مختصر یہ کہ یہودی اور عیسائی کبھی بھی "امت وحیدہ" کا حصہ نہیں بنے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس وقت مدینے کے مشترکہ دفاع میں حصہ نہیں لیا جب مدینہ کو مکہ کی فوج نے اپنے حصار میں لے لیا تھا، بلکہ ان میں سے کچھ لوگوں نے دشمنوں کی کھلے عام اور خفیہ طور پر حمایت بھی کی۔
نبوی مشن کے اختتام پر ایک آخری فیصلہ:
سورہ توبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوموجودہ مخاطبین یا حجاز کے لوگوں کے تعلق سے حتمی فیصلے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وہ مشرکین کے لیے کیا تھا اس پر میں نے اپنے درج ذیل مضمون میں گفتگو کی ہے:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تاریخ (حصہ 4): مدنی دور
ان "اہل کتاب" کے لئے جنہوں نے کھل کر مسلمانوں سے جنگ نہیں کی لیکن وہ میثاق مدینہ کے تحت "امت وحیدہ" کا حصہ بھی نہیں بنے قرآن کا فیصلہ یہ ہے:
(9:29) اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں۔
مندرجہ ذیل آیات میں مزید ان کے رویے کی وضاحت کی گئی ہے:
5|77|فرما دیجئیے: اے اہلِ کتاب! تم اپنے دین میں ناحق حد سے تجاوز نہ کیا کرو اور نہ ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کیا کرو جو (بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) پہلے ہی گمراہ ہو چکے تھے اور بہت سے (اور) لوگوں کو (بھی) گمراہ کرگئے اور (بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی) سیدھی راہ سے بھٹکے رہے،
5|78|بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا انہیں داؤد اور عیسٰی ابن مریم (علیھما السلام) کی زبان پر (سے) لعنت کی جا چکی (ہے)۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے،
5|79|(اور اس لعنت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ) وہ جو برا کام کرتے تھے ایک دوسرے کو اس سے منع نہیں کرتے تھے۔ بیشک وہ کام برے تھے جنہیں وہ انجام دیتے تھے،
5|80|آپ ان میں سے اکثر لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں۔ کیا ہی بری چیز ہے جو انہوں نے اپنے (حسابِ آخرت) کے لئے آگے بھیج رکھی ہے (اور وہ) یہ کہ اﷲ ان پر (سخت) ناراض ہوگیا، اور وہ لوگ ہمیشہ عذاب ہی میں (گرفتار) رہنے والے ہیں،
5|81|اور اگر وہ اللہ پر اور نبی (آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس (کتاب) پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ایمان لے آتے تو ان (دشمنانِ اسلام) کو دوست نہ بناتے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔
ان کے اندر "نیک نیتی" کے فقدان کی حتمی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ان لوگوں سے دوستی کی جو مسلمانوں کے دشمن تھے اور انہوں نے ان کی مدد کی تھی، جبکہ انہوں نے کم از کم غیر جانبدار رہنے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر رکھا تھا۔ انہوں نے خود اپنی کتابوں کے مطابق خدا سے جن باتوں کا اقرار کیا تھاوہ حسب ذیل ہیں:
(3:81) اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ (82) پھر جس نے اس (اقرار) کے بعد روگردانی کی پس وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔
آیت 9:29 میں اہل کتاب پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے کی بات چھوڑ دیں وہ تو آپ پر ایمان بھی نہیں لائے تھے۔
آیت 9:29 میں خدا، رسول اور کتاب پر اہل کتاب کے ایمان کی نفی نہیں کی گئی ہے؛ بلکہ اس میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسے عقیدے پر عمل نہیں کرتے اس لیے کہ وہ سرکش ظالم اور نافرمان ہیں۔
(6:42) اور بیشک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے، پھر ہم نے ان کو (نافرمانی کے باعث) تنگ دستی اور تکلیف کے ذریعے پکڑ لیا تاکہ وہ (عجز و نیاز کے ساتھ) گِڑگڑائیں۔
یہ ان کی باغیانہ فطرت تھی جسے ختم کیاجانا اور اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی اتھارٹی یا ایک نئے سیاسی وجود کی محکومی میں ان پر جزیہ کی ادائیگی کو ضروری قرار دیکر انہیں خدا کے احکامات کی کا تابعدار بنانا ضروری تھا۔ اگر وہ "میثاق مدینہ" کے تحت "امت وحیدہ" کا حصہ بن گئے ہوتے اور خود اپنی کتابوں میں موجود اللہ کے ساتھ اپنے عہد و پیمان کے مطابق ایمانداری کے ساتھ اپنا کردار پیش کرتے تو ان کا عمل مومنوں کے عمل کی طرح ہوتا ، اور انہیں راستے پر لانے یا انہیں عاجزی کا درس دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور مقررہ شرح کے بجائے ان پر قرآن کے مطابق رضاکارانہ طور پر صرف زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری ہوتی۔
(2: 219) ......... اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔
(6:141) اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کئے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
جزیہ کے قیود شرائط اور تفصیلات
قرآن مجید میں کئی آیات ایسی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسے احکامات وارد ہوئے ہیں جن کے دائرے میں رہ کر آپ کسی مسئلہ میں گفت و شنید کرنے، حذف و اضافہ کرنے اور تفصیلات پیش کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ آیت 9:29 ان میں سے ایک ہے۔تاریخ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ کا اجراء آیت 9:29 کے مطابق نہیں بلکہ یکسر مختلف طریقے سے کیا تھا۔ ایسی کوئی شہادت دستیاب نہیں ہے جس سے یہ معلو م ہو کہ کیا ہوا تھا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ "اہل کتاب" اس دور میں نیک نیتی کے فقدان اور برے رویے کے جرم میں تادیبی ٹیکس یعنی جزیہ سے بچنے کے لئے فکر مند تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسلام اور مسلمانوں کے اصل دشمنوں کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ لہٰذا انہوں نے "نیک نیتی" کے فقدان کے لئے تادیبی ٹیکس کی بدنامی کا داغ دور کرنے کے لیے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفت و شنید کی اور کامیاب ہوئے۔ لہٰذا جزیہ کی حتمی شکل دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے ایک تصفیہ کے بعد پیش کی گئی ، جس میں دونوں جماعتیں فاتحین تھیں اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے والی تھیں۔
جزیہ صرف ان مردوں پر عائد تھا جو فوجی خدمات انجام دینے کے قابل تھے اور اس کے بدلے میں انہیں فوجی خدمات سے بری کر دیا گیا تھا۔ اس کے بدلے میں ریاست نے اس برادری سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو "مامون" یا ذمی کا مرتبہ عطا کیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا دفاع اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست نے لے لی ہے۔ اور انہیں کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل تھی۔
لہذا، جزیہ کا نفاذ کبھی بھی یکطرفہ طور پر نہیں کیا گیا تھا، اور نہ ہی یہ کوئی تادیبی ٹیکس تھا بلکہ یہ دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے ایک تصفیہ کا نتیجہ تھا۔ اس میں اہل کتاب کی بھی جیت ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی جیت ہوئی اس لیے کہ آپ نے ان کے ساتھ بہ رضا ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کا تعلق قائم کر لیا تھا۔
آیت 9:29 کا اطلاق بھی واضح طور پر صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موجودہ مخاطبین یا حجاز کے اہل کتاب پر ہوتا ہے۔ آیت 9:29 اور قرآن کی باقی تمام آیات میں انہیں کے طرز عمل کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ان "اہل کتاب" سے لڑنے کا حکم نہیں ہے جو رسول کے فوری مخاطبین نہیں تھے، جیسا کہ آیت9:5 میں صرف ان مشرکین سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ لہٰذا آیت 9:29 کا جزیرہ عرب سے باہر کے ان لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فوری مخاطب نہیں تھے ہیں۔ تاہم، چونکہ جزیہ ان لوگوں کے لیے ایک سیکولر اور غیر تادیبی امر ہو گیا جن کا ذکر آیت 9:29میں ہے، یہ عمل بعد کی تمام مفتوح قوموں کے لیے جاری ہو گیا۔ لہٰذا، یہ بڑے فرق کے ساتھ تمام فاتحین کی جانب سے عائد کردہ اس ٹیکس کی طرح تھا جس کی وجہ سے مفتوح اقوام کو ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی کی ضمانت دی جاتی تھی، اور ان کے مردوں کو فوج میں بھرتی ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا تھااور ان کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی تھی۔ جزیہ سیکولر تھا، اس لیے کہ اسے صرف ان مردوں پر عائد کیا گیا تھا جو فوجی خدمات انجام دینے کے قابل تھے اور اس کے بدلے میں انہیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، اور عورتوں، بچوں، بوThe Story of the Prophetic Mission of Muhammad (pbuh) From the Qu’ran (Part 6) قرآنی نقطہ نظر سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تاریخ (حصہ 6): اہل کتاب اور جزیہ کا تصور
نصیر احمد، نیو ایج اسلام
17 اگست 2015
مضمون کے اس حصے میں قرآن کی رو سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور "اہل کتاب" کے درمیان تعلقات کی روایت اور ان حالات کا جائزہ لیا گیا ہےجن کی وجہ سے اللہ کے فیصلے کے طور پر سورہ توبہ میں جزیہ والی آیت 9:29 کا نزول اولین مسلمانوں کے حق میں ہوا۔ اس سورت کا نزول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے اختتامی مرحلے میں اس وقت ہوا جب جزیرہ عرب کے تمام علاقے اور تمام لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاسی کنٹرول کے تحت آ چکے تھے۔ مکہ میں اہل کتاب بہت تھوڑے تھے اور ان کے ساتھ سب پہلاحقیقی خطاب 622 عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ میں ہوا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل مدینہ کے حالات
عرب معاشرے قبائلی قوانین اور معیار کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے اور ہر شخص اپنے قبیلے کے لیے وفادار تھا اور قبیلہ کے ہر رکن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتا تھا۔ مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے درمیان کی ایک لڑائی آسانی کے ساتھ ایک مکمل قبائلی جنگ کی شکل اختیار کر لیتی تھی۔ کفار مدینہ کے بارہ اہم قبیلے تھے اور ان کے درمیان اکثر جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ 617 عیسوی میں خزرج اور اوس قبیلہ کے درمیان جنگ چل رہی تھی۔ خزرج نے جنگ میں غیر جانبداری کی ضمانت کے طور پر بنو قریضہ اور بنو نضیر کے عیسائی قبیلوں سے یرغمالیوں کا مطالبہ کیا۔ ان یرغمالیوں کو خزرج نے ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد بنو قریضہ اور بنو نضیر قبیلوں نے اوس کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور انہوں نے مل کر قبیلہ خزرج کو شکست سے ہمکنار کیا۔ باہمی شک، دھوکہ دہی اور غداری کے اس ماحول میں ایک غیر جانبدار ثالث کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہوئی جو ان تنازعات کافیصلہ انصاف کے ساتھ کرے اور قبائل کے درمیان امن کا قیام کر سکے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو اس قدر نیک نامی حاصل تھی کہ تمام اہل مکہ آپ کو امین کہتے تھے۔
مدینہ کے بارہ اہم قبیلوں کے نمائندوں پر مشتمل مدینہ سے ایک وفد نے مدینہ کے ایک غیر جانبدار بیرونی شخص کی حیثیت سے 621 عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کمیونٹی کے لئے چیف ثالث کے طور پر منتخب کیا۔ ان بارہ نمائندوں نے بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلام کی دعوت کو قبول کی اور ان تمام نے ایک عہد پر دستخط کیا جس میں انہوں نے قتل، زنا یا چوری سے بچنے اور اللہ کی اطاعت کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ عقبہ کے سب سے پہلے عہد کے نام سے مشہور ہے۔ مدینہ کے وفد اور ان کے شہریوں نے اپنی کمیونٹی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے اور جسمانی طور پر آپ کی حفاظت کرنے کا ایک عہد کیا۔ اس کے بعد عقبہ کا دوسرا معاہدہ ہوا جس میں 2 خواتین سمیت مدینہ کے 73 لوگوں نے عہد لیا۔
مدینہ کے لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے درمیان لانے کے زبردست مشتاق تھے ، جبکہ مکہ کے لوگوں نے مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ مکہ میں 615 عیسوی میں مسلمانوں پر کفار قریش کے ظلم و ستم کی انتہاء ہو گئی اور مسلمانوں کا ایک گروہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ پر حبشہ (جدید ایتھوپیا) کو روانہ ہو گیا اور وہاں پناہ لینے کی کوشش کی۔ 616 عیسوی میں ایک سو سے کچھ زیادہ لوگوں پر مشتمل ایک دوسرے گروپ ہجرت نے کیا۔ سال 617 میں ابوجہل کی قیادت میں قریش نے مسلمانوں اور ان کے حامیوں کو ایک خشک وادی میں نکال دیا اور ان کے ساتھ تجارت کرنے سے انکار کر دیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا کاروبار ختم ہو گیا اور مسلمانوں تقریبا تباہی کے دہانے پر تھے۔ کسی زمانے میں ایک امیر تاجر ابو بکر نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ 619 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد 620ء میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ اور چچا ابو طالب بھی اس دنیا سے چل بسے۔
ہجرت مدینہ
اس کے بعد مسلمانوں کو شمال مکہ کے یثرب نامی ایک شہر (جو کہ بعد میں مدینہ کے نام سے مشہور ہوا) میں پناہ کی پیشکش کی گئی۔ 622ء میں مسلمانوں کی یثرب منتقلی کو ہجرت کا نام دیا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنےکے لیے تمام مکی قبیلوں کی مشترکہ سازش کی خبر ملنے پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رات کے وقت میں ایک ساتھ مدینہ کو ہجرت کر گئے، جہاں اس شہر کے رہنماؤں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور تمام لوگوں نے بخوشی اسلام قبول کر لیا۔ اس ہجرت کا ذکر ایک ابتدائی مدنی سورہ انفال کی آیت 8:30 میں اور سورہ توبہ کی آیت 9:40 میں بھی ہے:
(8:30) اور جب کافر لوگ آپ کے خلاف خفیہ سازشیں کر رہے تھے کہ وہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو (وطن سے) نکال دیں، اور (اِدھر) وہ سازشی منصوبے بنا رہے تھے اور (اُدھر) اللہ (ان کے مکر کے ردّ کے لئے اپنی) تدبیر فرما رہا تھا، اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہے۔
(9:40) اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبۂ اسلام کی جد و جہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بیشک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جبکہ دونوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے فرما رہے تھے: غمزدہ نہ ہو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا، اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا ہی ہے، اور اللہ غالب، حکمت والا ہے۔
میثاق مدینہ
مدینہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باہمی دفاع اور تعاون کا معاہدہ قائم کا جسے "میثاق مدینہ" کا نام دیا گیا۔ اس میثاق میں مختلف مسلم (مہاجرین و انصار)، یہودی، کافر اور مدینہ میں عیسائی گروہوں کے درمیان ایک معاہدہ کیا گیا، اور ان تمام کو ‘‘امت وحیدہ’’ یا "ایک قوم" قرار دیا گیا، اور اس طرح مدینہ میں ایک کثیر مذہبی اسلامی ریاست کی بنیاد قائم کی گئی۔ یہ عرب معاشرے کے لیے ایک خالصتا قبائلی معاشرے سے ایک قوم کے تصور کی طرف بڑھنے کا آغاز تھا جس میں کوئی فرد کسی قبیلے کے ایک رکن کی حیثیت سے اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ایک فرد اپنی انفرادی صلاحیت کے مطابق ریاست کے سامنے ذمہ دار تھا۔
میثاق مدینہ کا مقصد تمام مدنی گروپوں کے درمیان امن اور تعاون کا قیام کرنا اور ایک سماجی اور سیاسی وجود یا ایک قوم کی تشکیل کرنا تھا۔ اس میثاق میں تمام شہریوں کے لئے مذہبی معتقدات و معمولات کی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس میں غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ گفت و شنید، بیرونی حملوں سے مدینہ کے دفاع جیسے اس "نئی قوم" سے متعلق تمام اہم معاملات میں تمام متعلقہ جماعتوں کی شرکت کو یقینی بنایا گیا تھا۔ اس میثاق کے ذریعہ خواتین کی سلامتی، تنازعات کے اوقات میں کمیونٹی کی حمایت کے لئے ٹیکس کا نظام اور تنازعات کو حل کرنے کے لئے ایک عدالتی نظام بھی قائم کیا گیا۔ اس میثاق میں مدینہ کو حرمت والا شہر یا "مقدس مقام" قرار دے دیا گیا تھا جہاں نہ تو کوئی ہتھیار لے جایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کا خون بہایا جا سکتا ہے۔
میثاق مدینہ کے تحت غیر مسلموں کے حقوق:
میثاق مدینہ کے تحت غیر مسلموں کے حقوق حسب ذیل تھے:
1۔ بیرونی دشمنوں سے ان زندگی اور تحفظ کی ضمانت۔
2۔ مساوی سیاسی اور ثقافتی حقوق اور مذہبی آزادی۔
ذمہ داریاں
بیرونی دشمنوں کے خلاف لڑنا اور جنگ کے اخراجات میں شریک ہونا.........
اس میثاق میں مکہ والوں کی جانب سے حملے کی صورت میں مکہ کے مسلمانوں سے لڑنے یا ان کی مدد کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، بلکہ اس میں دوسروں کو مکہ کے مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ دینے یا کسی بھی انداز میں ان کے دشمن کی مدد سے روکا گیا تھا۔
مدینہ کی مختلف جماعتیں
اگر چہ مدینہ کے تمام قبیلوں کو اجتماری طور پر ایک ہی قوم قرار دیا گیا تھا لیکن ، مدینہ میں واضح طور پر حسب ذیل بڑی جماعتیں موجودتھیں:
1۔ مہاجرین مکہ
2۔ وہ کافر قبائل جو اب اسلام قبول کر چکے تھے اور جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دی تھی اور جنہوں نے مکہ کے تمام مہاجرین کی مدد کی تھی اور انہیں اپنے شہر میں پناہ دیا تھا جنہیں اب انصار کے نام سے جا نا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مذوکرہ بالا تمام جماعتوں کے مذہبی، روحانی اور سیاسی رہنما تھے، جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
(3:103) اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔
ان کے علاوہ مدینہ میں یہودی اور عیسائی بھی تھے جو بظاہر اس "امت وحیدہ" کا ایک حصہ نہیں بنے، لیکن ہو سکتا ہے کہ انہوں نے تذبذب کے عالم میں ‘‘میثاق مدینہ’’ پر دستخط کیا ہو ۔ جہاں تک ان گروپوں کا تعلق ہے، تو انہوں نے میثاق مدینہ پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے یک طرفہ اعلامیہ کی حیثیت سے اپنے عمل کو جاری رکھا جیسا کہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے:
"اہل کتاب" کے ساتھ ناہموار تعلقات
5|41|اے رسول! وہ لوگ آپ کور نجیدہ خاطر نہ کریں جو کفر میں تیزی (سے پیش قدمی) کرتے ہیں ان میں (ایک) وہ (منافق) ہیں جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور ان میں (دوسرے) یہودی ہیں، (یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے (آپ کو)خوب سنتے ہیں (یہ حقیقت میں) دوسرے لوگوں کے لئے (جاسوسی کی خاطر) سننے والے ہیں جو (ابھی تک) آپ کے پاس نہیں آئے، (یہ وہ لوگ ہیں) جو (اﷲ کے) کلمات کوان کے مواقع (مقرر ہونے) کے بعد (بھی) بدل دیتے ہیں (اور) کہتے ہیں: اگر تمہیں یہ (حکم جو ان کی پسند کا ہو) دیا جائے تو اسے اختیار کرلو اور اگر تمہیں یہ (حکم) نہ دیا جائے تو(اس سے) احتراز کرو، اور اﷲ جس شخص کی گمراہی کا ارادہ فرمالے تو تم اس کے لئے اﷲ (کے حکم کو روکنے) کا ہرگز کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنے کااﷲ نے ارادہ (ہی) نہیں فرمایا۔ ان کے لئے دنیا میں (کفر کی) ذلّت ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے،
5|42|یہ لوگ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے ہیں (مزید یہ کہ) حرام مال خوب کھانے والے ہیں۔ سو اگر (یہ لوگ) آپ کے پاس (کوئی نزاعی معاملہ لے کر) آئیں تو آپ (کو اختیار ہے کہ) ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں یا ان سے گریز فرما لیں، اور اگر آپ ان سے گریز (بھی) فرمالیں تو (تب بھی) یہ آپ کو ہرگز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے، اور اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی) عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (یعنی ان کی دشمنی عادلانہ فیصلے میں رکاوٹ نہ بنے)، بیشک اﷲ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے،
5|43|اور یہ لوگ آپ کو کیوں کر حاکم مان سکتے ہیں در آنحالیکہ ان کے پاس تورات (موجود) ہے جس میں اللہ کا حکم (مذکور) ہے، پھر یہ اس کے بعد (بھی حق سے) رُوگردانی کرتے ہیں، اور وہ لوگ (بالکل) ایمان لانے والے نہیں ہیں،
5|44|بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا، اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں،
5|45|اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے، تو جو شخص اس (قصاص) کو صدقہ (یعنی معاف) کر دے تو یہ اس (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہوگا، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں،
5|46|اور ہم نے ان (پیغمبروں) کے پیچھے ان (ہی) کے نقوشِ قدم پر عیسٰی ابن مریم (علیھما السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور (یہ انجیل بھی) اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والی (تھی) اور (سراسر) ہدایت تھی اور پرہیز گاروں کے لئے نصیحت تھی،
5|47|اور اہلِ انجیل کو (بھی) اس (حکم) کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں،
5|48|اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے،
5|49|اور (اے حبیب! ہم نے یہ حکم کیا ہے کہ) آپ ان کے درمیان اس (فرمان) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور آپ ان سے بچتے رہیں کہیں وہ آپ کو ان بعض (احکام) سے جو اللہ نے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں پھیر (نہ) دیں، پھر اگر وہ (آپ کے فیصلہ سے) روگردانی کریں تو آپ جان لیں کہ بس اﷲ ان کے بعض گناہوں کے باعث انہیں سزا دینا چاہتا ہے، اور لوگوں میں سے اکثر نافرمان (ہوتے) ہیں،
5|50|کیا یہ لوگ (زمانۂ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لئے حکم (دینے) میں اﷲ سے بہتر کون ہو سکتا ہے،
5|51|اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ یہ (سب تمہارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا،
5|52|سو آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں (نفاق اور ذہنوں میں غلامی کی) بیماری ہے کہ وہ ان (یہود و نصارٰی) میں (شامل ہونے کے لئے) دوڑتے ہیں، کہتے ہیں: ہمیں خوف ہے کہ ہم پر کوئی گردش (نہ) آجائے (یعنی ان کے ساتھ ملنے سے شاید ہمیں تحفظ مل جائے)، تو بعید نہیں کہ اﷲ (واقعۃً مسلمانوں کی) فتح لے آئے یا اپنی طرف سے کوئی امر (فتح و کامرانی کا نشان بنا کر بھیج دے) تو یہ لوگ اس (منافقانہ سوچ) پر جسے یہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں شرمندہ ہوکر رہ جائیں گے،
5|53|اور (اس وقت) ایمان والے یہ کہیں گے کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑے تاکیدی حلف (کی صورت) میں اﷲ کی قَسمیں کھائی تھیں کہ بیشک وہ ضرور تمہارے (ہی) ساتھ ہیں، (مگر) ان کے سارے اعمال اکارت گئے، سو وہ نقصان اٹھانے والے ہوگئے،
5|54|اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے،
5|55|بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں،
5|56|اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو (وہی اﷲ کی جماعت ہے اور) اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں،
5|57|اے ایمان والو! ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، ان کو جو تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنائے ہوئے ہیں اور کافروں کو دوست مت بناؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو بشرطیکہ تم (واقعی) صاحبِ ایمان ہو،
5|58|اور جب تم نماز کے لئے (لوگوں کو بصورتِ اذان) پکارتے ہو تو یہ (لوگ) اسے ہنسی اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو (بالکل) عقل ہی نہیں رکھتے،
5|59|اے نبئ مکرّم!) آپ فرما دیجئے: اے اہلِ کتاب! تمہیں ہماری کون سی بات بری لگی ہے بجز اس کے کہ ہم اﷲ پر اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور ان (کتابوں) پر جو پہلے نازل کی جا چکی ہیں ایمان لائے ہیں اور بیشک تمہارے اکثر لوگ نافرمان ہیں،
5|60|فرما دیجئے: کیا میں تمہیں اس شخص سے آگاہ کروں جو سزا کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک اس سے (بھی) برا ہے (جسے تم برا سمجھتے ہو، اور یہ وہ شخص ہی) جس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس پر غضب ناک ہوا ہے اور اس نے ان (برے لوگوں) میں سے (بعض کو) بندر اور (بعض کو) سؤر بنا دیا ہے، اور (یہ ایسا شخص ہے) جس نے شیطان کی (اطاعت و) پرستش کی ہے، یہی لوگ ٹھکانے کے اعتبار سے بدترین اور سیدھی راہ سے بہت ہی بھٹکے ہوئے ہیں،
5|61|اور جب وہ(منافق) تمہارے پاس آتے ہیں (تو) کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ (تمہاری مجلس میں) کفر کے ساتھ ہی داخل ہوئے اور اسی (کفر) کے ساتھ ہی نکل گئے، اور اﷲ ان (باتوں) کو خوب جانتا ہے جنہیں وہ چھپائے پھرتے ہیں،
5|62|اور آپ ان میں بکثرت ایسے لوگ دیکھیں گے جو گناہ اور ظلم اور اپنی حرام خوری میں بڑی تیزی سے کوشاں ہوتے ہیں۔ بیشک وہ جو کچھ کررہے ہیں بہت برا ہے،
5|63|انہیں (روحانی) درویش اور (دینی) علماء ان کے قولِ گناہ اور اکلِ حرام سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بیشک وہ (بھی برائی کے خلاف آواز بلند نہ کر کے) جو کچھ تیار کر رہے ہیں بہت برا ہے،
5|64|اور یہود کہتے ہیں کہ اﷲ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے (یعنی معاذ اﷲ وہ بخیل ہے)، ان کے (اپنے) ہاتھ باندھے جائیں اور جو کچھ انہوں نے کہا اس کے باعث ان پر لعنت کی گئی، بلکہ (حق یہ ہے کہ) اس کے دونوں ہاتھ (جود و سخا کے لئے) کشادہ ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ (یعنی بندوں پر عطائیں) فرماتا ہے، اور (اے حبیب!) جو (کتاب) آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقیناً ان میں سے اکثر لوگوں کو (حسداً) سر کشی اور کفر میں اور بڑھا دے گی، اور ہم نے ان کے درمیان روزِ قیامت تک عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، جب بھی یہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اﷲ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ (روئے) زمین میں فساد انگیزی کرتے رہتے ہیں، اور اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،
5|65|اور اگر اہلِ کتاب (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کر لیتے تو ہم ان (کے دامن) سے ان کے سارے گناہ مٹا دیتے اور انہیں یقیناً نعمت والی جنتوں میں داخل کردیتے،
5|66|اور اگر وہ لوگ تورات اور انجیل اور جو کچھ (مزید) ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا تھا (نافذ اور) قائم کردیتے تو (انہیں مالی وسائل کی اس قدر وسعت عطا ہوجاتی کہ) وہ اپنے اوپر سے (بھی) اور اپنے پاؤں کے نیچے سے (بھی) کھاتے (مگر رزق ختم نہ ہوتا)۔ ان میں سے ایک گروہ میانہ رَو (یعنی اعتدال پسند ہے)، اور ان میں سے اکثر لوگ جو کچھ کررہے ہیں نہایت ہی برا ہے،
5|67|اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بیشک اﷲ کافروں کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتا،
5|68|فرما دیجئے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو، اور (اے حبیب!) جو (کتاب) آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقیناً ان میں سے اکثر لوگوں کو (حسداً) سرکشی اور کفر میں بڑھا دے گی، سو آپ گروہِ کفار (کی حالت) پر افسوس نہ کیا کریں،
5|69|بیشک (خود کو) مسلمان (کہنے والے) اور یہودی اور صابی (یعنی ستارہ پرست) اور نصرانی جو بھی (سچے دل سے تعلیماتِ محمدی کے مطابق) اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے،
5|70|بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے عہد (بھی) لیا اور ہم نے ان کی طرف (بہت سے) پیغمبر (بھی) بھیجے، (مگر) جب بھی ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا حکم لایا جسے ان کے نفس نہیں چاہتے تھے تو انہوں نے (انبیاء کی) ایک جماعت کو جھٹلایا اور ایک کو (مسلسل) قتل کرتے رہے،
5|71|اور وہ (ساتھ) یہ خیال کرتے رہے کہ (انبیاء کے قتل و تکذیب سے) کوئی عذاب نہیں آئے گا، سو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے تھے۔ پھر اﷲ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، پھر ان میں سے اکثر لوگ (دوبارہ) اندھے اور بہرے (یعنی حق دیکھنے اور سننے سے قاصر) ہوگئے، اور اﷲ ان کاموں کو خوب دیکھ رہا ہے جو وہ کر رہے ہیں،
اہل کتاب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت
"اہل کتاب" کے ساتھ تعلقات واضح طور پر قبائلی خطوط پر ہی تھے جس کی صراحت اس امر سے ہوتی ہے کہ پورا قبیلہ ٹکڑوں میں اپنے ارکان کا دفاع کرتا تھا جس کا نتیجہ پورے قبیلے کو اس کے لیے سزا دئے جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔
ایسے قبائل کی مثال بنو قینوقہ، بنو نضیر اور بنو قریضہ ہیں، جنہیں "میثاق" کی سنگین خلاف ورزی کے لیے سزا دی گئی۔
ایک یہودی قبیلہ بنو نضیر کے خلاف یہ الزامات تھے:
1۔ انہوں نے کفار قریش کو بدر میں ان کے نقصان کے بعد احد میں جنگ کا بدلہ لینے کے لئے بھڑکایا
2۔ انہوں نے مذاکرات کی دعوت دیکر ایک حادثے کے انداز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی منصوبہ بندی کی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خوش قسمت تھے کہ ان کی اس سازش سے بال بال بچ گئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کا محاصرہ کیا۔ آپ نے انہیں ان کی املاک سے دست بردار ہونے اور دس دنوں کے اندر مدینہ چھوڑ کرنے بھاگ جانے کا حکم دیا۔ پہلے تو قبیلے نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے کا فیصلہ کیا، لیکن کچھ لوگوں نے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے نہ تھے، بنو نضیر کو ایک پیغام بھیجا کہ رک جاؤ اور اپنا دفاع کرو ہم تمہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے دیں گے، اگر تمہارے اوپر حملہ کیا جاتا ہے تو ہم تمہارےساتھ مل کر جنگ کریں گے گا اور اگر تمہیں مدینہ سے نکالا جاتا ہے تو ہم بھی تمہارےساتھ جائیں گے۔''
قرآن کی جن آیات میں اس واقعہ کا حوالہ موجود ہے وہ حسب ذیل ہیں:
59|1|جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، اور وہی غالب ہے حکمت والا ہے،
59|2|وہی ہے جس نے اُن کافر کتابیوں کو (یعنی بنو نضیر کو) پہلی جلاوطنی میں گھروں سے (جمع کر کے مدینہ سے شام کی طرف) نکال دیا۔ تمہیں یہ گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور انہیں یہ گمان تھا کہ اُن کے مضبوط قلعے انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچا لیں گے پھر اللہ (کے عذاب) نے اُن کو وہاں سے آلیا جہاں سے وہ گمان (بھی) نہ کرسکتے تھے اور اس (اللہ) نے اُن کے دلوں میں رعب و دبدبہ ڈال دیا وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور اہلِ ایمان کے ہاتھوں ویران کر رہے تھے۔ پس اے دیدۂ بینا والو! (اس سے) عبرت حاصل کرو،
59|3|اور اگر اللہ نے اُن کے حق میں جلا وطنی لکھ نہ دی ہوتی تو وہ انہیں دنیا میں (اور سخت) عذاب دیتا، اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) دوزخ کا عذاب ہے،
59|4|یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شدید عداوت کی (ان کا سرغنہ کعب بن اشرف بدنام گستاخِ رسول تھا)، اور جو شخص اللہ (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) مخالفت کرتا ہے تو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے،
مسلمانوں کے درمیان موجود منافقین کا ذکر
59|11|کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے اُن بھائیوں سے کہتے ہیں جو اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے ہیں کہ اگر تم (یہاں سے) نکالے گئے توہم بھی ضرور تمہارے ساتھ ہی نکل چلیں گے اور ہم تمہارے معاملے میں کبھی بھی کسی ایک کی بھی اطاعت نہیں کریں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور بالضرور تمہاری مدد کریں گے، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں،
59|12|اگر وہ (کفّارِ یہود مدینہ سے) نکال دیئے گئے تو یہ (منافقین) اُن کے ساتھ (کبھی) نہیں نکلیں گے، اور اگر اُن سے جنگ کی گئی تو یہ اُن کی مدد نہیں کریں گے، اور اگر انہوں نے اُن کی مدد کی (بھی) تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے، پھر اُن کی مدد (کہیں سے) نہ ہوسکے گی،
59|13|اے مسلمانو!) بیشک اُن کے دلوں میں اللہ سے (بھی) زیادہ تمہارا رعب اور خوف ہے، یہ اس وجہ سے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ ہی نہیں رکھتے،
59|14|وہ (مدینہ کے یہود اور منافقین) سب مل کر (بھی) تم سے جنگ نہ کرسکیں گے سوائے قلعہ بند شہروں میں یا دیواروں کی آڑ میں، اُن کی لڑائی اُن کے آپس میں (ہی) سخت ہے، تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو حالانکہ اُن کے دل باہم متفرّق ہیں، یہ اس لئے کہ وہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے،
59|15|اُن کا حال) اُن لوگوں جیسا ہے جو اُن سے پہلے زمانۂ قریب میں ہی اپنی شامتِ اعمال کا مزہ چکھ چکے ہیں (یعنی بدر میں مشرکینِ مکہ، اور یہود میں سے بنو نضیر، بنو قینقاع و بنو قریظہ وغیرہ)، اور ان کے لئے (آخرت میں بھی) دردناک عذاب ہے،
59|16|منافقوں کی مثال) شیطان جیسی ہے جب وہ انسان سے کہتا ہے کہ تُو کافر ہو جا، پھر جب وہ کافر ہوجاتا ہے تو (شیطان) کہتا ہے: میں تجھ سے بیزار ہوں، بیشک میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے،
59|17|پھر ان دونوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ دونوں دوزخ میں ہوں گے ہمیشہ اسی میں رہیں گے، اور ظالموں کی یہی سزا ہے،
بنو نضیر نے مدینہ سے اپنے اخراج کے بعد جنگ خندق میں دشمنون کا ساتھ دیکر مسلمانوں کے ساتھ اپنی جنگ کو جاری رکھا اور وہ خیبر کی جنگ میں بھی میں بھی مسلمانوں کے خلاف لڑے۔
آیت 59:15 میں بنو قینوقہ قبیلے کا ذکر ہے جسے پہلے ہی متعدد واقعات اور کھلے عام پیغمبر اسلام کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے بعد مدینے سے نکال دیا گیا تھا ۔
بنو قریضہ
627ء میں جب قریش اور ان کے اتحادیوں نے جنگ خندق میں مدینے کا محاصرہ کیا تو قبیلہ بنو قریضہ نے محاصرہ کنندگان کے ساتھ مصالحت کر لی۔ اس کے بعد اس قبیلہ پر غداری کا الزام عائد کیا گیا اور مسلمانوں نے اس کا محاصرہ کر لیا۔ بالآخر بنو قریضہ نے ہتھیار ڈال دیے اور اسلام قبول کرنے والوں کے علاوہ تمام مردوں کا سر قلم کر دیا گیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا۔
قرآن مجید کی جن آیات میں اس واقعہ کا ذکر ہے وہ حسب ذیل ہیں:
(33:26) اور (بنو قُرَیظہ کے) جن اہلِ کتاب نے ان (کافروں) کی مدد کی تھی اﷲ نے انہیں (بھی) ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں (اسلام کا) رعب ڈال دیا، تم (ان میں سے) ایک گروہ کو (ان کے جنگی جرائم کی پاداش میں) قتل کرتے ہو اور ایک گروہ کو جنگی قیدی بناتے ہو۔
(27) اور اس نے تمہیں ان (جنگی دشمنوں) کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے اموال کا اوراس (مفتوحہ) زمین کا جِس میں تم نے (پہلے) قدم بھی نہ رکھا تھا مالک بنا دیا، اور اﷲ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔
مختصر یہ کہ یہودی اور عیسائی کبھی بھی "امت وحیدہ" کا حصہ نہیں بنے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس وقت مدینے کے مشترکہ دفاع میں حصہ نہیں لیا جب مدینہ کو مکہ کی فوج نے اپنے حصار میں لے لیا تھا، بلکہ ان میں سے کچھ لوگوں نے دشمنوں کی کھلے عام اور خفیہ طور پر حمایت بھی کی۔
نبوی مشن کے اختتام پر ایک آخری فیصلہ:
سورہ توبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوموجودہ مخاطبین یا حجاز کے لوگوں کے تعلق سے حتمی فیصلے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وہ مشرکین کے لیے کیا تھا اس پر میں نے اپنے درج ذیل مضمون میں گفتگو کی ہے:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تاریخ (حصہ 4): مدنی دور
ان "اہل کتاب" کے لئے جنہوں نے کھل کر مسلمانوں سے جنگ نہیں کی لیکن وہ میثاق مدینہ کے تحت "امت وحیدہ" کا حصہ بھی نہیں بنے قرآن کا فیصلہ یہ ہے:
(9:29) اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں۔
مندرجہ ذیل آیات میں مزید ان کے رویے کی وضاحت کی گئی ہے:
5|77|فرما دیجئیے: اے اہلِ کتاب! تم اپنے دین میں ناحق حد سے تجاوز نہ کیا کرو اور نہ ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کیا کرو جو (بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) پہلے ہی گمراہ ہو چکے تھے اور بہت سے (اور) لوگوں کو (بھی) گمراہ کرگئے اور (بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی) سیدھی راہ سے بھٹکے رہے،
5|78|بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا انہیں داؤد اور عیسٰی ابن مریم (علیھما السلام) کی زبان پر (سے) لعنت کی جا چکی (ہے)۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے،
5|79|(اور اس لعنت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ) وہ جو برا کام کرتے تھے ایک دوسرے کو اس سے منع نہیں کرتے تھے۔ بیشک وہ کام برے تھے جنہیں وہ انجام دیتے تھے،
5|80|آپ ان میں سے اکثر لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں۔ کیا ہی بری چیز ہے جو انہوں نے اپنے (حسابِ آخرت) کے لئے آگے بھیج رکھی ہے (اور وہ) یہ کہ اﷲ ان پر (سخت) ناراض ہوگیا، اور وہ لوگ ہمیشہ عذاب ہی میں (گرفتار) رہنے والے ہیں،
5|81|اور اگر وہ اللہ پر اور نبی (آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس (کتاب) پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ایمان لے آتے تو ان (دشمنانِ اسلام) کو دوست نہ بناتے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔
ان کے اندر "نیک نیتی" کے فقدان کی حتمی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ان لوگوں سے دوستی کی جو مسلمانوں کے دشمن تھے اور انہوں نے ان کی مدد کی تھی، جبکہ انہوں نے کم از کم غیر جانبدار رہنے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر رکھا تھا۔ انہوں نے خود اپنی کتابوں کے مطابق خدا سے جن باتوں کا اقرار کیا تھاوہ حسب ذیل ہیں:
(3:81) اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ (82) پھر جس نے اس (اقرار) کے بعد روگردانی کی پس وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔
آیت 9:29 میں اہل کتاب پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے کی بات چھوڑ دیں وہ تو آپ پر ایمان بھی نہیں لائے تھے۔
آیت 9:29 میں خدا، رسول اور کتاب پر اہل کتاب کے ایمان کی نفی نہیں کی گئی ہے؛ بلکہ اس میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسے عقیدے پر عمل نہیں کرتے اس لیے کہ وہ سرکش ظالم اور نافرمان ہیں۔
(6:42) اور بیشک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے، پھر ہم نے ان کو (نافرمانی کے باعث) تنگ دستی اور تکلیف کے ذریعے پکڑ لیا تاکہ وہ (عجز و نیاز کے ساتھ) گِڑگڑائیں۔
یہ ان کی باغیانہ فطرت تھی جسے ختم کیاجانا اور اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی اتھارٹی یا ایک نئے سیاسی وجود کی محکومی میں ان پر جزیہ کی ادائیگی کو ضروری قرار دیکر انہیں خدا کے احکامات کی کا تابعدار بنانا ضروری تھا۔ اگر وہ "میثاق مدینہ" کے تحت "امت وحیدہ" کا حصہ بن گئے ہوتے اور خود اپنی کتابوں میں موجود اللہ کے ساتھ اپنے عہد و پیمان کے مطابق ایمانداری کے ساتھ اپنا کردار پیش کرتے تو ان کا عمل مومنوں کے عمل کی طرح ہوتا ، اور انہیں راستے پر لانے یا انہیں عاجزی کا درس دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور مقررہ شرح کے بجائے ان پر قرآن کے مطابق رضاکارانہ طور پر صرف زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری ہوتی۔
(2: 219) ......... اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔
(6:141) اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کئے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
جزیہ کے قیود شرائط اور تفصیلات
قرآن مجید میں کئی آیات ایسی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسے احکامات وارد ہوئے ہیں جن کے دائرے میں رہ کر آپ کسی مسئلہ میں گفت و شنید کرنے، حذف و اضافہ کرنے اور تفصیلات پیش کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ آیت 9:29 ان میں سے ایک ہے۔تاریخ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ کا اجراء آیت 9:29 کے مطابق نہیں بلکہ یکسر مختلف طریقے سے کیا تھا۔ ایسی کوئی شہادت دستیاب نہیں ہے جس سے یہ معلو م ہو کہ کیا ہوا تھا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ "اہل کتاب" اس دور میں نیک نیتی کے فقدان اور برے رویے کے جرم میں تادیبی ٹیکس یعنی جزیہ سے بچنے کے لئے فکر مند تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسلام اور مسلمانوں کے اصل دشمنوں کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ لہٰذا انہوں نے "نیک نیتی" کے فقدان کے لئے تادیبی ٹیکس کی بدنامی کا داغ دور کرنے کے لیے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفت و شنید کی اور کامیاب ہوئے۔ لہٰذا جزیہ کی حتمی شکل دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے ایک تصفیہ کے بعد پیش کی گئی ، جس میں دونوں جماعتیں فاتحین تھیں اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے والی تھیں۔
جزیہ صرف ان مردوں پر عائد تھا جو فوجی خدمات انجام دینے کے قابل تھے اور اس کے بدلے میں انہیں فوجی خدمات سے بری کر دیا گیا تھا۔ اس کے بدلے میں ریاست نے اس برادری سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو "مامون" یا ذمی کا مرتبہ عطا کیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا دفاع اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست نے لے لی ہے۔ اور انہیں کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل تھی۔
لہذا، جزیہ کا نفاذ کبھی بھی یکطرفہ طور پر نہیں کیا گیا تھا، اور نہ ہی یہ کوئی تادیبی ٹیکس تھا بلکہ یہ دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے ایک تصفیہ کا نتیجہ تھا۔ اس میں اہل کتاب کی بھی جیت ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی جیت ہوئی اس لیے کہ آپ نے ان کے ساتھ بہ رضا ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کا تعلق قائم کر لیا تھا۔
آیت 9:29 کا اطلاق بھی واضح طور پر صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موجودہ مخاطبین یا حجاز کے اہل کتاب پر ہوتا ہے۔ آیت 9:29 اور قرآن کی باقی تمام آیات میں انہیں کے طرز عمل کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ان "اہل کتاب" سے لڑنے کا حکم نہیں ہے جو رسول کے فوری مخاطبین نہیں تھے، جیسا کہ آیت9:5 میں صرف ان مشرکین سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ لہٰذا آیت 9:29 کا جزیرہ عرب سے باہر کے ان لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فوری مخاطب نہیں تھے ہیں۔ تاہم، چونکہ جزیہ ان لوگوں کے لیے ایک سیکولر اور غیر تادیبی امر ہو گیا جن کا ذکر آیت 9:29میں ہے، یہ عمل بعد کی تمام مفتوح قوموں کے لیے جاری ہو گیا۔ لہٰذا، یہ بڑے فرق کے ساتھ تمام فاتحین کی جانب سے عائد کردہ اس ٹیکس کی طرح تھا جس کی وجہ سے مفتوح اقوام کو ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی کی ضمانت دی جاتی تھی، اور ان کے مردوں کو فوج میں بھرتی ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا تھااور ان کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی تھی۔ جزیہ سیکولر تھا، اس لیے کہ اسے صرف ان مردوں پر عائد کیا گیا تھا جو فوجی خدمات انجام دینے کے قابل تھے اور اس کے بدلے میں انہیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور یہاں تک کہ راہبوں کو بھی اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ اگر اس کی بنیاد مذہب پر ہوتی تو خواتین، بوڑھے مردوں اور راہبوں کو اس سے مستثنیٰ نہیں کیا جاتا۔ یہ غیر تادیبی تھا، اس لیے کہ اس میں واضح طور پر فوجی خدمات سے آزادی، تحفظ کی ضمانت اور اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی ضمانت کی شکل میں پیسے کے لئے اہمیت اور قدر کو پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ، معمول یہ تھا کہ تمام فاتحین اپنے مفتوح شہریوں پر ٹیکس عائد کرتے تھے اور کوئی بھی فاتح اس کے بدلے میں کسی بھی بات کی ضمانت نہیں دیتا تھا۔
جزیہ کے عمل کو انہیں مقامات پر مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے جہاں صدیوں تک امن و امان کے بعد بھی یہ عمل جاری ہے، جہاں ریاستوں کی جانب سے زمین، پیداوار اور تجارت پر دیگر ٹیکس کو متعارف کرا دیے جانے کے بعد ختم کر دیا جانا چاہیے تھا۔ اس حقیقت کی بنیاد پر جزیہ کو کو ئی مذہبی تقدس حاصل نہیں ہے اس لیے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نفاذ اس انداز میں نہیں کیا جس طرح اس کا ذکر آیت 9:29 میں ہے۔ آیت 9:29 کی حیثیت صرف یہ ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خطے کے اہل کتاب کو تابعدار بنانےاور حکومت کی خدمات کے لئے ٹیکس ادا کرنے پر انہیں متفق کرنے کا ایک سازگار طریقہ کار ثابت ہوئی، جس خطے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیاسی رہنما تھے۔ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے حصول میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک سیاسی رہنما کے طور پر ناکام تھے۔
URL for this article: http://newageislam.com/urdu-section/naseer-ahmed,-new-age-islam/the-story-of-the-prophetic-mission-of-muhammad-(pbuh)-from-the-qu’ran-(part-6)--قرآنی-نقطہ-نظر-سے-پیغمبر-اسلام-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-کے-مشن-کی-تاریخ-(حصہ-6)--اہل-کتاب-اور-جزیہ-کا-تصور/d/104410ڑھوں اور یہاں تک کہ راہبوں کو بھی اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ اگر اس کی بنیاد مذہب پر ہوتی تو خواتین، بوڑھے مردوں اور راہبوں کو اس سے مستثنیٰ نہیں کیا جاتا۔ یہ غیر تادیبی تھا، اس لیے کہ اس میں واضح طور پر فوجی خدمات سے آزادی، تحفظ کی ضمانت اور اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی ضمانت کی شکل میں پیسے کے لئے اہمیت اور قدر کو پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ، معمول یہ تھا کہ تمام فاتحین اپنے مفتوح شہریوں پر ٹیکس عائد کرتے تھے اور کوئی بھی فاتح اس کے بدلے میں کسی بھی بات کی ضمانت نہیں دیتا تھا۔
جزیہ کے عمل کو انہیں مقامات پر مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے جہاں صدیوں تک امن و امان کے بعد بھی یہ عمل جاری ہے، جہاں ریاستوں کی جانب سے زمین، پیداوار اور تجارت پر دیگر ٹیکس کو متعارف کرا دیے جانے کے بعد ختم کر دیا جانا چاہیے تھا۔ اس حقیقت کی بنیاد پر جزیہ کو کو ئی مذہبی تقدس حاصل نہیں ہے اس لیے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نفاذ اس انداز میں نہیں کیا جس طرح اس کا ذکر آیت 9:29 میں ہے۔ آیت 9:29 کی حیثیت صرف یہ ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خطے کے اہل کتاب کو تابعدار بنانےاور حکومت کی خدمات کے لئے ٹیکس ادا کرنے پر انہیں متفق کرنے کا ایک سازگار طریقہ کار ثابت ہوئی، جس خطے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیاسی رہنما تھے۔ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے حصول میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک سیاسی رہنما کے طور پر ناکام تھے۔
No comments:
Post a Comment