Friday, August 28, 2015

Marriage Eligibility for Muslims:Essential Message Of Islam: Chapter 32 مسلمانوں کے لئے شادی کی اہلیت:اسلام کا اصل پیغام

Marriage Eligibility for Muslims:Essential Message Of Islam: Chapter 32 مسلمانوں کے لئے شادی کی اہلیت:اسلام کا اصل پیغام


محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
21 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
32.1. مشرک کے ساتھ شادی حرام ہے
قرآن (2:221) کا اعلان ہے:
"اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے، اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے، وہ (کافر اور مشرک) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اﷲ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں (2:221)۔"
شان نزول کے تناظر میں اس آیت کا نزول بنیادی طور پر صرف ان جوڑوں کے لیے ہوا تھا یا جن میں سے کوئی ایک کافر (مشرک) ہی رہ گیا ہو۔ لہٰذا، یہ قرآنی ہدایات کسی مومن شخص سے شادی کرنے کے لئے ایک صریح اجازت سے زیادہ کسی کافرہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے خلاف ممانعت کے لیے ہے۔ جو کہ بعد میں وارد ہونے والا ہی تھا (5:5 /ذیل میں 32.3)۔
32.2. مسلمان مرد اور عورت کا اپنا جوڑا منتخب کرنا
اپنے لیے کسی جوڑے کا انتخاب کرنے اور کسی کی جانب سے مجوزہ رشتے کو قبول کرنے کے لیے مردوں اور عورتوں کو اجازت دینے کے لیے قرآن ایک ہی جیسے الفاظ کا ذکر کرتا ہے (2:221 / مذکورہ بالا نمبر 32.1)۔ والد یا کسی سرپرست کی غیر موجودگی میں اپنا جوڑا منتخب کرنے کا ایک مسلمان عورت کا حق بھی شادی اور طلاق پر تمام قرانی آیات میں مذکور ہے۔ روایتی طور پر علماء کرام اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بریکٹ میں اضافی الفاظ بھی منسلک کر دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی لڑکی کے لیے شریک حیات منتخب کرنے میں آخری فیصلہ لڑکی کے باپ یا سرپرست کا ہی معتبر ہو گا۔ اس کے وجوہات حسب ذیل ہیں:
•         اس کا مقصد تاریخی طور پر کمزور لڑکیوں کو استحصال کے محفوظ کرنا ہے اس لیے کہ اگر کوئی ولی اس کی حفاظت نہ کرے تو اس بات کا امکان ہے کہ کوئی بےایمان شخص اسے شادی پر مجبور کرے۔
•         اس کا مقصد ایک عام اور سادہ لوح لڑکی کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی پرجوش لیکن نااہل لڑکا اسے دھوکہ نہ دیدے۔
32.3. مسلمان مردوں کا کسی بھی مومنہ عورتوں سے نکاح کرنا
وحی کے اختتامی مرحلے میں (5:5)، قرآن مسلمان مردوں کو اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) اور مومنہ عورتوں سے شادی کرنے کی صریح اجازت مرحمت کرتا ہے۔
"آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ (5:5)"۔
یہ آیت مسلم مردوں سے شادی کرتے وقت مومنات اور اہل کتاب عورتوں سے اسلام قبول کرنے کا مطالبہ نہیں کرتی ہے۔ لہٰذا، ہمیں اسلامی تاریخ میں ایسی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں کہ جن میں غیر مسلم مومنہ عورتوں نے مسلم مردوں سے شادی کر کے اپنا مذہب تبدیل کیے بغیر اپنے تمام تر حقوق کے ساتھ زندگی بسر کی یہاں تک کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
یہ آیت مسلم خواتین کو مومنین یا اہل کتاب سے شادی کرنے سے نہیں روکتی ہے۔ لیکن تاریخی طور صراحت کے ساتھ کبھی کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے، اس لیے کہ اگر کوئی مسلمان عورت کسی غیر مسلم مومن سے شادی کرتی ہے تو اس کے تمام قرآنی مراعات اور ساتھ ہی ساتھ اس کی انفرادی قانونی حیثیت بھی مفقود ہو جائے گی، اور وہ ان عورتوں کو اپنا مذہب قبول کرنے پر مجبور بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم عالمی کثیر مذہبی کمیونٹیز میں اسلامی اقدار کے فروغ اور بہت سے اسلامی معاشروں کی قرآنی نظریات سے دوری کی وجہ سے صورت حال بدل چکی ہے اور مسلم خواتین اور مومن غیر مسلم مردوں کے درمیان بین المذاہب شادیوں کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
32.4. قرآن محرمات سے ازدواجی تعلقات کو حرام قرار دیتا ہے
قرآن کچھ متعینہ قریبی رشتہ داروں (4:22/23) اور ساتھ ہی ساتھ شادی شدہ خواتین کے ساتھ بھی (4:24) شادی کو حرام قرار دیتا ہے:
"اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں مگر جو (اس حکم سے پہلے) گزر چکا (وہ معاف ہے)، بیشک یہ بڑی بے حیائی اور غضب (کا باعث) ہے اور بہت بری روِش ہے (4:22)۔ تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں، اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں)، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں، اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے (4:23)۔ اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے، (4:24)"۔
32.5. قرآن غیر ازدواجی جسمانی تعلقات کو ناجائز قرار دیتا ہے
مذکورہ قرآنی آیتوں کو علیحدہ کر کے پڑھنے اور اس سلسلے میں قرآن کے وضاحت طلب اندازبیان کو نظر انداز کرنے پر مندرجہ بالا آیت 4:24 سے یہ غلط نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مردوں کو جائز طریقے سے ان کی تحویل میں موجود خواتین کے ساتھ غیر ازدواجی جسمانی تعلقات کو منظور کرتا ہے اگر چہ وہ ایک شادی شدہ باندی ہی کیوں نہ ہو۔ اس آیت کو اس کے سیاق وسباق (4:22-4:25) میں ہی پڑھنا ضروری ہے، جس کی ابتدائی اور اختتامی آیات میں لفظ نکاح کا مادہ (تنکحو، ینکح) موجود ہے (4:22 اور 4:25)، جس سے اس بات کی تصریح ہوتی ہے کہ نکاح کی شق کا اجراء بیچ والی آیت میں بھی کیا گیا ہے۔ ہم نے مذکرہ بالا ترجمہ میں خط کشیدہ الفاظ کا اضافہ کر کے اسے شامل کر لیا ہے اور کسی بھی عورت کے ساتھ غیر ازدواجی جسمانی تعلقات کے تصور کی تردید کی ہے۔ قرآن کی واضح مستقل مزاجی سے آیت 4:3 (باب۔30.1) اور 4:25 (باب 30.1)میں اس نقطہ پر زور دیا گیا ہے اور 24:32 (باب 31.1) میں واضح طور پر اس بات کی طرف سن بلوغ کو پہنچ چکے غیر شادی شدہ لوگوں کی شادی کو ضروری قرار دیا گیا ہے:
•         آیت 4:3 میں اس بات کا حکم دیا گیا ہےکہ اگر کسی مرد کی حیثیت آزاد عورت کے ساتھ کرنے کی نہ ہو تو وہ اپنی باندی سے نکاح کر لے۔
•         آیت 4:25 میں مردوں کو ان باندیوں کے اہل خانہ سے اجازت لینے کا حکم دیا گیا ہے جن سے وہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔
•         آیت 24:32 میں مردوں کو ان کی غیر شادی شدہ باندیوں سے شادی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
لہٰذا اگر ان تمام آیتوں کا ایک ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ آیات 4:3، 25/4:24اور 24:32 میں واضح طور پر مردوں کو اپنی بیویوں کے علاوہ ان کے تحت کسی بھی عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے- خواہ وہ عصر حاضر کے تناظر میں کوئی کال گرل (بدکار عورت) یا معاوضہ پر بلائی گئی کوئی نوکرانی ہو، یا تاریخی تناظر میں کوئی لونڈی،غلام لڑکی یا غیر شادی شدہ کوئی عورت ہو۔ المختصر، قرآن ایک جائز بیوی کے علاوہ کسی بھی دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے سے منع کرتا ہے، جیسا کہ الرازی اور الطبری2 کے حوالے محمد اسد کا بھی یہی کہنا ہے۔
32.6. قرآن نابالغ افراد کی شادی کی حمایت نہیں کرتا
جس قرآنی آیت میں مردوں اور عورتوں کو اپنے جوڑوں کو منتخب کرنے کی ہدایت دی گئی ہے (مندرجہ بالا میں 2:221 / 32.1)، اس میں یہ امر بھی پوشیدہ ہے کہ انہیں ایک سمجھ بوجھ کی عمر تک پہنچنے کے بعد ہی شادی کرنی چاہئے، جب وہ اپنا شریک حیات کے انتخاب میں کوئی فیصلہ لینے کے قابل ہو جائیں۔ ازدواجی زندگی میں (باب 33-34) مردوں اور عورتوں کے استحقاق اور ذمہ داریوں پر قرآنی احکامات میں اس بات کی طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ مردوں اور عورتوں دونوں کو سن بلوغت اور پختگی کی عمر کو پہنچنا ضروری ہے تا کہ وہ رشتہ ازدواج میں اپنے اپنے کردار کو سمجھ سکیں اور اس پر عمل در آمد کر سکیں۔ آخر میں آیت 4:6 کا افتتاحی حکم کہ: "اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں" (باب 31.1)، واضح طور پر 'شادی کی عمر' کے تصور کے بارے میں واضح ہے جس سے بچوں کی شادی کی تائید و توثیق نہیں ہوتی ہے۔ لہٰذا، مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے شادی کی عمر کی تائید میں قرآنی احکامات واضح ہیں۔

No comments:

Post a Comment