Saturday, August 8, 2015

Madrasa Students Of Bihar Going To Pune Land In Trouble پونے جا رہے بہار سے مدرسہ کے طلبا مصیبت میں گرفتار: ذمہ دار کون؟





نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
6 اگست، 2015
مدرسہ کے 63 چھوٹے چھوٹے طالب علم مصیبت میں پڑ گئے ہیں اور فی الحال پولیس کی تحویل میں پورنیہ کے چائلڈ ہاؤس میں ہیں۔ اس سے قبل جب 2 اگست کو انہیں سیالدہ جی آر پی نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ ٹرین کے ذریعے پورنیہ سے مغربی بنگال پہننے کے بعد پونے کی ایک ٹرین پر سوار ہو رہے تھے۔ بنگالی اخبارات کے مطابق انہیں ریلوے پولیس نے اس شبہ کے تحت گرفتار کیا ہے کہ انہیں یا تو جبراً مزدوری کے لیے یا 'دہشت گردی کے تربیتی کیمپ' لے جایا جا رہا تھا۔
ان بچوں کے ہمراہ دو اساتذہ اور کچھ سرپرستوں کو بھی پولیس نے اپنی حراست میں لیا ہے۔ پولس کو ان کے پاس سے تمام طالب علموں کی ضروری اسناد یا شناختی کاغذات نہیں ملے۔ جیسے ہی مدرسے کے طلبا کی گرفتاری کی خبر شہر میں پھیلی، ایک بھاری تعداد میں مسلمانوں نے مسلم اکثریتی علاقے پارک سرکس کراسنگ پر اسٹیشن کے باہر جمع ہو کر طلباء کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ مظاہرہ تشدد کی شکل اختیار کر گیا۔ ہجوم نے ٹریفک کو متاثر کیا اور پولیس کے فرقہ وارانہ رویہ کے خلاف نعرے لگائے۔
جماعت اسلامی کے عبدالعزیز اور مولانا شرافت ابرار سمیت ایک مسلم تنظیم، ملی اتحاد پریشد کے چند نمائندوں نے سیالدہ اسٹیشن پر پہنچ کر حکام سے بات چیت کی۔ حکام نے ملی اتحاد پریشد کے نمائندوں کو یہ بتایا کہ طالب علموں کے پاس کوئی بھی شناختی کاغذات نہیں ہیں، اور جب ان کے سرپرست ضروری کاغذات جمع کر دیں گے تو ان طالب علموں کو رہا کر دیا جائے گا۔
ان بچوں کو بہار میں پورنیہ کے ایک مدرسے کے کچھ اساتذہ کے ساتھ جہاں وہ تعلیم حاصل کر رہے تھے 'اعلی تعلیم' کے لیے پونے کے مدرسہ عربیہ فیضان میں داخلہ کے لیے لے جایا جا رہا۔ لیکن ان کے پاس پونے کے مدرسہ عربیہ فیضان سے اقرار نامے کے ضروری کاغذات نہیں تھے۔ شاید، سی آئی این آئی (Child In Need Institute) نامی ایک تنظیم نے جس کی ایک شاخ سیالدہ اسٹیشن کے پاس ہے، پولیس کو اس معاملے کی اطلاع دی اور ایک ایف آئی آر درج کرائی جس کے بعد ریلوے پولیس نے ان طلباء کو حراست میں لیا۔
حکام کے مطابق، وہ یہ اقدام اٹھانے پر مجبور تھے اس لیے کہ سی آئی این آئی (Child In Need Institute) نے ایف آئی آر درج کرائی تھی، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کی نوکری خطرے میں پڑ جاتی۔ بیڈھن نگر جی آر پی کے آفیسر انچارج مسٹر شاہنواز نے اس بات کی یقین دہانی کی کہ جی آر پی نے فرقہ پرستی کی بنیاد پر یہ اقدام نہیں اٹھایا ہے بلکہ یہ قدم قانونی طریقے سے اٹھایا گیا ہے۔ سیالدہ اسٹیشن کے آفیسر انچارج چندن گھوش نے بھی کہا کہ طالب علموں کے پاس تمام ضروری کاغذات نہیں تھے۔ جب پریشد کے نمائندوں نے حکام سے یہ پوچھا کہ انہوں نے مشنری اسکول کے طالب علموں کی تلاشی کیوں نہیں لی تو اس پر انہوں نے کہا کہ دوسرے اسکولوں نے پہلے سے ہی جی آر پی کو اپنی روانگی اور اس کے مقصد کے بارے مطلع کر دیا تھا۔ لہذا، پولیس نے ان کی حفاظت کو یقینی بنایا اور ان کے لیے حفاظتی دستوں کا انتظام کیا۔ افسران نے یہ بھی بتایا کہ پونے مدرسہ کا رابطہ نمبر بھی دستیاب نہیں تھا کہ ان کی تصدیق کی جا سکے۔ اگر رابطہ نمبر انٹر نیٹ پر دستیاب ہوتا تو اس سے کچھ مدد مل سکتی تھی۔ مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ مدارس کے رابطہ نمبر اور پتے انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے چاہئے تاکہ ہنگامی صورت حال میں ان سے رابطہ کیا جا سکے۔
تاہم، بڑی کوششوں کے بعد بچوں کو رہا کر دیا گیا اور انہیں واپس پورنیہ کی ایک ٹرین میں سوار کر دیا گیا، جہاں سے ریلوے پولیس نے انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا اور چائلڈ ہاؤس میں بھیج دیا۔ خبروں کے مطابق ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے اور ان کی رہائی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان بچوں کو پورنیا پولیس نے نامعلوم مقامات پر بھیج دیا ہے۔ ایک ہندی اخبار کے مطابق بچوں کو اسمگل کیا جا رہا تھا۔ کچھ بچوں کے سرپرستوں نے کہا کہ سیالدہ جی آر پی نے ان بچوں کی ایک بہت ہی خطرناک تصویر پیش کی ہے جس کی وجہ سے پورنیا پولیس ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کر رہی ہے۔ ایک چھوٹی بچی نازیہ کوثر ان بچوں میں سے ایک ہے جنہیں ان کے سرپرستوں سے ملنے سے روک دیا گیا تھا۔ والدین کو ان کے ٹھکانے کے بارے میں آگاہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرار الحق قاسمی ان کی رہائی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جب مدرسہ کے بچوں کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہو۔ تین سال پہلے، سیالدہ ریلوے پولیس نے دیناجپور سے آنے اور مہاراشٹر کے ایک مدرسہ کے لیے روانہ ہونے والے مدرسہ کے 30 طلباء کو حراست میں لیا تھا۔ سات دنوں کے بعد سیالدہ کی عدالت نے انہیں رہا کیا اور پھر وہ اپنے سرپرستوں کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔
سوال یہ ہے کہ مدرسہ تعلیم کا یہ کیا معاملہ ہے کہ جن میں کچھ مدارس 'اعلی تعلیم' دینے کے لیے مدرسوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کرتے ہیں۔ نچلی تعلیم دینے والے مدارس معاہدوں کے مطابق ان بچوں کو مہاراشٹر اور دوسرے شہروں کے مدارس میں اکٹھے طور پر منتقل کرتے ہیں۔ اکثر ایسے مدارس قلیل المدتی ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے غریب سرپرست جو ان کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے بخوشی 'اعلی تعلیم' اور 'روشن مستقبل' کے لئے اپنے بچوں کو مدارس کے ان ایجنٹوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
11 ستمبر 2010ء کو تہلکہ میں شائع ایک خبر میں مدارس میں چل رہے جبراً مزدوری کے کاروبار کا راز فاش کیاگیا تھا۔ مولویوں نے مدرسہ کے طالب علموں کے غریب سرپرستوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ دہلی یا مہاراشٹر میں 'اعلی تعلیم' دینے والے مدرسوں میں اپنے بچوں کو بھیجیں جہاں انہیں حافظ قرآن بنایا جائیگا اور وہ مسجد میں امامت کر کے تنخواہ کے طور پر 5000 روپے کما سکیں گے۔ ان مدرسوں میں انہیں روزانہ تقریبا دو گھنٹے ہی تعلیم دی جاتی تھی اور اس کے بعد ان بچوں کو بسکٹ فیکٹری میں یا دوسری فیکٹریوں میں کام کرنے کے لئے بھیج دیا جاتا تھا اور اس کی تنخواہ اہل مدارس لیتے تھے۔ جبکہ ان کے سرپرستوں کو اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔ تہلکہ کی رپورٹ کے مطابق ہر دلال کو جو کہ کوئی مولوی ہی ہوتا تھا ایک بچے کو جھانسا دیکر لانے کے عوض میں 5000 روپے دیئے جاتے تھے۔
مسلم معاشرے کو ان مدرسوں اور مولویوں کے اس کاروبار سے نمٹنا ہو گا جو کہ در حقیقت بچوں کا غیر قانونی کاروبار کرتے ہیں۔ وہ بچوں سے یا تو جبراً مزدوری کرواتے ہیں یا انہیں گوشت کے کاروبار میں ڈلا دیتے ہیں۔ جو مسلمان ان بچوں کو حراست میں لیے جانے پر تشدد پر اتر آئے انہیں پولیس کا شکرگزار ہونا چاہئے جس نے انہیں جبراً مزدوری یا گوشت کے کاروبار میں ڈالے جانے سے روک لیا جس میں ان کا مستقبل برباد ہو جاتا۔
اطلاعات کے مطابق پونے مدرسہ میں تعلیم دینے والے مولوی فیضان ہر سال بچوں کو پونے لے جاتے ہیں۔ اس ٹیچر کے ماضی میں کئے گئے تمام کرتوتوں کی جانچ کی جانی چاہیے، پونے کے مدارس اور ان کے طالب علموں کے معاملات پر ایک مناسب انکوائری بیٹھائی جانی چاہئے۔ مسلمانوں کو اعلی تعلیم کے نام پر دور دراز کے مقامات پر اپنے بچوں کو بھیجنے کے خطرات سے آگاہ کیاجانا چاہیے۔
تاہم، میڈیا کے جس طبقے نے اور جس پولس نے ان بچوں کو دہشت گردو قرار دیا ان کی بھی ضرور مذمت کی جانی چاہیے۔

No comments:

Post a Comment