Wednesday, August 5, 2015

Is Music Prohibited In Islam? کیا اسلام میں موسیقی ممنوع ہے؟

 




 نصیر احمد، نیو ایج اسلام
3 اگست، 2015
قرآن میں ایک بھی آیت ایسی نہیں ہے جس میں موسیقی کی ممانعت وارد ہوئی ہو یا جس میں موسقی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہو، لیکن پھر بھی ان چند احادیث کی بنیاد پر کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ موسقی کا استعمال محدود صورت میں اور خاص مواقع پر جائز ہے جبکہ کچھ لوگ اسے ممنوع مانتے ہیں۔ لہٰذا، موسقی کے تعلق سے صحیح موقف کیا ہے؟ اگر ہم احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو مختلف احادیث کے مطالعہ سے اس کی غیر واضح اور مبہم تصویر سامنے آتی ہے، لیکن ایسی ایک بھی ایسی حدیث نہیں ہے جس میں واضح طور پر موسیقی پر پابندی پابندی کا ذکر ملتا ہو۔
لہذا، اسلام میں موسقی کی کیا اہمیت ہے اسے جاننے کے لیے ہمیں قرآن پر انحصار کرنا ہوگا، اور چونکہ قرآن میں اس موضوع پر ایک بھی آیت موجود نہیں ہے لہٰذا، ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ قرآن موسیقی کی ممانعت نہیں کرتا ہے، اور نہ ہی اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ تاہم اس استدلال سے وہ لوگ مطمئن نہیں ہوں گے جو احادیث سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا، اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم ایک ایسے موضوع پر قرآن مجید سے کیسے جواب حاصل کر سکتے ہیں جس پر قرآن خاموش ہے۔
اس حقیقت کے علاوہ کہ قرآن خاص طور پر ہمیں بعض جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت دیتا ہے، سبزی خوری کے حق میں اور جانوروں کا گوشت کھانے کی خلاف بحث کرنے والوں کے خلاف ایک بہتردلیل اس طرح دی جاسکتی ہے کہ فطرت یا خدا نے ہمیں انہضام کا ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو گوشت اور سبزی دونوں کو ہضم کر سکتا ہے، اور دانتوں کا ایک ایسا مجموعہ عطا کیاہے جس سے سبزیوں کو بھی چبایا جا سکتا ہے اور گوشت بھی چیر کر کھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جانوروں کو بھی ایسی دانت دی گئی ہے جو یا تو صرف گھانس پھونس یا صرف گوشت یا دونوں کھا سکتے ہیں۔ نبات خور جانوروں کے ڈاڑھ پتیوں کو چبانے کے لیے مسطح اور مضبوط ہوتے ہیں۔ اور ان جانوروں کے جبڑے نوکیلے ہوتے ہیں جو گوشت کھاتے ہیں، اور وہ جانور جو گھانس پھونس اور گوشت دونوں کھاتے ہیں ان کی سامنے کی دانت گوشت چبانے کے لیے نوکیلی اور گھانس پھونس چبانے کے لیے مسطح اور مضبوط ہوتی ہیں۔ انسان کو ایسی دانت دی گئی ہے جس سے وہ گوشت اور سبزی دونوں کھا سکتے ہیں، جس سے خدا یا فطرت کی منشاء یہ ہے کہ انسان دونوں طرح کے کھانے کھائیں۔
مندرجہ بالا دلیل کا موسیقی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ تمام انسانوں کے درمیان موسیقی کی صلاحیت یکساں نہیں ہے۔ کچھ لوگ بہرے پیدا ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ میوزک تیار کر سکتے ہیں۔ مطالعہ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جو شخص موسقی کے ذوق اور فطری لیاقت کے بغیر پیدا ہوا ہو اسے محض مشق اور ٹریننگ کی بنیاد پر ایک اچھا گلوکار یا موسیقی کار نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم بچوں کی غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کی حقیقی کہانیوں سے اس بات کو جانتے ہیں کہ موسیقی کی لیاقت اور قابلیت خدا کا عطا کردہ ایک پیدائشی تحفہ ہے۔ سائنس نے مزید اس حقیقت کو ثابت کر دیا ہے کہ جینیاتی عوامل کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ تربیت اور مسلسل مشق و ممارست سے صرف تکنیکی مہارت میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ کوئی خود سے میوزیکل اسکور بجا سکتا ہے کہ لیکن اسے بھر پور انداز میں موسیقی کے ساتھ بجانے کے لیے ہنر اور قابلیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ خواہ وہ موسیقی ہو، شاعری ہو، فنون لطیفہ ہوں، ریاضی ہو یا علوم سائنس ہوں، ان سب میں فطری قابلیت یا جینیاتی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر ریاضی، منطق، فنون لطیفہ ، موسیقی، کسی خاص کھیل یا ایتھلیٹکس کی قابلیت نہیں ہوتی ہے۔ علم الاعصاب کے ماہرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جن کے اندر موسقی کی صلاحیت ہوتی ہے ان کا دماغ بھی مختلف ہوتا ہے۔ ہم انہیں چیزوں کو دیکھتے ہیں یا سنتے ہیں ہمارے دماغ جن کو سمجھنے کے قابل ہیں، اور جن چیزوں سے ہم سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، سونگھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں یا چکھتے ہیں ان میں تیزی ، شدت یا نفاست ہمیں ایک مختلف صلاحیت اور قابلیت عطا کرتی۔ کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے کی ہماری قابلیت بھی ہماری قوت حاسہ پر منحصر ہے۔
لہٰذا، محل استشہاد یہ ہے کہ اگر لوگوں کے اندر خدا یا فطرت نے موسیقی کی صلاحیت اور عظیم قدرتی قابلیت رکھی ہے تو اس سے خدا یا فطرت کی منشاء یہ ہے کہ اس کا استعمال کیا جائے۔ قرآن میں خدا نے واضح انداز میں ان لوگوں پر اپنی نارضگی کا اظہار کیا ہے جو خود اپنی مرضی سے ان چیزوں کو ممنوع قرار دیتے ہیں جنہیں خدا نے ممنوع نہیں کیا ہے:
‘‘(3:93) تورات کے اترنے سے پہلے بنی اسرائیل کے لئے ہر کھانے کی چیز حلال تھی سوائے ان (چیزوں) کے جو یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں، فرما دیں: تورات لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو’’ (94) پھر اس کے بعد بھی جو شخص اللہ پر جھوٹ گھڑے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
جب خدا نے موسیقی کو ممنوع نہیں کیا ہے، تو انسان خود سے اسے ممنوع قرار دیکر اور اس ممانعت کو خدا سے منسوب کر کے ظالم بن جاتا ہے۔
‘‘(5:87) اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔’’
‘‘(16:116) اور وہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گے’’۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ موسیقی کی صلاحیت اور قابلیت خدا کا عطا کردہ ایک خوبصورت تحفہ ہے، اور قرآن اس کی ممانعت نہیں کرتا، تو اب موسیقی کو اپنی مرضی سے حرام قرار دینا خدا کی جانب باطل اور جھوٹ کو منسوب کرنے کے مترادف ہو گا، اور اسی لیے ایسا کرنے والا ظالم ہو گا جسے کبھی فلاح حاصل نہیں ہوگی۔ جو بات ہمیں انسان بناتی ہے اس کے ایک حصے کو ممنوع اور حرام قرار دیکر ہم ایک حد تک ایک ناقص انسان بن جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ہمارے یہاں ایسی ثقافتیں، ایسے معاشرے اور اور ایسے ممالک ہیں جہاں موسیقی کو ممنوع اور حرام قرار دیا گیا ہے، اور لوگوں کو ایک انسان کے طور پر اپنی مکمل صلاحیتوں کو حاصل کرنے کے مواقع سے محروم کر دیا گیا ہے جو کہ اللہ کی مرضی اس کی منشاء کے خلاف ہے۔

No comments:

Post a Comment