ڈاکٹر مبارک علی
تعارف
سرسید احمد خا ن، جوسرسید کے نام سے مشہور ہیں، اپنے عہد کی اہم شخصیت تھے جن کے خیالات و افکار نے نہ صرف ان کےاپنے زمانے کو متاثر کیا بلکہ چل کر انہوں نے آنے والی نسلوں کے شعور کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔
سر سید کے نظریات و افکار مسلمانوں کے نئے تعلیم یافتہ ابھرتے ہوئے زمینداروں اورجاگیرداروں کےطبقے کے لئے انتہائی سود مند تھے اس لئے انہوں نے بہت سرسید اور شخصیت کے گرد عظمت و بزرگی کاحصار کھینچا اور ان کی ذات و شخصیت کو مقدس بنا دیا ہمارے ہاں اب تک سرسید کی شخصیت اور ان کے سیاسی ، سماجی و تعلیمی افکار کا مطالعہ بنے بنائے خاکے کے تحت کیا جاتا ہے اور اس سےہٹ کر اس کاتجزیہ کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سرسید کی شخصیت اور افکار کو جدید تحقیق کی روشنی میں دیکھا اور پرکھا جائے اور اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ سرسید نے ہمیں کیا مثبت چیزیں دیں اورکیا منفی ۔ اور ان کے منفی نظریات کاہماری نسل پر کیا اثر پڑا۔
سرسید کے بارے میں ہمارےہاں پہلی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ انہوں نے 1857 ء کےہنگامےکےبعد ‘‘رسالہ اسباب بغاوت ہند’’ لکھ کر بڑی جرات وہمت کا ثبو دیا۔ لیکن واقعات کا تجزیہ ایک دوسری تصویر پیش کرتا ہے۔
1857ء تک ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کااقتدار رہا انگلستان میں پارلیمنٹ کمپنی کے اقتدار کو پسند نہیں کرتی تھی اور اس کوشش میں تھی کہ کس طرح کمپنی کے اقتدار کو ختم کر کے براہ راست پارلیمنٹ کے اقتدار کو ہندوستان میں قائم کرے اس سلسلے میں پارلیمنٹ نے مختلف اوقات میں اپنے اثر کو بڑھانے کےلئے مختلف طریقوں سے کمپنی کے معاملات میں دخل دیا۔ جب 1857ء کاہنگامہ پیش آیا تو پارلیمنٹ کو اس بات کاموقع مل گیا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ہندوستان میں کمپنی کی حکومت ناکام ہوچکی ہے اس لئے ہندوستان سے کمپنی کی حکومت ختم کر کے ملک کو براہ راست پارلیمنٹ اور ملکہ برطانیہ کے تحت لایا جائے ۔
اس موقع پر سرسید کا رسالہ اسباب بغاوت ہند، پارلیمنٹ کےلئے ایک بہترین دستاویزی ثبو ت ثابت ہوا، جس میں کمپنی کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی اور 1875ء کے ہنگامے کاذمہ دار انہیں کو قرار دیا گیا اس لئے یہ رسالہ ممبران پارلیمنٹ کےلئے جو کمپنی کے خَلاف تھے ایک نعمت سے کم نہ تھا جس کے ذریعے انہوں نے کمپنی کی حکومت کے خلاف دلائل دیئے اس کا نتیجہ یہ ہواکہ ہندستان سےکمپنی کا اقتدار ختم ہوا اور یہاں پر پارلیمنٹ اور تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہوئی اس پس منظر میں اس بات کو مسترد کیا جاسکتا کہ یہ رسالہ سر سید سے لکھوا یا گیا، کیونکہ فوراً اس کا انگریزی ترجمہ ہوا اور اس کی کاپیاں ممبران پارلیمنٹ میں تقسیم ہوئیں اور وہاں اس کا پر جوش خیر مقدم ہوا۔
سرسید کے بارےمیں دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کوذلت و پستی سےنکالا اور ان میں تعلیم عام کی ان کے اس کارنامے کو بھی مبالغے کےساتھ پیش کیا جاتا ہے دراصل مسلمانوں کو پستی کا تصور ڈبلیو ہنٹر کی کتاب ‘‘ہمارے ہندستانی مسلمان’’ نے دیااس میں بنگال کے مسلمانوں کی پستی اور جہالت کاذکر ہے لیکن بعدمیں اس کو یورپی کے مسلمانوں پر لاگو کردیا ۔ جبکہ یوپی کے مسلمان پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر خوشحال تھے اور تعلیم کےمیدان میں ہندوؤں سےبھی آگے تھے یہی حال سرکار ی ملازمتوں کا تھا ۔ میں ان کا تناسب ہندوؤں سےزیادہ تھا ایس ایم جین کے حکومت کے ریکارڈ نے یہ ثابت کردیا کہ 1871ء سے 1884 ء تک مسلمانوں نے ہندوؤں سے زیادہ تعلیم کا فائدہ اٹھایا ۔ اور ان کی تعداد پرائیویٹ سکنڈری اسکول میں زیادہ تھی ۔(1)
سرسید کے بارے میں تیسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم پھیلائی ۔ اس میں مبالغے سےکام لیا گیا ہے کیونکہ سرسید سےبہت پہلے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوچکاتھا اور مسلمان طلبہ حکومت کے قائم کردہ اسکولوں میں انگریزی تعلیم حاصل کررہے تھے ۔ چنانچہ سرسید کے قائم کردہ اینگلو محمڈن کالج نے اپنے ابتدائی عہد میں مسلمانوں کی تعلیم میں کوئی زیادہ حصہ نہیں لیا ۔ مثلاً 1882ء سے 1902 ء تک ایم ۔ اور ۔کالج سے 220 مسلمان گریجویٹ نکلے جب کہ الہ آباد یونیورسٹی نے اس دور میں 410 مسلمان گریجویٹ پیدا کئے ۔(2)
اس لئے سرسید کی مخالفت ان کے تعلیمی نظریات کی وجہ سےنہیں ہوئی یہ مخالفت ان کے مذہبی خیالات کی وجہ سے تھی ۔ ورنہ مسلمان زمینداروں اور امراء کا طبقہ انگریزی تعلیم حاصل کررہا تھا اور کمپنی کے ابتدائی دور سے ، مسلمان علماء تک انگریزی ملازمتوں میں آچکے تھے ۔
سر سید کے اصلاحی پروگرام میں شہر کے رہنےوالے زمیندار اور جاگیردار تھے وہ اس طبقے کومسلمانوں کے نمائندہ طبقے کی حیثیت سےآگے لاناچاہتے تھے۔ اسی لئے جن ہندوستان میں سیاسی تبدیلیاں آئیں اور جدید تعلیم نےجمہوری اقدار کو فروغ دیا تو سرسید نے اسے مسلمان امراء کے طبقے کے مفاد کے خلاف سمجھا اور جمہوریت کی سخت مخالفت کی، انہوں نے مسلمانوں کوخبردار کیا کہ وہ مغربی طریقہ نمائندگی اختیار نہ کریں کیونکہ اس طریقے میں مسلمان جو اقلیت میں ہیں اپنے حقوق سے محروم ہوجائیں گے ۔ جمہوریت کی مخالفت اس وقت مسلمان امراء کےمفاد میں تھی لیکن یہ تاثر دیا گیا کہ یہ تمام مسلمان قوم کےخلاف ہے اور جمہوریت کے قیام سےیہ ہمیشہ جاہل رہیں گے او رانہیں معاشرے میں باعزت مقام نہیں ملے گا ۔ کیونکہ وہ اس طرح ہندوؤں کے غلام ہوکر مستقل اقلیت میں تبدیل ہوکر ختم ہوجائیں گے ۔ اس لئےانہوں نے جداگانہ انتخاب اور کوٹہ سسٹم کا مطالبہ کیا جس سے اس طبقے کوفائدہ ہوالیکن ہندوستان کے مسلمان عوام ان فوائد سےمحروم رہے ۔
فکر اقبال کی بنیادوں میں اس تجزیہ کیا گیا کہ اقبال نے اپنی فکر کی راہیں کس طرح متعین کیں بد قسمتی سےیہ افکار مسلمان معاشرے کی تشکیل میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکے اقبال کی شاعری اور افکار پر یہ مطالعہ بہت مختصر اور احتیاط سےلکھا گیا ہے شاید یہ ہمارے سوچنے کی راہوں کومزید وسیع کرسکے ۔
حوالہ جات:
1- S.M.Jain: The Aligarh Movements, Its Origin and Development, 1858-1906
2- Paul R.Brass: Langugae, Religion and Politics in North India Cambridge 1947 p.p 165-166
No comments:
Post a Comment