ڈاکٹر مبارک علی
پاکستان میں تاریخ نویسی کےمسائل
پاکستان میں ابتداء ہی سے تاریخ نویسی قدیم اور عہد وسطی کی روایات کے زیر اثر رہی اور اس میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئی با اقتدار طبقوں نے اسے اپنے پروپیگنڈہ اور عوام میں اپنے لئے وفاداری کے جذبات پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا اس لئے جب بھی کوئی بحران پیدا ہوا یا جنگ اور معاشرہ مسائل سے دو چار ہوا تو ایسے موقعوں پر مورخوں کی مدد لی گئی تاکہ واقعات کو حکمران طبقوں کی مرضی اور ان کے مفادات کے مطابق بیان کیا جائے تاکہ ان کے جرائم پر پردہ پڑ جائے اور وہ تاریخ کی سزا سے بچ سکیں اس مقصد کے لئے واقعات کی سچائی کو چھپا کر حکمرانوں کی عزت اور وقار کو بچایا جاتاہے۔
اس پس منظر میں اگر پاکستان کی تاریخ نویسی اور تاریخ کے مطالعے کو دیکھا جائے تو ہمیں اس کےچند اہم مقاصد نظر آتے ہیں۔
حکمران طبقہ تاریخ کے ذریعے اپنی پسند اور اپنی مرضی کا حب الوطنی کا تصور پیش کرتاہے اس میں ماضی کو شاندار بنا کر پیش کیا جاتاہے تاکہ جن بنیادوں پر ماضی میں بادشاہوں اور حکمرانوں نے عوام پر حکومت کی تھی ان ہی بنیادوں پر حال کے آمرانہ نظام اور ان کی شان و شوکت کو صحیح ثابت کیا جائے دوسرے ایسے ہیروؤں کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جنہوں نے ملک اور عوام کی خاطر جانیں قربان کیں تاکہ ان مثالوں سے عوام کے جذبات کو متاثر کیا جائے اور ان سے اپنے مفادات کی خاطر قربانیاں لی جائیں لیکن اس حقیقت کو بھلا دیا جاتاہے کہ ایسا وطن پرستی کا جذبہ جس کی بنیاد مفروضوں پر ہو اور جس کی کوئی پختہ اور مستحکم بنیاد نہ ہو اس کا اثر زیادہ دیر پا نہیں ہوتا کیونکہ تاریخ شعور بڑھنے کےساتھ ساتھ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان مفروضوں کو پاش پاش کردے گی اور ان بنیادوں پر ڈھادے گی تاریخ کاکام یہ ہے کہ وہ ماضی کی صرف شان و شوکت ہی نہیں بلکہ اس کے تاریک پہلوؤں کی بھی نشاندہی کرے اور حب الوطنی کے ایک ایسے تصور کو فروغ دے جس میں عوام کا بھی تحفظ ہوکیونکہ جھوٹے قسم کے تصور سے صرف آمرانہ اداروں کو تقویت ملے گی۔
چونکہ ہمارےملک میں لوگوں کا رجحان موجودہ حکومتوں کے خلاف بڑا سرد مہری کا ہوتا ہے اور یہ اس وجہ سے کہ یہ حکومتیں عوام کی نمائندہ حکومتیں نہیں ہوتیں اور انہیں انتخاب کے ذریعے اقتدار نہیں ملتا اس لئے ان کے اور عوام کے درمیان دوری اوربعد ہوتا ہے اس لئے لوگوں میں جذبہ ہمدردی ، وفاداری اور محبت پیدا ہو اس مقصد کے لئے حکومتوں کے رفاعی اور فلاحی کاموں کی مثال دی جاتی ہے اور انہیں عوام کا ہمدرد اور خیر خواہ ثابت کیا جاتا ہے ہر نئی حکومت جب ایک مرتبہ اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے تو وہ پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں خود کو عوام کا ہمدرد ثابت کرتی ہے یہاں بھی مورخ ان کی مدد کے لئے آتےہیں اور پچھلے دور کو تاریک ثابت کرکے نئی حکومت کو عوام کےلئے خدا کی نعمت ثابت کرتےہیں ۔
ہمارے عوام جنہیں نہ تو اقتدار میں شریک کیا جاتاہے او رنہ ان کی رائے اور خواہش کا احترام کیا جاتاہے اس نظر اندازی کے سبب ان میں احساس کمتری پیدی ہوتاہے اور خود اعتمادی کے فقدان کی وجہ سے وہ خود کو مجبور اور لاچار محسوس کرتے ہیں اور انہیں اپنے وجود کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا اس لئے حال کے اس کھوکھلے پن کو مورخ ماضی کی شان و شوکت سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں اپنی محرومیوں کا احساس نہ ہو اور وہ اپنے حقوق کے لئے جد و جہد نہ کریں۔
جب کبھی بھی ہمارا معاشرہ بحران سے دو چار ہوتاہے تو با اقتدار طبقہ ان پر قابو پانے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اس وقت ہمارے مورخ اور روایتی تاریخ لکھنے والے ان تمام مسائل اور بحرانوں کا ذمہ دار یہودیوں ، ہندوؤں ، کمیونسٹوں اور عالمی طاقتوں کو ٹھہرا کر با اقتدار طبقوں کو تمام ذمہ داریوں سے بڑ ی کردیتے ہیں مثلاً بنگلہ دیش کے بحران کا ہندوؤں کو ذمہ دارٹھہرا یا جاتا ہے اور اس بات کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی کہ اس کا تنقیدی جائزہ لے کر حکومتی اداروں کی غلط پالیسیوں اور حکمرانوں کی ذمہ داریوں کو بیان کیاجائے ۔
ہماری تاریخ اب تک اس تصور اور نظریئے کے ساتھ لکھی جاتی ہے کہ تاریخ میں صرف عظیم شخصیتیں ہی کار نامے سر انجام دیتی ہیں اس لئے خصوصیت سے ہماری جد وجہد آزادی کی تاریخ کو عظیم شخصیتوں کے نقطہ نظر سے لکھا گیا ہے اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ سامراج کے خلاف جنگ کرنے والے صرف چند افراد تھے جنہوں نے اس ملک کو آزاد کرایا اور عوام شاید اس پوری جد و جہد میں محض تماشائی تھے ان شخصیات کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے اس قسم کے واقعات بیان کئے جاتےہیں جن سے ان کی قربانی ، ان کی محنت ان کے جذبے و ایثار او رلگن کا اظہار ہوتاہے تاکہ نہ صرف میں ان کے لئے احترام کا جذبہ ہوبلکہ تاریخ میں بھی انہیں اعلیٰ مقام ملے نتیجے میں ان افراد کے خاندانوں اور پیروکاروں نے خصوصی مراعات حاصل کر کے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کردیا ۔ کیونکہ وہ اپنے ہیروؤں کی قربانی کے بدلے میں مادی فوائد فوری طور پر حاصل کرنا چاہتے تھے اس کو دیکھتے ہوئے ہماری تاریخ میں جنگ آزادی کے مجاہدوں ایک فوج کی فوج پیدا ہوگئی اور ان کے کردار کو وطن پرستی کے نام پر شکوہ بنا کر پیش کیا۔ اور ان کے پردے میں لوگوں نے مالی فوائد حاصل کرنا شروع کردیئے ۔
اگر کوئی مورخ تنقیدی تجزیئے کے ذریعے ان عظیم شخصیتوں کے اصل روپ اور کردار کوظاہر کرنا چاہے تو اس کو روکنے کے لئے قانون اور اخلاقی دباؤ کا سہارا لیا جاتا تاکہ ان پر جھوٹ کا پردہ پڑا رہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ہیروں میں سےاکثر بلیک میلر ، اسمگلر ، زمینوں پر قبضہ کرنے والے چندہ اڑانے والے اور بدعنوان قسم کے لوگ تھے۔
حالانکہ صحیح تاریخی شعور پیداکرنے کے لئے ضروری ہے کہ حقیقت کو چھاپنے کی بجائے اسے ظاہر کیا جائے کیونکہ تاریخی سچائی ہی کے ذریعے تاریخ میں ان کے ضرر رساں اثرات کو زائل کیا جاسکتا ہے اور حال و مستقبل میں ان سے ہوشیار ہوا جاسکتا ہے ۔
تاریخ کو عظیم شخصیتوں کے تصور کے ساتھ پیش کرنے کے نتیجے میں جمہوری اقتدار اور جمہوری روایات کو نقصان پہنچتا ہے اور عام آدمی کو اس بات کے مواقع نہیں ملتے کہ وہ معاشرے کی تشکیل اور تعمیر میں حصہ لے اور تاریخ کے عمل کو تیز تر کردے تاریخ کا یہ نقطہ نظر تاریخ میں عوام کے کردار کو کم سے کم اور غیر اہم بنا کر پیش کرتا ہے اور ان کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے ان کے لئے حقارت کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے ا س طرح معاشرے میں غیر جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور آمرانہ رجحان کو فروغ ملتاہے ۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو تاریخ کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کے شعور کو بڑھائے اور ان کی فکر میں وسعت پیدا کرے او ریہ تب ہی ممکن ہے جب تاریخ کو ‘‘عالمی اور انسانی تاریخ کی حیثیت سے پڑھایا جائے کیونکہ جب تاریخ میں عالمی انسانیت کاتصور آئے گا تو اس میں مذہب ، نسل ، فرقہ واریت اور قومیت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی کیونکہ عالمی تاریخ اس زمین پر انسان کے ارتقاء پر بحث کرتی ہے اور اس میں انسانی معاشرے کے تمام پہلو آجاتےہیں ۔
عالمی تاریخ دراصل بنیاد ہے اور اسی عالمی تاریخ کےدھارے سےجب ہم تاریخ کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم کرلتیے ہیں تو اسے قومی تاریخ کا نام دے دیتے ہیں قوموں کی تاریخ کو مزید ٹکڑوں میں بانٹ کر ہم علاقائی تاریخ بنا لیتےہیں اس طرح معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو عالمی تاریخ سے علیحدہ کر کے ان کا مطالعہ کرتے ہیں جیسے ثقافتی، معاشی اور معاشرتی تاریخ اگر چہ تاریخ کو ہم مختلف ادوار میں تقسیم کرلیتے ہیں ۔ مگر حقیقت میں تاریخ ایک مسلسل علم کی صورت میں رہتی ہے ،جس میں انسانی معاشرے کےتمام پہلو آجاتے ہیں اس لئے تاریخ کو اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب کہ عالمی تاریخ کامطالعہ کیا جائے کیونکہ یہ تاریخ انسانوں کو نفرتوں اور تعصّبات سے پاک کرکے اس کے ذہن کو کشادہ کرے گی ۔کیونکہ جب تک اجتماعی انسانی سرگرمیوں ، انسانی تہذیبوں کے ارتقا ء اور ترقی کے بارے میں معلومات نہیں ہوگی اس وقت تک ہم قومی، علاقائی یا ثقافتی تاریخ کو پوری طرح نہیں سمجھ سکیں گے کیونکہ یہ تاریخیں علیحدہ سے ارتقا ء پذیر نہیں ہوتی ہیں یہ عالمی تاریخ کی زنجیر کی ایک کڑی ہوتی ہے۔
جمہوری زمانے میں تاریخ کا کام نہ صرف یہ نہیں کہ وہ حکمران طبقوں کو سیاسی انتظام اور ڈپلومیسی کی تربیت دے بلکہ یہ ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کو اس کے مواقع فراہم کرے کہ وہ اپنے ذہن کو جلا بخش سکیں جمہوریت نے تاریخ کو بادشاہوں اور آمروں سے آزاد کردیا ہے اور اب ایک عام آدمی کو بھی اس حد تک پہنچ ہوگئی ہے اس لئے ہماری مورخوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ کو خوشامد سےپاک کرکے اسے عام آدمی کی تعلیم کےلئے استعمال کریں تاکہ وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑسکے۔
No comments:
Post a Comment