ڈاکٹر مبارک علی
تاریخ اور مطالعہ پاکستان
ہندوستان کی سیاست میں جب بھی مسلمانوں کو متحد کرنے کامرحلہ درپیش ہوا تو ان کےمعاشی ، سماجی اور معاشرتی مسائل کی بنیادوں کو یکجاکر نے کی کوششیں نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان مسائل کو زیادہ اہمیت دی گئی بلکہ مذہب کو علامت بنا کر بر صغیر کےبکھرے ہوئے مسلمانوں کو جمع کیا گیا اس لئے تحریک پاکستان میں بھی مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر متحد کیا گیا اور تحریک کو موثر بنانے کےلئے ان میں مذہبی جوش و ولولہ زیادہ سے زیادہ پیدا کیا گیا۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد مسلمان اس مذہبی جذبے سے سرشار تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے قربانیاں دیں تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھائیں اور اس امید پر سارے دکھ سہے کہ ان سےجس جنت ارضی کا وعدہ کیا گیا ہے وہ جلد ہی وجود میں آنے والی ہے لیکن ان کے یہ جذبات اس وقت آہستہ آہستہ ٹھنڈے ہونا شروع ہوگئے جب انہوں نے دیکھاکہ ان کے نئےحکمران برطانوی حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہیں ان کے طور طریق عادات و اطوار اور رہن سہن بھی اسی طرح کا ہے جس کا تجربہ انہیں نو آبادیاتی دور میں ہوچکا تھا اور پھرہوا بھی یہی کہ جمہوری اداروں کے قیام او رمساوات کی بنیادوں پر مثالی معاشرے کی بجائے یہاں بیوروں کریسی فوج اور سرمایہ دار طبقوں نے آپس میں مل کر عوام کے خلاف ایک طاقتور محاذ بنایا اور اس میں کا میاب ہوگئے کہ وہ بغیر کسی مزاحمت کے اس ملک پر حکومت کرسکیں ۔ اس لئے جابرانہ نو آبادیاتی ادارے، قوانین اور روایات اسی طرح سے برقرار رکھی گئیں ،کیونک ان کی مدد سےحکومت کرنے میں سہولت اور آسانی تھی ۔
حکمران طبقوں کی اس فرعونیت کے خلاف عوام میں تلخ جذبات پیدا ہوئے یہ تلخی اور مستقبل سے مایوسی اس سے اور بڑھی جب یہ عوام کے معاشی و سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئے اور جب ملک سے جمہوری روایات اور قدروں کو ختم کرنے کا عمل شروع ہوا ، دستو ر ساز اسمبلی ٹوٹی ، ملک کا وزیر اعظم برطرف ہوا اور اس فیصلے کی توثیق ہماری عدالت عالیہ نے کی ۔ سیاستدانوں کے درمیان اقتدار اور لوٹ کھسوٹ کی دوڑ شروع ہوئی اور آئے دن حکومتیں بدلنی شروع ہوئیں تو اس سیاسی عمل سےملک میں عدم تحفظ کا احساس ہوا اور پھر جب ملک میں ایوب خان کا پہلا مارشل لاء نافذ ہوا تو اس نے ملک سےجمہوریت انسانی عزت و قار اور آزادی تمام قدروں کو نیست و نابود کرنے کا عمل شروع کردیا اس کے بعد سے آنے والی تمام جابرانہ و آمرانہ حکومتیں معاشرے کی بنیادی خرابیوں کوختم کرنے میں ناکام رہیں، غربت و مفلسی جہالت و بے روزگاری اور بیماری و لاقانونیت میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوا۔
ہماری نئی نسل جس نے اس سیاسی، معاشی اور سماجی ماحول میں آنکھیں کھولیں اس میں اپنے عہد ے کی ناآسودگی ، پریشانی بے اطمینانی او ربے چینی پوری طرح سرایت کر گئی لیکن اس ذہنی انتشار او ربے چینی نے اس میں سیاسی شعور اور معاشی و سماجی حالات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی دی اس لئے اس میں یہ احساس پیدا ہوا کہ جن بنیادوں پر اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا۔ اور جن نعروں کے سہارے اسے اب تک زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ کھوکھلے اور بے جان ہیں اور ان کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ عوام پر فکر و آگہی کے دروازے بند کئے جائیں ۔ اس لئے ان مسائل میں پروان چڑھنے والی اس نسل نے ان بنیادوں کو چیلنج کرنا شروع کردیا جن پر اس ملک کی بنیاد تھی اس نے ان تمام روایات و اقدار کےخلاف بغاوت کی جن کے سہارے ہمارے حکمران طبقے اپنی قوت و طاقت اور اقتدار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہمارے حکمرانوں کی جانب سے جو رد عمل ہوا وہ بڑا دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی نئی نسل کی بغاوت شورش اور بے چینی کا سد باب کرنے کےلئے اس تجویز کو عملی جامعہ پہنایا گیا کہ نظام تعلیم میں تبدیلی کی جائے اور اس میں اسلام اور پاکستان کے متعلق زیادہ سے زیادہ مواد شامل کیا جائے تاکہ اس سے نوجوان نسل کے ذہنوں کو تسخیر کرکے انہیں قابو میں کیا جاسکے اس پس منظر میں ‘‘نظریاتی سرحدوں’’ کے تحفظ کا تصور تشکیل دیا گیا اور اسی مقصد کےلئے ‘‘اسلامیات ومطالعہ پاکستان ’’ کے دو نئے مضامین اسکول سےلے کر یونیورسٹی کی سطح پرلازمی کئے گئے تاکہ ‘‘صالح مسلمان’’ اور ‘‘محب وطن پاکستانی’’ پیدا کئے جائیں اس سلسلے میں ‘‘ یونیور سٹی گرانٹ کمیشن ’’ نے جو ٹوٹیفکیشن جاری کیا اس میں کہا گیا کہ :۔
مطالعہ پاکستان کا مضمون لازمی طور پر تمام بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے والوں کو پڑھایا جائے اور کسی طالب علم کو اس وقت تک ڈگری نہیں ملے گی جب تک کہ وہ مطالعہ پاکستان میں کامیابی حاصل نہ کرلے اس سلسلے میں یہاں تک کیا گیا کہ پروفیشنل کالجوں میں بھی مطالعہ پاکستان کو لازمی مضمون قرار دیا تاکہ انجینئرز اور ڈاکٹر اپنی پیشہ وارانہ قابلیت میں ماہر ہوں یا نہ ہوں مگر یہ کہ وہ ایک ‘‘محب وطن پاکستانی’’ ضرور ہوں ۔
اس کانتیجہ تو یہ ہوا کہ ناشروں اور پبلشروں کی بن آئی جنہوں نے نام نہاد تجربہ کار پروفیسر وں اور دانشوروں سے مطالعہ پاکستان پر راتوں رات کتابیں لکھوا کر خوب دولت کمائی ۔ ظاہر ہے ایسی کتابوں کی اشاعت کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا تھا اس لئے ان کی چھپائی اور خوبصورتی پرکوئی توجہ نہیں دی گئی اور اس بات کا پورا پورا خیال رکھا گیا کہ کتاب میں زبان و بیان ، واقعات کی تشریح اور تاریخ کی تعبیر و تفسیر وہ ہو جس سے حکمران طبقوں کے مفادات کا تحفظ مل سکے ۔ اور پاکستان بننے کے بعد سے اب تک انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس کو صحیح ثابت کیا جاسکے اس کے علاوہ اس موضوع پر حکومت کے تحقیقی و تعلیمی اداروں کی جانب سے بھی کچھ کتابیں شائع ہوئی ہیں ۔ جو مواد اور انداز کے اعتبار سے ان سے مختلف نہیں ہیں ۔
بر صغیر ہندوستان کی تحریک آزادی پر اس دوران میں ہندوستانی بیرونی ملک کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں بہت کام ہوا ہے نئے تحقیقی مواد کی روشنی میں بہت سے پرانے مفروضے ختم ہوچکے ہیں برطانوی حکومت کے سرکاری کاغذات اس عہد کی نامور شخصیتوں کی ڈائریاں ، سوانخ حیات اور نجی خطوط کی روشنی میں بہت سی نئی باتیں سامنے آئی ہیں وقت کے گزرنے کے بعد جن حالات پر پردہ پڑا ہوا تھا جو واضح اور صاف نہیں تھے اب نئی تحقیق کے بعد ان واقعات کی تہہ میں ہونے والے عوامل صاف نظر آنے لگے ہیں اس ان نئے انکشافات نے بر صغیر کی جدید تاریخ کو یکسر بدل دیا ہے۔ مثلاً ایک زمانے تک ہنٹر کی مشہور کتاب ‘‘ہمارے ہندوستانی مسلمان ’’ کی بنیاد پر ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو پس ماندہ خیال کیا جاتا تھا لیکن اب نئی تحقیق و اعداد و شمار کے بعد یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ ہنٹر کےمشاہدات صرف بنگال کی حد تک صحیح تھے اور ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے مسلمانو ں کی حالت اس قدر پسماندہ نہیں تھی یا تقسیم بنگال کو فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دیکھا جاتاہے جب کہ نئے مواد کی روشنی میں اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ اس کے پس منظر میں بنگال کے انقلابیوں کی طاقت کو ختم کرنا اور ہندو مسلم یکجہتی کو توڑنا تھا اور یہ کہ ہندو مسلمان متوسط تعلیم یافتہ طبقے کے لئےیہ تقسیم مالی لحاظ سے نقصاندہ تھی اور اس لئے اس کی انہوں نے مخالفت کی یا 1906 ء کے شملہ وفد کے بارےمیں جو یہ کہا جاتاہے کہ اس میں مسلمانوں کے نمائندوں نے مسلمان قوم کی نمائندگی کی تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس وفد کے اراکین کو کیا کسی انتخاب کے ذریعے مسلمانوں نے منتخب کیا تھا یہ کسی اور ذریعے سے انہیں اپنا نمائندہ چنا تھا یا یہ کہ انہوں نے خود کو زبردستی تمام ہندوستان کے مسلمانوں کا نمائندہ فرض کرلیا تھا اس طرح ‘‘قرار داد پاکستان’’ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اسے متفقہ طور پر پاس کیا گیا تھا لیکن یہ کہیں نہیں ملتا کہ کیا لوگوں نے ہاتھ اٹھا کر اس کے حق میں ووٹ دیا یا باآواز بلند سب سے ‘‘ہاں ’’کہہ کر اس کی توثیق کی یا یہ محض فرض کرلیا گیا اور اسے پاس قرار دے دیا گیا اس طرح دوسرے موضوعات پرجن دانشوروں نے نئے انداز سے روشنی ڈالی ان میں سے ایف رابن سن ، پیٹر ہارڈی، پروفیسر محمد مجیب ، تارا چند ، گوپال ، خالد بن سعید ، مشیر الحق ، پی براس اور این کے چین قابل ذکر ہیں ۔ جنہوں نے بر صغیر ہندوستان کی تاریخ آزادی کو نئی بنیادوں پر لکھا او رنئے سرے سے اس کی تشکیل کی ۔
تاریخ نے نظریات میں ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ہمارے مورخ اور دانشور اب تک تاریخ کو مذہبی فرقہ وارانہ نظر سے لکھ رہے ہیں اور ہر تاریخ واقعہ کی توضیح و تشریح مذہبی تنگ نظری سے کرتےہیں تاریخ کا تجزیہ اور واقعات کو بیان کرتے ہوئے اس عہد کے معاشی و سماجی اور معاشرتی رجحانات و اثرات کو بالکل فراموش کردیتے ہیں اور اس حقیقت سے پردہ نہیں اٹھاتے کہ مسلمان معاشرے کے مختلف طبقوں کے مفادات کیا تھے؟ اور تحریک پاکستان کن طبقوں کے مفادات کو پورا کرنے کی غرض سے چلائی گئی تھی ۔ تاریخ کا یہ طبقاتی نقطہ نظر ظاہر ہے ہمارے حکمران طبقوں کے لئے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ یہ نقطہ نظر عوام میں صحیح تاریخی شعور پیدا کرے گا اور وہ اس کی روشنی میں ماضی میں ہونے والے واقعات کو بہتر طریقے سےسمجھ سکیں گے اور یہی شعور ان کی راہنمائی کرے گا کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے یہ ماضی میں ہونے والے واقعات کامنطقی نتیجہ ہے۔
No comments:
Post a Comment