ڈاکٹر مبارک علی
تاریخ نویسی
سماجی و معاشرتی علوم میں تاریخ کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ وہ یہ علم ہے جو قوموں میں ایک دوسرے کے لئے نفرت اور محبت کے جذبات پیدا کرتا ہے ۔ اس کے ذریعے ایک طرف تو معاشرے کو وسیع النظر اور وسیع القلب بنایا جاسکتا ہے تو دوسری طرف کے ذریعے ذہنوں میں نفرت و عناد اور تنگ دلی کو پیدا کیا جاسکتا ہے۔
اسی لئے علم تاریخ ایک خطرناک اور مہلک ہتھیار ہے۔ اگر یہ تنگ نظر اور متعصّب حکمرانوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے تو وہ اس کے ذریعے پورے معاشرے کو تنگ اور اندھیر ے راستے پر ڈال دیتےہیں کہ جس میں مقید و محصور ہوکر معاشرہ ارد گرد کے حالات واقعات سے بے خبر رہتا ہے ۔
اس مرحلے پر ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ہاں تاریخ کو جس انداز سے لکھا جارہا ہے وہ صحیح ہے ؟ کیا تاریخی علم ہمیں دنیا، انسانیت اور ہماری تاریخ کے بارے میں کوئی شعور دے رہا ہے ؟ کیا ہم توقع رکھتے ہیں کہ ہماری نسل تاریخ کے اس عمل کی بنیاد پر فہم ادراک حاصل کرسکے گی؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کےلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ نویسی کا پس منظر اس کے اہم رجحانات اس کی ساخت و موضوعات اورا س تعبیر و تفسیر کا جائزہ لیں۔
ہماری تاریخ نویسی کا پس منظر
ہماری تاریخ نویسی کا سرمایہ اس وقت ہمارے پاس تین قسموں میں ہے۔ عہد سلاطین و عہد مغلیہ کی تاریخ نویسی، عہد برطانیہ کی تاریخ نویسی، اور برصغیر کی آزادی کے بعد کی تاریخ نویسی۔ ان تینوں قسموں کی تاریخ نویسی کی کیا کیا خصوصیات ہیں؟ او رانہیں کن رجحانات کے تحت لکھا گیا ہے؟ ان سوالات کا جواب دینے کے لئے ان کا مختصر تنقیدی جائزہ لیا جائے گا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کے بعد سے بر صغیر میں باقاعدہ تاریخ نویسی کا رواج ہوا۔ لیکن یہ تاریخ نویسی نظام حکومت کی وجہ سے ایک مخصوص دائرے میں محدود رہی کیونکہ بادشاہی نظام حکومت میں تمام سیاسی قوت و طاقت بادشاہ کے ہاتھ میں رہتی ہے اس لئے ہماری تاریخ نویسی بھی اس کی شخصیت کے گرد گھو متی ہے۔ ان تاریخوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بادشا ہ کی عظمت کو عوام کے ذہنوں میں بٹھایا جائے ۔ اوراس کے کارناموں کی اجاگر کیا جائے تاکہ اس کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے۔ چنانچہ یہ تمام تاریخیں بادشاہ کی شخصیت کو مرکز بناکر اس کی بہادری ، شجاعت، فیاضی اور سخاوت کی داستانیں بیان کرتی ہیں یہ تاریخیں ایک خاص مقررہ ڈھانچے میں تشکیل دی گئی ہے اس کے اہم موضوعات بادشاہ، امراء اور علماء ہیں ، عوام کو اس سے قطعی خارج کردیا گیا ہے ۔ اس وجہ سے ان تاریخوں میں صرف جاگیرارانہ ثقافت کی جھلکیاں ملتی ہیں ۔ عوامی ثقافت کے بارے میں یہ خاموش ہیں ۔
ان تاریخوں میں دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ دارالسلطنت یا دارالحکومت کی تاریخیں ہیں جہاں بادشاہ اور اس کا دربار ہوا کرتا تھا ۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کی سرگرمیوں سے یہ تاریخیں خالی ہیں۔
ان تاریخوں کی یہ اہمیت ضرور ہے کہ ان کے ذریعے ہم بادشاہوں کی شخصیت ان کے عہد میں ہونےو الی جنگوں ، انتظامی اصلاحات مذہبی تحریکوں ، امراء کی سماجی ومعاشی زندگی اور دربار میں تخلیق ہونے والے ادب، شاعری، مصوری، موسیقی اور تعمیرات سے واقف ہوجاتے ہیں ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ تاریخیں معاشرے کی پوری تصویر پیش نہیں کرتیں ۔ یہاں عوام کی زندگی ، دیہاتوں کے رسوم و رواج عوام موسیقی ، میلے ٹھیلے، لوگ گیت ولوک کہانیاں موجود نہیں ۔یہ طبقہ خواص کی نمائندہ ہیں عوام کو ان کے صفحات پر بازیابی کی اجازت نہیں ۔
دوسرے درجے میں تاریخیں آتی ہیں جو برطانوی عہد میں نو آبادیاتی نقطہ نظر سے لکھی گئیں : برطانوی مورخین کا اولین مقصد یہ تھاکہ ہندوستان میں اپنی حکومت کی اخلاقی بنیادیں فراہم کی جائیں او رہندوستان کے عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ ان پراب تک جن حکمرانوں نے حکومت کی وہ آمر، جابر، غاصب عیاش اور نکمّے تھے ۔ اور ان کا دور حکومت جہالت و اندھیر ے میں ڈوبا ہوا تھا بد قسمتی سے آخری عہد مغلیہ میں ہندوستان اس قسم کے حالات اور سیاسی انتشار سے گزرا تھا اس لئے لوگوں کے ذہن تاریخ کے اس مفہوم کےلئے تیار تھے ۔ تاریخ کے اس مفہوم نے برطانوی افسروں اور عہدیداروں میں احساس برتری کو پیدا کیا اور ان میں اس مشنری جذبے کو پیدا کیا کہ ہندوستان کی بربریت و جہالت سے نکال کر مہذب و جدید بنانے کی ذمہ داری قدرت نے انہیں دی ہے۔
ہندوستان کی تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کرنے کی بدعت سب سے پہلے جیمس مل (JAMESMILL) نے شروع کی ۔ جس نے ہندوستان کی تاریخ کو مذہبی اعتبار سے ہندو، اسلامی اور برطانوی ادوار میں تقسیم کی دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی عہد کو عیسائی نہیں لکھا ، جب کہ پہلے دو ادوار کو مذہبی اعتبار سے تقسیم کیا ہے ۔ ہندوستانی تاریخ کی یہ تقسیم ہر اعتبار سے غلط گمراہ کن ہے ۔ مسلمانوں کی آمد سےقبل ہندو دور کہنا تاریخی غلطی ہے کیونکہ اس طرح بدھ مت ، جین مت اور دوسرے مذاہب کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ۔ اسی طرح شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام سےپورا ہندوستان ان کے زیر اقتدار نہیں آیا اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں ہندو سلطنتیں آخری وقت تک قائم رہیں ۔ مذہبی بنیاد پر تاریخ کی اس تقسیم نے ہندو او رمسلمانوں کے اختلافات کو ہوا دی کیونکہ یہی وہ بنیادیں تھیں جن پر آگے چل کر ہندو مورخین نے قدیم ہندوستان کی عظمت میں اپنی تخلیقی قوتیں صرف کیں تو مسلمان مورخین ہندوستان میں اسلامی عہد کی برکتوں کی تلاش میں رہے ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ تاریخی تقسیم مذہبی بنیادوں پر ہوئی ۔ ہمارے مورخین نے نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ آج تک ہر تاریخ انہی ادوار میں تقسیم ہوکر ترویج دی جاتی ہے اور ابتداء ہی سے ہمارے ذہنوں کو مسموم کردیتی ہے ۔
برطانوی عہد کی تاریخ نویسی میں دو رجحانات نمایا ں ہیں انگریزوں کی تہذیبی اور نسلی برتری اور ان کے سامراجی عزائم ۔ چنانچہ ان تاریخوں میں جو انہوں نے لکھیں یاہندوستانی مورخین سے لکھوائیں ساری برائیوں کا الزام ہندوستانی حکمرانوں اور ان کی حکومتوں پر ہے۔ جب بھی انہیں کسی ریاست پر قبضہ کرنا ہوتا تھا تو اس کے بارے میں یہی تاثر دیا جاتا کہ ان کےحکمران نالائق و عیاشی ہیں اور ریاست میں انتظامی خرابیاں ہیں ۔ ان بنیادوں پر وہ اپنے اقتدار کوجائز قرار دیتے اور عوام کو ذہنی طور پر اپنی حکومت کے لئے تیار کرتے۔
برطانوی مورخین نے ہندوستان کی مختلف اقوام کے بارے میں جو رائیں دی ہیں اس کے پس منظر میں بھی ان کے استعمارانہ نظریات تھے مثلاً بنگالیوں کو تخریب پسند، شورش پسند اور باغی کہا گیا کیونکہ انہوں نے ہمیشہ قائم شدہ حکومتوں کے خلاف بغاوتیں کیں ۔ اس لئے یہ ثابت کیا گیا کہ بنگالی کبھی کسی حکومت کے وفادار نہیں رہے۔ بنگالیوں کے بارے میں یہ تاریخی تاثر ہمیں ورثے میں ملا اور ہمارے ہاں یہ نظریہ بڑا مقبول رہا ۔
خصوصیت سے بنگلہ دیش کی تحریک نے اس نظریے کو مزید تقویت دی، جب کہ اس بات کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ بنگالیوں کی شورشیں ، اور بغاوتیں ان کےسیاسی شعور کا نتیجہ تھیں کہ جنہوں نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور خاموشی سے وفاداری کی بجائے اپنے حقوق کی جنگ کی ، جو ان کی کمتری نہیں بلکہ عظمت کی نشانی ہے۔ ان کی تمام بغاوتیں ان کی بیداری ، آزادی اور حریت کی علامتیں ہیں جو انہیں دنیا کی باشعور قوموں میں اونچا مقام دیتی ہیں ۔
اسی طرح جنگجو اور غیر جنگجو قوم و نسل کا تصور بھی برطانوی استعمار کی پیدا کی ہوئی چیز ہے جن اقوام نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور ان کے اقتدار کو قائم کرنے میں مدد کی وہ جنگجو کہلائیں ۔ اور جنہوں نے اس کی مزاحمت کی وہ باغی و تخریب کار۔
برطانوی حکومت کے قیام اور سیاسی شکست نے ہماری تاریح نویسی کو بھی متاثر کیا ۔ ہم اپنی تاریخ نویسی اور دو رجحانات خصوصیت سےدیکھتے ہیں : ماضی کی شان و شوکت تاکہ ہمارے احساس کمتری کو اس کے ذریعے کم کیا جائے ، اور معذرت خواہانہ انداز تاکہ جو اعتراضات ہم پر کئے گئے ہیں ان کی معذرت خواہانہ توجیہہ بیان کی جائے ۔ اولین رجحان کی نمائندہ تحریک دارالمصفین کی تھی، اس تحریک کی بانی شبلی اور ان کے رفقا ء نےاسلام کی عظمت اور شان و شوکت کو ابھارنے کے لئے تاریخ کو اپنا موضوع بنایا ان کا مقصد یہ تھا کہ اس تصور کو مقبول بنایا جائے کہ دنیا کی تہذیب پر سب سے زیادہ اثر اسلام اور مسلمانوں کا ہے ۔اس اسکول کے مورخین کے ہاں تاریخ محض ‘‘بیانیہ’’ ہے تجزیاتی نہیں ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ تاریخ کی تعبیر محض تعریفی ہے مجموعی طور پر انہوں نے بے روح اور خشک تاریخیں لکھی ہیں جو کسی بھی طرح ہمارے تاریخی شعور میں کوئی حصہ نہیں لیتی ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی ہمارے ہاں معذرت خواہانہ طرز تحریر تاریخ نویسی میں آیا جس نے مغربی مورخین کے اعتراضات کا جواب معذرت کے انداز میں دیا، اس میں سید احمد خان اور امیر علی خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
ہماری تاریخ نویسی میں تیسرا رجحان قومیت کا ہے ۔ مغربی تعلیم اور جدید مغربی نظریات و افکار سے واقف ہندوستانی تعلیم یافتہ مورخین نے اپنی تاریخ کی نئے سرے سے تشکیل کی جہاں قدیم ہندوستان کی تاریخ پر تحقیق ہوئی وہاں مسلمانوں کے عہد کوبھی فراموش نہیں کیا گیا ۔ خصوصیت سے ‘‘الہ آباد یونیورسٹی اسکول’’ کے مورخین نے عہد سلاطین و عہد مغلیہ پر تحقیقی کام کرکے مسلمانوں کے عہد کی عظمت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔ قومیت کے جذبات کے تحت لکھی جانےو الی تاریخوں میں ہندو مسلمان اتحاد نظر آتا ہے ۔
تاریخ اور سیاست
برطانوی اقتدار کے خلاف تحریک آزادی سے لے کر قیام پاکستان اور اس کے بعد موجودہ دور تک ہماری تاریخ سیاست کے زیر اثر لکھی جاتی رہی ہے ۔ سیاست دانوں نے اپنے عزائم کو پوراکرنے کےلئے جو لائحہ عمل بنایا، ہمارے مورخین نے اس کی تکمیل میں تاریخ کو استعمال کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ اور سیاست ایک ہی راستہ پر چل کھڑے ہوئے اور یہی تاریخ کے لئے ایک المیہ ثابت ہوا ۔ جس طرح درباری مورخین دربار کی زنجیروں اور جکڑے ہوئے تھے اسی طرح ہمارے جدید مورخ سیاست دانوں کے نظریات و افکار میں گرفتار اہل اقتدار کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ جس طرح درباری تاریخ نویسی تنگ نظری کا شکار ہوکر تاریخ کا وسیع مفہوم نہ دے سکی ۔اسی طرح ہماری جدید تاریخ نویسی نفرت و فرقہ واریت کے جذبات کا شکار ہوکر وسیع القلبی اور وسیع النظری کی تعلیم نہیں دے سکی ۔ ہمار مورخ با اقتدار سیاستدانوں کا تابع ہوکر، اپنی آزادی اور حقیقت پسندی کو کھو بیٹھنا ۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری جدید تاریخ نویسی میں کوئی تنوع نہیں رہا ۔ ان کے لئے ایک فارمولا وضع کرلیا گیا ہے اور ہر مورخ اسی کے تحت تاریخ لکھنے میں مصروف ہے۔ اس لئے کہا جاسکتاہے۔ کہ ایک ریکارڈ سے صرف کیسٹ تیار ہورہے ہیں ۔ اسی لئے ہماری تاریخ ایک بے جان ، خشک اور غیر دلچسپ چیز بن کر رہ گئی جس کا اسلوب تحریر دلائل اور واقعات کے بیان کا اندازہ تو ہماری نسل کو متاثر کرتا ہے اور نہ ہی ان میں کسی قسم کا تاثر چھوڑتا ہے تاریخ کو سیاسی ، سماجی اور معاشی پس منظر میں دیکھنے او ر تحریر کرنے کی بجائے اسے صرف اہل اقتدار سیاستدانوں کے محدود اور تنگ نظریات کی روشنی میں پرکھا اور صحیح ثابت کیا جاتاہے ۔
تاریخ اور شخصیتیں
ہماری جدید تاریخ نویسی کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں عوام کی خواہشات و جذبات او رمفادات کو نظرانداز کرکے شخصیتوں کے گرد تقدس کا ہالہ بنا کر ان کے کارناموں کی تفصیلات دی جاتی ہیں اور وہ لوگ جن کا عوام سےکوئی تعلق نہیں تھا انہیں عوامی رہنما کا خطاب دے کر ان کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں یہا ں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ موجودہ تاریخ سوائے شخصیتوں ، ان کے حالات زندگی اور ان کے نظریات کے علاوہ کچھ نہیں؟ اگر ہم اس سوال کا تجزیہ کریں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت واضح ہوکر آتی ہے کہ ہماری تاریخ میں یہ شخصیتیں اس لئے ہیں کہ ہماری تاریخ اقلیت کی تاریخ ہے۔ یہ امراء ، زمینداروں ، جاگیراروں کی تاریخ ہے اس میں نہ تو عوام کو شامل کیا گیا ہے۔ او رنہ ہی ان کی سرگرمیوں کو اہمیت دی گئی ہے اس لئے اگر ان شخصیتوں کو ہماری تاریخ سے نکال دیا جائے تو یقیناً ہمارے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ اس لئے ان شخصیتوں کے گرد تقدس کا ہالہ بنادیا جاتا ہے تاکہ کوئی ان کے نظریات و افکار کو چیلنج نہ کرسکے اور انہوں نے جو مراعات اپنے طبقے کے لئے حاصل کی ہیں انہیں ہمیشہ کےلئے محفوظ رکھا جاسکے۔
تاریخ اور عقیدت
ہماری تاریخ نویسی عقیدت کے جذبات سےبڑی متاثر ہوئی ہے ۔ اسی لئے ہماری تاریخ کا بیشتر حصہ عقیدت کے جذبات کے تحت لکھا گیا ہے ۔ ہمارا مورخ عام طور پر مذہبی ، سیاسی، معاشرتی یا نسلی عقیدت کاشکار ہوتاہے ۔ عام طور سے تو اس کامطمع نظر صرف یہ ہوتاہے کہ عقیدت مندی کے تحت کسی شخصیت اور اس کےکارناموں کو تحریر کرے۔ یا کسی تحریک کا تاریخی جائزہ لے۔ اس عقیدت مندی میں کبھی کبھی نظریات کا ٹکراؤ بھی ہوجاتاہے اور مختلف مسلک کے مورخ ، عقیدت مندی کے تحت اپنے نظریات کوصحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتےہیں اور ہماری تاریخ نویسی میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ مثلاً سید برابردران جنہیں بادشاہ گر بھی کہا جاتاہے ۔ شیعہ مورخ محض شیعہ ہونے کے سبب انہیں تاریخ میں اعلیٰ مقام دیتے ہیں اور ان کی تعریف و توصیف کرتے ہیں ۔
سید احمد سرہندی ، شاہ ولی اللہ اور سید احمد شہید کی شخصیتوں اور تحریکوں کو محض عقیدت سے لکھا جاتاہے اور ان کی تحریکوں کا سیاسی معاشی اور سماجی تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے عقیدت مندی کے تحت لکھی جانے والی تاریخیں کوئی معروضی نقطہ نظر پیش نہیں کرتیں بلکہ ان میں اکثر واقعات کو مسخ کر کے اپنی پسند کی شخصیت کو ابھارا جاتا ہے ۔ دارالمصفین کے تمام مورخین کی تاریخیں اسی عقیدت مندی کے تحت لکھی گئی ہیں ۔ غلام رسول مہر کی ‘‘حیات سید احمد شہید’’ بھی اسی قسم کی تاریخ نویسی کا ایک نمونہ ہے۔ خصوصیت سےاسلامی تاریخ پوری کی پوری اسی عقیدت مندی کے تحت لکھی گئی ہے اور اس کا کوئی تنقیدی جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مورخ تخلیق کاکوئی اعلیٰ نمونہ پیش کرنے سےقاصر رہے ہیں ۔
تاریخ اور فرقہ واریت
لیکن تاریخ نویسی کا سب سے خطرناک پہلو فرقہ واریت ہے جس نے تاریح کومسخ و مجروح کرکے تاریخ کی ساخت اور ماہیت کو مثاتر کیا ہے۔ ہندوستانی سیاستدانوں نے فرقہ واریت کو ہوا دی جس کے نتیجے میں تاریح نویسی بھی ان رجحانات کو اختیار کیا گیا ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے علیحدہ علیحدہ ہیرو بنائے گئے ۔دونوں جانب سے متعصّب مورخین نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔ چنانچہ ہمارےہاں محمد بن قاسم ، محمود غزنوی اور اورنگ زیب ہیرو قرار دپائے ،تو ان کے ہاں پرتھوری راج ، رانا پرتاب اور شیواجی ہیرو ٹھہرے ، فرقہ واریت کے جذبات نے تاریخ کی صحیح تشریح اور حقائق کی چھان بین میں رکاوٹیں پیدا کیں ۔ اسی لئے آخری عہد مغلیہ میں مرہٹوں ، سکھوں اور جاٹوں کی قومی تحریکوں کو محض بغاوتیں کہہ کر ان کی اہمیت کو گھٹا یا گیا ۔
ہماری جدید تاریخ بھی انہی فرقہ وارانہ جذبات کے تحت لکھی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ محض نفرت و عداوت کے جذبات پیدا کررہی ہے۔
تاریخ نویسی کے ان رجحانات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں تحمل اور رواداری کے جذبات مفقود ہوگئے ہیں اور اسی لئے ہمارے معاشرے میں معروضی تاریخ کی تعبیر اور تفسیر نا ممکن ہوگئی ہے ۔ اگر دوسرے مورخ ہمارے تاریخ کا معروضی تجزیہ کرتے ہیں تو ہم انہیں اپنا دشمن کہہ کہ ان کی کتابوں پر پابندی عائد کرادیتے ہیں ہم تاریخ میں صرف وہی پڑھنا چاہتے ہیں جو ہمیں پسند ہے۔
اگر کوئی مورخ تاریخ کا تنقیدی جائزہ لینے کی جرات کرتاہے تو اس کےنتیجے میں ہر طبقے ، اقلیت اور مسلک کو ماننے والوں کے جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ رہتاہے ۔ سیاسی دینی حمیت کا بھی ڈر رہتا ہے ۔
اسی لئے ہمارے مورخین ایک بے روح بے جان اور غیر دلچسپ تاریخ کو بار بار دہرانے کاکام کررہے ہیں ۔ یہ وہ تاریخیں ہیں جو کسی بھی صورت میں ہمارے معاشرے کی تشکیل میں کوئی موثر کردار ادا نہ کرسکیں گی۔
تاریخ کی تعبیر
ایک مورخ کی ذمہ داری اس وقت او ربڑھ جاتی ہے جب وہ معاشرے میں پیدا ہونے واے بحران کاتجزیہ کرتاہے ۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ بحران کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور اس کے پس منظر میں ہونے والے عوامل دیکھا جائے ۔ کیونکہ اگر معاشرے میں پیدا ہونے والے بحرانوں کا تجزیہ نہ کیا جائے او رمحض انہیں بیان کردیا جائے تو یہ معاشرے کو کوئی شعور نہیں دے گا ۔ اس کا تنقید ی جائزہ معاشرے کےذہن کو شعور دیتا ہے ۔ اور اس کی روشنی میں معاشرے کی آئندہ تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے ۔
ہمارے مورخین نےابتداء ہی سے بحرانوں کا جو تجزیہ کیا اس نے معاشرے کو صحیح راستہ پر ڈالنے کی بجائے غلط راستہ پر ڈال دیا ۔ مثلاً ابتدائی اسلامی تاریخ لکھتے وقت جب حکومت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو بیان کیا گیا تو ان تمام تحریکوں میں ہمارے مورخین کو یہودیوں کا ہاتھ نظر آیا ۔ چنانچہ ہمارے مورخین کے تجزبے کے مطابق مسلمانوں کے اولین دشمن یہودی ٹھہرے۔ جنہوں نے ہماری تباہی و بربادی میں ہمیشہ حصہ لیا ۔ ابتدائی اسلامی تاریخ میں عبداللہ بن سبا کی شخصیت انتہائی پر اسرار کردار کی شکل میں ابھرتی ہے۔ جس نے یکہ و تنہا بڑے بڑے صحابہ کو اپنی سازشوں میں الجھا کر سیاسی بحران پیداکئے ۔ اس کے بعد سےمسلمان مورخین کا یہ پسندیدہ موضوع رہا اور ہر تحریک ، ہر فساد اور ہر گڑ بڑ میں انہیں یہودی نظر آتے رہے۔
یہودیوں کے بعد ہمارے دشمن باطنی و قرامطی ہوئے جنہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچائے ۔
ہمارے دشمنوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب یورپی اقوام نے ایشیا و افریقہ میں اپنا سیاسی اقتدار قائم کیا اور اکثر مسلمان ممالک ان کے زیر اثر آگئے چنانچہ اس کے بعد سے یورپی اقوام ہمارا ہدف بنیں ۔ چنانچہ جب بھی ہندوستان کی جدید تاریخ لکھی جاتی ہے تو اس میں اہل ہندوستان کی شکست انگریزوں کی چالبازی ، فریب اور چالاکی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ہماری معاشی سماجی اور سیاسی زندگی میں جو بھی خرابیاں ہیں ان کے ذمہ دار بھی انگریز اور یورپی اقوام ہیں ۔
جب ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو اس وقت ہمارے دشمنوں میں ہندوؤں کا بھی اضافہ ہوا۔ اس کے بعد سے انگریز اور ہندو ہمارے خطرناک دشمن بن گئے جو ہماری تباہی و بربادی میں حصہ لے رہے ہیں اور ہمیں مسلسل بحرانوں میں الجھائے ہوئے ہیں ۔
برصغیر سے انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو تنہا ہمارے دشمن رہ گئے ۔ چنانچہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا اس کی ساری ذمہ داری وہاں کے ہندوؤں پر ڈال دی گئی ۔ جنہوں نے بنگلہ دیش کی قومی تحریک کو پروان چڑھایا اور یہ انہیں کی سازش کا نتیجہ تھاکہ بنگلہ دیش آزاد ہوا ۔
چنانچہ اس وقت ہمارے دشمنوں میں یہودی ، یورپی اقوام ، ہندو کمیونسٹ اور عالمی طاقتیں ہیں ۔
تاریخ کی اس تعبیر سے اول تویہ سوال ذہن میں آتاہے کہ اگر واقعی ان عناصر مسلمانوں کو ہمیشہ بحران میں رکھا اور ان کے خلاف ہر تحریک کو کامیابی سے چلایا تو کیا مسلمان قوم اس قدربے وقوف اور نادان تھی کہ ان کےفریب میں آتی رہی اور مسلسل بے قوف بنتی رہی؟تاریخ کی اس تعبیر اور تفسیر سے تو پوری مسلمان قوم انتہائی احمق قرار پاتی ہےجن میں اتنی بھی سمجھ اور عقل نہ تھی ۔ ( اور نہ ہے) کہ وہ اپنے دشمنوں کو پہچان سکتے اور ان کی کارسازشوں کا تدارک کرسکتے، ظاہر ہے کہ تاریخ کی اس تعبیر کو ہم صحیح تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے بحرانوں او رہمارے زوال کے عمل میں کئی دوسرے عوامل نظر آتے ہیں کہ جن سےہمارے مورخین نے چشم پوشی کی اور حقیقت سے گریز کرکے لوگوں کے ذہن کو دوسری طرف ڈال دیا اور معاشرے میں پیدا ہونے والے بحرانوں اور خرابیوں کےظاہری دشمن پیدا کرکے اصل دشمن کو چھپا لیا ۔
مثلاً جب کسی بحران کا رتجزیہ کیا جائے تو اس میں کوئی عنصر کام کرتا نظر نہیں آتا بلکہ اس میں مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل ہوتےہیں ۔ اور اسی لئے اس کے تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مثلاً جب ایرانی مسلمان ہوئے تو انہیں معاشرے میں مساوی درجہ نہیں ملا تو ‘‘موالی’’ شیعہ تحریک کے ساتھ ہوگئے اور اپنے حقوق کے لئے جنگیں لڑیں ۔ اسی طرح جب عباس عہد میں کسانوں کا طبقہ مظلومیت کا شکار ہوا تو اس نے باطنی تحریک میں حصہ لیا اور اہل اقتدار کے خلاف جنگ شرو ع کی۔ بنگلہ دیش کی تاریخ ہمارے ذہنو ں میں تازہ ہے جہاں سرمایہ داروں اور حکمرانوں نے جو استحصال کیا اس کے نتیجے میں وہاں تحریک شروع ہوئی اس لئے ہمارے معاشرے میں ہماری تباہی و بربادی کا اصل ذمہ دار ہمارا حکمران طبقہ رہا۔ جس نے اپنے مفادات کی خاطر معاشرے کی تباہی میں حصہ لیا ۔ چونکہ ہمارے مورخین اسی طبقے کے ملازم تھے اور انہیں کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے اس لئے انہوں نے اس سے توجہ ہٹاکر ساری ذمہ داری دوسرے عناصر پر ڈال دی۔
ہماری جدید تاریخ نویسی میں انگریز دشمنی کے جذبات بڑے گہرے ہیں اس میں انگریز اقتدار کا صحیح تجزیہ کرنے کی بجائے انتہائی غیر منطقی انداز میں ان کے تاریخی کردار کو بیان کیا گیا مثلاً ہمیشہ سےتاریخ کی ابتداء اس طرح سے کی جاتی ہے کہ ہندوستان میں انگریز بحیثیت تاجر کے آئے او رپھر چالاکی وفریب سے یہاں اپنا سیاسی اقتدار قائم کرلیا ۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ملک پر سیاسی اقتدار قائم کرنا اتنا آسان و سہل ہے؟ اور اگر یہ فارمولہ اس قدر سہل اور آسان تھا تو ہم نے اس قسم کی کوشش کیوں نہ کی یورپ پر قبضہ کیوں نہیں کرلیا ؟ اس بات کے تجزیے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جاتی کہ انگریزوں پر قبضہ کیوں نہیں کرلیا؟ اس بات کے تجزیے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جاتی کہ انگریزوں اور یورپی اقوام کی آمد کے وقت ہندوستان کی جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالت تھی اس کا جائزہ لیا جاتا اور پھر اس کی روشنی میں یورپی اقوام کی کامیابی اور اہل ہندوستان کی شکست کا بہتر تجزیہ کیا جاسکتا تھا ۔ مثلاً ایک اہم نقطہ جس کی جانب زیادہ توجہ نہیں دی گئی وہ یہ ہے : کہ ابتداء میں یورپی تاجروں کی آمد سے ہندوستان کو اقتصادی طور پر فائدہ پہنچا کیونکہ یہ تاجر سونا چاندی کے سکوں کے عوض نقد ادائیگی کے بعد یہاں سے سامان خریدتےتھے او رپھر اسے یورپ کی منڈیوں میں فروخت کرتے تھےاس وقت ہندوستان صنعتی لحاظ سے یورپ سے بڑھا ہوا تھا ۔ لیکن ہندوستانی حکمرانوں نے اس موقع سے نہ کوئی فائدہ اٹھایا اور نہ ہی صنعتوں میں مزید ترقی کی کوشش ہوئی، نہ بحری راستے دریافت ہوئےاو رنہ ہی بحری بیڑا بنایا گیا ۔ یورپ میں سیاسی و معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں آتی گئیں جب کہ ہمارا معاشرہ منجمد اور ساکت رہا یہاں تک اس کی سختی نے اس ٹوٹ پھوٹ پیدا کرکے اسے زوال پذیر بنا دیا ۔
ہمارے مورخ انگریزوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے دھوکہ اور چالبازی سے ہندوستان میں اپنا سیاسی اقتدار بڑھایا لیکن وہ اس بات کا تجزیہ نہیں کرتے کہ انہیں یہ مواقع کس نے دیئے ؟ یہاں ہندوستان کی معاشی حالت ، اور طبقاتی تقسیم کےذریعے پیدا ہونے والی خرابیوں کے تجزیہ کی ضرورت ہے ۔ جس نے بے روزگار اور محروم طبقے کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ روزی کی خاطر انگریزوں کی ملازمت کرے ۔ اور ان کے لئے اپنے ہم وطنوں سے جنگ کرے۔ یہاں اس تجزئیے کی بھی ضرورت ہے کہ اگر کسی طبقے کو مراعات سے محروم کردیا جائے تو پھر اس میں نہ تو قوم سےمحبت ہوگی نہ ملک سے اور نہ معاشرے سے ۔ کسی بھی ایسے معاشرے میں جہاں اکثریت محرومیت کا شکار ہوگی اسے کبھی بھی معمولی ضرب سے پاش پاش کیا جاسکتا ہے اگر ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف سازشیں کرکے ہمیں نقصانات پہنچائے تو اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ ہم نے اپنے معاشرے میں اکثریت کو انصاف ، حقوق اور مراعات نہ دیں یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کی اس تعبیر اور تفسیر نے ہماری تمام تنقیدی صلاحیتوں کو ختم کردیا اور ہم نے اپنے بارے میں کبھی صحیح تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔ آج بھی ہم اپنے ہر بحران کو کبھی سپرپاور کی ریشہ دوانی قرار دیتے ہیں تو کبھی اس میں ہمیں کسی غیر ملک کا ہاتھ نظر آتا ہے تو کبھی ہندو موردالزام ٹھہرتےہ ہیں تو کبھی یہودی او رکمیونسٹ ۔ تاریخ کی یہ تفسیر اپنی ‘‘معصومیت ’’ کی تفسیر ہے اور تاریخ کا یہ مفہوم ہمیں غلط راستے پر لے جارہا ہے ۔
تاریخ ساخت اور موضوعات:
ہماری تاریخ نویسی حکمران خاندانوں کی تاریخ بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہے: اس لئے یہ تاریخ ایک مخصوص نمونے اور فارمولے کےتحت لکھی گئی ہے: حکمران خاندان اس کا بانی، ہر بادشاہ کا دور حکومت ، تخت نشینی، جنگیں ، فتوحات ، شکستیں ، بغاوتیں ، اصلاحات ، سیاسی انتشار ، حکمران خاندان کا زوال اور اس دور کی مشہور شخصیتوں کے تذکرے ، ایک خاندان کے بعد دوسرے خاندان آتے رہتے ہیں اور تاریخی بیان جاری رہتا ہے ۔
تاریخ نویسی کی یہ ساخت اور موضوعات انتہائی محدود اور تنگ زندگی کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ہماری تاریخ صرف ماضی کی سیاست بن کر رہ جاتی ہے اور اس کادائرہ کار صرف حکمران اور دربار کی سرگرمیوں و رسومات تک محدود ہوجاتا ہے ۔
یہاں ان موضوعات کا تجزیہ کریں گے جو ہماری تاریخ نویسی میں بار بار آتےہیں ۔ اور جن سے معاشرے کے ذہن میں تاریخ کاایک خاص مفہوم پیدا ہوتا ہے ۔
سنہری دور
ہماری تاریخ نویسی میں سنہری دور کی اصطلاح کو عام طور سے استعمال کیا جاتاہے اور اس کے سہارے معاشرے کو ایک مثالی معاشرے کی حیثیت سے پیش کیا جاتاہے ۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں امن و امان کا دور دورہ تھا ، جہاں حالی و فارغ البانی تھی اور جہاں سماجی و معاشرتی اقدار کی جڑیں بڑی گہری تھیں۔ سنہری دور کے ذکر میں علم و ادب کی ترقی تعمیری سرگرمیاں ، دولت کی فراوانی اورطبقاتی ہم آہنگی کا ذکر ہوتاہے ۔ عام طور سے مورخ ہمیں یہی تاثر دیتا ہے کہ یہ ذکر پورے معاشرے کا ہے۔ لیکن تاریخی حقائق اس کے خلاف ہوتےہیں تاریخ کے کسی بھی سنہری دور میں عام انسان کی محنت و مشقت میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ اس طرح زندگی کی محرومیوں سے دو چار رہا جیسے کہ عام حالات تھا ۔مثلاً شاہجہاں کے عہد کو تاریخ میں سنہری دور کہا جاتاہے جب کہ خوبصورت نازک اور عالیشان عمارتیں بن رہی تھیں ، دربار میں ادیبوں اور شاعروں کا مجمع تھا امراء کی زندگی آسائشوں سے بھرپور تھی غلامو ں ، کنیزوں اور خواجہ سراؤں کی نہتات تھی لیکن اسی عہد میں قحط بھی پڑرہے تھے ، لوگ بھوک اور فاقے سےمررہے تھے اور محنت و مشقت کے باوجود لوگ بنیادی ضروریات سےمحروم تھے ۔
اس لئے سنہری دور کا تصور ایک محدود طبقے کی نمائندگی کرتاہے پورے معاشرے کی نہیں ہندوستان کی تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں گزرا جب کہ خوش حالی اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک آئی ہو۔
طبقاتی احساس
ہماری تاریخیں چونکہ طبقے کی ہوتی ہیں اس لئے ان میں اسی طبقے کی زندگی اور ثقافت ہوتی ہے ۔ ہماری ان تاریخوں سے امراء زمینداروں اور جاگیردراوں کی جو تصویرابھر کر آتی ہے اس میں یہ نیکی کے مجسمے اور اخلاقی خوبیوں کے پیکر نظر آتےہیں تاریخ میں انکی سخاوت و فیاضی کی داستانیں ہوتی ہیں غریبوں کی مدد کے تذکرے ہوتے ہیں سراؤں ، مسجدوں اور باغات کی تعمیرات کی تفصیلات ہوتی ہیں ۔ ان کی سماجی و معاشرتی زندگی کے سلسلے میں پر آسائش و شان و شوکت والی زندگی کی جھلکیاں ہوتی ہیں، ادیبوں شاعروں کی مدد کا ذکر ہوتاہے ، اور ان کی محفلوں کے رومان پرور تذکرے ہوتےہیں ۔ ان کی شخصیت اور زندگی کی یہ تصویر ہمارےمعاشرے کےذہنوں کو مرعوب کردیتی ہے ۔ اور عوام میں احساس کمتری پیدا ہوجاتا ہے ۔
ہمارے مورخین کبھی اس بات کا تجزیہ نہیں کرتے کہ ان امراء کے پاس یہ دولت کن ذرائع سےآئی ؟انہوں نے دولت کے یہ ذخیرے کیسے جمع کئے ؟ کیا یہ دولت ٹیکسوں ، جرمانوں او رعوام کی محنت کی کمائی ہوئی دولت نہ تھی جسے جبرو تشدد اوراپنے بنائے ہوئے قانون کی مدد سے انہوں نے حاصل کیا؟ تاریخ کی یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ناجائز ذرائع سے دولت جمع کی جائے او راس کا ایک حصہ خیرات کرکے دنیا میں سخی و فیاض کے نام سے مشہور ہو جائے۔
ہماری تاریخ میں شخصیتوں کو اور ان کے کرداروں کو ایک خاص پیمانے سےناپا جاتا ہے اور اکثر اس کے مذہبی اوصاف کا ذکر کرکے اس کی عظمت و بڑائی کا تعین کیا جاتاہے ۔ مثلاً پنج وقتہ نمازی ، روزے دار، قرآن شریف کی تلاوت کرنے والا ، تہجد گزار اور علماء کی قدر کرنے والا لیکن اس کا تجزیہ نہیں کیا جاتا کہ اس کا سلوک اپنے ملازمین کے ساتھ کیسا تھا اور اس نے رعیت کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟ عام طور پر اس کے مذہبی اوصاف کی وجہ سے اس کی عوام دشمنی کو فراموش کردیا جاتا ہے ۔
جنگیں :
ہماری تاریخ کا ایک اہم موضوع جنگ ہوتا ہے جسے ہمارا مورخ بڑی تفصیل سے لکھتاہے ۔ سپاہیوں کی تعداد ، سپہ سالار،اور جنرلوں کی جنگی تدابیر ، ہتھیاروں کی اقسام ، میدان جنگ کا نقشہ، قتل و خونریزی وغیروغیرہ لیکن اس بات کا تجزیہ کرنے کی کم کوشش کی گئی کہ یہ جنگیں کیوں لڑی گئیں؟ کیا ان کا مقصد ذاتی اقتدار ، دولت کی ہوس، او رکمزور ہمسایہ ملک پر قبضہ کرناتھا یا یہ جنگیں کسی اعلیٰ اخلاقی مقصد کےلئے لڑی گئیں؟ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کے ملک پر حملہ ہوا اور اس نے دفاعی جنگ لڑی تو کیا اسے وطن کا ہیرو کہیں گے؟ اور کیا یہ جنگ اس نے وطن کے تحفظ کےلئے لڑی یا اپنے اقتدار کو بچانے اور مراعات کو محفوظ رکھنے کے لئے ! یہ ایک تاریخی حقیقیت ہے کہ شخصی نظام حکومت میں لڑی جانےوالی جنگیں ذاتی جنگیں ہوا کرتی تھیں ،اگر ایک حکمران اپنے اقتدار کی وسعت چاہتا تھا تو دوسرا اس کا تحفظ دونوں جانب سے عوام کو مذہب اور اعلیٰ اصولوں کے نام پر قربان کیا جاتا تھا ۔ ان جنگوں کا صحیح پس منظر اور تجزیہ یقیناً ہمارے شعور کی ترقی میں مددگار ہوگا۔
فتوحات :
ہماری تاریخ نویسی میں فتوحات وہ موضوع ہے جو ہمارے معاشرے میں بے جا فخر و غرور کے احساسات کو پیدا کرتا ہے ۔ عام طور سے ہمارامورخ فتح کا تذکرہ بڑے فخر کے ساتھ کرتاہے جس میں خوشی و مسرت کے ساتھ دشمن کی تذلیل بھی شامل ہوتی ہے لیکن جب مورخ شکست کو بیان کرتاہے تو اس کے قلم سے غم و اندوہ کے جذبات ٹپکتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فتح کا صحیح تجزیہ پیش کیا جائے کہ ان فتوحات سے کس کو فوائد حاصل ہوئے؟ مال غنیمت کس کو ملا لوٹ مار میں کس نے زیادہ فائدہ اٹھایا؟ کسی ملک کی فتح کے بعد اس ملک کی زمینوں اور خزانوں پر کس نے قبضہ کیا؟ یقیناؑ حکمران طبقے نے ہمیشہ فتوحات سے فائدہ اٹھایا جب کہ عام سپاہیو ں کوان جنگوں میں محض ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا ۔
اسی ضمن میں یہاں اس بات کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ان جنگوں اور فتوحات کے نتیجے میں حکمران طبقے کی بہادری و شجاعت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ شجاعت و بہادری کا یہ منفی تصور انسانوں کی خونریزی کے نتیجے میں تھا جس نے زیادہ سے زیادہ انسانوں کا خون بہایا ہو اسے ہم اتنا ہی شجاع اور بہادر تسلیم کرتے ہیں ۔
بغاوتیں :
جب بھی ہمارے مورخ کسی بادشاہ کے عہد میں ہونےوالی بغاوتوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان بغاوتوں کا ذکر انتہائی حقارت سے کیا جاتاہے اور باغیوں کو شورش پسند، تخریب کار اور حکومت و حکمرانوں کا دشمن کہا جاتاہے اکثر ان بغاوتوں کے پس منظر اور ان کی اصلی وجوہات کو نظر انداز کردیا جاتاہے ۔ کبھی اس اہم سوال کا تجزیہ نہیں کیا جاتا کہ لوگ بغاوت کیوں کرتےہیں؟ اور وہ بھی اپنے سے زیادہ طاقتور کے خلاف، جس میں انہیں اکثر اپنی شکست کا بھی یقین ہوتاہے ۔ ہمارے مورخین نے اکثر باغیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا جنہوں نے جرات و ہمت کے ساتھ اپنے حقوق کےلئے جنگیں لڑیں اور جانیں دیں ۔ انہوں نے شجاعت و بہادری کا منفی نہیں بلکہ مثبت تصور دیا ۔ یہ لوگ شورش پسند ، دہشت پسند اور تخریب کار نہیں تھےبلکہ حق و انصاف کی خاطر لڑکر انسانیت کو زندہ رکھنے والے لوگ تھے ۔
حکومتوں کا زوال:
حکمران خاندانوں کے عروج و زوال کوبھی ہمارے مورخ نے محدود اور تنگ زاویئے سے دیکھا ہے اور حکمران خاندان کے عروج و زوال کو معاشرے کا عروج و زوال سمجھا ہے اگر تاریخ کا وسیع نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکمران خاندانوں کا عروج و زوال ایک علیحدہ چیز ہے اور معاشرے کے نشیب و فراز الگ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتےہیں مگر دونوں کی راہیں جداجدا ہیں ۔
مثلاً رتاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جب بھی حکمران خاندان سیاسی لحاظ سے طاقتور رہا تو اس نے جبرو تشدد سے عوام سے ٹیکس وصول کئے اور اس دولت کے سہارے انہوں نے عالیشان عمارتیں بنوائیں ، موسیقی، رقص ، لباس اور کھانے میں نئی نئی ایجادات کیں اور فن کاروں و ہنر مندوں کو اپنی ملازمت میں رکھا جنہوں نے ان کی پسند اور خواہش کےمطابق فن تخلیق کیا اور مصور نے وہی تصویر بنائیں جو اس کے آقا کو پسند تھیں، موسیقاروں نے وہی راگنیاں و دھنیں ترتیب دیں۔جن سے امراء بادشاہوں کو خوشی حاصل ہو، شاعروں نے وہی غزلیں قصدے لکھے جن سے حکمران طبقے کی عظمت اجاگر ہو۔ ان کا فن حکمران طبقے کےلئے ہوتاتھا ۔
جب حکمران خاندان کی سیاسی قوت و طاقت میں کمی آتی تو اس سے پورا عمل متاثر ہوتا تھا ۔ سیاسی کمزوری کے ساتھ ہی فوجی قوت کم ہوجاتی تھی اور اس کے نتیجے میں ٹیکسوں کی وصول یابی نہیں ہوپاتی تھی ۔ ذرائع آمدنی کےگھٹنے سے نہ تو نئی عمارتیں بنتی تھیں او رنہ پرانی عمارتوں کی مرمت ہوپاتی تھی ۔ نہ شاعروں ،مصوروں اور موسیقاروں کو اس کی تخلیقات کا صلہ ملتا تھا اور نہ ہی دربار کی پرانی شان و شوکت باقی رہتی تھی ۔ آہستہ آہستہ عمارتیں ویران ہونا شروع ہوجاتیں ، باغات اجڑ جاتے ۔ ہمارا مورخ جب اس خستہ حالی اور ویرانی کو دیکھتا ہے تو اس پورا معاشرہ زوال پذیر نظر آتا ہے ۔ لیکن یہ معاشرے کا زوال نہیں حکمران طبقے کا زوال ہوتا ہے ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ معاشرہ ہمیشہ اس عروج و زوال کے ڈرامے سے علیحدہ ایک سی حالت میں رہتا ہے اس کا اس وقت بھی استحصال ہوتاتھا جب حکمران خاندان عروج میں ہوتاتھا اور وہ اس وقت بھی مصیبت کا شکار رہتا تھا جب کہ سیاسی انتشار کے زمانے میں لاقانونیت او رلوٹ کھسوٹ ہوتی تھی عوام کی اکثریت تو ہمیشہ زوال کی حالت میں رہی ہماری تاریخ میں تو اسے کبھی بھی عروج نصیب نہیں ہوا اس لئے حکومتوں کے عروج و زوال کے پس منظر میں عوام کی حیثیت اور ان کے کردار کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی انتشار:
ہماری تاریخ کا ایک اہم موضوع سیاسی انتشار بھی ہے جسے ہمارا مورخ اکثر بڑے رنج اور مایوسی کےساتھ پیش کرتاہے کہ جس لاقانونیت کا دور ہوتاہے امیری غریبی کا فرق مٹ جاتا ہے امراء کے خاندان ذلیل و خوار ہوجاتےہیں اور کم ذات والے طاقت میں آجاتےہیں ۔ اس سیاسی انتشار کے زمانے میں پورا معاشرہ الٹ پلٹ ہوجاتا ہے سماجی و معاشی قدریں مٹنے لگتی ہیں اور قرب قیامت کے آثار نظر آنے لگتے ہیں ۔
مورخوں کی اس مایوس کن تصویر کے ساتھ ہی سیاسی انتشار دوسری تاریخی تصویر بھی پیش کرکے، دوسرے حقائق کو ہمارے سامنے لاتا ہے مثلاً یہی وہ زمانہ ہوتا ہے جب حکومت کے جبر تشدد اور استبداد کے ادارے کمزور ہوکر اپنی طاقت کھورہے ہوتے ہیں اور حکمران طبقے کی گرفت ڈھیلی ہورہی ہوتی ہے ۔ پابندیاں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں اور عوام صدیوں کی غلامی اور اطاعت کی زنجیروں سےآزاد ہورہے ہیں ۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب فنکار اپنے لئے اور معاشرے کےلئے فن تخلیق کرتا ہے ۔ مذہبی تعصب ،نسلی تفاخر اور قومی انا کے بٹ ٹوٹتے ہیں ۔ پرانے وقدیم دولت مند خاندان دولت سےمحروم ہوکر عوام کے جم غفیر میں مل جاتے ہیں اور طبقاتی بندشیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں ۔
تاریخ میں سیاسی انتشار کادور بڑا اہم ہوتاہے جس میں معاشرے آئندہ زندگی کی راہیں متعین ہوتی ہیں ۔ اگر اس مرحلہ پر کوئی تحریک شعور کے ساتھ سرگرم عمل ہو تو معاشرہ اس انتشار کے بعد صحت مند بنیادو ں پر استوار ہوسکتاہے ۔
تاریخ نویسی کی بنیادیں :
موجودہ دور ہمارے مورخوں کےلئے ضروری ہےکہ وہ تاریخ نویسی کاکوئی مقصد متعین کریں کیا ان کا مقصد حکمران طبقے کی بنیادوں کو مستحکم کرنا اور ان کے نظریات کو فروغ دینا ہے؟ یا حکمران طبقے کے سیاسی عزائم کو تاریخ کے ذریعے عملی جامہ پہنانا ہے؟ یا تایخ کے ذریعے معاشرے میں شعور کو پختہ کرنے اور معاشرے میں وسعت ذہن ،آزادی وحریت کو پیدا کرنا ہے ۔
جو مورخ قومی و معاشرتی شعور کی خاطر تاریخ کو استعمال کرناچاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ تاریخ کی تفسیر وسیع و پھیلے ہوئے مفہوم کے ساتھ کریں تاریخ کی یہ تفسیر تب ہوسکتی ہے جب کہ ہم سیاسی تاریخ کے ساتھ ساتھ معاشرتی و سماجی و معاشی اور ثقافتی تاریخ کے موضوعات پر لکھیں کیونکہ یہی وہ موضوعات ہیں جو معاشرے سے نفرت و فساد کو دور کرکے ان میں انسانیت سے محبت و الفت پیدا کرتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment