ڈاکٹر مبارک علی
غیر ملکی اقتدار
دنیا کی تاریخ میں یہ ہوتاہے کہ طاقتور قومیں کمزوروں پر غلبہ حاصل کرکےانہیں غلام بناتی رہی ہیں ۔ ایسی قومیں دو قسم کی ہوتی ہیں : ایک وہ جو تہذیب و تمدن سےبالکل عاری ہوتی ہیں ، غیر متمدن اور وحشی قومیں، جنہوں نے اپنی جسمانی طاقت و قوت سےان قوموں کو با آسانی زیر کرلیا جو تہذیب وتمدن کےزیر سایہ سہل پسند اور عیش پرست ہوگئے تھے ۔ چونکہ یہ وحشی اقوام تہذیب وتمدن سےناآشنا ہوتی تھیں اس لئے فتح کے بعد ان کے ہاتھوں صدیوں کی تہذیب بری طرح تباہ ہوئی ۔شہروں کو لوٹنا ، جلانا،کتب خانوں کو برباد کرنا، نازک و خوبصورت اشیاء کوتوڑ پھوڑ کر ختم کردینا ان کا دستور رہا ۔ اس قسم کی تباہی مشرق و مغرب دونوں جگہ وحشی اقوام و قبائل کے ہاتھوں ہوئی جس کی وجہ سے نہ صرف تہذیب و تمدن کی ترقی رک گئی بلکہ اکثر تہذیبیں ان کےہاتھوں ختم ہوگئیں ۔ اسلامی تاریخ میں اس کی مثال منگولوں کےحملے ہیں ۔ جنہوں نے مسلمانوں کےصدیوں کے تہذیبی و ثقافتی مراکز کو بالکل تباہ و برباد کردیا۔ اور علمی و ادبی ترقی کے جاری عمل کو ختم کرکے اسلامی دنیاکو صدیوں پیچھے دھکیل دیا ۔
اس کے برعکس ایک دوسرا غیرملکی اقتدار بھی ہوتا تھا ،یہ اقتدار ایک تہذیب اور ترقی یافتہ قوم اپنے سےکمتر پر غلبہ حاصل کرکے حاصل کرتی تھی سیاسی اقتدار کومستحکم کرنے کے بعد یہ اپنے ترقی یافتہ اداروں ، روایات اورنظریات کو مفتوح معاشرے میں رواج دیتی تھی ۔ اور اس کی فرسودہ اور غیر ترقی یافتہ روایات اور رسومات کو ختم کرکے سیاسی و معاشرتی زندگی میں انقلاب لے آتی تھی۔
کیونکہ جو ادارے فاتح قوم کے اپنے ہوتے ہیں اور دنیا کومہذب اور ترقی یافتہ بنانے کا جذبہ اس قوم کے افراد میں ہوتاہے وہ جذبے اور ترقی کاشوق و مفتوحہ ملکوں میں بھی پیدا کردیتےہیں ۔ اس کی مثال ہندوستان میں انگریزوں دکاقبضہ ہے۔ ہندوستان پر انگریزی اقتدار سے پہلے یہا ں سیاسی افراتفری ،عدم تحفظ ، معاشرتی انتشار، معاشی بے چینی اور سماجی خلفشار تھا۔ ملک میں چھوٹی ریاستیں تھیں جہاں نوابوں ، راجاؤں ، او رزمینداروں کی شخصی حکومتیں تھیں ۔ جنہوں نے عوام کو تمام حقوق سے محروم کر کے اپنے اقتدار تلےدبا رکھا تھا ۔ اس لئے یہاں کے عوام اس قدر پس ماندہ ،کم ہمت اورکچلے ہوئے تھے کہ ان میں استبدادی نظام ختم کرنےکا نہ تو شعور تھا او رنہ ہی طاقت۔ انگریزی اقتدار کے استحکام سےیہ ہوا کہ ان شخصی حکومتوں کاایک ایک کرکے خاتمہ ہوا،اور عوام کو ان آمروں اور ظالموں سےنجات ملی اگر یہاں انگریزی اقتدار قائم نہ ہوتا تو پھر ہندوستان کو اس استبدادی نظام سے چھٹکارا پانے کےلئے صدیوں انتظار کرنا پڑتا ۔
انگریزی حکومت کے زمانے میں جو ذہنی و فکری تبدیلیاں یورپ میں ہورہی تھیں، اس سے ہندوستان بھی متاثر ہوا اور اس اثر سے یہاں اصلاحی تحریکیں شروع ہوئیں، جدید تعلیم کا آغاز ہوا اور اہل ہندوستان قدیم دور سےنکل کر جدید دور میں داخل ہوگئے یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندوستان نے جو کچھ انگریزی اقتدار کے زمانے میں حاصل کیا یہی کچھ وہ آزادانہ طور پر کتنے عرصے میں اور کیا کیا قربانیاں دے کر حاصل کرتا ، یہ صحیح ہے کہ زمانے کی رفتار کو کوئی استبدادی نظام نہیں روک سکتا ، فروسودہ ادارے اور روایات ختم ہوکر رہتی ہیں ۔لیکن یہ عمل ترقی یافتہ غیر ملکی اقتدار کی صورت میں تیز ہوجاتا ہے۔
اس کی دوسری مثال وسط ایشیا میں اس کے قبضے سےدی جاسکتی ہے جہاں ظالم و عیاش حکمرانوں کا اقتدار تھا جس کے بوجھ تلے وہاں کے عوام تھے ان کی پس ماندگی اور جہالت کایہ حال تھا کہ ان میں اتنی قوت و طاقت اور اتحاد نہیں تھا کہ وہ اس استبدادی نظام سے مقابلہ کرسکتے ۔ روسی انقلاب کے بعد اس میں زبردست تبدیلی آئی اور وہاں کی آبادی، تعلیم ، صحت وصفائی اور معیار کی زندگی سےآشنا ہوگئی، اگر روسی ترقی یافتہ اقتدار ان کی مدد نہ کرتے تو اس دورمیں داخل ہونے میں انہیں کئی صدیاں انتظار کرنا پڑتا۔
اس ترقی یافتہ اقتدار کی مثالیں ایشیا ءو افریقہ کے بہت سے ملکوں میں مل جائیں گی۔
قومیں باہمی جنگ وجدل اور فتح و شکست کےنیتجے میں تباہی و بربادی ،تکلیف واذیت سے دوچار ہوتی ہیں ۔ لیکن تاریخ کے اپنے فیصلے ہوتےہیں ۔ مثلاً جب فاتح اقوام غیر مہذب اور وحشی ہوتی ہیں تو اس صورت میں آگے چل کر وہ خود اس تہذیب کے ہاتھوں شکست کھالیتی ہیں ۔ او رمتمدن قوم کی تہذیبی و ثقافتی قدروں اور روایات کو اختیار کرلیتی ہیں جیسے آریہ قوم نے ورارڈ روایات کواختیار کیا، رومیوں نےیونانیوں کی تہذیب کو اور منگولوں نے اسلامی تمدن کو ۔ اور مفتوح قوم کی تہذیب میں ضم ہوگئے اس عمل سےتہذیب وقتی طور پر تو رک جاتی ہے لیکن اس کادائرہ پھیل جاتا ہے اور بعد میں یہ دوسری قوموں سےمل کر تخلیقی عمل کی ابتدا کرتی ہے ۔
دوسری صورت میں متمدن قوم اپنے سے کم مہذب قوموں کو اپنی ذہنی سطح پر لانے کی کوشش کرتی ہے اور اشتراک سےمفتوح قوم میں شعور وآگہی پیدا ہوتی ہے۔
انسانی وقتی طور پر صرف ان تباہیوں اور تباہ کاریوں کو دیکھتا ہے جو غیر ملکی اقتدار کےنتیجے میں پیدا ہوتی ہے ۔لیکن اس کی تہہ میں تعمیر کےعنصر بھی مضمر ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ ظہور پذیر ہوتےہیں ۔
No comments:
Post a Comment