ڈاکٹر مبارک علی
معاشرہ عورت اور بہشتی زیور
جاگیردارانہ معاشرے میں عورت کی حیثیت ہمیشہ ملکیت کی ہوتی ہے۔ جہاں اس کی آزادی حقوق اور رائے مرد کی مرضی پرمنحصر ہوتی ہے ۔ اس معاشرے کامقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسی اقدار کو فروغ دیا جائے جن کے ذریعے عورتوں کو مرد کا تابع اور فرماں بردار رکھا جائے اور اس کی آزادی کے تمام راستے مسدور کردیئے جائیں ۔
ہندوستان میں مسلمان معاشرہ، دو طبقوں میں منقسم تھا ۔ ایک اشراف یا امراء کا طبقہ اور دوسرا جلاف اور عوام کا۔ طبقہ اعلیٰ نے جو ثقافتی اقدار تخلیق کیں مثلاً ناموس ، عزت، عصمت، شان و شوکت اور آن بان کے لئے بہترین قیمتی سازوسامان ، ہیرے جواہرات، ہاتھی گھوڑے اور محلات رکھتا تھا ۔ عمدہ کھانا کھاتا اور نفیس لباس استعمال کرتا تھا وہ اسی طرح اپنے حرم میں خوبصورت عورتیں جمع کرتا تھا جیسے دوسری قیمتی اشیاء اور جس طرح قیمتی اشیاء کی حفاظت کرتا تھا اسی طرح بیگمات کی حفاظت کی غرض سے اونچی اونچی دیواروں کی محل سرائیں تعمیر کراتا تھا او ر پہرے پر فوجی و خواجہ سرا رکھا کرتا تھا۔ ان پر پردے کی سخت پابندی ہوتی تھی تاکہ دوسروں کی ان پر نظر نہ پڑے ۔ اس نے ناموس حرم ‘‘ عزت ، خاندانی وقار’’ کی اقدار پیدا کیں ۔ ان جاگیردارانہ اقدار نے معاشرے کے متوسط طبقے کوبھی متاثر کیا، لیکن عوام کی اکثریت ان اقدار کونہیں اپنا سکی کیونکہ معاشی ضروریات انہیں اس پر مجبور کرتی تھیں کہ وہ گھر کی چار دیواری سے نکل کر تلاش معاش میں ادھر ادھر جائیں ایک کسان عورت گھر کے کام کے علاوہ مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے اور کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور تھی ۔ شہروں میں غریب خاندان کی عورتیں اعلیٰ طبقے کو ملازمائیں ، مامائیں ، اور مغانیاں فراہم کرتی تھیں ۔ یہ جاگیردارانہ اقدار ایک طبقے تک محدود رہیں جو سیاسی معاشی اور سماجی لحاظ سے معاشرے کا اعلیٰ طبقہ تھا ۔
مسلمانوں کا یہ جاگیردارانہ معاشرہ سلاطین دہلی اور مغلیہ خاندان کی حکومتوں تک مستحکم رہا ۔ اس معاشرے میں عورت کا مقام محض ایک شئے کا تھا جو مرد کی ملکیت رہ کر آزادی،خودی اور انا کو ختم کردیتی تھی اس کی زندگی جس نہج پر پروان چڑھتی تھی، اس میں بیٹی کی حیثیت سے اس کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ ماں باپ کی خدمت کرے، بیوی کی حیثیت سے شوہر کی فرماں بردار رہے او رماں کی حیثیت سے اولاد کی پرورش کرے، ان تینوں حیثیتوں میں اس کی خواہشات جذبات اور تمنائیں ختم ہوجاتی تھیں اسے یہ موقع نہیں ملتا تھا کہ وہ بحیثیت عورت زندگی سےلطف اندوز ہوسکے ۔(1)
اس جاگیردارانہ معاشرے میں مرد کو ایک اعلیٰ و ارفع مقام حاصل تھا اور اس کی خواہش تھی کہ ان اقدار میں کوئی تبدیلی نہ آئے اور ایسی صورت پیدا نہ ہو کہ عورت ان زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہوجائے ۔ لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان اقدار میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، مغربی خیالات و افکار اور تہذیب او رتمدن نےآہستہ آہستہ ہمارے جاگیردارانہ معاشرے کو متاثر کرنا شروع کیا ۔ ان تبدیلیوں نے قدیم اقدار کے حامیوں کو چونکا دیا یہ حضرات معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی کے مخالف تھے اور خصوصیت کے ساتھ عورت کے مخصوص کئے ہوئے مقام کو بدلنے پر قطعی تیار نہیں تھے۔
اس طبقے کی نمائندگی ایک بڑے عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی (1868ء۔1943ء) نےاپنی اور تصانیف کے ذریعے عموما اور بہشتی زیور لکھ کر خصوصاً کی ۔ مولانا کا دور جدید اور قدیم اقدار کے تصادم کا زمانہ تھا جب کہ قدیم نظام زندگی اور اس کی اقدار اپنی فرسودگی اور خستگی کےآخری مراحل میں داخل ہوکر دم توڑ دی تھیں اور جدید رجحانات و افکار کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوئی تھیں مولانا نے آخری بار اس گرتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کو مذہبی و اخلاقی سہارے سے روکنے کی کوشش کی اور یہ کوشش بھی کی کہ عورت کو مذہبی بنیادوں کے سہارے اسی مقام پر رکھا جائے جو جاگیردارانہ نظام نے اس کے لئے مخصوص کر رکھا تھا ۔
عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مولانا نے بہشتی زیور کے دس حصے لکھے تاکہ ان کے مطالعے کے بعد عورت آسانی سے مرد کی افضلیت کو تسلیم کرے اور اپنی غلامی پر نہ صرف قانع ہو بلکہ اسے باعث فخر سمجھے اس کتاب میں عورت کو اچھا غلام بننے کی ساری ترکیبیں او ر ہنر بتائیں گئے ہیں ۔ مذہبی مسائل سے لے کر کھانا پکانے اور امور خانہ داری کے تمام طریقوں کی تفصیل ہے جو مرد کو خوش و خرم رکھ سکے ۔ اس لیے یہ دستور ہوگیا کہ بہشتی زیور کی یہ دسویں جلدس ( جو ایک جلد میں ہوتی ہیں) جہیز میں لڑکی کو دی جاتی ہیں تاکہ وہ اسے پڑھ کر ذہنی طور پر غلامی کے لئے تیار رہے ۔ یہاں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ مولانا نے ایک بہترین عورت کا جو تصور بہشتی زیور میں پیش کیا ہے اس کا تجزیہ کیا جائے اور ان کے خیالات کا جاگیردارانہ معاشرے کے پس منظر میں پیدا ہونے والی ثقافت اور اقدار کی روشنی میں جائزہ لیا جائے ۔(1)
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتداء میں جدید مغربی تعلیم مقبول ہوچکی تھی اور ہمارے مصلحین قوم جدید تقاضوں کو تسلیم کرنے کے باوجود تعلیم نسواں کے شدید مخالف تھے ۔ وہ مردوں کے لئے جو جدید مغربی تعلیم ضروری سمجھتے تھے مگر یہی تعلیم ان کے نزدیک عورتوں کے لئے انتہائی خطرناک تھی ۔ سرسید احمد خان نے صاف گوئی سےکام لیتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ وہ تعلیم نسواں کے اس مخالف ہیں کیونکہ جاہل عورت اپنے حقوق سے ناواقف ہوتی ہے اور اسی لئے مطمئن رہتی ہے اگر وہ تعلیم یافتہ ہو کر اپنے حقوق سے واقف ہوگئی تو اس کی زندگی عذاب ہوجائے گی (2) سرسید نے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کی بھی مخالفت کی ۔ اور اس بات پر زور دیا کہ وہ صرف مذہبی کتابیں پڑھیں اور جدید زمانے کی مروجہ کتابیں جو نا مبارک ہیں ان سے دور رہیں ۔(3)
مولانا اشرف علی تھانوی عورتوں کے لئے صرف مذہبی تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ بے علم عورتیں کفر و شرک میں تمیز نہیں کرتیں اور نہ ہی ان میں ایمان اور اسلام کی محبت پیدا ہوتی ہے یہ اپنی جہالت میں جو چاہتی ہیں بک دیتی ہیں اس لئے ان کے ایمان اور مذہب کو بچانے کے لئے ان کے لئے دین کا علم انتہائی ضروری ہے ۔ مولانا دینی تعلیم کے علاوہ عورتوں کے لئے دوسری ہر قسم کی تعلیم کے سخت مخالف ہیں اور اسے عورتوں کے لئے انتہائی نقصان دہ سمجھتے ہیں ۔ (4)
مولانا لڑکیوں کے اسکول جانے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بھی سخت مخالف ہیں کیونکہ اسکول میں مختلف اقوام،طبقات اور خیالات کی لڑکیاں جمع ہوں گی جس سے ان کے خیالات اور اخلاق متاثر ہوں گے اگر خدانخواستہ استانی آزاد خیال ہوئی تو بقول مولانا ‘‘کریلا نیم چڑھا’’ او رمزید یہ کہ اگر مشن کی میم انگریزی تعلیم دینے آگئی تو نہ آبرو کی خیر اور نہ ایمان کی ۔(5) ان کے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ دو چار لڑکیاں گھر پر پڑھیں اور ایک ایسی استانی لیں جو تنخواہ بھی نہ لے کیونکہ اس سے تعلیم بابرکت ہوتی ہے ۔ (6) ( لڑکیوں کے لئے تو ہوسکتی ہے مگر استانی کے لئے نہیں ) مولانا اس راز سے واقف تھے کہ میل اور اشتراک سے خیالات پر گہرا اثر ہوتا ہے اس لئے وہ اس راستے کو مسدود کرناچاہتے تھے اور خواہش مند تھے کہ عورت گھر کی چار دیواری سےقطعی باہر قدم نہ نکالے ۔
مولانا عورتوں کےنصاب تعلیم پر خاص طور سے زور دیتے ہیں تاکہ اس کےذریعے سے ایک خاص قسم کے ذہن تیار ہوسکے ۔ اس لئے وہ قرآن شریف دینیہ اور بہشتی زیور کے دس حصوں کو کافی سمجھتے تھے ،بہشتی زیور کے سلسلے میں وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ اس میں شرمناک مسائل کو یا تو کسی عورت سے سمجھا جائے یا نشان لگا کر چھوڑ دیا جائے اور سمجھدار ہونے کے بعد پڑھا جائے یہاں تک صرف پڑھنے کی استعداد کا ذکر ہے جب لکھنے کا سوال آتاہے تو مولانا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر عورت کی طبیعت میں بے باکی نہ ہو تو لکھناسکھانے میں کوئی حرج نہیں ورنہ نہیں سکھاناچاہئے ۔(7) اگر لکھنا سکھایا بھی جائے تو صرف اس قدر کہ وہ ضروری خط اور گھر کا حساب کتاب لکھ سکے بس اس سے زیادہ ضرورت نہیں ۔(8)
عورتوں کو کون سی اور کس قسم کی کتابیں پڑھنا چاہئیں اس پہلو پر مولانا خاص طور سے بہت زیادہ زور دیتے ہیں مثلاً حسن و عشق کی کتابیں دیکھنا اور پڑھنا جائز نہیں ۔ غزل اور قصیدوں کے مجموعے اور خاص کر موجودہ دور کے ناول عورتوں کو قطعی نہیں پڑھنا چاہئیں بلکہ ان کا خریدنا بھی جائز نہیں اس لئے اگر کوئی انہیں اپنی لڑکیوں کے پاس دیکھ لے تو اسے فوراً جلا دیناچاہئے ۔(9) مولانا کتابوں کے سلسلے میں اس قدر احتیاط کے قائل ہیں کہ دین ہر قسم کی کتابوں کوبھی عورتوں کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں کیونکہ اکثر دین کی کتابوں میں بہت سی غلط باتیں شامل ہوتی ہیں ۔ جن کو پڑھنے سے نقصان ہوتاہے۔ انہیں اس بات پر سخت افسوس ہے کہ ان کے زمانے میں عورتیں ہر قسم کی کتابیں پڑھتی ہیں اور اسی وجہ سے انہیں نقصان ہورہا ہے عادتیں بگڑرہی ہیں ۔ اور خیالات گندے ہورہے ہیں اس لئے مولانا کا خیال ہے کہ دین کی اگر کوئی کتاب پڑھنا ہو تو اسے پڑھنے سے پہلے کسی عالم دین کو دکھا لو اگر وہ اسے پڑھنا منظور کرے تو پڑھو ورنہ نہیں ۔(10) لیکن اس سے بھی مولانامطمئن معلوم نہیں ہوتے کیونکہ انہیں شاید اپنے علاوہ اور کسی عالم دین پر بھروسہ نہیں کی غلطی سے وہ کسی غلط کتاب کو پڑھنے کی اجازت نہ دے دے اس لئے وہ خود ان کتابوں کی فہرست دیتےہیں جن کا پڑھنا عورتیں کے لئے مفید ہے مثلاً صبحتہ المسلمین ، راسلہ عقیقہ، تعلیم الدین، تحفۃ الزوجین، فروغ الایمان ، اصلاح الرسوم ،بہشت نامہ ، دوزخ نامہ، تنبیہ النساء ، تعلیم النساء مع دلہن نامہ، ہدایت النساء اور مراۃ النساء وغیرہ۔
اس کے بعد مولانا ان کتابوں پر سنسر لگاتےہیں جن کا پڑھنا انتہائی نقصان دہ ہے مثلاً دیوان اور غزلوں کی کتابیں اندر سبھا ، قصہ بدر منیر قصہ شاہ یمن ، داستان امیر حمزہ ، گل بکاولی ، الف لیلہ ، نقش سلیمانی ، فال نامہ ، معجزہ آل نبی ، آرائش محفل، جنگ نامہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور تفسیر سورۃ یوسف تفسیر سورۃ یوسف کے بارے میں مولانا وضاحت کرتے ہیں کہ اس میں ایک تو کچی داستانیں ہیں دوسرے عاشقی ومعشوقی کی باتیں عورتیں کو سننا اور پڑھنا نقصان کی بات ہے ‘‘ مراۃ العروس’’ محضات اور ایامی کے بارے میں مولانا کہتے ہیں کہ ‘‘بعض اچھی باتیں ہیں مگر بعض ایسی ہیں جن سے ایمان کمزور ہوتا ہے ’’۔ناول کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس کا اثر ہمیشہ برا ہوتا ہے اور اخبار پڑھنے سے وقت خراب ہوتا ہے (12) مولانا کے ان خیالات سے تعلیم نسواں کے بارے میں ان کا نظریہ واضح ہوکر ہمارے سامنے آتا ہے کہ وہ عورت کے لئے ہمیشہ بہت محدود تعلیم کے قائل تھے اور اسے جاہل رکھ کر جاگیر دارانہ کا تحفظ کرناچاہتے تھے ۔
(2) جاگیردارانہ معاشرے میں مرد کی افضلیت کی ایک بنیاد یہ بھی ہوتی ہے کہ خاندانی معاش کاذمہ دار ہوتاہے اور عورت معاشی طور پر ان کی محتاج ہوتی ہے محتاجی کےسبب اس میں اس قدر جرات پیدا نہیں ہوتی کہ وہ خود کو مرد کی غلامی سے آزاد کراسکے او رمرد کی افضلیت کو چیلنج کرسکے مولانا اس ضمن میں کہتے ہیں کہ : کسب معاش صرف مردوں کے لئے ضروری ہے اور یہ اس کا فرض ہے کہ عورتوں کا نان و نفقہ پورا کرے (13) نان و نفقہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : روٹی کپڑا مرد کے ذمہ واجب ہے جب کہ گھر کا کام کاج کرنا عورت پر واجب ہے۔ تیل ، کنگھی ، کھلی، صابن ، وضو اور نہانے کے پانی کا انتظام مرد کے ذمہ ہے مگر مسی ، پان اور تمباکو اس کےذمہ نہیں ۔ دھوبی کی تنخواہ مرد کے ذمہ نہیں اور عورت کو چاہئے کہ کپڑے کو اپنے ہاتھ سےدھوئے اور اگر مرد اس کے لئے پیسے دے تو یہ اس کا احسان ہے۔ (14)
(3) جاگیر دارانہ معاشرے میں شوہر عورت کے لئے مجازی خدا کا درجہ رکھتا ہے اس لئے عورت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ شوہر کی فرماں برداری کرے اگر وہ شوہر کے احکامات کی خلاف ورزی کرے تو یہ معاشرے کی اقدار کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے ۔ مولانانے اس ضمن میں عورتوں کو جو ہدایات دی ہیں اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ مرد کی افضلیت کو مذہب اور اخلاق کی بنیاد پر قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عورت کو شوہر کے تمام احکامات بلاچوں و چرا بجالانے چاہئیں ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کہے کہ ایک پہاڑ سے پتھر اٹھا کر دوسرے پہاڑ تک لے جاؤ اور پھر دوسرے سے تیسرے تک تو اسے یہی کرناچاہئے اگر شوہر بیوی کو اپنے کسی کام سے بلائے اور و ہ چولہے پر بیٹھی ہوتو تب بھی اس کے کام کے لئے اسے فوراً اٹھ جانا چاہئے ۔(15) یہاں تک مرد کی فرمانبرداری ضروری ہے کہ اگراس کی مرضی نہ ہو تو نفلی روزے نہ رکھے اور نفلی نماز نہ پڑھے عورت کے لئے ضروری ہے کہ مرد کو خوش رکھنے کے لئے بناء سنگھار کے ساتھ رہا کرے۔ اگر مرد کے کہنے کے باوجود بناؤ سنگھار نہ کرے تو مرد کو مارنے کا اختیار ہے۔ اس کو چاہئے کہ اپنے شوہر کی اجازت کےبغیر کہیں نہ جائے، رشتہ داروں کے یہاں او رنہ غیروں کے ہاں ۔(16)
مولانا بیوی کامقصد حیات شوہر کی خوشی قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے عورت کےلئے مکمل ہدایات پیش کی ہیں مثلاً شوہر کا دل ہاتھ میں لئے رہو، اس کی آنکھ کے اشارے پر چلو، اگر وہ حکم کرے کے کہ ساری رات ہاتھ باندھے کھڑی رہو تو اس حکم کی بھی تعمیل کرو ۔ کیونکہ اس میں عورت کی بھلائی ہے، اگر وہ دن کو رات بتائے تو عورت بھی دن کو رات کہنے لگے ۔ شوہر کو کبھی بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس سے دنیا اور آخرت دونوں خراب ہوتی ہیں شوہر سے کبھی زائد خرچ نہیں مانگنا چاہئے اورنہ ہی اس سے کوئی فرمائش کرنی چاہئے ۔ اگر عورت کی کوئی خواہش پوری نہ ہو تو خاموش رہناچاہئے اور اس بارے میں کسی سے ایک لفظ بھی نہ کہے، کبھی کسی بات پر ضد نہیں کرنی چاہئے ۔ اگر شوہر سے کوئی تکلیف بھی ہو تو اس پر بھی خوشی ظاہر کرنی چاہئے ۔ اگر شوہر کبھی کوئی چیزلادے چاہے وہ اسے پسند آئے یا نہ آئے لیکن اس پر خوشی کا اظہار کرناچاہئے اگر شوہر کو غصہ آجائے تو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے کہ غصہ آئے اس کے مزاج کو دیکھ کر بات کرنی چاہئے اگر وہ ہنسی دل لگی چاہتا ہے تو اسے خوش کرنے کی باتیں کرو۔ اگر وہ ناراض ہوتو عذر و معذرت کر کے ہاتھ جوڑ کر اسے راضی کرو۔ شوہر کو کبھی اپنے برابر کامت سمجھو اور اس سےکسی قسم کی خدمت مت لو، اگر وہ کبھی سردبانے لگے تو اسے ایسا مت کرنے دو اٹھتے بیٹھتے ، بات چیت ، غرض کہ ہر بات میں ادب اور تمیز کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
اگر شوہر پر دیس سے آئے تو اس کا مزاج پوچھنا چاہئے اس کے ہاتھ پاؤں دبانا چاہئیں اور فوراً اس کے لئے کھانے کا انتظام کرناچاہئے اگر گرمی کا موسم ہو تو پنکھا لے کر اس پر جھلنا چاہئے اور اسے آرام پہنچانا ، عورت کے فرائض میں سے ہے ۔ گھر کے معاملات میں مولانا ہدایت دیتے ہیں کہ بیوی کو یہ حق نہیں کہ میاں سے تنخواہ کاحساب کتاب پوچھے اور کہے کہ تنخواہ تو بہت ہے ، اتنی کیوں لاتے ہو، یابہت خرچ کر ڈالا اور کس چیز میں اتنا پیسہ اٹھایا وغیرہ۔ اسی طرح شوہر کی ہر چیز سلیقے سے رکھو رہنے کا کمرہ ، بستر، تکیہ اور دوسری چیزیں صاف ستھری ہونی چاہئیں ۔ اگر شوہر کسی دوسری عورت سے ملتا ہے تو اسے تنہائی میں سمجھاؤ پھر بھی بازنہ آئے تو صبر کر کےبیٹھ جاؤ لوگوں کے سامنے اس کاذکر کر کے اسے رسوامت کرو، اس ضمن میں مولاناکہتے ہیں کہ مردوں کو خدا نے شیر بنایا ہے ، دباؤ اور زبردستی سے ہر گز زیر نہیں ہوسکتے ان کے زیر کرنے کی بہت آسان ترکیب خوشامد اور تابعداری ہے۔(17) اس سلسلے میں مولانا ایک عورت کا ذکر کرتے ہیں ۔ ‘‘لکھنؤ میں ایک بیوی کے میاں بد چلن ہیں دن رات باہر بازاری عورت کے پاس رہتے ہیں گھر میں بالکل نہیں آتے بلکہ فرمائش کر کے کھانا پکواکر باہر منگواتے ہیں اور بیچاری دم نہیں مارتی جو میاں کہتے ہیں ان کی فرمائش پوری کرتی ہے۔ دیکھو ساری خلقت اس بیوی کو کیسی واہ واہ کرتی ہے اور خدا کے یہاں اس کو مرتبہ ملے گا وہ الگ رہا ’’ ۔(18) مزید ہدایت میں یہ بھی ہے کہ ساس سسر اور نندوں سے الگ رہنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، سسرال ہی کو اپنا گھر سمجھنا چاہئے ۔ شوہر اور بڑوں کا نام لے کر پکارنامکروہ اور منع ہے۔(19) عورتوں لئے پچیسی ، چوسر اور تاش کھیلنا وغیرہ بھی درست نہیں ۔(20) عورت کے لباس کےمعاملے میں بھی مولانا وضاحت کرتے ہیں کہ خلاف شرع لباس قطعی استعمال نہیں کرنا چاہئے جیسے کلیوں کا پاجامہ یا ایسا کرتہ جس میں پیٹھ ، پیٹ یا بازو کھلے ہو ں یا ایسا باریک کپڑا جس میں بدن یا سر کے بال جھلکتے ہوں ۔ عورت کے لیے موزوں ترین لباس یہ ہے کہ لا نبی آستینوں کا نیچا، موٹے کپڑے کا کرتا اور اسی کپڑے کادو پٹہ استعمال کرے ۔ (21)
مولانا عورت کو گھر میں رکھنے کے قائل ہیں ، اس سلسلے میں انہوں نے جو پروگرام تیار کیا ہے وہ قابل غور ہے۔ مثلاً ماں باپ کو دیکھنے کے لئے ہفتے میں ایک بار جاسکتی ہےدوسرے رشتہ داروں سے سال میں ...... ایک دفعہ اس سے زیادہ کا اسے حق نہیں اسی طرح ماں باپ بھی ہفتے میں ایک بار ملنے آسکتے ہیں شوہر کو اختیار ہے کہ زیادہ نہ آنے دے یا زیادہ نہ ٹھہرنے دے (22) وہ تقریبوں میں بھی آنے جانے کو عورت کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں ، شادی بیاہ، مونڈن ، چلہ، چھٹی ، ختنہ، عقیقہ، منگنی اور چوتھی وغیرہ کی رسموں میں قطعی نہیں جانا چاہے اسی طرح نہ غمی میں اور نہ بیمار پرسی کے لئے ۔ خاص طور پر برات کےموقع پر جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو اس وقت غیر محرم رشتہ دار کے گھر میں جانا درست نہیں اگر شوہر اجازت دے دے تو وہ گنہگار ٹھہرے گا۔ اس کے بعد مولانا بڑے افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ : افسوس اس حکم پر ہندوستان پھر میں کہیں عمل نہیں بلکہ اس کو تو ناجائز ہی نہیں سمجھتے (23) آنے جانے کے خلاف مولانا کے یہ دلائل ہیں اس میں قیمتی جوڑے بنوانا پڑتے ہیں اور یہ فضول خرچی ہے اس کی وجہ سے خاوند پر خرچہ کا بار پڑتا ہے پھر بزاز کو بلا کر بلا ضرورت اس سے باتیں ہوتی ہیں تھان لیتے وقت آدھا ہاتھ جس میں مہندی اور چوڑی ہوتی ہے باہر نکالنا پڑتا ہے جو غیرت و حمیت کے خلاف ہے۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات کے وقت پیدل چل کر گھر جاتی ہیں جو انتہائی بے حیائی ہے اور اگر چاندنی رات ہوتو اس کی کوئی انتہائی نہیں ۔ ڈولی میں بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پلو یا آنچل باہر لٹک رہا ہے یا کسی طرف پروہ کھل گیا یا عطر و پھلیل اس قدر ہے کہ راستے میں خوشبو ہی خوشیوہے یہ نا محرموں کے سامنے بناء سنگھار ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔ عورتیں یہ بھی کرتی ہیں کہ ڈولی سے اتریں اور ایک دم بھر میں داخل ہوگئیں یہ خیال نہیں کرتیں کہ گھر میں کوئی نا محرم بیٹھا ہو ۔ محفل میں بہشتی آتا ہے تو منہ پر نقاب ڈال لیتا ہے مگر دیکھتا سب کو ہے۔ بعض دفعہ دس بارہ سال کے لڑکے گھر میں آجاتے ہیں جس سے بے پردگی ہوتی ہے ۔ ان وجوہات کی بناء پر کسی تقریب و رسم اور ملنے جلنے کی وجہ سے گھر سے نکلنا وہ بے حیائی خیال کرتے ہیں ۔ (24)
(5) بہشتی زیور اس ذہن کی پوری پوری عکاسی کرتی ہے جو ہندوستان میں جاگیر دارانہ ثقافت اور اقدار نےبنایا تھا ۔ لیکن بہشتی زیور جدید خیالات و افکار اور سماجی شعور کو نہیں روک سکی اور قدیم روایات کی فرسودگی کہ کہنے کی اس کے ذریعے کوئی استحکام نہ مل سکا ۔
حوالہ جات:
(1) اس موضوع پر مشہور جرمن ادیب برتولڈ بریخت کا ایک افسانہ ہے جس کا اردو ترجمہ مصنف نے ‘‘دوسالہ عورت’’ کے عنوان سے کیا ہے۔ دیکھئے پندرہ روزہ ‘‘پرچم ’’ کراچی ۔ یکم اپریل ۔15 اپریل 1979ء ص ۔ 28۔29
(2)سرسید احمد خاں: مکتوبات سرسید ۔ لاہور ، 1959 ء ص ۔381
(3)ایضاً : ص ۔ 382
الطاف حسین حالی : حیات جاوید لاہور ، 1946ء ص ۔696
(4) مولانا اشرف علی تھانوی ، بہشتی زیور لاہور (؟)
حصہ اول ، ص ۔79۔08
(5) ایضاً : ص ۔ 84
(6) ایضاً : ص ۔85
(7) ایضاً : حصہ چہارم ، ص ۔85
(8) ایضاً : ص ۔38
(9) ایضاً : حصہ سوم ص ۔59
(10) ایضاً : حصہ درہم ص ۔47
(11) ایضاً : ص ۔47۔48
(12) ایضاً : حصہ اول ص ۔83
(13) ایضاً : ص۔33
(14) ایضاً : ص ۔۔34
(15) ایضاً : ص ۔ 34
(16) ایضاً : ص ۔ 34۔37
(17) ایضاً : ص ۔ 37
(18) ایضاً : حصہ دوم ص ۔57
(19) ایضاً : حصہ سوم ص ۔58
(20) ایضاً : حصہ ہفتم ص ۔ 54
(21) ایضاً : حصہ چہارم ص ۔29
(22) ایضاً : حصہ ہشتم ص ۔15
(23) ایضاً : ص ۔ 14۔17
No comments:
Post a Comment