Friday, June 26, 2015

The Irony of History- Part-12 (المیہ تاریخ ( قسط ۔12







ڈاکٹر مبارک علی
جہاد تحریک
سید احمد شہید 1786ء میں بریلی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد 18 سال کی عمر میں ملازمت کی تلاش میں نکلے او رلکھنؤ آئے مگر انہیں ناکامی ہوئی اور ملازمت نہ مل سکی۔اس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دہلی میں شاہ عبدالعزیز کے مدرسے میں تعلیم حاصل کریں گے، 1806 ء سے 1811ء تک انہوں نے دہلی میں قیام کیا، اس کے بعد 25 سال کی عمر میں امیر خاں جو کہ ایک فوجی مہم جو تھے، کے ہاں ملازمت کرلی۔ اس سلسلے میں ان کے سیرت نگار یہ کہتے ہیں کہ امیر خان کے لشکر میں ملازمت کامقصد یہ تھا کہ آپ عملی طور پر فوجی تجربوں سے واقف ہوں تاکہ جہاد کی تیاری میں وہ کام آسکیں ، لیکن حالات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ آپ کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اور آپ ملازمت کے لئے کوشاں تھے اور عہد کے نوجوانوں کی طرح آپ بھی امیر خاں کے لشکر میں اس امید میں شامل ہوئے کہ اس طرح سے مال غنیمت حاصل کرنے کے مواقع تھے ۔ چونکہ یہ عہد فوجی مہم جوؤں کا تھا کہ جس میں وہ اپنی فوجی طاقت و قوت کے بل بوتے پر علاقوں پر قبضہ کر کے اپنا اقتدار قائم کر لیتے تھے اس لئے ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ منصوبہ بنایا ہوکہ اپنی ایک جماعت تیار کرکے مذہبی بنیادوں پر کسی علاقے پر قابض ہوکر وہاں اپنا اقتدار قائم کریں۔ انہوں نے امیر خاں کی ملازمت میں سات سال گزارے اور یہ وقت امیر خاں کو سمجھنے کے لئے کافی تھا، کیونکہ وہ محض لوٹ مار کی غرض سے جنگیں کرتا تھا اور اس کے سامنے کوئی بڑااور واضح مقصد نہیں تھا۔ انہوں نے امیر خاں کی ملازمت کو اس وقت چھوڑا ۔ جب 1817ء میں اس کی برطانوی حکومت سے صلح  ہوگئی ۔ اس کی ملازمت  میں اس وقت تیس ہزار سپاہی  ملازم تھے اور صلح کے بعد بے روزگار ہوگئے ، انہیں بے روزگاروں میں سید احمد شہید بھی شامل تھے ملازمت کے خاتمے کے بعد دہلی آئے او ریہاں سے انہوں نے اپنی تحریک کا آغاز کیا اس میں ان کے ساتھ ولی اللہ خاندان کے دو اراکین بھی شامل ہوئے ۔ اسماعیل شہید (1771۔1831ء) او رمولوی عبدالحئی (وفات 1828ء)
اس تحریک کی ابتدا ء اس سے ہوئی کہ توحید کا تصور جو مسخ ہوگیا ہے ، اسے دربارہ مسلمانوں میں خالص اور اصل شکل میں راسخ کیا جائے اور جن عوا مل نےاسلام کو کمزور کر دیا ہے انہیں دور کیا جائے ان میں ہندو رسومات اورجھوٹے صوفی اور شیعہ عقائد خصوصیت سے قابل ذکر تھے اپنی تحریک کو روشناس کرانے کی غرض سے آپ نے 1818 ء اور 1819 ء میں دو آبہ کے علاقوں کا دورہ کیا اور غازی   آباد، مراد نگر، میرٹھ، سدھانہ، کاندھیلہ ، پھولت، مظفر نگر، دیوبند ، گنگوہ ، نانوتہ ، تھانہ بھون، سہارنپور ، روھیل ، کھنڈ ، لکھنؤ اور بریلی گئے 1821 میں انہو ں نے ایک جمعیت کے ساتھ حج کیا اس کامقصد بھی یہ تھا کہ ہندوستان میں اس کا اہم رکن کا احیاء کیا جائے ۔ کیونکہ سمندروں پر یورپی اقوام کے قبضے اور بحری سفر کی مشکلات کی وجہ بہت کم ہندوستانی مسلمان حج پر جایا کرتے تھے اور ان حالات کے پیش نظر کچھ علماء  نے یہ فتویٰ دے دیا کہ دوبارہ نافذ کر کے مسلمانوں کی شناخت کو اجاگر کیا ۔ 1823ء میں حج سے واپسی کے بعد آپ نے ایک بار پھر ہندوستان کےمختلف علاقوں کا دورہ کیا اور جیسا کہ آپ کی سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ لوگ جوق در جوق بیعت کر کے آپ کی تحریک میں شامل ہوئے اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ان کی تحریک کے وہ کون سے مقاصد تھے کہ جن سے لوگ متاثر ہوئے ۔
آٹھویں صدی اور انیسویں صدی کا ہندوستان سیاسی و معاشی اور معاشرتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، مغل سلطنت کی مرکزیت ختم ہوچکی تھی۔ صوبائی طاقتیں خود مختار ہوکر خانہ جنگیوں میں مصروف تھیں ۔ انگریز آہستہ آہستہ ہندوستان میں اپنے قدم جمارے تھے ۔ مسلمان معاشرے میں امراء اور علماء اپنی مراعات کو کھونے کے بعد عدم تحفظ کاشکار تھے ۔اگر چہ ایک مسلمان کےلئے ان حالات نے کوئی تبدیلی نہیں کی تھی، وہ پہلے ہی سے سماجی طور پر پس ماندہ تھا اور اس کے پاس بگڑتے ہوئے حالات میں کھونے کے لئے کچھ نہ تھا ۔ اس لئے امراء اور علماء مغل حکومت کے سیاسی استحکام کے خاتمے کے بعد ذہنی طور پر انتشار کا شکار تھے جس کااثر ہندوستان کے پورے مسلمان معاشرے پر پڑرہا تھا اور اس احسا کو پیدا کیا جارہا تھا کہ مسلمان زوال پذیر ہوکر ختم ہورہے ہیں ۔ اس احساس کو اور زیادہ بڑھانے  میں وہ حالات تھے جن میں ملازمت کرتے تھے ۔ وہ سیاسی طاقت کے زوال کے ساتھ ختم ہوچکے تھے اور اگر تھے تو آمدنی کے ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوتی تھی ۔ ان حالات میں مسلمان ان فوجی مہم جوؤں کے جتھوں میں شامل ہوگئے کہ جو ہندوستان بھر میں لوٹ مارکرنے کی غرض سے پھرا کرتے تھے ۔یا معاوضے پر حکمرانوں کی جانب سے ان کے دشمنوں سے جنگ لڑتے تھے ۔ لیکن جب انگریزی اقتدار بڑھا تو انہوں نے ان جتھوں کو بھی ختم کرنا شروع کردیا ۔ ان ہی میں سے ایک جتھہ امیر خاں ( وفات 1834ء) کا تھا کہ جس نے انگریزوں سےصلح کر کے ٹونک کی ریاست لے لی ۔ لہٰذا اس صورت حال نے مسلمان فوجیوں میں بے روزگاری کو پیدا کیا ان فوجیوں کے ساتھ ان مولویوں اور علماء کا طبقہ تھا جو مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوکر نکل رہے تھے اور جن کے لئے ملازمتوں کے مواقع محدود تھے ۔
ان حالات میں کہ جب معاشرے کو سدھار نے کے تمام مادی و سائل ختم ہوچکے تھے حکومت ہاتھوں سے نکل چکی تھی ۔ جاگیروں پر قبضہ کمزور پڑ چکا تھا اس وقت عدم تحفظ کا احساس دل میں جاگزیں تھا،ذہن کھوکھلا اور خیالات پراگندہ تھے ، مستقبل سے مایوسی کی امید ہو اور جس میں حالات کو سدھارنے کی خوش خبری ہوتو یہ مایوس دلوں میں ایک نیا ولولہ جذبہ اور جوش پیدا کردیتی ہے ۔ ماضی کا شاندار تصور ہمیشہ انسان کے ذہن میں زندہ و تابندہ رہتا ہے اور یہ قصہ کہانیوں کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ وہی جذبات احیا ءکی تحریکوں کو تقویت دیتے ہیں ۔
اس لئے سید احمد شہید کی تحریک نے اس بے مقصد کے ماحول میں لوگوں کو ایک مقصد دیا اور متوسط طبقے کی زندگی میں جو ایک خلا تھا اسے پر کیا ۔ ان کے معتقدین کی اکثر یت کا تعلق متوسط طبقے سے جو شہروں اور قصبو ں میں رہتے تھے ۔ انہوں نے جگہ جگہ سید احمدشہید کا استقبال کیا اور ان کی دعوتیں کیں، اور ان موقعوں پر سید احمد اور اسماعیل شہید نےوعظوں کے ذریعے لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ کیونکہ لوگوں کی زندگی اور روز مرہ کے معمولات سے آگے بڑھی تھی ۔ اس تحریک نے اس جمود کو توڑا اور اس میں شمولیت کے ذریعے انہوں نے خود کو عملی طور پر ایک بڑے مقصد کےلئے تیار پایا ۔ اس تحریک نے ان میں دوبارہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کی آرزو کو پیدا کیا ۔علماء اور متوسط طبقے کے لوگ اس امید پر اس میں اس لئے شامل ہوئے تاکہ اپنی ماضی کی حیثیت کو دوبارہ بحال کرسکیں ۔
ہر تحریک کا سربراہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے پیروکار وں کی ایک برادری تشکیل دے اور ان میں رسومات و نظریات کے ذریعے ایسا جذبہ  پیدا کرے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوجائیں ۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کی شناخت کو اس طرح  سے اجاگر کیا جائے کہ ان سے نہ صرف ہندو رسومات خارج ہوں بلکہ شیعہ عقائد اور صوفیانہ اثرات کا بھی خاتمہ ہو، تاکہ  وہ متحد ہوکر جد وجہد کرسکیں ۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ جدوجہد کس کے خلاف ہو؟ اس مرحلے پر یہ سوال  پیدا ہوا کہ کیا ہندوستان انگریزی قیام کے بعد دارالحرب ہے یا دارالاسلام ! اگرچہ   اس وقت مغل بادشاہ ہندوستان کا سربراہ تھا،لیکن عملی طور پر اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی کا تھا ، انتظامیہ اس کے تحت تھی اور اسی کے احکامات کانفاذ ہوتا تھا اگر چہ کمپنی کی حکومت میں مسلمانوں کو پوری مذہبی آزادی تھی ۔ مگر اس مذہبی آزادی کے باوجود کچھ علماء کے نزدیک ہندوستان دارالحرب بن گیا تھا ، کیونکہ دارالحرب بننے میں یہ تھا کہ کافرانہ رسومات کو بغیر خوف اور جھجک کے نافذ کیا جائے اور ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ کوئی مسلمان اور ذمی امن و امان کے ساتھ نہ رہ سکے ۔ اور مسلمان اگر ذمیوں کے حقوق کی حفاظت نہ کرسکے تو اس صورت میں وہ علاقہ دارالسلام رہے گا۔ جب تک کہ مسلمان مغلوب نہ ہوجائیں اور کافر فتح یا نہ ہوجائیں اس کے بعد اگر کافر مسلمانوں کو مذہبی آزادی دے دیں اور انہیں امن و امان سے رہنے دیں ، تب بھی وہ علاقہ دارالحرب رہے گا اس لئے ہندوستان دارالحرب تو تھا مگر چونکہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی تھی اس لئے ان کے علاقے سےہجرت ضروری نہیں تھی۔
اس کےبرعکس کچھ علما ء کا یہ خیال تھا کہ جب تک کوئی اسلامی قانون اور رواج باقی رہتا ہے اس وقت تک علاقہ دارالسلام   ہے، یہ دارالحرب اس وقت بنتا ہے جب کہ اسلام اس علاقے سے بالکل   مٹا دیا جائے ۔
اس سے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اگر کوئی علاقہ دارالحرب ہے تو اس میں مسلمانوں  کے لئے ضروری ہے کہ   وہ اس علاقے میں ہجرت کر جائے جو کہ دارالسلام ہے یا وہ جہاد کریں اور اس کے ذریعے دارالحرب کو دارالسلام بنائیں ۔ شاہ ولی اللہ کی دلیل تھی کہ دارالحرب سے دارالسلام ہجرت کرنا لازمی ہے جو ایسا نہیں کرے گا ۔ وہ گناہ کا مرتکب ہوگا ۔ جب جاٹوں، سکھوں اور مرہٹوں نے مغل علاقوں پر قبضہ کرلیا تو انہیں باغی سمجھا گیا اور مقبوضہ علاقے دارالسلام رہے ۔ اور خود مختار ہندو ریاستیں باغی تھیں انہوں نے ان باغی ریاستوں کے ساتھ جنگ کو جہاد کہنا چھوڑ دیا تو اس کا مطلب ہے کہ مسلمان گائے کی دموں کے پیچھے چلے گئے یعنی ہندوؤں کے ساتھ تعاون کیا ۔(25)
سید احمد سہید کے زمانے میں صورت حال یہ تھی کہ ہندوستان میں برطانوی راج تھا، مسلمان ریاستوں کے حکمراں برطانوی حکومت کے وفادار تھے ، اور مسلمانوں کا کوئی امام اور خلیفہ نہیں تھا جو جہاد کااعلان کرتا ۔ اس لئے فیصلے کا اختیار مسلمان معاشرے کے مختلف طبقوں کو تھا، اس لئے جنہیں برطانوی اقتدار سے فائدہ تھا انہوں نےاسے دارالسلام قرار دیا اور جنہیں نقصان ہوا تھا انہوں نے دارالحرب ۔ سید احمد اور فرائضی تحریک کے پیرو کاروں کےلئے ہندوستان دارالحرب تھا اور اس لئے مسلمانوں کے لئے  جہاد لازمی تھا (26)
صراط مستقیم میں کہا گیا ہے کہ :
‘‘ موجودہ ہندوستان کا بڑا حصہ دارالحرب بن چکا ہے، اس کا مقابلہ دو سوتین سو برس پہلے کے ہندوستان سے کرو آسمانی برکتوں کا کیا حال تھا ۔’’(27)
اس بیان میں ان کا اشارہ عہد سلاطین اور مغل  دور حکومت کی جانب تھا کہ جو ہندستان میں مسلمان حکومت سیاسی و فوجی لحاظ سےطاقتور تھی اور ہندوؤں کے مقابلے وہ برابر کامیاب ہورہی تھی ۔ خراج کی آمدنی اور ٹیکسوں کی بہتات تھی ارباب اقتدار خوش حال اور فارغ البال تھے ۔ لیکن کیا اس عروج کے زمانے میں مسلمان عوام جن میں کسان کاشت کار اور دست کار شامل تھے ،  بھی خوش حال تھے؟ اس سوال کا جواب اس کتاب میں نہیں ملتا ہے کیونکہ اس کے مخاطب مسلمان امرا ء اور جاگیر دار تھے جو کہ مرہٹوں ،سکھوں، جاٹوں اور انگریزوں کے اقتدار میں آنے کے بعد مراعات و فوائد سے محروم ہوگئے تھے اس لئے ان جہاد کے فوائد بیان کر کے انہیں متحرک کرنے کی کوشش کی گئی اور لکھا کہ :
‘‘آسمانی برکتوں کے سلسلے میں روم ترکی سے ہندوستان کا مقابلہ کر کے دیکھ لو’’(28)
اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی دنیا کی تاریخ و جغرافیہ اور خود اسلامی ممالک کے بارے میں معلومات محدود تھیں، ترکی اور روم ود ملک نہیں ، ایک ہی ملک تھا جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کہلاتا تھا انیسویں صدی میں ترکی ایک زوال پذیر سلطنت تھی جو خود اپنے گناہوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی، لیکن ہندوستان کا مسلمان جو سلطنت عثمانیہ سے وناواقف تھا ۔ اس لئے وہاں خدا کی رحمتوں کا نزول ہورہا تھا ۔
چونکہ سید احمد کی تحریک   کی بنیاد جہاد پر تھی اس لئے صراط مستقیم میں اس پر تفصیل سے لکھا گیا ہے تاکہ لوگوں میں جذبہ پیدا ہو۔
‘‘ باقی رہے خصوصی فوائد تو شدائے مومنین ، مسلمان مجاہدین، صاحب اقتدار سلاطین اور میدان   کا راز  کے جواں مردوں کو فوائد پہنچتے ہیں ۔ ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں ’’ (29)
جب جہاد کےلئے عمل کا وقت آیا تو اس وقت مسلمان والیان ریاست اور جاگیر دار طبقے نے ان کی مالی امداد  تو کی مگر جہاد کے لئے ان کے ساتھ جانے کے لئے تیار نہیں ہوا ۔ ان کے ساتھ جو 7 ہزار   مجاہدین کی تعدا د تھی ان میں اکثر یت علماء کی تھی یا پھر متوسط طبقے    کے لوگ تھے جو اس امید میں شامل ہوئے تھے کہ انہیں ثواب او رمادی فوائد دونوں حاصل ہوں گے۔ ان کی تحریک کی کچھ والیان  ریاست نے ضرور مدد کی جن میں ٹونک، رامپور ، اور گوالیار کی ریاستیں قابل ذکر ہیں اور یہ امداد انہوں نے یقیناً اس وجہ سے کی کہ انہیں انگریزی حکومت کی ناراضگی کا کوئی خطرہ تھا ۔ ورنہ ان میں سے کوئی بھی انگریز کی مرضی کے بغیر انہیں مالی مدد نہ دیتا ۔
ایک سوال او رپیدا ہوتا ہے کہ آخر انہوں نے سکھوں سے جہاد کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس کے پس منظر میں کئی وجوہات تھیں ، انگریزی عمل واری میں وہ جہاد اس لئے نہیں کرسکتے تھے کہ انگریز سیاسی لحاظ سے طاقتور تھے اور ان کے خلاف کامیابی کے کوئی امکانات نہیں تھے اور نہ انگریزیں کے خلاف جہاد میں انہیں کسی قسم کی مالی امداد مل سکتی تھی ۔
سکھو ں کے خلاف جنگ کے لئے انہوں نے سرحد کے علاقے کو اس لئے اختیار کیا کہ شمالی ہندوستان میں پٹھانوں کے بارے میں عام تاثر  ہے کہ وہ بڑے مذہبی جنگ جو ، اور مذہب کی خاطر جان دینے والے ہوتےہیں ۔ اس لئے سید احمد اور ان کے پیروکاروں کا شاید یہ خیال ہو کہ چونکہ ان کی تحریک خالص مذہبی ہے۔ اس لئے جیسے ہی وہ اپنا  منصوبہ ان کے سامنے رکھیں گے پٹھان فوراً ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوجائیں گے اور ان کی مدد سے وہ سکھوں کے خلاف موثر طور پر لڑ سکیں گے ۔ چونکہ یہ جنگ مذہب کے لئے ہوگی اس لئےپنجا ب کے مسلمان بھی ان کا ساتھ دیں گے۔
جہاد تحریک میں جولوگ شامل تھے ان میں جوش ، ولولہ’ اور سادگی تھی اور انہیں یہ امید تھی کہ جس طرح قرون اوالیٰ کےمسلمانوں نےاپنی قلیل تعداد کے باوجود عراق و ایران کو فتح کرلیا تھا اسی جذبے  کے تحت وہ بھی سکھوں کو شکست دے دیں گے اور جس طرح بکھرے ہوئے عرب قبائل مذہبی طور پر متحد ہوگئے تھے اسی طرح پٹھان قبائل بھی ایک جگہ جمع ہوجائیں گے۔
اس لئے سید احمد شہید نے سکھوں کے خلاف جہاد کو ایک مرکز بنایا تاکہ اپنے پیرو کاروں کو اس پر جمع کرسکیں ، انہوں نے سکھوں سے جنگ کو ایک الہٰی حکم قرار دیا جس کا اظہار انہوں نے اپنے مکتوب میں اس طرح سے کیا ہے۔
‘‘ اس فقیر کو پردہ غیب سے کفار یعنی لانبے بالوں والے سکھوں کے استیصال کے لئے مامور کیا گیا ہے جس میں شک و شبہے کی گنجائش نہیں ، رحمانی بشارتوں کے ذریعے نیک کردار مجاہدین کوان پر غلبہ پانے کی بشارت دینے والا مقررکیا گیا ہے لہٰذا جو شخص آج اپنی جان و مال عزت اور وجاہت کو اس پاک پرور دگار کے کلمے اور سنت رسول کو زندہ کرنے میں بطیب خاطر خرچ نہیں کرے گا اس سے کل ضرور جبراً مواخدہ کیا جائے گا اور اس کو سوائے حسرت ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔(30)
سکھوں سے جہاد کا جواز فراہم کرنے کے لئے جو باتیں کہی گئیں ہیں وہ اس قسم کی تھیں کہ وہاں مسلمان کومذہبی آزادی نہیں، مساجد میں گھوڑےباندھے جاتے ہیں ، مساجد میں اذانیں بند ہیں قرآن شریف کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور سکھوں نے مسلمان عورتوں کو زبردستی اپنے گھروں میں ڈال رکھا ہے ۔ ان میں سے کچھ باتیں صحیح تھیں اور متعصّبب سکھوں کی جانب   سے مذہبی تعصب کا اظہار ہوتاہے ۔ لیکن بحیثیت مجموعی رنجیت سنگھ کیے حکومت میں رواداری کا جذبہ تھا اس کا انتظامیہ اور فوج میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تھی ان کی مذہبی معاملات میں حکومت دخل نہیں دیتی تھی اور ان کے فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے تھے ۔ اس لئے پنجاب کے مسلمانوں نے سید احمد شہید کاساتھ نہیں دیا، اس کےبرعکس سکھوں کی فوج میں مسلمان بڑی تعداد میں تھے جو ان سے جنگ لڑے، بلکہ ساتویں جنگ میں درانی پٹھان زیادہ تھے اور سکھ بہت کم تھے ۔(31)
سید احمد شہید اور ان کے ساتھیوں نے 1825ء میں اپنا سفر شروع کیا اور راجپوتانہ’ مارواڑ ، سندھ ،بلوچستان اور افغانستان سےہوتے ہوئے سرحد کے علاقے   میں داخل  ہوئے اور یہا ں سے انہوں نےرنجیت سنگھ کو یہ پیغام بھیجا کہ یا تو مسلمان ہوجاؤ جزیہ دو۔ یا جنگ کرو اور یہ یاد رکھ کر جنگ کی صورت میں یاغستان ہندوستان کے ساتھ ہے۔
سید احمد کی پہلی جنگ 21 دسمبر 1826ء کو بمقام اکوڑہ ہوئی اور اس میں نہ صرف انہیں کامیابی ہوئی بلکہ مال غنیمت بھی ہاتھ آیا اس کامیابی نے ان کے حوصلے بڑھادیئے اور سرحد کے قبائل میں اس فتح نے ان کے اثر و رسوخ کو بڑھادیا ۔ اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ انتظامات اور دوسرے امور کے لئے باقاعدہ تنظیم ہو تاکہ شریعت کے مطابق باقاعدہ فیصلے کئے جائیں ۔ اس کی روشنی میں 11 جنوری،1827ء کو آپ کےہاتھ پر بیعت کی گئی اور آپ کو امیر المومنین منتخب کر کے خلیفہ   کے خطاب سے پکارا جانے لگا۔
احیاء کی تحریکوں میں ہمیشہ اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماضی کے قدیم ڈھانچہ کو دوبارہ تشکیل دیا جائے اور قدیم الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال کیا جائے ۔اس لئے امیر المومنین خلیفہ   ،امام، مجلس شوریٰ، اور بیت المال کی اصطلاحات کااستعمال ہوا سید احمد نے اپنے پیروکاروں میں حوصلیں پیدا کرنے کی غرض سے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو قدیم اسلامی   تاریخ  سے تشبیہ دی۔ مثلاً وینٹوراسےایک جنگ کے موقع پر انہوں نے دفاع کے لئے ایک دیوار تعمیر کرائی اور اس معرکے کو غزوہ خندق سے تشیبہ دی ۔
سید احمد کے دعویٰ امامت نے یہ صرف سرحد میں ان کی مخالفت کو ابھارا بلکہ ہندوستان میں بھی ان کے اس دعوے کو شک و شبہ سے دیکھا گیا ۔ جب خطبے میں ان کا نام   بحیثیت خلیفہ  اور امام پڑھا گیا تو سرحد ک سرداروں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ ان کے علاقے میں اپنی حکومت قائم کرکے انہیں اقتدار اور سرداری سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر چہ انہوں نے اپنے خطوط میں جو انہوں نے ہندوستان اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کو لکھے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہ انکا مقصد دنیاوی حکومت نہیں بلکہ کافروں سے جہاد کے لئے امام بننے پر تیار ہوئے ہیں، ایک خط میں لکھتے ہیں کہ :
‘‘ اللہ کا شکر اور احسان ہے کہ ان مالک حقیقی اور بادشاہ حقیقی نے اس گوشہ نشین فقیر عاجز اور خاکسار کو پہلے تو غیبی اشاروں اور اپنےالہامات کے ذریعےجن میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں خلافت کااہل ہونے کی بشارت دی دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی بڑی  جماعت اور خاص و عام کی تالیف قلوب کے لئے مرتبہ   امامت سے مجھ کو مشرف فرمایا ’’(32)
سید اسماعیل  شہید نے  مخالفوں پر تنقید  کرتے ہوئے لکھا کہ :
‘‘ لہٰذا  جناب والا کی اطاعت تمام مسلمانوں پر لازمی ہے جو شخص جناب والا کی امامت کو ابتدا    ء میں قبول     نہ کرے  یاقبول  کرنے کے بعد اس سے انکار کرے تو یہ سمجھ لیجئے کہ وہ باغی ، مکار، فریبی اور اس کا قتل کرنا کافروں کے قتل کی طرح عین جہاد ہے ....... پس معتر ضین کے جوابات اس خصوص میں اس عاجز کے پاس  تو ان کو ملوارکے گھاٹ اتارنا ہے نہ کی تحریر و تقریرسے ( انہیں جواب دینا ہے) (33)
اپنی امامت کے بارے میں سید احمد   نواب وزیر الدولہ والی ٹونک کولکھا کہ :
‘‘آپ اس کو بالکل یقین جانیں ، جو شخص دل سے میرے اس منصب کا اقرار کرتا ہے وہ مقبول  بارگاہ لم یزل ہے  اور جو شخص انکار  کرتا ہے وہ بے شک اس حق جل شانہ کے پاس مردود ہے ...... میرے مخالفین کو جو میرے اس عہدے سے انکار کرتےہیں، ان کو ذلت و رسوائی ہوگی ۔’’ (34)
سید احمد کے سیاسی او رمذہبی اقتدار نے سرحد میں ان کی زبردست مخالفت پیدا کردی ۔ کیونکہ انہوں نے اچانک سرحد آکر وہاں کے پورے سیاسی ڈھانچے کو بدل ڈالا جس کے لئےسردار بالکل تیارنہ تھے ۔ اور سب سے بڑی بات ی کہ پٹھان سردار او ر عوام شمالی ہندوستان سے آنے والے غیروں اور اجنبیوں کو اپنا حکمراں تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے، اس لئے اگر چہ ان کے معرکہ سکھوں سے رہے، لیکن بہت جلد وہ سکھوں سے زیادہ پٹھان سرداروں سے مصروف جنگ ہوگئے ۔ اور جب ان میں سے کچھ نے ان کی اطاعت نہیں کی تو انہیں منافق ضعیف الاعتقاد اور ملعون کہنا شروع کردیا سرحد کے سرداروں کا اپنا یہ نقطہ نظر تھا کہ وہ سید احمد کی مدد سے سکھو کو نکال کر اپنی خود مختاری بحال کرلیں گے ۔ مگر جب انہوں نے خود کو امام اور خلیفہ منتخب کرلیا تو ان کے لئے ان میں اور سکھوں میں کوئی فرق نہ رہا ۔اگر چہ سید احمد شہید خود کوایک برتر مذہبی مقام پر فائز سمجھتے ہوئے انہیں فتح کی خوش    خبری ، مال غنیمت کےحصول اور حمت الہٰی کی برکتوں کاذکر کرتے تھے، مگر سرداروں کے لئے اس سے زیادہ اقتدار عزیز تھا جو اس طرح ان کے حوالے کرنے پر تیار نہ تھے ، پٹھان سردار مولویوں کو کسی بھی صورت میں برتری سماجی حیثیت دینے پر تیار نہیں تھے ، خادی خان، ایک پٹھان سردار کے مطابق ریاست کی دیکھ بھال کرنا سرداروں کاکام ہے ملا زکوٰۃ اور خیرات کے کھانے والے ہیں اور انہیں ریاست کے معاملات کا شعور نہیں ۔(35)
اس مخالفت کے بعد سید احمد کےلئےیہ ضروری ہوگیا کہ پہلے وہ اپنی بنیادوں کو محفوظ کریں اور جب ان کا تمام علاقے پر تسلط ہوجائےتو وہاں اسلامی نظام نافد کر کے شریعت کو قائم کریں اس طرح ان کی پوری جہاد تحریک ، خانہ جنگی میں بدل  گئی چنانچہ جب سرحد کے سرداروں کے خلاف معرکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے ان کے علاقوں پر حملے کو اس لئے جائز کہا کہ وہاں فسق و فجور تھا لوگ شرع سے ہٹے ہوئے تھے اور ان میں جاہلیت کی رسومات تھیں ۔ ان حالات میں امام کے لئے یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ ایسے ملک  پر لشکر کشی کرکے ان کافرانہ رسومات کا خاتمہ کرے ۔ اس کے ثبوت میں امیر تیمور کا وہ فتویٰ  دیا گیا کہ جس میں اس وقت کے علماء نے ہندوستان پر اس کے حملے کو جائز قرار دیا تھا ۔ اس فتوے کے تحت ایسے ملک پر حملہ کرنا کہ جہاں کافرانہ رسومات ہوں جائز ہے۔ چاہے وہاں کا حکمراں مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے ملک میں فوج کا لوگوں کا قتل عام کرنا اور مال غنیمت و دولت لوٹنا بھی جائز ہے ۔(36)
اس سلسلے میں پہلی لڑائی یار محمد خاں حاکم یاغستان سےہوئی جو لڑائی میں مارا گیا اور 1830 ء میں پشاور پر سید احمد کا قبضہ ہوگیا ۔ اس کے بعد رئیس پنجتار اور پلال قوم کا سردار ان کے مرید ہوگئے ۔لیکن سردار پابندہ خاں نے ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ۔ اس لئے اس پر کفر کافتویٰ لگایا گیا اور اس کے خلاف جہاد کیا گیا کہ اس نےبیعت کے بعد ان کے خلاف بغاوت کی تھی اس لئے وہ واجب القتل ہوا قتل کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی انکار کردیا جس پر پٹھان مولویوں نے اس کی نماز پر ھائی ۔
پشاور کی فتح کے بعد انہوں نے شریعت کے نفاذ کے لئے ایک پر تشدد پالیسی کا آغاز کیا اور وہ تمام قبائل رسومات جو ان کے نزدیک غیر شرعی تھیں ان کے خاتمے کااعلان کیا۔ ان رسومات میں اہم یہ تھی ںک : شادی کے لئے بیوی کی باقاعدہ قیمت ادا کی جاتی تھی ۔ مرنے والے کی بیویوں اس کے وارثوں میں تقسیم ہوتی تھیں ۔ چار سے زیادہ شادیوں کارواج تھا، عورت جائداد کی وارث نہیں ہوسکتی تھی آپس کی جنگیں جہاد تصور کی جاتی تھیں اور لوٹ کا مال، مال غنیمت میں شمال ہوتا تھا  لہٰذاپشاور کی فتح کے بعد یہ احکامات ہوئے کہ جن لوگوں نے اپنی بیویوں کی آدھی رقم بھی دے دی ہے وہ انہیں لے جائیں جو عورتیں شادی کے قابل  ہیں ان کی فوری شادی کردی جائے ، شرعی احکام کے نفاذ کے لئے انہوں نے   امام قطب  الدین کو محتسب مقرر کیا جن کے ساتھ 30 مسلح سپاہی رہا کرتے تھے وہ ان کے ہمراہ قرب وجور کے دیہاتوں میں جاکر ان افغان نوجوانوں کو مارا پیٹا کرتے تھے جنہوں نے نماز ترک کر دی تھی ۔ مارنے پیٹنے او رکوڑے مارنے کایہ عالم ہوگیا تھا کہ کوئی ہندوستانی دیہات میں چلا جاتا تو وہاں افراتفری اور بھگدڑ مچ جاتی تھی ۔سزا دینے  کے معاملے میں انتہائی تشدد سے کام لیا گیا او ریہاں تک ہوا کہ لوگوں کو درختوں کی شاخوں پر لٹکا دیا جاتا تھا ۔ عورتوں میں بھی جو نماز چھوڑ دیتی تھیں انہیں زنان  خانے میں سزائیں دی جاتی تھیں ، اس لئے بہت جلد لوگ ان سے تنگ آگئے کیونکہ یہ قاضی و محتسب حد سے زیادہ لوگوں کو تنگ کرنے لگے ۔اور ان کی استطاعت سے زیادہ ان پر جرمانے عائد کرنے لگے ۔ (37)
جس چیز نے سرحد کے علماء کو ناراض کیا وہ سید احمد اور مجاہدین کا عشرہ وصول کرنا تھا کیونکہ اس کے حقدار اب تک سرحد کے علما ء تھے   ۔ مجاہدین کا کہنا تھا کہ اس کا حقدار امام ہوتا ہے اور وہ اسے بیت المال میں جمع کر کے مستحقین میں تقسیم کرتا ہے چونکہ اس سے سرحد کے علماء کی روزی پر اثر پڑا ۔ اس لئے وہ ان کے زبردست    مخالف ہوگئے ۔ یہ مخالفت بعد میں ان کے عقائد کی وجہ سے اور بڑھ گئی چونکہ آمین الجہد ( زور سے آمین کہنا) اور رفع دین ( نماز میں ہاتھ اٹھانا) ان کے عقائد میں شامل تھے ۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں ان کے مخالف علماء نے ان کے پاس یہ محضر نامہ بھیجا کہ سید احمد انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اس لئے ان سے ہوشیار رہا جائے ، ان تمام باتوں نے ان کی حیثیت کو بڑا کمزور کردیا ۔(38)
علما    ء سردار وں اور عام لوگوں میں اس وقت بے چینی پھیلنا شروع ہوئی کہ جب مجاہدین نے جن کی اکثریت اپنے اہل و عیال کو ساتھ نہیں لاتی تھی پٹھانوں میں زبردست شادیاں کرنا شروع کردیں ۔ یہاں تک ہوا کہ کوئی لڑکی جارہی ہے اور کسی مجاہد نے اسے پکڑ لیا اور مسجد لے جاکر زبردستی نکاح کرلیا ۔ ایک ہندوستانی نے جب اس طرح سے ایک خوشیگی سردار کی لڑکی سے شادی کی تو اس نے اپنے مخالفت خٹک قبیلے کے سردار سے درخواست کی کہ اس کی مدد کرے ، اس پر خٹک سردار نے قبیلے کے سامنے اپنی لڑکی کا دو پٹہ اتار کر یہ عہد کیا کہ وہ جب تک پٹھان عزت کا بدلہ نہیں لے گا چین سے نہیں بیٹھے گا۔(39)
ستم بالائے ستم یہ کہ جن خاندانوں کی لڑکیوں کی شادیاں ان ہندوستانیوں میں ہوئی تھیں انہیں دوسرے پٹھان طعنےدیتے تھے کہ تم نے کالے کلوٹے ہنوستانیوں میں شادی کردی، اس پر طعنہ دینے والوں کو مجاہدین نے سزائیں دیں ۔(40)
یہ وہ وجوہات تھیں کہ سرحد کے علماء سردار اور عوام ان کے مخالف ہوئے اور انہوں نےایک منصوبےکے تحت تمام مجاہدین کو جو پشاور اور اس کے گروہ نواح میں انتظامی امور پر فائز تھے قتل کردیا۔
اس واقعہ کے بعد سید احمد کشمیر جانا چاہتے تھے ۔ مگر اس سے پہلے ان کا آخری معرکہ سکھوں سے ہوا اور 1831ء میں وہ ان کے ساتھی بالا کوٹ کے مقام پر شہید ہوئے ۔
سید احمد کی تحریک جہاد کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو اس کی بنیادی کمزوری کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ سرحد کے علاقے کو اپنا مرکز بنانے سے پہلے نہ تو سید احمد نے او رنہ ان کے پیروکاروں نے اس علاقے کے جغرافیہ کو سمجھا نہ اس کی تاریخ کو ، اور نہ قبائل کی تشکیل ان کی روایات و رسومات او رذہن کو نہ انہوں نے ان کی زبان سیکھی او رنہ ان کے طور طریق ۔ نہ انہوں نے ان کی روایات و رسومات اور ذہن کو نہ انہوں نے ان کی زبان سیکھی او رنہ ان کے طور طریق۔ نہ انہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ مذہب سے زیادہ لسانی اور قبائلی رشتے مضبوط ہوتے ہیں ۔ او روہ شمالی ہندوستان سےآنے والوں کو کسی بھی صورت میں اپنا حکمراں نہیں بنائیں گے ۔ کیونکہ مذہب ایک سہی مگر ثقافتی اختلافات ان کو ایک دوسرے کے قریب  کرنے میں رکاوٹ بنے رہے ۔ ان کےساتھ جو مجاہدین اور رضا کار آئے تھے ۔ ان کی مدد سے قبائل کو شکست دے کر وہاں بزرو طاقت حکومت قائم کرنا مشکل تھا اس لئے ان کی سرگرمیوں کو پٹھانوں نے شروع ہی سے شک و شبہ سے دیکھا اور ان کے لئے یہ سمجھنا یقیناً مشکل ہوگا کہ یہ لوگ ہندوستان سے جہاد کرنے یہاں کیوں آئے ہیں! اس کااحساس اسماعیل شہید کو ہوا جس کااظہار انہوں نے اس طرح سے کیا :
‘‘ اس علاقے میں آکر ایسا معلوم ہوا کہ اگرچہ طویل مدت میں خدا کی مہربانی مقصود کا حصول متوقع ہے۔ لیکن ابھی اس نواح میں لشکر کے آنے کا وقت نہیں آیا تھا ۔ ابھی تو اس ضرورت تھی کہ فد وی چند خدمت گزاروں کے ساتھ اس نواح میں آتا اور دیہاتوں اور بستیوں کا خفیہ اور علانیہ دورہ کرتا ۔ جب اس علاقے  کے روسا ء تیار ہوجاتے اور لشکر کے قیام کے لئے کوئی جگہ معین ہوتی تو اس وقت لشکر اسلام رونق افروز ہوتا ۔ یا ابتداء ہی میں ایک بڑا معین ہوتی تو اس وقت لشکر اسلام رونق افروز ہوتا ۔ یا ابتداء ہی میں ایک بڑا لشکر جرار یہاں کا رخ کرتا اور یہاں کے باشندوں کو موافقت یامخالفت کے قطع نظر کرتے ہوئے علم جہاد بلند کرتا اور بغیر کسی تردو اور دغدغہ کے کفارو منافقین پر دست اندازی کرتا، پھر جو مخالفت کرتا سزا پاتا ۔(41)
اس کے علاوہ ان کےساتھ جو لوگ آئے تھے وہ سب دین کی خاطر جہاد کرنے والے نہیں تھے ان میں ایسی  تعداد بھی تھی جو محض لوٹ مار کی غرض سے آتی تھی ۔ کیونکہ ان میں وہ فوجی بھی شامل تھے جو امیر خان کی فوج کا ایک حصہ تھے ، جنگ کرانا ان کا پیشہ تھا اور اس کے ذریعے وہ دولت اکٹھی کرتے تھے ۔ جب ہندوستان میں مہم جوئی کے مواقع ختم ہوگئے تو وہ اس امید میں آئے کہ دین کی خدمت بھی ہو گی اور مال ودولت بھی ملے گا۔
اس کے ساتھ ہی اس بات کے شواہد بھی ملتےہیں کہ جہاد میں حصہ لینے والوں کی کوئی فوجی تربیت نہیں ہوئی تھی ۔ اور نہ ہی ان میں نظم وضبط تھا ۔ فوجی اخراجات اور اسلحہ کے لئے انہیں ہندوستان کے چندوں پر انحصار کرنا پڑتاتھا ۔ ابتداء میں لوگوں نے خوب   چندہ دیا مگر جب کامیابی کے امکانات کم ہوئے تو اسی طرح سے چندے میں کمی آتی گئی ۔
اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تحریک محض مذہبی جوش کے سہارے شروع ہوئی تھی اور اسے مفروضوں  پرتشکیل دیا گیا تھا جو حقیقیتیں تھیں انہیں نظر انداز کردیا گیا تھا تحریکیں محض جوش اور تشدد اور تعصب و سختی سے کامیاب نہیں ہوتی ہیں ۔ او راس کے نتیجے میں معاشرے کی قوت و توانائی ضائع ہوتی ہے ۔
سید احمد شہید کی تحریک نہ تو سکھوں کے خلاف کوئی کامیابی   حاصل کرسکی اور نہ سرحد میں اسلامی معاشرے کا قیام ممکن ہوسکا ، جب 1849 میں پنجاب پر انگریز وں کا قبضہ ہوا تو انہوں نے سختی سےاس تحریک کو ختم  کردیا اور ان پر 1870 تک وہابی مقدمات چلائے گئے جن میں ملوث علماء کو مختلف سزائیں دی گئیں ۔ آخر میں مولوی محمد حسین بنالوی نے اس کو اہلحدیث کا نام دے کر انگریزی حکومت سے مصالحت کرلی، اور جہاد کی مخالفت میں ایک رسالہ بھی لکھا ۔
سید احمد کی تحریک کی چند خصوصیات یہ تھیں کہ یہ مکمل طور پر ایک ہندوستانی تحریک تھی اور اس کاتعلق باہر سے نہیں تھا او رنہ یہ بیرونی امداد پر چلی، اس تحریک کے لئے تمام چندہ ہندوستان ہی سے جمع ہوا کرتا تھا اس تحریک نے ہندوستان میں مسلمان معاشرے کی شناخت کے لئے مذہبی عناصر کو ابھارا اس کی وجہ سےہندوستانی معاشرے میں علیحدگی کے جذبات پیدا ہوئے اور مغل ثقافت جو ایک سیکولر ثقافت کے طور پر ابھررہی تھی، اس تحریک نے اس کے پھیلاؤ اور اس کی ترقی کو روکا۔
اس تحریک کایہ اثر ہوا کہ اس کے بعد علماء نے جہاد کی بجائے تبلیغی مشن شروع کئےاور اپنے اثر و رسوخ کے لئے مدرسے اور درس گاہیں قائم کیں اس تحریک نے ہندوستان کے علماء کے طبقے میں بھی گہرے اختلاف کو پیدا کیا اور یہ اختلافات مناظروں اور وعظوں کی صورت میں اور زیادہ شدید ہوتے چلے گئے اس لئے علماء او ران کے پیروکاروں کی جماعتوں نےاس تحریک سے قطعی لاتعلقی کا اظہار کیا اور یہاں تک ہوا کہ ان کی شکست پر خوشیاں منائی گئیں اور اس تحریک کا انجام بھی وہی ہوا جو اکثر احیاءکی تحریکوں کا ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی بجائے  ان میں تفرقہ ڈال کرخودکو ایک نئے فرقے کی حیثیت سے تشکیل دے دیتی ہیں، چنانچہ ان مذہبی تنازعوں اور اختلافات کی چھاپ اب تک مذہبی جماعتوں اور گروہوں میں موجود ہے۔
حوالہ جات:
(1) ابوالکلام آزاد : تذکرہ   ،لاہور 1981ء ص ۔238
(2) ایضاً : ص ۔245
(3) عبدالقادر بدایونی : منتخب التواریخ ۔ ( اردو ترجمہ) لاہور ۔1962ء ۔ص ۔ 497
(4) ایضاً : ص ۔ 499
(5) ایضاً : ص ۔ 497
(6) محمد میاں : علماء ہند کا شاندار ماضی ۔ جلد دوم ، دہلی ۔1957ء ص ۔7۔8
(7) ایضاً : ص ۔ 40
(8) اشتیا ق حسین قریشی : برعظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ ۔ کراچی ۔ 1967۔ ص۔251۔252
(9) ایضاً : ص ۔253۔254
(10) شیخ محمد اکرام : روو کوثر لاہور ۔1968ء ۔ص 339
(11) اطہر رضوی : شاہ عبدالعزیز ( انگریزی ) کینبرا 1982ء ۔ ص 339
(12) رود کوثر : ص ۔320
(13) شاہ عبدالعزیز : ص ۔4
(14) شاہ ولی اللہ : فیوض الحرمین ،لاہور 1947ء۔ص 297۔299
(15) مناظر احسن گیلانی : تدکرہ شاہ ولی اللہ ، کراچی ۔1959ءص ۔90
(16) ایضاً : ص ۔119
(17) ایضاً : ص ۔ 122
(18) اسماعیل شہید : تقویۃ الایمان کراچی (؟) ص۔79۔81۔82
(19) ایضاً : ص ۔ 200۔201
(20) اسماعیل شہید : صراط المستقیم ،کراچی (؟) ص ۔ 39
(21) مرزا حیرت دہلوی : حیات طیبہ   لاہور ۔1974۔ص۔124
(22) فیوض الحرمین : ص ۔127
(23) مولانا منظور نعمانی : تذکرہ  مجددالف ثانی ، کراچی ۔1978ء۔ص۔ 144
(24) ایضاً : ص ۔157
(25) شاہ ولی اللہ : حجتہ البالغہ ، کراچی ۔1962ء ۔ ص۔48
(26) پیٹرہارڈی  : ہندوستانی مسلمان کیمبرج ۔1982ء ص ۔109
(27) صراط مستقیم : ص ۔49
(28) ایضاً : ص ۔50
(29) ایضاً : ص ۔ 51
(30) جعفر تھانیسری : مکتوبات سید احمد شہید کراچی ۔ 1949ء ۔ ص ۔44
(31) حیات طیبہ : ص 261
(32) مکتوبات سید احمد : ص 119
(33) ایضاً : ص ۔ 175
(34) ایضاً : ص ۔۔ 295
(35) ابولحسن ندوی : سیرت سید احمد شہید ، کراچی ۔1975ء۔ص۔114۔115
(36) حیات طیبہ : ص ۔ 383۔384
(37) مکتوبات سید احمد : ص ۔ 277۔280
(38) ابوالحسن ندوی: ص 212۔214
(39) عبیداللہ سندھی : شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک لاہور۔ 1951ء۔ص 96۔102
(40) ابوالحسن ندوی: ص ۔212
(41) ایضاً : 46
(42) حیات طیبہ: ص ۔260

No comments:

Post a Comment