ڈاکٹر مبارک علی
ہندوستان میں اسلام کیسے پھیلا؟
مذاہب کی تاریخ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی مذہب محض اپنی تبلیغ کے سہارے ایک آفاقی مذہب نہیں بن سکا جب تک کہ اس کی ترویج و تبلیغ کے لیے سیاسی طاقت کو استعمال نہ کیا گیا ہو اس کے پیروکاروں میں اس وقت اضافہ ہوا جب کسی سیاسی اقتدار کے ذریعے اس کی حمایت کی گئی اس کی مثال بدھ مذہب سے دی جاسکتی ہے جس کی عالمگیر اشاعت اس وقت ہوئی جب اشوک نے اس اختیار کیا اور حکومت کے ذرائع استعمال کر کے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر سے اس کی اشاعت کی ۔ عیسائیت کو اسی وقت فروغ ہوا جب قسطنطین نے اسے قبول کیا ۔
اسلامی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں جہاں اسلامی فتوحات ہوئیں اور جو جو ممالک فتح ہوئے وہاں سیاسی قوت کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی استحکام ملتا رہا ۔ عراق ، شام ، ایران اور مصر میں حکمران جماعتوں نے مسلمانوں سے مقابلہ کیا لیکن شکست کے بعد ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں تھی کہ مسلمان ہو کر اپنی مراعات اور جائیدادوں کو بچائیں اور فاتح جماعت کاساتھ دے کر حکمران اداروں میں ان کے ساتھ شامل ہوجائیں ۔ چنانچہ فتح ایران کے بعدوہاں کی دہقان جماعت جو زمینداروں اور جاگیرداروں پر مشتمل تھی سب سے پہلے مسلمان ہوئی اور اپنی وہ تمام مراعات برقرار رکھیں جو ساسانی عہد میں ان کے لیے مخصوص تھیں یہ اس طبقے کی خصو صیت رہی ہے کہ اس نے اپنی جائیداد کے تحفظ کے لیے ہمیشہ حالت سے سمجھوتہ کیا ہے ان کے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی ان کی رعیت جو نظام جاگیرداروں میں ان کی ملکیت ہوتی تھی اپنے آقا کے مذہب میں شامل ہوگئی ۔
ہندوستان میں اشاعت اسلام کے بارے میں ایک بات بڑے و ثوق سے کہی جاتی ہے اور اسے اسی طرح بغیر سوچے سچ تسلیم کرلیا جاتاہے کہ ہندوستان میں اسلام صوفیاء کے ذریعے پھیلا ۔ کیا درحقیقت صرف صوفیاء نے ہندوستان میں اسلام پھیلا دیا؟ یا یہ ان کے معتقدوں اور مریدوں کا محض پروپیگنڈا ہے اس مقالے کامقصد اس کا تجزیہ کرنا ہے۔
اسلام میں جب ملوکیت قائم ہوئی تو بادشاہو اور حکمرانوں نے علماء صوفیا اور مشائخ کے اثرات کو کم کردیا ۔ انہیں یا تو مراعات دے کر اپنا ہمنوا بنالیا، یا اقتدار سے محروم کر کے بیکار کردیا، اقتدار سے محرومی کےبعد رد عمل کے طور پر اس طقبہ نے اپنی ایک علیحدہ اور آزادانہ حیثیت قائم کی اور خود کو بادشاہوں پر فوقیت دینے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کئے اور اس بات کی کوشش کی کہ عوام کے ذہنوں میں اس بات کو راسخ کیا جائے کہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے ذمہ دار لوگوں کے اخلاق کی تربیت کرنے والے اور لوگوں کو سیدھی راہ پر چلانے والے صرف وہ ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں مذہب کو قائم کئے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں دو متوازی رجحانات اور جماعتیں پیدا ہوئیں : ایک وہ جو حکومت و سلطنت پر قابض تھے اور سیاسی اداروں کے مالک تھے ، دوسری صوفیاء کی جماعت جو غیر سیاسی تھی لیکن جن کی علیحدہ روحانی سلطنت تھی اور جن کی علیحدہ رعیت تھی، جو ان کی شخصیت اور کارناموں کوبڑھا چڑھا کر پیش کرتی تھی ۔ چنانچہ اس ضمن میں ہندوستان میں اشاعت اسلام کے کارنامے کو بھی ان سے منسوب کردیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہاں مسلمان حکمرانوں نے دین اسلام کی اشاعت کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے صوفیاء و علماء کی اشاعت اسلام میں مدد کی۔ یہ صرف ان کی انفرادی کوششیں تھیں کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے ۔ یہاں اس مفروضے کو رد کرتے ہوئے دلائل کے ذریعے اسلام کی اشاعت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔
ہندوستان میں اسلام اوّل جنوبی ہندوستان میں تاجروں کے ذریعے پھیلا پھر سندھ میں عربوں کی فتح کے بعد اور آخر میں ترکوں کی فتح کے بعد شمالی ہندوستان آیا ۔ ہندوستان میں مسلمان کی آمد سے قبل یہاں جو مذہبی ، سیاسی، سماجی، اور اقتصادی حالت تھی اس کی بنیاد ذات پات تھی ۔ معاشرے کےمختلف طبقے مختلف ذاتوں اور طبقوں میں تقسیم تھے ۔ اب ذات پات کی تقسیم میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ کوئی شخص اپنی صلاحیت کے ذریعے معاشرے میں کوئی اعلیٰ مقام حاصل کرسکے ۔ یہاں انسان کی پیدائش ہمیشہ کے لیے اسے ایک نہ تبدیہ ہونے والا سماجی مقام اور مرتبہ دیتی تھی۔ جس سے چھٹکارا پانا یا تبدیل کرنا اس کے لیے ایک ناممکن امر تھا ۔ اس سارے ڈھانچہ کی بنیاد مذہبی روایات پر تھی جو ذہن میں اس قدر راسخ تھیں کہ ان سے بغاوت کرنا یا ان سے انحراف کرنا ایک نا ممکن امر تھا چونکہ اس کے سامنے او رکوئی دوسرا راستہ نہیں تھا اس لیے وہ اس نظم کے بندھنوں میں اسیر و گرفتار رہنے پر مجبور تھے،لیکن جب اسلام ان کے معاشرے میں آیا تو ان کے لیے ایک راستہ نکل آیا ، چنانچہ جنوبی ہندوستان میں اشاعت اسلام کا ذکر کرتے ہوئے شیخ زین الدین معبری نے ‘‘ تحفتہ المجاہدین ’’ میں لکھا ہے ۔
ہنود میں رسم و رواج کی بندشیں اور ذات پات کی پابندی مدت سے قائم تھیں ۔ اگر اعلیٰ ذات کا کوئی ہندو کسی ادنی ذات کے آدمی سے چھو جاتا حد مقررہ سے قریب ہوجاتا، تو غسل کے بغیر کھانا کھانا اسے جائز نہیں اگر کوئی بغیر غسل کھا لیتا ہے تو اپنی ذات سے باہر ہوجاتا ہے ادنیٰ ذات والوں کا پکایا ہوا کھانا اعلیٰ ذات والوں کےلئے منع ہے۔ اگر اعلیٰ ذات کا کوئی مرد کسی ادنیٰ ذات کی عورت سے شادی کرتا ہے یا کسی اعلیٰ ذات کی عورت کےساتھ ادنی ٰ ذات کے مرد کی شادی ہوجاتی ہے تو اعلیٰ ذات والا اپنی ذات سے خارج ہوجاتے ہے۔ (1)
اسی طرح جب اعلیٰ ذات کے ہندوؤں سے رسم و رواج کے خلاف کوئی فعل سرزد ہوجاتا تو بد نامی سے بچنے کے لیے اسلام قبول کرلیتے تھے۔ محمود بنگلوری کتاب نے ملیبار کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ :
رسم و رواج کے خلاف نائر جب کسی فعل کے مرتکب ہوتے تو اس بدنامی سے بچنے کے لیے یا وطن چھوڑ کر ایسی جگہ جاتے جہاں ان سے کوئی واقف نہیں یا اسلام قبول کرلیتے ہیں پولیوں کے لیے بھی اس ذلت سے بچنے کا طریقہ صرف قبول اسلام ہے۔ (3)
جنوبی ہند میں نائز اعلیٰ ذات والے تھے جب کہ پولی ادنیٰ ذات کے تھے اس سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ اسلام سے پہلے اس رسم و رواج سے چھٹکاراپانے کی ایک ہی صورت جلاوطنی تھی، اسلام کے بعد وجلاوطنی کے ساتھ عقیدہ کی تبدیلی کی بھی آزادی ملی ۔ چونکہ وطن چھوڑ کر جانا ہر ایک کے لیے مشکل ہوتا تھا اس لیے جب مسلم تاجر وہاں آئے او رانہوں نے اپنی بستیاں علیحدہ سے بسائیں تو اس صورت میں ان کے لیے یہ آسان طریقہ تھا کہ اسلام قبول کر کے ان کے معاشرے کا حصہ بن جائیں ۔
اس کے علاوہ جنوبی ہند میں تاجروں کے آمد ’ رہائش، میل جول، شادی بیاہ، کنیزوں کی خریداری اور ان سے اولاد کاہونا وہ ذرائع تھے جن کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، ان حقائق اور شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جنوبی ہند میں اسلام کی اشاعت کا سہرا تاجروں کے سر ہے صوفیاء کے نہیں ۔
جنوبی ہند کے بعد مسلمانوں کی آمد سندھ میں بحیثیت فاتح ہوئی جہاں انہوں نے سیاسی اقتدار قائم کئے ۔ محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والوں میں اگرچہ ہر طبقے کے لوگ تھے ۔ لیکن اکثریت بہر حال فوجیوں کی تھی اور سندھ میں اس وقت اسلام پھیلا جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی ۔ اس قسم کے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ سندھ کے سردار ی کے بعد دیگرے محمد بن قاسم کے پاس آئے اور اس لیے مسلمان ہوئے تاکہ ان کی قدیم حیثیت باقی رہے ۔ اور وہ معاشرے میں اپنی قدیم مراعات کو برقرار رکھ سکیں ۔ اس لیے جب حکمران طبقہ مسلمان ہوا تو عام لوگوں نے بھی ان کی پیروی کی اور اس کے مذہب میں شامل ہوگئے ۔
شمالی ہندوستان میں بھی اگر چہ مسلمان بحیثیت فاتح آئے تھے اس کے باوجود یہاں کی اکثریت کو مسلمان نہیں کرسکے ، کیونکہ اس علاقے میں برہمن ازم کی جڑیں انتہائی مضبوط تھیں، اور اس نے اسلام کامقابلہ قوت کے ساتھ کیا، دوسرے شمالی ہندوستان میں برہمن مراعات یافتہ طبقہ تھا جس کی مراعات کی بنیاد مذہب پر تھی، اس لیے اس نےاپنی مراعات اور اپنی حیثیت کے تحفظ کے لیے اپنے پیروکاروں کو مذہب پر براقرار رکھا اس لیے یہاں جو تبدیلی مذہب ہوئی وہ ادنیٰ ذات کے لوگوں میں ہوئی ۔
اگر ہندوستان میں اشاعت اسلام کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ملتی ہیں :
(1) ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہونے کے بعد ایک طبقہ ان مفاد پرست لوگوں کا تھا جو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر مسلمان حکومت سے تعاون کرنا چاہتے تھے اس لیے اس طبقے نے اپنی وفاداری کے اظہار کے طور پر اسلام قبول کر لیا، جس کی وجہ سے انہیں حکومت کی ملازمتیں عہدے اور مناسب ملے۔
(2) دوسرے جاگیرداروں اور زمینداروں کاطبقہ تھا جو اپنی جاگیروں کا تحفظ چاہتے تھے اور یہ تحفظ تب ہی مل سکتا تھا جب ہو مسلمان ہوجاتے۔
(3) وہ لوگ تھے جو فاتحین کی لوٹ مار سے محفوظ رہنے کے لیے مسلمان ہوئے تاکہ ان کی جان و مال اور عزت کا تحفظ ہوسکے ۔
(4) نچلی ذات کے لوگ اسی امید میں مسلمان ہوئے کہ اس صورت میں ان کا سماجی مرتبہ بڑھ جائے اور مسلمان معاشرے میں انہیں کوئی باعزت مقام مل سکے گا۔
(5) وہ ولوگ جو اپنی ذات و برادری سے خارج کردیئے گئے تھے انہوں نے اسلام قبول کر کے مسلمانوں میں پناہ لی ۔
(6)وہ لوگ بھی مسلمان ہوئے جن پر آپس میں میل جول کے اور خیالات کے تبادلے کااثر ہوا۔
(7) ایسے لوگ بھی تھے جو اسلام کامطالعہ کرنے کے بعد خاص دینی جذبے کے تحت مسلمان ہوئے ۔
اشاعت اسلام کے ضمن میں جو یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، غلط ہے۔ کیونکہ اسلامی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ہی یہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھی حکومت کو اس سے دلچسپی تھی کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھے تاکہ ان کی حکومت کو استحکام ملے اس کے علاوہ حکمرانوں کو حکومت چلانے کے لیے فوج اور دوسرے اداروں میں ان لوگوں کی ضرورت تھی جن پر وہ اعتماد کرسکیں ہم مذہب ہونے کی وجہ سے ایسے لوگ ان کے لیے زیادہ مفید ہوسکتے تھے اس لیے انہوں نے جہاں جہاں ہوسکا نئے علاقوں کی فتح کے بعد اس بات کی کوشش کی کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مسلمان کیا جائے چنانچہ اکثر جنگ کے بعد قیدیوں کی ایک بڑی تعداد قتل کے ڈر سے مسلمان ہوجاتی تھی وہ لوگ جو جنگ میں غلام بنائے جاتے تھے یا جنہیں بچپن سے غلام بنا کر بیچا جاتا تھا وہ مسلمان ہوجاتے تھے مثلاًایسے مشہور غلاموں میں ملک کا فور علاؤالدین کا غلام تھا اور ملک خسروں جو قطب الدین خلجی کا غلام تھا یہ دونوں ہندو سے مسلمان ہوئے انہوں نے مسلمان حکمرانوں کی جانب سے جنگیں لڑیں ہندوؤں کو قتل کیا او رنئے نئے علاقے فتح کر کے انہیں سلطنت میں شامل کیا مسلمان ہونے والوں میں بہت سے سیاسی قیدی یا مشہور راجہ اور سردار ہوا کرتے تھے جن کے سامنے یہ شرط رکھی جاتی تھی کہ مسلمان ہوجاؤ ورنہ قتل کردیئے جاؤ گے ۔ یہ تاریخی حقائق ہیں کہ پنجاب کےگکھڑ ، معزالدین غوی کے زیر اثر مسلمان ہوئے ان کا سردار جب گرفتار ہوکر آیا تو اس سے کہا گیا کہ اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اس کا علاقہ اور جائیداد اسے واپس مل جائیں گی اسے یہ ترغیب بھی دی گئی کہ وہ اپنے قبیلے کو بھی مسلمان کرے ۔ (4) عہد خلجی میں نو مسلموں کو بادشاہ کی جانب سے تحفے تحائف دیئے جاتے تھے تاکہ دوسروں کو اس سے ترغیب ہو۔ فیروز شاہ تغلق نے ان لوگوں کو جزیے سے معافی دےدی جو مسلمان ہوگئے ۔(5)
اورنگ زیب کے زمانہ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ سردار، زمیندار ، یا جاگیردار زمین و جائیداد کے تحفظ کی خاطر مسلمان ہوئے ۔کانپور ڈسٹرکٹ کے کئی راجپوت زمیندار اسی طرح مسلمان ہوئے ۔(6) جس طرح قبیلوں کے سرداروں اور زمینداروں نے اپنی مراعات کے خاطر اسلام قبول کیا اسی طرح ان کی رعایا اپنے سردار کے ساتھ مسلمان ہوگئی کیونکہ اس کی خوشنودی کے بغیر ان کی زندگی بھی محال تھی ۔
صوفیاء کی وجہ سے جو تھوڑی بہت اشاعت اسلام ہوئی اس میں بھی سلاطین برابر کے شریک تھے کیونکہ انہوں نے اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ انہوں نے مدد معاش کے طور پر جاگیریں دیں جائیں ۔ اور ان کے لیے خانقاہیں تعمیر کرائی جائیں ۔ ان سہولتوں سے انہیں یہ فرصت ملی کہ انہوں نے علمی و مذہبی کام کئے اور اطمینان سے عبادت میں مصروف رہے ۔
صوفیاء کے تذکروں میں جہاں لوگوں کے مسلمان ہونے کا تذکرہ کیا جاتا ہے وہاں ان کے اخلاق و کردار سے زیادہ ان کی کرامات کا تذکرہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جوگیوں اور برہمنوں سے مقابلہ کیا ۔ آگ میں سے گزرے پانی پر چلے ۔ ہوا میں اڑے اور اسی طرح کی کرامات دکھا کر اپنے مذہب کی برتری قائم کی اور آخر میں اپنے مخالفین کو شکست دے کر فتح یاب ہوئے اور ان کے ان کارناموں سے متاثر ہوکر لوگ مسلمان ہوئے ۔
ہم ہندوستان میں صوفیا ء کو دو طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں، ایک وہ صوفی جو مذہبی لحاظ سے تنگ نظر سے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے ، اس لیے ایسے صوفیاء کا ہندوؤں کو اپنے اخلاق سے متاثر کرنا ایک مشکل کام تھا ۔ کیونکہ جب تک دوسروں کے عقائد کااحترام نہیں کیا جائے اس وقت تک انہیں کسی بھی طرح متاثر نہیں کیا جاسکتا ہے دوسرے وہ صوفی تھے جو وحدت الوجود کے ماننے والے تھے اور جن کی نظر میں مذہب و عقیدے کی عزت تھی ۔ یہ صوفی ذہنی لحاظ سے وسیع المشرب تھے اور بنی نوع انسان کو ایک ہی لڑی میں پرونا چاہتے تھے ۔ ان کے نزدیک ہندو، مسلمان، بدھ اور عیسائی سب برحق تھے ۔ ان صوفیاء نے ہندوستان میں ہندو مسلم اشتراک کی تحریک چلائی ۔ چشتیہ ، قادریہ، امدادیہ اور غوثیہ سلسلوں کے صوفیاء نے اس بات کی کوشش کی کہ تمام مذہبوں میں یکجہتی کے اصول تلاش کر کے ان میں ہم آہنگی پیدا کی جائے انہوں نےاس قسم کی کوئی تحریک نہیں چلائی کہ لوگوں کو ان کے مذہب سے چھڑا کر انہیں مسلمان کیا جائے ۔
ہندوستان میں بہت سے قبائل اور برادریاں اس بات کا دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ کسی بزرگ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قسم کی روایات ایک خاص مقصد کے تحت وضع کی گئیں ہیں ۔ اس ذریعے سے وہ شاید اس بات کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہو ں کہ وہ کسی لالچ اور جبر کے تحت مسلمان ہوئے ہوں، یا خود کو ان بزرگ سے منسوب کرکے مسلمان معاشرے میں بہتر مقام پیدا کرناچاہتا ہوں مثلاً الور کے خانزادے اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا جد امجد ناھر بہادر فیروز شاہ تغلق کے عہد میں قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں مسلمان ہوا جب کہ دونوں شخصیتوں کے عہد میں تقریباً دو سو برس کا فرق ہے۔(7)
اس کے علاوہ صوفیاء کا دنیا کے بارے میں ایک علیحدہ رجحان تھا ۔ وہ دنیاوی معاملات سے الگ تھلگ ہوکر خانقاہوں میں اپنا زیادہ وقت عبادت ذکر مراقبہ اور چلہ کشی میں گزارتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے باضابطہ طریقے سے نہ تو اشاعت اسلام کی اور نہ تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لیا ۔
اس لیے یہ کہنا کہ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت صوفیاء کے اخلاق و کردار سے ہوئی ایک مبالغہ آمیز بیان ہے۔ ہندوستان میں اسلام اسی وقت پھیلا جب یہاں اسلامی حکومت قائم ہوئی ۔ اشاعت اسلام میں حکومت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مذہبی ، سیاسی ، ثقافتی ، اقتصادی اور سماجی حالات کابھی بڑا دخل ہے۔
حوالہ جات:
(1) محمود بنگلوری: تاریخ جنوبی ہند۔ لاہور ۔1947ء ۔ ص 57
(2) ایضاً : ص 58
(3) ایضاً : ص 58
(4) ٹامس آرنلڈ : پیر یحنگ آف اسلام ۔ لاہور (؟) ص ۔258
(5) ایضاً : ص 255
(6) ایضاً : ص ۔266
(7) محمد مخدوم تھانوی مرقہ الور ۔ آگرہ 1876ء ۔ ص 17۔18
No comments:
Post a Comment