Preventing Further Radicalisation Is the Challenge Muslims Must Undertake بنیاد پرستی کی مزید پیش قدمی کو روکنا مسلمانوں کے لیے سب سے پڑا چیلنج: چند ٹھوس تجاویز
سلطان شاہین، ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
27 اپریل 2015
چند ٹھوس تجاویز:
موجودہ حقائق کے پیش نظر کوئی اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہمارے علماء کو قدامت پسندی کے راستے سے ہٹانا کتنا مشکل ہوگا۔ لیکن یہ ایک ایسا کام ہے جسے انجام دیا جانا ضروری ہے۔ پرعزم جہادی جماعتوں کو ضرورت پیش آنے پر ہر جگہ اور ہر وقت مسلم معاشروں سے خودکش بمباروں کی فوج دستیاب ہونے پر مسلمان اور بڑے پیمانے پر پوری دنیا خاموش تماشائی نہیں بنی رہ سکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اگر ہم واقعی کوئی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں علماء کے ساتھ باضابطہ بات چیت شروع کرنی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا وہ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں:
1) آج موجودہ صورتحال کی روشنی میں اسلام کے تمام اصولوں پر از سر نو غور و فکر اور اجتہاد کے دروازے کھولے جائیں۔ چونکہ ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا اور ہم نے ہماری ذمہ داری پوری نہیں کی ہے، اسی لیے اس سمت میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم زبردست انقلابی ہونا چاہیے۔
2) یہ اعلان کیا جائے کہ آج ہماری رہنمائی کے لئے سیاق و سباق سے مقید اور آیات متشابہات نہیں بلکہ قرآن کی صرف اہم اور ضروری آیتیں ہی موزوں ہیں۔
3) قرآنی آیات کو دوبارہ اسی ترتیب پر مرتب کیا جائے جس ترتیب پر ان کا نزول ہوا ہے، تاکہ ان مکی آیتوں کی اولیت کو بحال کیا جا سکے جو قرآن مجید کی ضروری اور آفاقی تعلیمات پیش کرتی ہیں، اور جس ترتیب میں انہیں نازل کیا گیا تھا اسی سیاق و سباق میں قرآن کو سمجھنے کے لیے کسی شان نزول کی ضرورت پیش نہ آئے۔
4) یہ فیصلہ صادر کیا جائے کہ احادیث کو کسی بھی شکل میں وحی الٰہی نہیں مانا جا سکتا۔ اسلامی ریاست کا ہزار سالوں پر مشتمل دستاویز تقریبا مکمل طور پر احادیث پر مبنی ہے، اگرچہ اس میں قرآن مجید کی بعض تمثیلی آیات کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ آخری معرکہ حق و باطل، الملحمۃ، سے پہلے ایک آخری جنگ کی قیادت کرنے کا البغدادی کا دعوی، بڑے پیمانے پر باعث کشش ہے۔ کچھ مسلمان یہ سوچنے لگے ہیں کہ الملحمہ کے دور میں زمین پر زندگی کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے اور اسی لیے وہ جنگ میں شامل ہونے کے لئے بڑی تیزی کے ساتھ پیش قدمی کر رہے ہیں۔
5) شریعت (فقہ) کا غیر الٰہی ہونا قرار دیا جائے۔ اس لیے کہ اس کی تدوین نبی صلی اللہ علیہ کی رحلت کی ایک صدی سے بھی زیادہ کے بعد قرآنی مسلمات اور عربی ثقافتی رسومات کی بنیاد پر قوانین تیار کرنے کی کوشش کرنے والے علماء نے کی تھی۔
6) واضح طور پر یہ اعلان کیا جائے کہ اسلام دنیا پربادشاہی قائم کرنے پر نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ساتھ بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے۔
7) مسلمان، کافر، مشرک، اہل کتاب، جہاد، قتال، فرض، سنت اور امت جیسے عام طور پر استعمال کی جانے والی اسلامی اصطلاحات کی دوبارہ تعبیر کی جائے۔
میں اس نقطے کی قدرے وضاحت پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ 1954 میں احمدیہ مخالف فسادات کی تحقیقات کرنے والے پاکستان کے جسٹس منیر احمد نے تمام اسلامی فرقوں اور تمام مکتبہ فکر کے رہنماؤں سے ایک سوال پوچھا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے، تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ احمدیہ مسلمانوں کو غیر مسلم کہا جا سکتا ہے یا نہیں جیسا کہ بہت سارے علماء اس بات کا دعوی کر رہے تھے۔ تو انہوں نے پایا کہ مسلمان کی کسی ایک تعریف پر کوئی بھی دو علماء متفق نہیں ہوئے۔
مختصر الفاظ میں اگر کہا جائے تو تشدد، نفرت، عدم برداشت اور تفوق پرستی پر مبنی اس فقہ کا مقابلہ کرنے کے لیے جنہیں جہادی علماء نے صدیوں پہلے تیار کیا تھا،ہمیں واقعی ایک اسلامی اور پرامن، بقائے باہمی، اعتدال پسندی اور جدیدیت پر مبنی ایک مضبوط فقہ تیار کرنی ہوگی۔ تمام علماء کا یہی کہنا ہے کہ اسلام امن اور پر امن بقائے باہمی کا مذہب ہے۔ اب انہیں اپنی باتوں کو سچ ثابت کر دکھانے کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن وہ تبدیلی پر غور کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ہمیں براہ راست مسلم عوام تک رسائی حاحل کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
آخر میں، ایک عظیم ہندوستانی برادری کو بھی خود احتسابی کرنی چاہئے۔ جیسا کہ ڈینیل پائپس حال ہی میں جے پور میں منعقد ہونے والے ایک بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کانفرنس میں کہا تھا کہ، نظریات کی اس جنگ میں اس دنیا کو نہ صرف یہ کہ ترقی پسند اور جدت پسند مسلمانوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ انہیں بنیاد پرستوں اور انتہا پسندوں کی مخالفت کرنی چاہیے اور ان کی حمایت سے گریز بھی کرنا چاہیے۔
1۔ ہماری قومی قیادت نے خلافت کو اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ مانتے ہوئے 1920 کی دہائی میں خلافت کی حمایت کی تھی۔ یہ ان کی غلطی تھی۔ اب ہمیں اس موقف کی تردید کرنی چاہیے اور اپنی غلطی کو تسلیم بھی کرنا چاہیے۔
2۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء میں اتنی بھی اصلاح نہیں کی گئی ہے جتنی پاکستان اور بنگلہ دیش میں کی جا چکی ہے۔ اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ کم از کم پاکستان میں جنرل ایوب خان کی اصلاحات کو ہمارے ملک میں متعارف کیا جانا چاہئے اور ہمارے علماء سے اسے قبول کرنے کے لئے کہا جانا چاہئے جو ان کے پاکستانی اور بنگلہ دیشی ہم منصب دہائیوں پہلے انجام دے چکے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک تسلی بخش حل نہیں ہے لیکن کم از کم یہ ایک آغاز ہو گا جو کہ ممکن بھی ہے۔
3۔ مدرسہ کی تعلیم مسلم بچوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ ان کی زندگی کو برباد کر دیتی ہے اور ان کے ذہنوں کو نفرت اور عدم برداشت سے بھر دیتی ہے۔ ہماری حکومت نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت دیتی ہے بلکہ جزوی طور پر کچھ مدرسوں کو فنڈ بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ بند ہونا چاہیے، یہاں تک کہ یہ مدارس دراصل ان مدارس کے جدید ورژن بن کر سامنے آئیں جو اسلام کے سنہرے دور میں ہوا کرتے تھے اور جن مدرسوں سے سائنسدان اور فلسفی پیدا ہوتے تھے۔ ایک سیکولر اور جمہوری حکومت کو نفرت اور عدم برداشت کے کاروبار میں فنڈنگ نہیں کرنا چاہئے۔
..........................................
بنیاد پرستی کو ختم کرنے کا چیلنج
[یہ مضمون جے پور (انڈیا ) میں 19سے 21 مارچ، 2015 تک چلنے والے ایک بین الاقوامی دہشت گردی مخالف کانفرنس میں راقم الحروف کی ایک پیش کش پر مبنی ہے]
ہندوستان کے مسلم علماء اور دانشوروں نے 19 اپریل کو دہلی میں منعقد ایک حالیہ انسداد دہشت گردی کانفرنس میں سختی کے ساتھ دہشت گردی کی مذمت کی۔ لیکن ان کے خطبات سے یہ امر واضح تھا کہ وہ اسلامی دہشت گردی اور اسلامی تعلیم نصاب اور فقہ کے درمیان کسی بھی ربط کے اب بھی انکاری ہیں۔ ہمارے غیر مسلم لبرل دانشوروں نے بھی کانفرنس میں یہ کہہ کر اس نظریہ کی حوصلہ افزائی کی کہ فقہ اسلامی اور دہشت گردی کے درمیان کسی بھی اعتبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمان اور ہندو دونوں علماء اور دانشوران موجودہ حقیقت سے مکمل طور پر غافل ہیں۔ گو کہ وہ اس کانفرنس کا انعقاد اکبر اعظم کے زمانے میں کر رہے ہوں۔ ایسا لگتا ہے انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ مسلم دہشت گردوں نے اس نعرہ کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہےکہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے۔ اور واضح ہے کہ ملک میں ایک بھی عالم تفوق پسندی، نفرت، عدم رواداری پر مبنی فقہ اسلامی کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں ہے جو ہمارے نوجوانوں کو بھی اپنی راغب کر رہی ہے اور انہیں تشدد کی دلدل میں گھسیٹ رہی ہے۔
یہ خاص طور پر نام نہاد اسلامی ریاست کی جانب سے خلافت کے اعلان کے بعد پوری دنیا کے مسلم نوجوانوں میں بنیاد پرستی کی بڑھتے ہوئے ماحول میں نہ صرف مایوس کن بلکہ تشویشناک ہے۔ اور ہندوستان میں بھی اس بنیاد پرستی کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر،شاذ و نادرہی اردو پریس میں تشدد پرستی اور تفوق پسندی پر مبنی جہادی قفہ کی کوئی مذمت شائع ہوتی ہو۔
لیکن دنیا بھر میں اکثر اسٹریٹجک مفکرین اور سیاستدانوں کو اب اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سب سے اہم پہلو اس نظریے کے خلاف جنگ چھیڑنا ہے جو دہشت گردی کی طرف لے جاتا ہے۔ افکار و نظریات کا مقابلہ بندوقوں اور ٹینکوں سے نہیں کیا جا سکتا ہےبلکہ ان کا مقابلہ ان کے برعکس اور ان سے بہتر افکار و نظریات سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں ان بنیادوں کو سمجھنا ہو گا جن کی وجہ سے مسلمانوں کے بیچ بنیاد پرستی اپنا پاؤں پسار رہی ہے۔
آج مساجد، مدارس، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور سائبر اسپیس (انٹر نیٹ) بنیاد پرستی کے بڑے مراکز ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا بنیاد پرستی کا ایک سب سے برا مرکز بن کر ابھرا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں، جہادی پرنٹ میڈیا بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق 1989 میں ہی پشاور اور کوئٹہ سے 150 جہادی روزنامچے شائع کیے جاتے تھے۔ چونکہ میڈیا کا استعمال جہادی نظریات کو پھیلانے کے لئے کیا جاتا ہے اسی لیے جہادی ادب کی تخلیق کرنے والے بھی انہیں عام مدارس کی پیداوار ہیں جن میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر معمولی تبدیلی کے ساتھ بنیادی طور پر ایک طرح کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔
اگر چہ سب سے پہلے جہادی لٹریچر تیار کرنے کی ذمہ داری 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کے دوران دیوبندی اور اہل حدیثی مدارس کو تفویض کی گئی تھی، بریلوی مدارس نے بھی کافی عرصہ قبل ہی تصوف کی کتابوں کو خارج کر کے درس نظامی کے نصاب کو اپنا لیا تھا۔ شہنشاہ اورنگ زیب کی نگرانی میں تیار کیا گیا درس نظامی کا نصاب تصوف اور عظیم صوفی بزرگوں کی تکثیرییت اور اجتماعیت پر مبنی تعلیمات سے یکسر خالی تھا۔ بعض صوفی بریلوی مدارس میں اسلامی اخلاقیات اور فارسی ادب کی درسگاہوں میں 13ہویں صدی کے فارسی شاعر، عالم دین اور صوفی مولانا رومی کی مثنوی اور کلاسیکی ادبی روایت کے ایک عظیم ترین شاعر شیخ سعدی شیرازی کی گلستان اور بوستان پڑھائی جاتی تھیں۔ لیکن جب عربی میں مہارت پر خلیج ممالک میں ملازمتیں ملنے لگیں اور وہاں روزگار کے اچھے مواقع پیدا ہونے لگے تو ان مدارس نے بھی فارسی اور کلاسیکی صوفیوں کی کتابوں کو اپنے نصاب سے خارج کر دیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ برا تو یہ ہوا کہ ان مدرسوں نے عربی ادب کی تعلیم کے نام پر سید قطب کی کتابوں کو اپنے نصاب میں شامل کر لیا جسے مشرق وسطی میں جدید اسلامی دہشت گردی کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ عربی ادب کی تعلیم کے نام پر صوفی بریلوی مدارس میں بھی نوجوان اور سادہ لوح ذہنوں کو سید قطب کی کتابوں سے متعارف کرانا ایک بہت برا فیصلہ تھا۔ اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وہابی اور سلفی مدارس میں ایک طویل عرصے سے ابن تیمیہ ، محمد ابن عبدالوہاب، سید قطب، مولانا ابو الاعلی مودودی اور دیگر انتہا پسند نظریہ سازوں کی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں۔
لہذا، میڈیا کے مباحثے اور اسکول کے نصاب رائج اسلامی فقہ سے ہی پیدا ہونے والے ہیں اور یہ کہ ہمیں اسی فقہ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ سنی اسلامی تعلیمات کی سب سے پرانی درسگاہ جامعہ الازہر کے سربراہ جیسے ایک قدامت پسند مسلم عالم بھی اب دہشت گردی اور اسلامی تعلیمات کے درمیان ایک ربط کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جامعہ الازہر کے شیخ احمد الطیب نے حال ہی میں مکہ مکرمہ اور سعودی عرب میں منعقد ہونے والے تمام انسداد دہشت گردی کانفرنس میں اس کا برملا اظہار کیا ہے۔ یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ان کا یہ اقرار اس حقیقت میں مضمر ہے کہ سعودی عرب شدت پسند تعلیم کا منبع اور عدم برداشت اور نفرت و عدات پر مبنی کتابوں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یہ اس بات کا بھی اقرار ہے کہ محض اسلامی کتابوں میں رد و بدل کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہے۔ 2002 میں سعودی عرب نے اپنی کتابوں میں کچھ اصلاحات کیا تھا۔
9/11 کے چودہ سالو کے بعد بھی ، جس میں 19 دہشت گردوں میں سے 16 دہشت گرد سعودی تھے، دنیا کو ایک زیادہ پیچیدہ، زیادہ متنوع اور ایک زیادہ مہلک خطرات کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ یقینی طور پر یہ ہے کہ محمد ابن عبد الوہاب نجدی کی تعلیمات کے مطابق تمام غیر وہابی مسلمانوں کے تئیں نفرت، عدم برداشت، علیحدگی پسندی، تفوق پرستی، نفرت اور دشمنی پر مشتمل کتابوں کی برآمدات پر اب تک بین الاقوامی برادری نے اپنا شکنجہ نہیں کسا ہے۔ سادہ لوح نوجوان ذہنوں کے لیے لکھی گئی سعودی درسی کتب کے چند حصوں پر محض ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ کیوں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان خاص طور پر سعودی عرب اور ان دیگر ممالک سے جہاں یہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، بزعم خویش جہاد اور نام نہاد اسلامی ریاست کے لیے اپنے گھروں اور اسکولوں کو چھوڑ رہے ہیں۔
لیکن تقی الدین احمد ابن تیمیہ اور محمد ابن عبدالوہاب کی تعلیمات کیا ہیں؟ اور جو کچھ بھی مغرب اور تمام اسلامی ممالک میں آج ہمارے بچوں کو جو تعلیم دی جا رہی ہے ان کتابوں میں ایک سب سے اہم درس الولاء والبراء کی تصور کی شکل میں پیش کیا گیا ہے (جس کا بنیادی طور پر مطلب وہابی مسلمانوں کے تئیں وفاداری رکھنا اور ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں کے تئیں نفرت اور دشمنی کا اظہار کرنا ہے)۔ ابن تیمیہ نے دوسروں کے تئیں مسلمانوں کو تفوق پسندی، علیحدگی پسندی اور عدم رواداری کی تعلیم دی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
"جو کوئی یہودیوں اور عیسائیوں کو کافر نہیں مانتا اور ان سے نفرت نہیں کرتا اجماع امت کے مطابق مسلمان نہیں ہے۔ کسی کا اس اصول سے ناواقف ہونا اس کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔ بلکہ، وہ ایک کافر مرتد ہے۔" - ابن تیمیہ (مجموع الفتاوی 27 /264)
نجد سے تعلق رکھنے والے اٹھارہویں صدی کے عالم دین محمد ابن عبدالوہاب نے ابن تیمیہ کے انتہا پسندانہ افکار و نظریات کو اپنایا اور اس کی ایک نئی تعبیر اور تشریح پیش کی جس میں اسلام کے کسی بھی دوسری تشریح کے تئیں مکمل طور پر عدم برداشت کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے کہا:
‘‘اگر فرزندان توحید (مسلمان) شرک سے بھی گریز کریں، تب بھی ان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے قول وعمل کے ذریعہ غیرمسلموں کے تئیں نفرت اور دشمنی کا اظہار نہ کریں۔’’
(بحوالہ: مجموعۃ الرسائل و المسائل النجدیۃ،4/291، شیخ محمد بن عبد الوھاب)
"اسلام روئے زمین پر ان تمام ریاستوں اور حکومتوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے جو اسلامی نظریات اور منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں، اس ملک یا قوم سے قطع نظر جو ان پر حکمرانی کرتی ہے ۔ اسلام کا مقصد اپنے نظریات اور اور منصوبوں پر مبنی ایک ریاست قائم کرنا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ کون سا ملک اسلام کے معیاری کردار کا حامل ہے یا کس ملک کی حکمرانی نظریاتی طور پر اسلامی ریاست کے قیام کے عمل میں کمزور ہے۔ اسلام صرف ایک حصہ نہیں بلکہ پوری روئے زمین کا مطالبہ کرتا ہے ۔۔۔۔ پوری انسانیت کو اسلامی نظریہ اور اس کے فلاح و بہبود کے منصوبوں سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے ۔۔۔ اس مقصد کے حصول میں اسلام ان تمام قوتوں کے استعمال کا متمنی ہے جو ایک انقلاب پیدا کر سکے ۔ ان تمام قوتوں کو استعمال کرنے کے لئے ایک جامع اصطلاح 'جہاد' ہے ۔ ۔۔۔۔ اسلامی 'جہاد' کا مقصد غیر اسلامی نظام حکومت کو ختم کرنا اور اس کی بجائے ریاستی حکومت کے لئے ایک اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔ "
(مودودی، الجھاد فی الاسلام )
ایک سب سے زیادہ بااثر بنیاد پرست نظریہ ساز سید قطب کا کہنا ہے کہ :
"اسلام (محض عقائد اور عبادت و رسومات) تک ہی محدود نہیں ہے۔ (فی ظلال القرآن [انگریزی ترجمہ۔]، 7/125]
"جن کا یہ ماننا ہے کہ بری قوتوں کے اسلام کی راہ میں ہمہ تن مزاحم ہونے کی صورت میں اسلام محض دین کی تبلیغ کرنے اور اس کے پیغامات کی وضاحت تک ہی محدود ہے تو وہ اسلام کی حقیقی نوعیت سے بہت کم آگاہ ہیں۔" [فی ظلال القرآن [انگریزی ترجمہ۔]، 7/182]
"ہمیں اسلامی جہاد کے تصور پر مستشرقین کے حملوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، یا ایک ایسے جہاد کا جواز حاصل کرنے کے لیے جو اسلام کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے ہمیں اس دنیا کی سیاسی طاقتوں کے دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔"[فی ظلال القرآن [انگریزی ترجمہ۔]،7/21]
"ہم صرف ایک ایسی اسلامی قیادت کی اطاعت تسلیم کرتے ہیں جس کا مقصد عملی زندگی میں اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنا ہے، اور اس کے علاوہ ہر قسم کے معاشرے اور قیادت سے اپنی علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں۔" [فی ظلال القرآن [انگریزی ترجمہ۔]، 7/143]
اب میں پروفیسر عبداللہ دومیتو کی ایک مشہور و معروف کتاب "(Teaching Islam) ‘درس اسلام’" کے ایک درس سے اقتباسات نقل کرتا ہوں جو سعودی نصاب تعلیم میں شامل ہیں:
‘‘یہ توحید کا ایک قانون ہے کہ مسلمانوں کو (مؤحد، وہابی) مسلمانوں کے ساتھ وفاداری کا معاملہ رکھنا چاہیے اور مشرکوں (صوفی، غیر مسلموں) سے دشمنی رکھنی چاہیے: "[ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی خدا لئے محبت کرتا ہے اور خدا لئے نفرت کرتا ہے خدا کے لیے کسی سے وفاداری ظاہر کرتا ہے اور خدا کے لیے کسی سے عداوت رکھتا ہے وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے اللہ کی ولایت حاصل کرلے گا، اور جب تک کوئی مومن ایسا نہیں کرتا تب تک اسے ایمان کا ذائقہ نہیں مل سکتا اگر چہ وہ نماز اور روزہ میں زیادہ ہو (10b: 110) ۔’’
"وہ مشرک دشمن کون ہیں اور موحد مسلمانوں کو کن سے دشمنی رکھنی چاہیے؟ عبد الوہاب کے لئے مشرک کوئی اور نہیں بلکہ دیگر مسلمان ہی تھے خاص طور پر عثمانی ترکی، شیعہ، صوفی اور ہر وہ شخص جو تعویذ وغیرہ کرتا ہے یا جادو سحر کرتا ہے۔ ان اسکولی کتابوں میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ مجرم کے خلاف نفرت ظاہر کرنے کے لئے مسلمانوں کو کیوں مستعد رہنا چاہیے دشمن بننے کے نت نئے طریقے بتائے گئے ہیں۔ " (B: 11110)۔
"فقہ اور حدیث کی کتابوں میں کافروں سے مشابہت کو (مسلمانوں کے اندر) اخلاقی طور پر فساد قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، جو عورتیں غیر ملکیوں کی طرح لباس زیب تن کرتی ہیں وہ فتنہ اور فساد کو دعوت دیتی ہیں، لہٰذا مسلمان عورتوں کا لباس اتنا کشادہ ہونا ضروری ہے کہ جس سے ان کے جسم کے تمام خد و خال کا پردہ اچھی طرح ہو سکے اور ان کی شخصیت کی حفاظت کے لئے چہرہ کا پردہ کرنا ضروری ہے۔ کافروں سے مشابہت پیدا کرنا خدا کی توہین ہے کیونکہ مسلمانوں سے یہ توقع کی جاتی ہے وہ اس چیز سے محبت کریں جس سے خدا محبت کرتا ہے اور چیز سے نفرت کریں جس سے خدا نفرت کرتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان کافروں کی تقریبات میں شامل ہوتا ہے یا ان کی خوشی یا غم میں شریک ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کر رہا ہے (10b: 118)۔ کافروں کو عیدمبارک کہنا صلیب کی عبادت کرنے کی طرح برا ہے، شراب کے ساتھ جام و پیمانہ پیش کرنے سے بھی زیادہ بدتر گناہ ہے، یہ خود کش سے بھی بدتر ہے اور یہ حرام کاری میں ملوث ہونے سے بھی برا ہے اور بہت سے لوگ ایسا کر دیتے ہیں اور انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا بڑا گناہ کر دیا ہے (b: 11810)۔
" ہجری کے بجائے "عیسوی" کا استعمال کرتے ہوئے کافروں سے مشابہت بھی ایک الگ مسئلہ ہے "عیسوی" سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا اشارہ ملتا ہے جس کی وجہ سے کافروں کے ساتھ ایک تعلق اور ربط ظاہر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ: " اہل کتاب کے ساتھ ان چیزوں پر اتفاق کرنا جو ہمارے مذہب میں نہیں ہیں اور جو ہمارے اسلاف کی روایت نہیں رہی ہے دین میں فساد ہے۔"
" اگر کوئی ایک بھی ایسا مسلمان موجود ہو جو یہ کام کر سکتا ہے تو کسی کافر کو ملازم نہیں بنانا چاہئے، اور اگر ان کی کوئی ضرورت نہ ہو تو کبھی بھی ان کی خدمات حاصل نہیں کرنی چاہئے کیونکہ کافروں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا (10b: 121)۔ کسی بھی مسلمان کو مستقل طور پر کافروں کے درمیان نہیں رہنا چاہئے اس لیے کہ اس سے اس کے ایمان کے ساتھ سمجھوتہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو (بلاد کفر) سے (بلاد اسلام) کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا ہے۔ (B: 12110)
"اس باب میں موسیقی، ہنسی مذاق اور گانے کے خلاف وعیدیں سنائی گئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس درس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ کافر غیر اہم چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں اس لیے کہ کوئی مذہبی عقیدہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگیاں خالی ہیں۔
" ہ غیر اہم چیزیں کیا ہیں؟ سب سے پہلے ان میں گانے اور کھیل کے آلات، رقص اور تھیٹر اور سنیما جیسے فنون لطیفہ ہیں جن کا مشاہدہ وہ لوگ کرتے ہیں جو حقیقت سے دور ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد اس زمرے میں ڈرائنگ، پینٹنگ اور سنگ تراشی جیسے (فنون جمیلہ) آتے ہیں۔ ۔ (B:124-12510)۔
"ڈاکٹر خالد ابو الفضل (2003) کا کہنا ہے کہ، ‘‘سالگرہ کی تقریبات خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کی ممانعت اور فنون لطیفہ کو حرام قرار دیا جانا یہ تمام کے تمام وہابی ثقافت کی تاریخی میراث ہیں اور ان کی جدید ساخت کا حصہ ہیں۔ "ایسے کسی بھی انسانی معمول کے خلاف وہابیوں کی دشمنی جو تخلیقی صلاحیتوں اور تخیلات کو عروج بخش سکتے ہیں شاید وہابیوں کی انتہائی مضحکہ خیز اور مہلک فطرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہر وہ عمل جو تخلیقی صلاحیتوں کی طرف ایک قدم آگے لے جاتا ہےوہ وہابیوں کے نزدیک کفر کی طرف ایک قدم ہے۔ "
سعودی کتابیں دنیا بھر میں بالکل آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں۔ برصغیر کے تقریبا تمام مدارس میں درس نظامی کے نصاب کے رائج ہوتے ہی بنیاد پرستی کا عمل سترہویں صدی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ اکثر مسلمان مذہب کے ساتھ کہیں زیادہ منسلک ہیں اور مذہب کے معاملات میں رہنمائی کے لئے علماء (کلاسیکی مسلم علماء) پر منحصر ہیں۔ لہٰذا، اعتدال پسند بنانے کا مطلب بنیادی طور پر علماء کو اعتدال پسند بنانا ہے۔ جب تک علماء خود کو نہیں بدلتے بنیاد پرستی کی پیش قدمی کو انتہائی مشکل امر ہو گا۔ یہ کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل ۔ وہ اب بھی اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔
اجتہاد (اسلامی ثقافت کے احیاء نو کے لیے مذہبی نقطہ نظر سے مسائل پر از سر نو غور و فکر کرنا) کے دروازے 8ویں صدی عیسوی کے وسط میں صدیوں پہلے ہی بند ہو چکے تھے۔ امام اعظم ابو حنیفہ کے زمانے میں امام احمد ابن حنبل نے اس دروازہ کو دوبارہ کھولا، لیکن 9ویں صدی عیسوی کے وسط میں امام احمد بن حنبل کے بعد اجتہاد کا دروازہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ امام احمد ابن تیمیہ اور محمد ابن عبدالوہاب کے کام (جنہیں کچھ لوگ اجتہاد مانتے ہیں) بنیادی طور پر حنبلی مکتبہ فکر سے متعلق تھے۔ مسلمانوں کو فقہ اسلامی کے چار اماموں میں سے کسی ایک کی آنکھ بند کر کے پیروی کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور آج بھی تقریباً تمام مسلمانوں کا یہی معمول ہے۔ جو عالم بھی اجتھاد (آزاد استدلال) کا دعوی کرنے کی ہمت کرتا ہے اسے اسلام سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ یہ ان معاملات میں بھی پیش آتا ہے جب اجتہاد کا موضوع معمولی اور غیر اہم ہو مثلا: با شرع داڑھی کی مناسب سائز کیا ہے۔ اگر کوئی عالم صرف اہل رائے (ایک آزاد رائے رکھنے والے کے لئے استعمال کی جانے والی ایک توہین آمیز اصطلاح) ہونے کی علامات ظاہر کرتا ہے تو اسے اس کی ملازمت سے محروم ہونا پڑتا ہے اور اسے سماجی بائیکاٹ کا بھی سامنا کرنا ہوتا ہے۔
دہشت گرد نظریہ ساز اسلامی علماء کی خاموش حمایت کر کے قرآن کے جامع اور لبرل پیغامات کو مسخ کرتے ہیں
مولانا عبدالعلیم اصلاحی جیسے ایک عالم کو اب بھی ہندوستانی علماء کی نظر میں ایک اعلیٰ مرتبہ اور شان حاصل ہے اور جن کے نظریات انڈین مجاہدین جیسی دہشت گرد جماعت کے پیچھے کار فرما ہیں۔ ان کے بائیکاٹ کی تو بات ہی چھوڑ دیں ایک بھی عالم نے اب تک ان کی نہ تو مذمت کی ہے اور نہ ہی انہیں اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ اب بھی کھلے طور پر حیدرآباد کے سعیدہ آباد علاقے میں اپنی کتابیں لکھ رہے ہیں اور خواتین کے لئے مدرسہ چلا رہے ہیں۔
میں ان کی ایک تحریر سے اسلامی تعلیم میں ان کی خیانت کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ قرآن مجید میں ایک آیت ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کسی بھی مزاحمت کے بغیر ایمان کی مکمل آزادی عطا کرتا ہے۔ "لا اکراہ فی الدین" جس کا مطلب ہے "مذہب یا دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔" یہ قرآن کا ایک مطلق، واضح اور غیر مشروط فرمان ہے۔ اب یہ دیکھیں کہ مولانا اصلاحی نے کس طرح دیگر ہندوستانی علماء کی خاموش حمایت کے ساتھ قرآن کے اس پیغام کو مسخ کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں: "لا اکراہ فی الدین" "دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔" یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ لیکن اس کا تعلق صرف اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے سے ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہل کفر کو ان کے کفر کے ساتھ زمین پر مکمل طور پر آزاد چھوڑ دیا جائے اور انہیں جوابدہ نہ بنایا جائے۔ اگر یہ سچ ہے تو، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے مذہب (دین) کو دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے، تو اس سے کیا مراد لیتے ہیں؟" پھر انہوں نے قرآن کی ایک متعلقہ آیت کا حوالہ پیش کر کے بڑے ہی انوکھے انداز میں یہ سوال پیش کیا ہے کہ : "پھر اس آیت مطلب کیا ہو گا اور جہاد کی فرضیت کی اہمیت و مطابقت کیا رہ جائے گی۔"
"طاقت کا استعمال قرآن کی روشنی میں" نامی ایک اردو کتابچہ میں مولانا اصلاحی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جنگ کا حکم ایسے افراد کے خلاف دیا گیا ہے جو ان تین شرائط پر کھرا اترتے ہوں یہاں تک کہ وہ جزیہ [مذہبی اقلیتوں پر ایک قسم کا ٹیکس]ادا کریں: خدا اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے؛ ان باتوں کو حرام قبول نہیں کرتے جنہیں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور اپنے مذہب کے طور پر اسلام کو قبول نہیں کرتے"۔ مولانا اصلاحی کی دلیل ہے کہ : " جھوٹے مذاہب پر اسلام کے غلبہ کے لئے جدوجہد کرنا اور کافروں اور مشرکوں کو سرنگوں کرنے اور انہیں محکوم بنانے کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے"۔
نفرت ، بیزاری اور ان تفوق پسند افکار و نظریات کے باوجود مولانا ہندوستانی علماء کے دمیان اب بھی ایک معزز عالم دین کی حیثیت سے جانے اور مانے جاتے ہیں، جبکہ یہی علماء بار بار یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام امن اور تکثیریت کا مذہب، جو کہ یقیناً حق ہے۔
تاہم، تمام مشکلات کے باوجود، جنہیں حالت اور بڑے پیمانے پر انسانیت کی فکر ہے جس کا امن برقرار رکھنے میں ایک دخل ہے، انہیں اس نظریے کاق مقابلہ کرنا ہوگا۔
اب ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ جہادی کس طرح ہمارے بچوں کو ہم سے چھین رہے ہیں، ان کی منفی ذہن سازی کر کے انہیں بموں میں تبدیل کر رہے ہیں؟ اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ جہادی نظریات عام مسلمانوں کے عقائد پوری گہرائی کے ساتھ بس چکے ہیں ۔ جہادیوں کی باتیں بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ آخر کار، مثال کے طور پر، طالبان عام مدرسے کے ہی طلباء ہیں۔ ہندوستان میں میں ہمارے لئے اہم سوال یہ ہے کہ: کیا طالبان پیدا کرنے والے پاکستان میں ان دیوبندی مدارس کا نصاب تعلیم اصل دارالعلوم دیوبند اور اسی طرح یا ملک کے دیگر مدارس کے نصاب تعلیم سے مختلف کچھ مختلف ہے؟
ہم بوکو حرام مظالم سے خوف زدہ ہیں۔ ہم اسے ایک افریقی اور 21ویں صدی کا ایک رجحان مانتے ہیں۔ لیکن بوکو حرام کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے ‘‘مغربی تعلیم گناہ ہے’’۔ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہندوستانی علماء اصل بوکو حرام ہیں؟ 19ویں صدی میں انہوں نے فتوی دیا تھا کہ "انگریزی تعلیم گناہ ہے"، جس کی وجہ سے مسلمان پسماندگی کا شکار ہو گئے۔ جب سر سید احمد انگلش سکھانے کے لئے علی گڑھ میں ایک کالج قائم کیا تو انہوں نے ان کے خلاف کفر کے متعدد فتاوی صادر کیے۔ یہ سچ ہے کہ ہندوستانی علماء ان کے قتل کے لیے نہیں اٹھے، لیکن اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں ان کی تائید کی اور سرسید کا بھی دائرہ اثر بہت محدود رہا۔
عام طور پر قبول اور رائج فقہ اسلامی میں اپنی گہری گرفت کی وجہ سے وہ ہمارے بچوں کو قائل کرنے کے قابل ہیں، اور یہ کہ، ہم مرکزی دھارے کے پرامن مسلمان دراصل منافق اور بزدل ہیں جو پوری دنیا پر اسلاک کا غلبہ قائم کرنے کے لیے اپنے جانوں کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔
قرآن مجید میں ایسی آیتیں موجود ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلط کی گئی ایک جنگی سے نمٹنے میں مدد کے لئے نازل کی گئی تھیں۔ فطری طور پر ان لڑائی اور قتل کی بات کی گئی ہے۔ لیکن کوئی بھی عالم واضح الفاظ میں یہ نہیں کہے گا کہ وہ آیتیں صرف 7ویں صدی کے عرب کے اس دور کے لیے مخصوص تھیں اور اب وہ 21ویں صدی میں آج ہمارے پر قابل اطلاق نہیں ہیں۔
تمام علماء، خواہ وہ جہادی ہوں یا غیر جہادی ہوں، وہابی ہوں یا صوفی ہوں، قرآن کو خود خدا کی طرح غیر مخلوق اور مقدس ہے، اور قرآن کی تمام آیتیں عالمگیر اور ابدی اعتبار قابل اطلاق ہیں۔ تو پھر جہادی نظریہ ساز جنگ کے لئے ہمارے بچوں کو آمادہ کرنے کے لئے قرآن مجید کی سیاق و سباق والی عسکریت پسند آیتوں کا استعمال کیوں نہیں کریں گے؟
یہی معاملہ احادیث رسول یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نہاد اقوال کا بھی ہے۔ انہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے تین صدیوں کے بعد جمع کیا گیا تھا۔ ممکنہ طور پر کسی بھی عقلمند شخص کی نظر میں ان کا کیسا تقدس اور کیسی صداقت قائم ہو سکتی ہے؟ لیکن تقریبا تمام مسلمان قرآن مجید کی ہی طرح انہیں بھی مستند اور مقدس مانتے ہیں۔ لہٰذا، اگر جہادی لوگ اپنے مظالم کا جواز پیش کرنے کے لئے ان کا استعمال کر رہے ہیں تو اس میں حیرت کی کون سی بات ہے؟
چند ٹھوس تجاویز:
موجودہ حقائق کے پیش نظر کوئی اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہمارے علماء کو قدامت پسندی کے راستے سے ہٹانا کتنا مشکل ہوگا۔ لیکن یہ ایک ایسا کام ہے جسے انجام دیا جانا ضروری ہے۔ پرعزم جہادی جماعتوں کو ضرورت پیش آنے پر ہر جگہ اور ہر وقت مسلم معاشروں سے خودکش بمباروں کی فوج دستیاب ہونے پر مسلمان اور بڑے پیمانے پر پوری دنیا خاموش تماشائی نہیں بنی رہ سکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اگر ہم واقعی کوئی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں علماء کے ساتھ باضابطہ بات چیت شروع کرنی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا وہ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں:
1) آج موجودہ صورتحال کی روشنی میں اسلام کے تمام اصولوں پر از سر نو غور و فکر اور اجتہاد کے دروازے کھولے جائیں۔ چونکہ ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا اور ہم نے ہماری ذمہ داری پوری نہیں کی ہے، اسی لیے اس سمت میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم زبردست انقلابی ہونا چاہیے۔
2) یہ اعلان کیا جائے کہ آج ہماری رہنمائی کے لئے سیاق و سباق سے مقید اور آیات متشابہات نہیں بلکہ قرآن کی صرف اہم اور ضروری آیتیں ہی موزوں ہیں۔
3) قرآنی آیات کو دوبارہ اسی ترتیب پر مرتب کیا جائے جس ترتیب پر ان کا نزول ہوا ہے، تاکہ ان مکی آیتوں کی اولیت کو بحال کیا جا سکے جو قرآن مجید کی ضروری اور آفاقی تعلیمات پیش کرتی ہیں، اور جس ترتیب میں انہیں نازل کیا گیا تھا اسی سیاق و سباق میں قرآن کو سمجھنے کے لیے کسی شان نزول کی ضرورت پیش نہ آئے۔
4) یہ فیصلہ صادر کیا جائے کہ احادیث کو کسی بھی شکل میں وحی الٰہی نہیں مانا جا سکتا۔ اسلامی ریاست کا ہزار سالوں پر مشتمل دستاویز تقریبا مکمل طور پر احادیث پر مبنی ہے، اگرچہ اس میں قرآن مجید کی بعض تمثیلی آیات کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ آخری معرکہ حق و باطل، الملحمۃ، سے پہلے ایک آخری جنگ کی قیادت کرنے کا البغدادی کا دعوی، بڑے پیمانے پر باعث کشش ہے۔ کچھ مسلمان یہ سوچنے لگے ہیں کہ الملحمہ کے دور میں زمین پر زندگی کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے اور اسی لیے وہ جنگ میں شامل ہونے کے لئے بڑی تیزی کے ساتھ پیش قدمی کر رہے ہیں۔
5) شریعت (فقہ) کا غیر الٰہی ہونا قرار دیا جائے۔ اس لیے کہ اس کی تدوین نبی صلی اللہ علیہ کی رحلت کی ایک صدی سے بھی زیادہ کے بعد قرآنی مسلمات اور عربی ثقافتی رسومات کی بنیاد پر قوانین تیار کرنے کی کوشش کرنے والے علماء نے کی تھی۔
6) واضح طور پر یہ اعلان کیا جائے کہ اسلام دنیا پربادشاہی قائم کرنے پر نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ساتھ بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے۔
7) مسلمان، کافر، مشرک، اہل کتاب، جہاد، قتال، فرض، سنت اور امت جیسے عام طور پر استعمال کی جانے والی اسلامی اصطلاحات کی دوبارہ تعبیر کی جائے۔
میں اس نقطے کی قدرے وضاحت پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ 1954 میں احمدیہ مخالف فسادات کی تحقیقات کرنے والے پاکستان کے جسٹس منیر احمد نے تمام اسلامی فرقوں اور تمام مکتبہ فکر کے رہنماؤں سے ایک سوال پوچھا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے، تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ احمدیہ مسلمانوں کو غیر مسلم کہا جا سکتا ہے یا نہیں جیسا کہ بہت سارے علماء اس بات کا دعوی کر رہے تھے۔ تو انہوں نے پایا کہ مسلمان کی کسی ایک تعریف پر کوئی بھی دو علماء متفق نہیں ہوئے۔
ابھی حال ہی میں قرآن مجید میں ایک محقق اور راقم الحروف کی ادارت میں چلنے والی ایک اسلامی ویب سائٹ NewAgeIslam.com کے مستقل کالم نگار نے ان تمام قرآنی آیتوں کا مطالعہ کیا جن میں لفظ کافر یا اس کے مشابہ الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا: "قرآن مجید کسی کو اس کے مذہب یا ایمان کی بنیاد پر کافر نہیں قرار دیتا بلکہ اس شخص کی بعض مخصوص خصوصیات کی بنیاد پر کافر قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ انسان کسی دین یا خدا یا کسی دین کے ماننے والوں کا ایک سرگرم دشمن بن جاتا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق کافر وہ انسان ہے جو لوگوں ان کے مذہب پر عمل کرنے سے پوری سختی کے ساتھ روکتا ہو، دین پر چلنے والوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہو، اور سود خوری کو ختم کرنے اور صدقہ دینے جیسے انسانیت نواز معمولات کی مخالفت کرتا ہو۔ کافر ایک مسلمان، یہودی، اور عیسائی، مشرک یا ملحد بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اصطلاح ایک فطری عقیدہ کے لیے ہے'، لیکن جن جن علماء سے ہم نے کافر کی اس اصطلاح پر تبادلہ کرنے کے لیے رابطہ کیا ، جو کہ ایک ایسا اہم مسائل دوسروں سے مسلمانوں کو الگ کرتا ہے، ان میں سے کسی نے بھی اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کرنے آمادگی ظاہر نہیں کی۔ اسی طرح، قرآن مجید میں انتہائی واضح ہدایات کے باوجود کوئی بھی کلاسیکی عالم ہندوؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ اہل کتاب جیسا معاملہ کرنے کے لئے حقیقی طور پر تیار نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ امر انتہائی نا گزیر ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت اور تبادلہ خیال کریں اور دہشت گرد نظریہ ساز ہمارے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے عام طور پر استعمال کی جانے والی جن اصطلاحات کا استعمال کر رہے ہیں ان کی ایک بہتر تعبیر و تشریح پیش کریں۔
مختصر الفاظ میں اگر کہا جائے تو تشدد، نفرت، عدم برداشت اور تفوق پرستی پر مبنی اس فقہ کا مقابلہ کرنے کے لیے جنہیں جہادی علماء نے صدیوں پہلے تیار کیا تھا،ہمیں واقعی ایک اسلامی اور پرامن، بقائے باہمی، اعتدال پسندی اور جدیدیت پر مبنی ایک مضبوط فقہ تیار کرنی ہوگی۔ تمام علماء کا یہی کہنا ہے کہ اسلام امن اور پر امن بقائے باہمی کا مذہب ہے۔ اب انہیں اپنی باتوں کو سچ ثابت کر دکھانے کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن وہ تبدیلی پر غور کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ہمیں براہ راست مسلم عوام تک رسائی حاحل کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
آخر میں، ایک عظیم ہندوستانی برادری کو بھی خود احتسابی کرنی چاہئے۔ جیسا کہ ڈینیل پائپس حال ہی میں جے پور میں منعقد ہونے والے ایک بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کانفرنس میں کہا تھا کہ، نظریات کی اس جنگ میں اس دنیا کو نہ صرف یہ کہ ترقی پسند اور جدت پسند مسلمانوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ انہیں بنیاد پرستوں اور انتہا پسندوں کی مخالفت کرنی چاہیے اور ان کی حمایت سے گریز بھی کرنا چاہیے۔
1۔ ہماری قومی قیادت نے خلافت کو اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ مانتے ہوئے 1920 کی دہائی میں خلافت کی حمایت کی تھی۔ یہ ان کی غلطی تھی۔ اب ہمیں اس موقف کی تردید کرنی چاہیے اور اپنی غلطی کو تسلیم بھی کرنا چاہیے۔
2۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء میں اتنی بھی اصلاح نہیں کی گئی ہے جتنی پاکستان اور بنگلہ دیش میں کی جا چکی ہے۔ اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ کم از کم پاکستان میں جنرل ایوب خان کی اصلاحات کو ہمارے ملک میں متعارف کیا جانا چاہئے اور ہمارے علماء سے اسے قبول کرنے کے لئے کہا جانا چاہئے جو ان کے پاکستانی اور بنگلہ دیشی ہم منصب دہائیوں پہلے انجام دے چکے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک تسلی بخش حل نہیں ہے لیکن کم از کم یہ ایک آغاز ہو گا جو کہ ممکن بھی ہے۔
3۔ مدرسہ کی تعلیم مسلم بچوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ ان کی زندگی کو برباد کر دیتی ہے اور ان کے ذہنوں کو نفرت اور عدم برداشت سے بھر دیتی ہے۔ ہماری حکومت نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت دیتی ہے بلکہ جزوی طور پر کچھ مدرسوں کو فنڈ بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ بند ہونا چاہیے، یہاں تک کہ یہ مدارس دراصل ان مدارس کے جدید ورژن بن کر سامنے آئیں جو اسلام کے سنہرے دور میں ہوا کرتے تھے اور جن مدرسوں سے سائنسدان اور فلسفی پیدا ہوتے تھے۔ ایک سیکولر اور جمہوری حکومت کو نفرت اور عدم برداشت کے کاروبار میں فنڈنگ نہیں کرنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment