Indian Muslim Clerics Reduce Muslim Women To The Level Of Whore ہندوستانی مسلم علماء نے مسلم خواتین کی حیثیت کو محض ایک فاحشہ کی سطح پر محدود کر دیا ہے
محمد یونس، نیو ایج اسلام
12 مئی 2015
(مشترکہ مصنف، اشفاق اللہ سید، [Essential Message of Islam]اسلام، آمنہ پبلکیشنز، امریکہ، 2009)
ہندوستانی مسلم علماء نے مسلم خواتین کی حیثیت کو محض ایک فاحشہ کی سطح پر محدود کر دیا ہے، جن کے ساتھ ان کے باپ، بھائی اور دوست اسلامی قانون کے دائرے میں رہ کر جنسی تعلق قائم کر سکتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ کوئی بھی جاہل مسلمان میرے اس دعوی سے پریشان ہو کہ انڈین مسلم پرسنل لاء یا نام نہاد 'فقہ حنفی' انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے، اس کے لیے مشورہ ہے کہ پہلے وہ مندرجہ ذیل مضمون کو پڑھ لے:
مروجہ شرعی قوانین در حقیقت قرآنی قوانین نہیں بلکہ مسلم فقہاء کے مجموعی احکام کی ایک شکل ہےجس پر اسلام کا لیبل لگا دیا گیا ہے
مذکورہ بالا مضمون میں اس بات کو واضح کرنے کے لیے زبر دست دلائل پیش کیے گئے ہیں کہ کلاسیکی اسلامی شرعی قانون مختلف فقہی مذاہب سے تعلق رکھنے والے مسلم فقہاء کا ایک ایسا قانونی نظام ہے جسے انہوں نے اپنی رائے، اسلام کے بارے میں اپنے علم و فہم، اپنی سمجھ بوجھ اور اس دور کے تاریخی حقائق کی بنیاد پر مرتب کیا تھا۔ انہوں نے قرآن میں مقرر کردہ حدود کی پاسداری تو کی لیکن وہ خلط مبحث کرنے اور کسی بھی واضح قرآنی حکم سے انحراف کرنے میں بالکل آزاد تھے، اور انہوں نے یہ بھی دعویٰ کر دیا کہ "جو بھی قرآنی آیت ہمارے ائمہ اور اساتذہ کی رائے سے متصادم ہوگی اسے منسوخ مانا جائے گا یا ایسی صورت میں ترجیح کا اصول نافظ کیا جائے گا۔ لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ قرآنی آیات کی ترجمانی اس انداز میں کی جائے کہ ان کا تصادم ان کی رائے سے نہ ہو۔"[1]
خالد ابو الفضل کے مطابق، "شرعی قانون سے مراد مثبت اسلامی قانون یا احکام ہیں، مثبت قانونی احکام صدیوں سے چلے آ رہے مجموعی قانونی معمولات سے اخذ کیے گئے ہیں۔" تاہم، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے کسی فقیہ کی کوئی بھی رائے خواہ وہ کتنی ہی اشتعال انگیز یا قرآنی پیغام سے متصادم ہی کیوں نہ ہو، وہ فقہ کی تعریف میں داخل ہو جاتی ہے اور اسلامی فقہی روایت کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔لہٰذا، آج اگر کوئی شخص خود اپنی بہو کی آبرو ریزی کرتا ہے، مثلاً جون 2005 میں عمرانہ اور ستمبر 2014 میں پیش آنے والا مظفرنگر کی ایک متاثرہ کا معاملہ ، اور ماضی کے کسی بھی زمانے کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کسی فقیہ نے اس جیسے کسی بھی معاملے میں شوہر کو طلاق دینے اور اس کی شادی اس والد کے ساتھ کروانے کا فتویٰ جاری کیا ہو تو یہ نظیر اسلامی قانون کا ایک حصہ بن جاتی ہے اور عورت کو اس پر عمل کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ اگر گفتگو کو مزید آگے بڑھائی جائے جس میں معاملہ یہ ہو کہ ایک شخص نے اپنی نوجوان سوتیلی ماں کے ساتھ بدکاری کر لی ہے تو کوئی فقیہ یہ حکم دے سکتا ہے کہ اس شخص کا والد اب اپنی نوجوان بیوی کے ساتھ جنسی تعلق قائم نہیں کر سکتا اور اب اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے طلاق دے اور پھر اس کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کروادے۔ وہ ہمیشہ کوئی ایسی کوئی مثال دریافت کر سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیےایک نظیر کے طور پر اس حکم کو متعارف کروا سکتے ہیں، اور اس طرح یہ اسلام کی پیچیدہ فقہی روایت کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ یہ واقعی ایک کڑوی سچائی ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں نیکی کرنے اور بدی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور راقم السطور ‘‘مقدس کتاب (قرآن) کی غلط ترجمانی کرنے والے اپنے ہی کچھ علماء اور فقہاء کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے پرعزم ہے، جو کہ قرآنی احکام کے نفاذ اور اجراء کے نام پر واضح طور پر قرآن مخالف اور خاص طور پر خواتین کے خلاف سنگین جرائم کا جواز پیش کرتے ہیں"[2]۔ لہذا، میں اسلام کے نام نہاد محافظوں کے چہروں سے تقویٰ کا نقاب چاک کرنے اور اس کے پیچھے ان کے برے مقاصد کو اجاگر کرنے کے لیے اس مضمون کو ضبط تحریر کر رہا ہوں۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح قرآنی آیتوں میں محرمات کے ساتھ زنا کی مذمت کی گئی ہے۔
قرآن کا اعلان ہے:
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں مگر جو (اس حکم سے پہلے) گزر چکا (وہ معاف ہے)، بیشک یہ بڑی بے حیائی اور غضب (کا باعث) ہے اور بہت بری روِش ہے، (4:22)۔ تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں، اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں)، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں، اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے (4:23)۔
یقینی طور پر امام اعظم نے نہیں کہ جن کا نام، نام نہاد فقہ حنفی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، بلکہ ماضی کے کسی فقیہ نے امام اعظم کی وفات کے تقریباً تین سو سال کے بعد مندرجہ بالا آیت کی تشریح میں لفظ نکاح کے مادہ (نکح) کا ترجمہ جنسی تعلق کیا ہے، اس لیے کہ شادی عملی طور پر ایک اخلاقی نظام کے تحت جماع کو جائز بنا دیتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس آیت کی تشریح اس طرح کی ہے، شاید اس کا مقصد کسی مالدار زانی کا مقدمہ جیتنا رہا ہو:-
اور ان عورتوں سے جماع نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے جماع کیا ہے مگر جو گزر چکا ہے، یہ بے حیائی کا کام اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راه ہے (4:22)۔ حرام کی گئیں (جماع کے لیے ) تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خاﻻئیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہاری وه مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وه پرورش کرده لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناه نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے (4:23)۔
لہٰذا، جب ایک انسان اپنی بہو کے ساتھ بد کاری کرتا ہے جو کہ ایک ایسا شاذ و نادر جرم ہے جو صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے، تو علماء اسلام محرمات کے ساتھ جماع کو اسلام میں جائز قرار دینے کے لیے نشان زد کیے ہوئے مذکورہ بالا افتتاحی اقتباس کی مسخ شدہ تشریح کا سہارا لیتے ہیں، جبکہ نشان زد کیے ہوئے دوسرے اقتباس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اس طرح کا رشتہ حرام ہے۔ اگر کوئی بیٹا اپنی نوجوان سوتیلی ماں کے ساتھ بد کاری کرتا ہے اور اسے حاملہ بنا دیتا ہے تو علماء اس بیٹے کو وہی خاص استحقاق عطا کرنے کے لیے مذکورہ بالا مسخ شدہ تشریح کا استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ علماء اس کے والد کو یہ حکم دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی نوجوان بیوی کو طلاق دے اور اس کا نکاح اپنے بد کار بیٹے سے کر دے۔
نام نہاد اسلامی شریعت یا انڈین مسلم پرسنل لاء میں بدکاری کے ذریعہ بیوی کے تبادلے کی رعایت صرف اسی صورت میں نہیں دی گئی ہے۔ بلکہ ا س کی ایک اور نظیر حلالہ ہے جو کہ مردوں کو طلاق مغلظہ دینے کا اختیار عطا کرتا ہے۔ اور اس کے بعد وہ اپنی بیوی کو ایک دن یا چند دنوں کے لیے اپنے دوست یا خود اس کے اپنے بھائی سے نکاح کرنے اور اس کے ساتھ جماع کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور اس کے بعد پھر وہ اسے اس کی بیوی کو طلاق مغلظہ دینے کے لیے کہتا ہے اور پھر دوبارہ وہ اس سے شادی کر لیتا ہے، اور یہ پورا عمل نام نہاد اسلامی شریعت کے دائرہ کار میں انجام پاتا ہے۔
اس کی ایک اور مثال نکاح متعہ ہے جس کے تحت ایک عورت ایک ہفتے کے لئے اپنے بیٹے، اگلے ہفتے اپنے والد اور آئندہ ہفتے اپنے دادا سے شادی کرسکتی ہے۔
یہ تمام روایتیں نام نہاد اسلامی قانون کے دائرے میں رہ کر انجام پذیر ہوتی ہیں، جن میں سے ہر ایک واضح طور پر قرآنی پیغام کے خلاف ہے، جو کہ عملی طور پر مسلم خواتین کی حیثیت کو ایک فاحشہ کی سطح پر محدود کر دیتا ہے، جو اسلامی شریعت کے فریم ورک کے تحت آج ایک بیوی اور ایک بیٹی بن سکتی ہے، یا آج ایک ماں اور کل ایک بیوی بن سکتی ہے، علی ھٰذا القیاس۔ اور یہ محرمات کے ساتھ بدکاری کو ختم کرنے والی قرآنی آیات کی مجموعی طور پر خلاف ورزی (23-4:22) اور عالمی سطح پر مسلم کمیونٹی کے لیے ذلت و رسوائی کا باعث ہے۔
حلالہ اور عارضی شادی کی روایت کے بارے میں مزید جاننے کے خواہش مند قارئیں مندرجہ درج ذیل مضمون پڑھ سکتے ہیں:
قرآنی شریعت (قوانین) طلاق، طلاق ثلاثہ، عارضی شادی اور حلالہ کو حرام قرار دیتی ہے
http://www.newageislam.com/urdu-section/قرآنی--شریعت--(قوانین)-طلاق،-طلاق-ثلاثہ،-عارضی-شادی-اور-حلالہ-کو-حرام-قرار-دیتی-ہے/d/6918
مختصر الٖفاظ میں کہا جائے تو معاملہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلم پرسنل لاء میں شادی شدہ مسلم خواتین کی آئینی طور پر ذلت و رسوائی اور اصل معمول کو عظیم ہندوستانی شاعر ساحر لدھیانوی کے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے:-
"یہ بیوی بھی ہے بیٹی بھی ماں بھی-کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ مذہب کے ثنا خوان تقدیسِ مسلم کہاں ہیں"
.1 Doctrine of Ijma in Islam, by Ahmad Hussain, New Delhi, 1992, p.16.
.2 Essential Message of Islam, Amana Publications, USA 2009, Afterword, Final Note of Appeal to Muslims.
No comments:
Post a Comment