راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
4 مئی 2015
مندرجہ بالا موضوع پر ایک بحث کے دوران کتابوں کے ایک شوقین قاری نے کہا کہ وہ ہیری پوٹر Harry Potter کے ناول کو پڑھ کر لطف اندوز ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ ان کتابوں کو پڑھ کر اسے بہت لطف حاصل ہوتا ہے اس لیے کہ وہ کتابیں ایک مختصر وقت کے لئے دور جدید میں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے دور ایک غیر حقیقی دنیا کی سیر کراتی ہیں۔
ہنستے ہوئے اس نے پوچھا کہ‘‘ کیا تم نے Wizard of Oz کا مطالعہ نہیں کیا ہے؟’’
"جی ہاں جب میں نوجوان تھا" بچوں کے کلاسیکی ادب کے ایک شوقین قاری نے جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کہانی میں کچھ خوبیاں ہیں، اس لیے کہ اس سے ہمت اور ذہانت کے استعمال اور ہمدردی اور رحم دلی جیسے اقدار کا درس ملتا ہے اور یہ تمام باتیں انسانوں کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
اور اس نے یہ بھی کہا کہ اس میں ویزارڈ نے ایک پر فریب شخص کو بے نقاب کیا ہے اور اس کی بھی کچھ اپنی اہمیت ہے۔
مگر مصنفہ کے پاس جو علم تھا اس کے علاوہ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ جے.کے راؤلنگس نے ان کتابوں کی تصنیف مالی فوائد کے لیے کی تھی اور قارئین کے خرچ پر حاصل ہونے والی شہرت سے ان کی حوصلہ شکنی بھی نہیں ہوئی ، تو مجھے حیرت ہوئی!
لیکن اس دوران جملہ "مختصر وقت کے لئے" پر تبادلہ خیال کیا گیا اس لیے کہ اس میں اہم بات یہ تھی کہ اسے یہ یقین تھا کہ اس کے پاس اس غیر حقیقی دنیا سے باہر نکلنے اور پھر حقیقت کی طرف واپس لوٹنے کی عقل اور سمجھ بوجھ ہے۔
لہذا، افسانہ کو زندگی کی حقیقت سے غافل ہونے کا محرک فراہم کرنے والا ماننا اس کا ایک باشعور "رویہ" رویہ تھا۔
انسان جب جنگلوں میں بسیرا کرتا تھا تب سے ہی اس نے فراریت پسند رویہ اور اپنی ذمہ داری کو اکثر مستقل طور پر برائیوں اور اچھائیوں پر محمول کرنے کا نظریہ اپنایا ہے!
اور یہ سب ایک مہذب اور پرامن انسانی معاشرے کی تعمیر کرنے کی ذمہ داری کے ساتھ، انفرادی اور اجتماعی سطح پر اخلاق و کردار کی رہنمائی کے لئے اصول و ضوابط کے ساتھ ایک زمانے سے چلی آ رہی حکمت و دانائی کے ایک تسلسل کے باوجود ہے۔
عام الفاظ میں مذکورہ بالا سے ماخوذ یہ ایک اہم اصول ہے کہ کسی بھی کتاب، صحیفے میں یا کہیں اور پایا جانے والا خود انسانوں کا اپنا ہی "رویہ" ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ اس سے کیا اخذ کرنا چاہتا ہے۔
مسلمانوں نے بھی جو دوسروں سے کسی بھی طرح مختلف نہیں ہیں، اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے قانون کی ایک کتاب قرآن مجید کے متعلق مستقل طور پر فراریت پسند رویہ اختیار کر لیا ہے (15-8)۔
انہوں نے جان بوجھ کر اپنے رہنمائی کے لیے قرآن کے بجائے مذہبی رہنماؤں اور غیر حقیقی دستاویزات کو اپنا ہادی مان لیا ہے، جس کی انہوں نے کامیابی کے ساتھ تجارت کی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح راؤلنگس نے کیا ہے۔
اور قرآن کے تناظر میں یہاں اسی عنوان پر تبادلہ خیال کیاجا رہا ہے:
قرآن کریم کا سب سے پہلا باب فاتحہ-بائبل کے رب کی دعا کی مانند ہے۔ خالق کائنات کی تسبیح و تحلیل کے بعد اس میں خالق کائنات کی مکمل اطاعت کا "عہد" لیا گیا ہے اور اس کے بعد اس سے صحیح راستہ کی رہنمائی اور غلط راستے سے تحفط کے لیے "التجاء" کی گئی ہے۔
رہنمائی تلاش کرنے والوں نے حکمت و دانائی پر مبنی ایک ہوشمند فیصلہ لیا۔
مذکورہ بالا کے جواب میں، خالق کائنات نے درخواست کنندگان کا جواب اس انداز میں دیا ہے کہ ان کے پاس صحیح کتاب ہے جس میں کوئی ابہام نہیں ، اور اگر انہوں نے "ایمان" کے لئے اس میں پیش کیے گئے شرائط کی پیروی حکمت و دانائی کے ساتھ کی تو وہ ترقی اور کامیابی کے راستے پر آگے بڑھیں گے۔
لیکن کفر کی ذہنیت رکھنے والوں کو کتاب کی ہدایت سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا اور فطری طور پر انہیں ایک ناگزیر سنگین نتائج سے دوچار ہونا پڑے گا۔
لہٰذا، یہ ایک معقول بات ہے کہ جو قارئین ‘‘اپنے خالق کے احکام کو اپنے لیے محفوظ کرنے کا عہد لیتے (یعنی تقویٰ اختیار کرتے) ہیں’’ وہ اس عملی نتیجے کا تعین کریں گے جن کی انہیں تلاش ہے۔ (تقوی کا مطلب 'خوف' نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے اور اس کے لیے کتاب میں استعمال ہونے والا لفظ 'خوف ' ہے)
جیسا کہ قرآن مجید کوئی افسانوی نہیں بلکہ "بنی نوع انسان کے لیے عملی طور پر فائدے" کی ایک کتاب ہے، اور تصوراتی فراریت پسندوں کے لیے یہ ایک تصوراتی کہانیوں کی کتاب ہے یا ان کے لیے یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا استعمال ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اسے دوسری قسم کی ہی کتاب سمجھتی ہے اور اکثر ان مفادات سے متاثر ہوتی ہے۔
خود قرآن مجید کا یہ فرمان ہے کہ اس پر آنکھ بند کر کے عمل نہ کیا جائے، اور ایسا کرنے والوں کو قرآن میں "جانوروں سے بھی بدتر" قرار دیا گیا ہے 25-73۔
اس کی ایک بہتر مثال واقعہ معراج ہے، جس کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں آواز سے بھی زیادہ ایک تیز رفتار سواری ‘براق’ پر سوار ہو کر یروشلم میں "مسجد اقصیٰ" تک کا سفر کیا، پھر وہاں سے آسمانوں کو کا سفر کیا اور سیر کرتے کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرش معلیٰ تک پہنچے اور وہاں خدا کے ساتھ انہوں نے ہم کلامی کا شرف حاصل کیا۔
(اگرچہ قرآن میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے)۔
کیا یہ 'ڈینٹ کی ادبی فکشن ‘ڈیوائن (الٰہی ) مزاحیہ ناول’' کی طرح نہیں لگتا جسے عیسائی الہیات پر مبنی مانا جاتا ہے ؟
کسی بھی متجسس ذہن و دماغ کے حامل شخص کے ذہن میں اس کہانی کو سن کر ضرور کچھ سنگین شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔ لہذا، اس موقع پر چند مناسب سوالات پیش کرنا بہتر ہو گا:
1) رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سفر سے کیا فائدہ حاصل ہوا تھا؟
2) انہیں یروشلیم کیوں لے جایا گیا تھا؟
3) کیا اس وقت وہاں کوئی مسلمان تھا اور کوئی مسجد موجود تھی؟
4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پچھلے تمام رسولوں کے مقابلے میں اللہ کا اتنا خاص رویہ کیوں رہا، جبکہ قرآن خود اس بات کی تائید و توثیق کرتا ہے کہ ‘‘تمام انبیاء برابر ہیں اور ان کے درمیا ن کوئی فرق نہیں ہے’’285-2 ؟
5) اس کہانی سے قارئین نے کیا فائدہ حاصل کیا؟
اور ایسے ہی کئی چبھتے ہوئے سوالات کیے جا سکتے ہیں!
گزشتہ صدی کے ابتدائی ادوار کے ایک تجربہ کار اور ذہین مفکر ‘‘جی اے پرویز (از 1903 تا 1985)’’ نے خود قرآن سے اس کا ایک معقول اور تاریخی حل پیش کیا ہے۔
سورہ 17، بنی اسرائیل کا آغاز اس طرح ہوتا ہے- "پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے۔"
پناہ گاہ کی تلاش میں موسی اور نوح کے سفر کا ذکر کرنے والی مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں، پرویز کی منطقی اور تاریخی وضاحت کافی معقول معلوم ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ وہ مدینہ کا شہر تھا جہاں رات کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت میں اپنے 40-9 صحابیوں کے ہمراہ ہجرت کی تھی؛ اس لئے کہ مکہ کے شہریوں سے ان کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق تھے۔
تاریخی طور پر اگر بات کی جائے تو مدینہ کے بعض شہریوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے چند اصحاب کو اس دین کے مبادیات کی تعلیم دینے کے لیے مدینہ بھیجنے کی درخواست کی تھی جس کی تبلیغ وہ مکہ میں کر رہے تھے۔ اس لیے کہ گزشتہ سال کے سفر پر انہوں نے ان سے تبلیغ کی جو باتیں سنی تھی انہیں پسند کیا تھا۔
لہٰذا، یہ بات بھی معقول معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اجتماع کے لئے مدینہ میں ایک کمیونیٹی ہال –مسجد بنائی ہوگی۔
مدینہ شمال مکہ سے چار سو کلومیٹر کے قریب ہے، اسی لیے عصر حاضر کے حالات میں بھی کار میں کچھ فاصلے کا سفر کہانا درست ہے اس زمانے کی اونٹ کی سواری کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ پہنچنے کے بعد ایک بہت ہی مختصر مدت میں مدینہ مرکز اور مسلم ریاستوں کا دارالحکومت بن گیا اور اس خطے میں بڑی خوشحالی آئی۔
مسجد کی تو بات ہی چھوڑ دیں اس وقت یروشلم میں کوئی مسلمان بھی نہیں تھا۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سب پہلا مسلمان یروشلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے تقریباً چھ عشروں کے بعد پہنچا۔
خلاصہ یہ کہ جس کے پاس ذرہ برابر بھی عقل و شعور ہو اسے اس توضیح میں بمشکل ہی کوئی منطق نظر آئے گی۔
ایک مرتبہ اگر ضروری شرط کے طور پر اس کتاب کے تئیں مثبت رویہ اختیار کر لیا جائے تو بہت سارے شکوک و شبہات ختم ہوجائیں گے؛ ان کا ازالہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب شکوک و شبہات کو آنکھ بند کر کے قبول کرنے کے بجائے جس طرح مولویانہ تعلیمات میں پروپگنڈہ کیا جا تا ہے، کھلے ذہن، علم اور معقول منطق کے ساتھ ان کی تفتیش کی جائے اور انہیں جانچا اور پرکھا جائے۔
ذاتی مفادات، منافقین، مترجمین اور تنگ نظر علماء کی ستم ظریقی نے ان اہم تاریخی اور حقیقی زندگی کے واقعات پر پردہ ڈال دیا ہے۔
تاہم قرآن جس مثبت رویہ کا مطالبہ کرتا ہے وہ ایمان کی بنیاد، یقین، اس کی ہدایت پر بھروسہ اور اس میں دی گئی ہدایات کا حقیقی زندگی میں نفاذ ہے۔
اگر ایسا نہیں کیا گیا تو قرآن کا فرمان ہے کہ ہے: " دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں ﻻئے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام ﻻئے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہوگئے) حاﻻنکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔ ۔49-14"۔
اس لیے کہ وہ اور خود ان کے اعمال واضح طور پر قرآن کی مخالفت اور منافقت کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ مسلمان ہونے کا دعوی کر سکتے ہیں لیکن وہ ایمان کے ساتھ نہیں ہیں، لہٰذا وہ مومن نہیں ہیں 2-8۔
قوم مسلم صدیوں سے بھی زیادہ عرصے سے اس صورت حال میں گرفتار ہے۔ انہوں نے قرآن کے تئیں ایک غلط "رویہ" اختیار کر کے اور ترقی کے عمل کو نظر انداز کر کے مذہب کے کاروبار میں ایک پناہ تلاش کر لیا ہے!
مثال کے طور پر، کسی خاص زمانے میں پائے جانے والے تنازعات کے حوالے سے بہت ساری آیاتوں کے تئیں منفی رویہ قائم کر کے اور اس زمانے کے عربوں کے درمیان متعلقہ حالات کو نظر انداز کر کے (35-5)؛ اسلام کے نام پر اور ایک ایسے مذہب کے نام پر جس میں "کوئی جبر" نہیں ہے موجودہ دور کے سیاسی "اسلام پسندوں اور جہادی" مبلغین نے اپنے اسٹریٹجک مظالم کا جواز پیش کرنے کے لئے، جس کا مشاہدہ آج دنیا کر رہی ہے، قرآن کو ‘‘جنگجوؤں کے ایک کتابچے’’ میں تبدیل کر دیا گیا ہے!
"ISIS (داعش) کے عسکریت پسندوں نے 300 سے زائد قیدی یزیدیوں کو شمالی عراق میں موت کے گھاٹ اتار دیا"
لیکن اگر بخشش، صبر و تحمل اور نفاست کے فضائل سے لبریز متعدد آیات کے تئیں مثبت رویہ قائم کر لیا جائے تو یہی کتاب بنی نوع انسان کی ایک قوم کی تعمیر کے لیے (213-2) اور اس قوم کو اس زمین پر نسل انسانی کی ہفت رنگ برادری میں تبدیل کرنے کے لئے ایک ہدایت ہے (28-35)۔
قرآن کا فرمان ہے: ‘‘لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وه زمین میں ٹھہری رہتی ہے’’ (17-13)۔
انسانوں کے پاس اختیار ہے۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/rashid-samnakay,-new-age-islam/readers-attitude-determines-what-they-extract-from-any-book/d/102793
No comments:
Post a Comment