Saturday, March 28, 2015

We Need a Muslim Reformation امت مسلمہ کی اصلاح کی ضرورت

We Need a Muslim Reformation امت مسلمہ کی اصلاح کی ضرورت

 ناصر خضر
26 مارچ، 2015
2015 میں یورپی باشندوں کو یہ ماننے پر مجبور کیا گیا کہ اسلامی دہشت گرد ہمارے درمیان موجود ہیں۔
لیکن یورپ کے مسلمانوں کو مزید اس سے  بھی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہم اسلامی بنیاد پرستی کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے کلیۃً محض حکومتوں پر انحصار نہیں کر سکتے۔ اس کا جواب ہمیں خود دینا ہوگا۔ ہمیں جو ایک پر امن مذہب اور زندگی کی حرمت پر ایمان رکھتے ہیں اسلامی اصلاح سے کم کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔
گزشتہ چند دہائیوں سے  بنیاد پرست اسلام پسندوں کی ایک اقلیت نے نفرت اور نسل پرستی کے سفاکانہ اور پرتشدد اقدامات کی مدد سے پورے مذہب اسلام کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے مجھے خود تکلیف ہے کہ ان انتہا پسندوں نے اسلام میں بنیاد پرستی کا کینسر پیدا کر دیا ہے ۔
اسی لیے دنیا بھر کے اعتدال پسند مسلمانوں کو ہمارے درمیان پھیلے ہوئے اس کینسر سے نجات حاصل کرنے کے لیے اور اسلام میں ایک انقلاب پیدا کرنے کے لیے اپنا اپنا تعاون پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
امت مسلمہ کی اصلاح کے لیے تین اقدامات کا اٹھایا جانا ضروری ہے۔ سب سے پہلے اسلام کے اندر خدا کی ایک نئی تفہیم متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ مذہب اسلام میں خدا کی ذات پاک 99 خصوصیات کی نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن بنیاد پرست اسلام میں ان 99 خصوصیات میں سے صرف چند پر ہی زور دیا جاتا ہے: مثلاً غصہ کرنے والا، انتقام لینے والا اور سزا دینے والا خدا۔
یہ نا قابل برداشت ہے۔ مسلمانوں کو ذات خداوندی کی 99 مثبت خصوصیات پر زور دینا ضروری ہے، مثلاً بخشنے والا محبت کرنے والا اور صلح پسند خدا، تاکہ ان خصوصیات حسنہ سے ذات خداوندی اور مذہب اسلام کی زیبائش کی جا سکے۔
اس سمت میں دوسرا قدم یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انقلابی اسلام پسند فقہاء نے عظمت و بزرگی کی جس تخت پر فائز کر رکھا ہے وہاں سے انہیں نیچے لانے کی ضرورت ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی یہ خواہش ظاہر نہیں کی کہ کسی بھی فن میں آپ کی کبھی کوئی تصویر کشی کی جائے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو نا پسند فرمایا کہ انہیں خدا کی طرح پیش کیا جائے۔
یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ آج یہ بنیاد پرست اسلام پسند پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بالکل ایسا ہی  کر رہے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون پر بھی انتہائی پرتشدد رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دیوتا نہیں ہیں۔ مسلمان ان کا احترام کر سکتے، لیکن مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نام نہاد "توہین" کے لئے دوسروں کی جان لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
تیسرا قدم یہ ہے کہ ہمیں قرآن پاک پر ایک جامع انداز میں نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مصری عالم نصر ابو زید کا کہنا ہے کہ اگر چہ قرآن کلام الٰہی ہے لیکن اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریبا 20 سالوں کے بعد انسانوں نے ہی مدون اور مرتب کیا تھا۔ ابو زید کا یہ ماننا ہے کہ صحیفہ قابل تبدیل اور متحرک ہے، اسی لیے اس کے مشمولات کی تجدید انتہائی ضروری ہے۔
میں ان کے ساتھ کلیۃً متفق ہوں۔ اس میں ایسی بے شمار آیتیں ہیں جن کی اہمیت و افادیت صرف ساتویں صدی تک ہی محدو ہیں اور جن سے ہمدردی کے بجائے تشدد، بخشش کے بجائے سخت سزا اور امن کے بجائے جنگ کی تعلیم ملتی ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس سے بہتر کرنا چاہئے اور ہم ایسا کر سکتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ نظریاتی اختلافات سے اوپر اٹھ کر ہم اس وقت تک دوسروں سے اپنی باتوں اور اپنے مذہب کا احترام کرنے کا مطالبہ نہیں سکتے جب تک ہم خود بھی ان کے ساتھ ایسا ہی نہیں کرتے۔ اسلام سمیت پوری دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کو ایک عالمگیر قدر بنانے کی ضرورت ہے۔
اس دفاع کی ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔ پیرس میں اور کوپن ہیگن میں کچھ لوگوں نے سب سے بڑی قیمت چکائی ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ اگر آپ کسی کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے تو اپنی تحریر میں آپ جو بھی چاہتے ہیں لکھ کر اپنے دل کو سکون پہنچاتے ہیں۔ کوئی بھی غیر متشدد رویہ کبھی کسی پرتشدد ردعمل کا جواز پیش نہیں کر سکتا۔
اور شاید یہی مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے کہ: ہم کس طرح انتہائی ظلم اور تشدد کے عالم میں ایک پرامن اصلاح کا باعث بن سکتے ہیں؟ اگر ہم امن کے ایک مذہب کے طور پر اسلام کی بازیافت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔
ہمیں گفتگو اور خیالات و نظریات کا سہارا لینا چاہیے لڑائیوں اور ہتھیاروں کا نہیں۔ ہمیں خود اپنی سوچ و فکر کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
سات سالوں کے بعد 2022 میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے چودہ سو سال مکمل ہو جائیں گے۔ یہ مبارک تاریخ آنے سے پہلے ہمیں اپنے مذہب سے بنیاد پرستی اور اس کے پیرو کاروں کو نکال پھینکنے کے لیے مسلمانوں کو ایک متحد آواز بلند کرنی چاہیے۔
اب ہمیں جدیدیت اور امن پسندی کی جانب اپنے ایک نئے سفر کا آغاز کرنا چاہیے۔
ناصر خضر ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینئر فیلو ہیں۔ یہ مضمون سب سے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا تھا۔
ماخذ:
http://www.newsweek.com/we-need-muslim-reformation-316906

No comments:

Post a Comment