Jihadists Cherry-Picking Qur’anic Verses to Defame Islam انتہا پسند جہادی عناصر اسلام، قرآن اور جہاد کو بدنام کرنے کے لیے قرآنی آیات کا غلط استعمال کرتے ہیں: مولانا یٰسین اختر مصباحی
خصوصی نامہ نگار، نیو ایج اسلام
17 مارچ 2015
بائیں سےمولانا اقلیمرضا مصباحی،مولانا زین اللہنظامی اورمولانا یٰسیناختر مصباحی
ہندوستان کے ایک مشہور و معروف سنی صوفی عالم دین مولانا یٰسین اختر مصباحی نے اسلام اور جہاد کے نام پر انجام دیے جانے والے دہشت گردی کے مسائل پر گفتگو کرنے کے لئے اپنے ریسرچ سینٹر اور پبلشنگ ہاؤس، دارالقلم، جامعہ نگر، نئی دہلی میں ایک خصوصی اجلاس کی میزبانی کی۔ مسلم ممالک میں حالیہ ہنگامہ خیز حالات اور ناخوشگوار واقعات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ: ‘‘کچھ شر پسند عناصر نے اسلام، قرآن اور جہاد کو بدنام کرنے کے لیے قرآنی آیات اور احکام کی غلط تشریح اور ترجمانی کر کے جہاد کا ایک مکروہ تصور قائم کر دیا ہے’’۔ موصوف نے کہا کہ اس کا نتیجے یہ ہوا کہ آج ہندوستان یا دنیا کے دیگر حصوں میں انجام دیے جانے والے دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کو عام طور پر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ مولانا موصوف نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "ایک ایسے دور میں کہ جب اسلامو فوب اور مسلم مخالف عناصر اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ جہادی سرگرمیوں کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرنے میں مصروف عمل ہیں، مسلم دنیا کے مختلف حصوں میں گمراہ مسلم نوجوانوں کے چند گروپ غلط طریقے سے لیکن پوری دلیری کے ساتھ اپنے عسکریت پسند مقاصد اور پر تشدد سرگرمیوں کو جہاد سے منسوب کر رہے ہیں"۔ "در اصل وہ چند لوگوں کے مفادات کو پورا کرنے کے لئے ان کا مہرا بنے ہوئے ہیں"۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پچھلے دنوں صدرامریکہ براک اوباما کے دورۂ ہند سے قبل حکومتی سیکورٹی انتظامات کے مدنظر مصباحی صاحب کو تفتیش کے لیے انٹلی جینس ایجنسی کی طرف سے بلایا گیا۔ اس کی وجہ سے موصوف میڈیائی خبروں کی سرخی بنے رہے۔ بنیادی طور پر پاکستان سے موصول ہونے والے مختلف فون کالز کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کے لیے انہیں دہلی پولیس نے طلب کیا تھا۔لیکن انٹلی جینس ایجنسی کے لئے جب یہ بات واضح ہو گئی کہ مولانا مصباحی صاحب اسلام اور بالخصوص جہاد کے بارے میں اپنے معتدل اور صحیح خیالات و نظریات اورتحریروں سے جانے جاتے ہیں اور ان کے پاس پاکستان سے اعتدال پسند سنی مسلم قارئین اور ان کے مداحوں کی فون کالز آتی ہیں تو انہیں نہ صرف یہ کہ باعزت بری قرار دیاگیا ، بلکہ ایک گھنٹے کی تفتیش کے بعد پولیس اسٹیشن کے چیف آفیسر نے ان سے معذرت طلب کی ۔
انتہا پسندوں کی جانب سے اسلامی احکام، جہاد اور دیگر اسلامی عقائد کی خلاف ورزی پر اپنے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مولانا موصوف نے مزید خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی جنگ کی حالت میں بھی اسلام عورتوں، بچوں، بے گناہ عام شہریوں اور غیر جنگجو افراد کے قتل کی اجازت نہیں دیتا ہے"۔ لہٰذا، اس بات کا تصور کیوں کر کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کسی دہشت گرد تنظیم یا کسی شدت پسند مسلم فرد کو جہاد کے نام پر اس قدر مظالم کی اجازت دیگا؟ تاہم، جو لوگ حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود بامقصد طریقے سے اس کا الزام جہاد کے اسلامی نظریے پر ڈال رہے ہیں وہ در حقیقت ان کے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے میں دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں۔ 'کسی دہشت گردانہ عمل کو جہاد قرار دینا یا جہاد کو "دہشت گردی" قرار دینا 21ویں صدی میں دہشت گردی کی سب سے سنگین صورت ہے۔
اس موقع پر مولانا یٰسین اختر مصباحی نے اعلان کیا کہ میں ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے جہاد کے حقیقی معنیٰ کی وضاحت کرنے کے مقصد سے ملکی سطح کی "انسداد دہشت گردی کانفرنس" کا انعقاد کرنے جا رہا ہوں۔
مولانا موصوف نے کہا کہ اسلام اور جہاد کے نام پر مسلم دنیا کے مختلف حصوں میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر، میں انسداد دہشت گردی کانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کر رہا ہوں۔ "اس موقع پر تاریخی شواہد اور قرآن اور دیگر اسلامی مصادر و ماخذ کے دلائل و براہین کی مدد سے تمام دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مذمت واضح، مضبوط اور مدلل انداز میں کی جائے گی"۔ مولانا موصوف نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اس سے عوام اہلسنت و جماعت کو (جنہیں ہندوستان میں سنی بریلوی کہا جاتا ہے) اس معاملے پر ایک سخت موقف اختیار کرنے میں مدد ملے گی۔"اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم سب اپنے گھروں سے باہر نکل کر اٹھ کھڑے ہوں اور دنیا کے سامنے ایک پرامن اور اعتدال پسند قوم کے اپنے تشخص اور نظریے کا اعلان کریں۔ جو قوم اپنے حقیقی تشخص اور سچے مذہبی، ثقافتی اور سماجی نظریہ کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوتی ہے بالآخر اس کا وجود اس کائنات سے نیست و نابود ہو ہی جاتا ہے"۔
لمرا فاؤنڈیشن، شاہین باغ کے چیئرمین مولانا اقلیم رضا مصباحی نے انسداد دہشت گردی کانفرنس پر اپنی خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سے جہاد اور دہشت گردی کے درمیان ایک واضح فرق قائم ہوگا اور بہت سے گمراہ اور غلط فہمی کا شکار لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔
کانفرنس کے میڈیا کوآرڈینیٹر محمد ظفر الدین برکاتی نے ہمیں بتایا کہ یہ کانفرنس 19 اپریل، 2015 کو بروز اتوار نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب کے آڈیٹوریم میں دوپہر 2 بجے سے شام 8 بجے تک چلے گی۔ موصوف نے مطلع کیا کہ اس کانفرنس میں مختلف مذہبی روایات کی نمائندگی کرنے والے علماء اور دانشوران شرکت کریں گے اور اس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ اس کانفرنس کے مہمان اور مقررین میں جسٹس راجندر سچر کمیٹی، سینئر صحافی کلدیپ نیر، شری پرمود شنکر اچاریہ، مفتی مکرم احمد نقشبندی، مولانا توقیر رضا خان بریلوی، شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ہمدرد کے سربراہ پروفیسر غلام یحیٰ انجم مصباحی، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ایڈیٹر ملی گزٹ، محمد ادیب سابق رکن پارلیمنٹ اور جناب سلیم رکن پارلیمنٹ (ایس پی) اور متعدد دیگر شخصیات کے نام قابل ذکر ہیں۔
اس پروگرام میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد اور دہلی یونیورسٹی سے ایک بڑی تعداد میں سنی مسلم طالب علموں اور ساتھ ہی ساتھ نوجوان کارکنان نے شرکت کی اور اپنے مفید مشورے بھی پیش کیے۔ اس اجلاس کے شرکاء میں قابل ذکر حضرات مولانا اشرف الکوثر مصباحی (جامعہ ملیہ اسلامیہ)، مولانا نعیم مصباحی (جے این یو)، محمد جسیم الحق (دہلی یونیورسٹی)، مولانا انظار عالم مصباحی (جامعہ ملیہ اسلامیہ) اور مولانا زین اللہ نظامی امام مسجد غوثیہ ، شاہین باغ، نئی دہلی تھے۔
No comments:
Post a Comment