In the name of government and caliphate !تو پھر کس کی حکومت اور کیسی خلافت...
صبیح احمد
18 مارچ، 2015
پاکستان و افغانستان سے لے کر مشرق و سطیٰ تک تمام ممالک پریشان حال ہیں ۔ بلا تفریق مذہب وملت ہر شخص امن و سکون کی ایک ایک سانس کےلیے ترس رہے ہیں ۔ ہر جگہ طوائف الملوکی ، قتل اور لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ اسےاپنے اپنے مفادات کے حساب سے کوئی عسکریت ، کوئی انتہاپسندی ، کوئی دہشت گری اور کوئی ‘ جہاد’ کا نام دے رہا ہے۔ بہر حال مسلم امہ خون کے آنسو بہانے پر مجبور ہے۔
عراق، نائیجریا، شام ، افغانستان صومالیہ اوریمن میں شدت پسندانہ کارروائیوں کی علمبردار تنظیموں نےاسلام جیسے عظیم اور منصفانہ دین حیات کے تصور جہاد کی خود ساختہ تعبیر ، مذہبی جواز اور فقہی استدلال کےذریعہ اور اپنی مذہبی سوچ و فکرکی بنیاد پر مخالفین کو قتل کرنا اپنا مذہبی فریضہ بنا لیا ہے جس کی وجہ سے مسلم امہ تباہی اور بربادی کاشکار ہوچکی ہے۔ عراق اور شام میں داعش ، یمن میں القاعدہ اور پاکستان میں طالبان نے خونریزی پھیلا رکھی ہے ۔ اس دہشت گردی سے خلیجی ممالک سعودی عرب ، مصر ، شام، عراق، یمن ، ایران اور ترکی تک محفو ظ نہیں ۔ اور ایسے حالات میں آج بھی احمقوں کی جنت میں رہنے والے بعض لوگ مذہب کے نام پر قومیت اور خلافت کے عالمی تصور کے خواب دیکھتے رہتے ہیں ۔ اس کی بھی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ سماجی ارتقا کے مسلسل عمل میں سائنس اور ٹکنالوجی کی وجہ سے انسانی معاشروں میں رونما ہونےوالی معاشی ، سماجی، سیاسی اور ذہنی تبدیلیوں کو وہ تسلیم نہیں کرپاتے ۔ وہ دراصل کنفیوژن میں مبتلا ہیں اور غیر واضح فکر کے اسیر ہیں ۔ وہ اپنے ذاتی تضادات کو نہیں سمجھ پارہے ہیں۔
اسے عالم اسلام کاالمیہ ہی کہا جائے گا کہ مغرب نے کس خوبصورتی سےمسلمانوں کے وسائل اور اس کی افرادی قوت کو اپنے مفادات کے حصول کےلئے کیمونزم کے خلاف استعمال کیا اور تمام مسلم ممالک نے امریکی مفادات کی سویت یونین کے خلاف جنگ کو اسلام کے تصور جہاد سےمنطبق کردیا ۔ کیمونزم کے خاتمہ کے بعد اب امریکہ کی زیادہ تر توجہ اسلامی تہذیب سےوابستہ چپقلشوں پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے کیونکہ مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کےمابین چپقلش کا تاریخی پس منظر رہا ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلیبی جنگیں آج بھی مغرب کو عدم تحفظ کاشکار کیے ہوئے ہیں ۔ امریکہ میں 11/9 کے بعد جارج بش نے بھی دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو صلیبی جنگ قرار دے دیا تھا مگر یہ الگ بات ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے یہ الفاظ واپس لے لئے تھے ۔
مغرب او رمشرق میں تصادم کو فروغ دینے والے ایسے انتہا پسندانہ سوچ کے حامل دانشور او رمفکرین موجود ہیں جن کے خیال میں اسلام اور مغربی تہذیبوں میں اخلاقیات ، ثقافت، تہذیب و تمدن ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں حالانکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ مذہبی عقائد سے بالا تر ہوکر کسی بھی مہذب معاشرے کاجائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی اساس راست بازی، صداقت، دیانتداری ، رحم دلی، انصاف، عدل اور بھروسہ مندی پر ہوتی ہے۔ آج اگر ہم اپنا اور اپنی قوم کا جائزہ لیں تو بڑی افسوسناک اور المناک صورتحال سامنے آتی ہے کہ کوئی ایسا شعبہ نہیں جو تنزلی سےباقی بچا ہو ۔ معاشرتی بیماریوں مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور ہم معاشرتی بیماریوں او ربرائیوں کاشکار ہوچکے ہیں جن میں سے کچھ برائیاں بے پردہ ہیں تو کچھ پسِ پردہ بھی ہیں ۔ ہم اکثر شناخت کی بات کرتے ہیں ۔ آخر ہماری شناخت کیا ہے؟ چوری، بے ایمانی، لوٹ کھسوٹ، لڑائی جھگڑا، خون خرابہ، کیا یہی ہماری شناخت ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ جہاں تک معاملات کی بات ہے تو اللہ کی پناہ! اس حوالے سےاتنے نا قابل اعتماد ہوگئے ہیں کہ غیروں کو تو جانے دیجئے ، اپنے بھی ہم پر بھروسہ نہیں کرسکتے ۔ یہ صرف کسی خاص ملک یا خطہ کی بات نہیں ہے بلکہ پوری دنیامیں مسلمانوں کی کم و بیش یہی کیفیت ہے ۔ کیا ہماری شناخت صرف وضع قطع تک ہی محدود ہے؟ ہماری اصلی شناخت تو یہ تھی کہ اپنے دشمنوں کی نظر میں بھی ہم امین تھے ۔ ہماری ایمانداری پر لوگ رشک کرتے اور سبق لیتے ۔ ہمارےاخلاق اور تہذیب تبلیغ کے خاص اثاثے ہوا کرتے تھے لیکن آج یہ حالت ہے کہ ہماری حرکتوں اور خراب معاملات کی وجہ سے لوگ دن بہ دن ہم سے بدظن ہوتے جارہے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے؟
ہم اسلام کی تبلیغ کی بجائے فرقے اور عقائد کی تجارت کرنے لگے ہیں، عالم پیداکرنے کےبجائے خود کش آور تیار کرنے کی آوازیں اٹھنےلگی ہیں، صحافی سچ بتانے اور خبر دینے کی آڑ میں پروپیگنڈوں میں مصروف نظر آنےلگے ہیں ، ادیب جذبات بیچتا ہے اور شاعروں کو ہجو لکھنے اور قصیدہ گوئی سے ہی فرصت نہیں، سیاستداں اپنی راجدھانیاں بچانے کےلئے اپنے نظریات داؤ پر لگا دیتے ہیں اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ جنہیں بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے تھے ، وہ اب ایسی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ہاتھ ڈالےبیٹھے ہیں جو دریاؤں کے دریا ہڑپ کی جارہی ہیں ۔ ہمارا معاشرہ برائیوں میں لتھڑا ہوا ہے، انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی ذمہ داری کی سطح تک ہر کسی نے ان برائیوں سے چشم پوشی کی اور اس پر مستزاد یہ کہ معاشرے میں پنپنے والی ان برائیوں کو ہم ملت، طبقہ، قوم اور مذہب کے خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کےعادی ہوچکے ہیں ۔ یہ برائیاں پہلےبیماریاں بنیں اور پھر علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاشرتی بیماریاں ناسور بنتی چلی گئیں؟ معاشرے کے رگ و پے میں رچ بس جانے والے اس سرطان کاعلاج کسی اور کو نہیں ہم کو خود ہی کرناتھا لیکن سوال تو یہ ہے کہ علاج سے پہلے غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو ان برائیوں کے بارےمیں آگاہ کون کرے؟ اور تعلیم یافتہ لوگوں کو ان برائیوں کے خلاف جد وجہد پر آمادہ کیسے کیا جائے؟ یقیناً یہ کام ہمارے معاشرے کے جانباز نوجوان ہی بہتر انداز میں کرسکتے تھے لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمارے یہ نوجوان احساس کمتری کی وجہ سے خود کشیوں ، خود سوزیوں اور خود کش دھماکوں میں مصروف ہوگئے ۔ اس وقت یہی مسلم امہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اس مسئلہ کا حل کہاں تلاش کیا جائے؟ یہ حل کہیں او رنہیں، انہی جانبازوں کے پاس ہے ۔ ان کے اندر بیداری لانی ہوگی ۔ ان میں یہ فہم پیدا کرنی ہوگی کہ زندگی کے کئی مختلف پہلو ہیں، صرف ایک پہلو کی بنیاد پر جینے کانام زندگی نہیں ہے۔ مذہبی پہلو کے ساتھ ساتھ دیگر تمام پہلوؤں کو بھی ساتھ ساتھ دیگر تمام پہلوؤں کوبھی ساتھ لےکر چلنے کانام زندگی ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے کائنات اور اس کے اندر انواع اقسام کی تمام نعمتیں اشرف المخلوقات کے لیےہی پیدا کی ہیں ۔ ان کی ناشکری اللہ تعالیٰ کو قطعی برداشت نہیں ۔ مذہبی فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر پہلوؤں کا بھی لحاظ لازمی ہے ۔ تبھی امن و چین اور سکون کی زندگی نصیب ہوگی ۔ جب دنیا میں یوں ہی قتل و غارت گری کا سلسلہ چلتا رہے گا تو نہ ہم رہیں نہ تم رہوگے اور نہ ہی اللہ تبارک تعالیٰ کی نعمتیں ، تو پھر کس کی حکومت اور کیسی خلافت!
18 مارچ، 2015 بشکریہ: روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
No comments:
Post a Comment