New Roles of Islamic Madrasas in the Country ملک کے موجودہ حالات میں مدارس اسلامیہ کے نئے کردار کی ضرورت ہے
مولانا اسرارالحق قاسمی
27 مارچ، 2015
آزادی کے بعد بر صغیر کے تعلیمی نظام میں ثنویت اور دوئی کا جو تصور ابھر کر سامنے آیا ، اس سےسب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔ ایک تعلیمی نظام وہ تھا جس کی بنیاد سر سید احمد خان رحمۃ اللہ علیہ نے علی گڑھ میں رکھی اور دوسرا تعلیمی نظام وہ تھا جس کی سر پرستی سربراہی مولانا محمد قاسم نانوتوی اوران کے رفقا ء نے کی جس کا مر کز مغربی یوپی ہی کا ایک قصبہ دیوبند قرار پایا ۔ چند اختلافات کے ساتھ دونوں قائدین قوم کے پیش نظر جو مقصد تھا وہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی و زبوں حالی کو دور کرنا ہی تھا ۔ سر سید انگریزی تعلیم سے دوری اور اس سے ناواقفیت کو مسلمانوں نے زوال کی وجہ سمجھتے تھے ، سو انہوں نے علی گڑھ میں ‘’مدرسۃ العلوم’’ قائم کیا ( جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ڈھل گیا اور اسی نام سے مشہور ہوا) اور اس میں تمام وہ علوم و فنون شامل کئے جو مسلمان اور انگریزوں کے درمیان تفاہم کی راہ ہموار کرنے میں معاون ہوسکتے تھے جب کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفیقوں نے دیوبند میں جو ‘‘مدرسۂ عربی اسلامی’’ قائم کیا ( جو بعد میں دارالعلوم دیوبند اور ازہر ہند کے نام سے مشہور ہوا)، اس میں بنیادی طور پر قدیم اسلامی علوم و فنون کو ترجیح دی گئی او رانہی کو شامل کیا گیا ۔
جوں جوں ہندوستان میں آزادی کی تحریک زور پکڑتی گئی اور اس تحریک میں عملی حصہ لینے والوں کے دلوں میں انگریزی حکومت اور اس کےساتھ ساتھ انگریز یت سے دشمنی شدت اختیار کرتی گئی، اسی قدر شدت کے ساتھ اس کے نصاب تعلیم کادائرہ بھی سکڑتا گیا اور با لآخر یہ نصاب قرآن و حدیث اور ان دونوں کے اصول کو سمجھنے اور سمجھانے میں معاون علوم تک محدود ہوتا گیا ۔ آزادی کے بعد جب تقسیم کے حادثے سے گزرنے کے بعد مسلمانوں نے ہندوستان کے تعلیمی نظام کی جانب توجہ دی تو ان کے سامنے باقاعدہ دو قسم کے تعلیمی نظام و جود میں آچکے تھے ، جن کے درمیان اتفاق کی قدریں بہت کم، جب کہ اختلاف کی قدریں بے شما ر تھیں۔ مدارس اور فضلائے مدارس دینیات تک محدود رہ گئے ، جب کہ سر سید کا مدرسۂ فکر عصری یا جدید نظام تعلیم تک سمٹ گیا اور اس طرح مسلمانانِ ہند ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہوگئے کہ اگر وہ دین کو سنبھالتے ہیں، تو زمانے میں رائج علوم و افکار سےانہیں ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور اگر عصری علوم کی تحصیل کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تو ان کے ہاتھوں سے دینی و اسلامی علوم کا دامن چھوٹتا ہے ۔ دونوں میں سے کسی ایک سے بھی محرومی مسلمانوں کےلئے نقصان دہ تھی چنانچہ جب بیسویں صدی کا خاتمہ ہوا او رہم اکیسویں صدی میں داخل ہوئے تو ہندوستان ہی نہیں، پورے بر صغیر میں ایک ایسی نسل تیار ہو چکی تھی جس کا ایک طبقہ قدیم اسلامی علوم سےتو لیس تھا مگر جدید علوم و فنون و افکار سے قطعی نا بلد تھا جب کہ دوسرا طبقہ وہ تھا جو جدید علوم سے تو آگاہ تھامگر اپنے دین کی مبادیات سے اُسے ضروری آگاہی بھی نہیں تھی ۔
یہ سلسلہ ہنوز بر قرار ہے او رما ہرین تعلیم اور اہل فکر و دانش ابھی بھی اس کے خاتمے کا کوئی معقول اور اطمینان بخش طریقہ ڈھونڈھنے سے قاصر نظر آرہے ہیں ۔ ویسے یہ کام بہت ہی دور رس تدبیر اور حکمتِ عملی کا متقاضی بھی ہے ۔ البتہ ایک کام جو ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح سے تعلق رکھتا ہے، اس کو دونوں طبقے (فضلائے مدارس اور جدید تعلیم یافتہ) انجام دے سکتے ہیں مگر ان میں بھی فضلائے مدارس اس کام کو زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو جو علوم پڑھائے جاتے ہیں ،و ہ تمام کے تمام قرآن، حدیث اور انسانی و اخلاقی اصول و مبادی پر مشتمل ہوتےہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر مسلمان علمائے دین ہی سے اس قسم کی اصلاح کی امید اور توقع رکھتے ہیں اور صحیح معنوں میں معاشرتی اصلاح کا کام اہل مدارس ہی انجام دیتے آرہے ہیں ۔ خود ارباب مدارس کو بھی اس کا احساس ہے،چنانچہ جو مرکزی دینی تعلیمی ادارے ہیں، وہ وقتاً فوقتاٰ ایسے اجتماعات منعقد کرتے رہتے ہیں، جن میں مدارس کے تعلیمی نظام و نصاب پر غور و خوض کرنےکےساتھ ساتھ ان کی سماجی اہمیت پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ 24 مارچ کو دارالعلوم دیوبند میں رابطۂ مدارس اسلامیہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ملک بھر کے سیکڑوں مدارس سے تقریباً ساڑھے تین ہزار نمایاں علماء و ذمہ دارانِ مدارس نے شرکت کی۔ اس میں جہاں مدارس کے تعلیمی و تربیتی نظام میں بہتری لانے پر تبالہ ٔ خیال ہوا، وہیں موجودہ ملکی حالات میں مدارس کے نظام کو شفاف اور صاف ستھرا رکھنے پر بھی زور دیا گیا ۔اجلاس میں مدارس کے اندرونی نظام، اساتذہ ٔ مدارس کی نتخواہوں میں بہتری لانے ، حساب و کتاب کے نظام کو بہتر کرنے، شورائی نظام کے نفاذ او رمدارس کو قانونی تحفظ فراہم کرنے جیسے اُمور پر بھی زور دیا گیا ۔ ساتھ ہی اربابِ مدارس کو یہ تلقین بھی کی گئی کہ وہ اپنے طلبا و فضلا کے ذہنوں میں منفی سوچ نہ پیدا ہونے دیں بلکہ ان کے دل و دماغ میں مثبت فکر اُجاگر کریں تاکہ وہ باہر نکل کر عام مسلمانوں کو بھی اسی راہ پر چلنے کی ہدایت دیں ۔ ہندوستان کے ناگفتہ بہ حالات کو دیکھتے ہوئے اربابِ مدارس کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہ اسلام کے تصور و تعلیم رواداری او رپرُ امن بقائے باہمی کےاصولوں پر عمل کرتے ہوئے غیر مسلم برادران وطن کو مدارس سے قریب کرنے اور انہیں مدارس کے نظام تعلیم و تربیت سے براہِ راست واقف کرانے کی کوشش کریں ۔ بلاشبہ یہ اجلاس موجودہ حالات میں بر وقت اٹھایا جانے والا قدم تھا اور اس میں زیربحث آنے والے تمام تر موضوعات اہم، بلکہ اہم ترین تھے لیکن ضروری یہ ہے کہ وہ تمام علماء فضلا ء اور مدارس کے ذمے داران و مدرسین جو اس اجلاس میں شریک ہوئے، وہ اپنے اپنے ادارے میں جاکر اس اجلاس کی تجویزوں کو عملی جامہ پہنانے کی سنجیدہ کوشش کریں ۔ اگر ان تجویز وں کو زمینی حقیقت رچ بس جانے کاموقع مل گیا تو بلاشبہ اس کا خوشگوار نتیجہ نہ صرف مدارس اور فضلائے مدارس کے تعلق سےمنفی پروپیگنڈوں کی تکذیب میں معاون ہوگا بلکہ معاشرتی و سماجی سطح پر اس کے بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔
اس اجلاس میں راقمِ سطور نے اپنی معروضات میں دو باتوں کی طرف خصوصی توجہ دلائی ۔ ایک تو یہ کہ تعلیم نظام کے اختلاف اور قدیم و جدید کے خانے میں بٹ جانے کی وجہ سے فضلائے مدارس اور جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کے درمیان جو دوری پیدا ہوتی جارہی ہے یا ہوچکی ہے ، اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے اور اربابِ مدارس اسکولوں ،کالجوں او ریونیورسٹیوں میں زیر تعلیم مسلم بچوں کی دینی تعلیم پر بھی توجہ دیں اور اس حوالے سے ایک منظم و مضبوط لائحہ عمل بنائیں ۔ چونکہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، اس لئے کارِ نبوت کی انجام دہی بھی ان ہی کی ذمہ داری ہے او رانہیں اس ذمہ داری کو نبھانا ہوگا ۔ اس لئے اپنے بچوں اور بچیوں کو بے راہ روی اور جدید نظام تعلیم کے نقصانات اور نتائج سے محفوظ رکھنے کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ والدین او رسر پرست ان کی دینی تعلیم وتربیت پر توجہ دیں، وہیں ذمہ دارانِ مدارس او رعلمائے کرام کی بھی یہ ذمےداری ہے کہ وہ اس طبقے کےلئے ایک نصاب و نظام تعلیم مرتب کریں اور اسلامی تعلیم و اصول کے مطابق ان کی ذہنی و فکری تربیت کاایک مضبوط خاکہ تیار کریں ۔ دوسری بات مدارس کو درپیش حالات کے تعلق سےکہی گئی ، جس میں اس پر زور دیا گیا کہ ہمیں حالات کی سنگینی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ اِس وقت علماء، مدارس یا فضلائے مدارس کو جو ناگفتہ بہ حالات درپیش ہیں، بعینہ وہی، بلکہ ان سے بھی بد تر حالات ان مدارس کو آزادی سے قبل انگریزی حکومت میں درپیش تھے مگر ہمارے حوصلہ مند او رباہمت اکابر نے ان حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے پوری دلیری اور دیانت کےساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان ہی کی محنتوں کی بدولت اسلام اور اسلامی تعلیمات کو ہندوستان سےنکالا نہیں جاسکا ، نہ مدارس بند ہوئے نہ دینی تعلیم کا سلسلہ بند ہوا اور نہ فضلائے مدارس کی تعلیمی و تبلیغی سر گرمیوں میں کوئی کمی آئی ۔ لہٰذا ہمیں ڈرنے او رگھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم مدارس کے اندرونی نظام، ان کے تعلیمی و تربیتی سلسلے کوبہتر بنائیں اور قوم کو اچھے، با صلاحیت ، سچے، ایماندار اور مخلص رجالِ کار فراہم کرکے دیں ۔جو لوگ یا طبقات ہم سے بدظن ہیں، ان سےدور بھاگنے کے بجائے انہیں اپنے سے قریب کریں او رانہیں مدارس کی روح اور ان کی حقیقت سے روشناس کرائیں، اپنے فضلاء کے دلوں میں ایک ایسی لگن اور تڑپ پیدا کریں، جو انہیں امت او رملت کی اصلاح کے تئیں ہمہ وقت بیدار، ہوشیار اور مفکر مند رکھے ۔ مدارس نے ماضی میں بھی مسلمانوں کی فلاح و صلاح کاکام بخوبی انجام دیا ہے اور انشاء اللہ مستقبل میں بھی دیتے رہیں گے۔
27 مارچ، 2015 بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
No comments:
Post a Comment