Tuesday, November 17, 2015

There Is No Radical Islam and There Is Also No Moderate Islam بنیاد پرستی اور اعتدال پسندی میں اسلام کی تقسیم درست نہیں: ایک نقطہ نظر

 



 ڈاکٹر موردیسائی کیدار
12 نومبر، 2015
جب ‘‘دہشت گردی’’ کی بات آتی ہے تو تقریباً 11/9 کے بعد سے تشدد پر مبنی اسلام کی مذہبی اور نظریاتی بنیادوں کی وضاحت کرنے کے لیے "انتہا پسند اسلام"کا لفظ میڈیا، سیاست دانوں اور عوام کے لئے ایک مقبول طریقہ بن گیا۔" اس لفظ کو "اعتدال پسند اسلام" کے مقابلے میں وضع کیا گیا تھا، جس کے تحت مسلمانوں کو ان عام لوگوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو عیسائی، یہودی، بدھ مت، کافروں اور ہم سب کے ساتھ اور پوری بنی نوع انسان کے ساتھ امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا نے دو اسلام کا تصویر پیدا کر دیا ، ایک بنیاد پرست اسلام ہے، جس کے مطابق زندگی گزارنا ناممکن ہے، اور ایک اسلام اعتدال پسند ہے جس کے ماننے والے ہمارے ہی جیسے ہیں۔"
"بنیاد پرست" اور "اعتدال پسند" اسلام کے درمیان اس تفریق نے اس دعوے کو جنم دیا ہے کہ بنیاد پرستوں نے اسلام کا "اغوا" کر لیا ہے، اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ حقیقی اسلام اعتدال پسند اسلام ہے ، باطل اور بنیاد پرست اسلام حق نہیں ہے۔
یہی ایک ایسی چیز جس کی وجہ سے عصر حاضر کے یوروپی باشندے اپنے ساحلوں پر جمع ہونے والے اکثر غیر قانونی مسلم تارکین وطن کے ساتھ خود کو مثبت انداز میں منسلک کرتے ہیں، وہ "اعتدال پسند اسلام" کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ اپنے تمام یورپی پڑوسیوں کے ساتھ پر امن اور ہم آہنگ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔
مجھے اس نفسیاتی ذہنیت کے تعلق سے چند شکوک و شبہات پیش کرنے کی اجازت دی جائے جو دو قسم کے اسلام کا دعوی پیش کرتی ہے۔ ایسا کرنے کے لئے، سب سے پہلے میں ایک اہم نقطہ کو واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں: اسلام معتقدات و معمولات کا ایک ایسا تحریری فریم ورک ہے جو مذہب، ثقافت، ممنوعات، سیاست، قانون، معاشیات اور وسیع ترین نظام حیات تک تمام امور کا احاطہ کرتا ہے۔ مذہب اسلام کا سب سے بنیادی صحیفہ قرآن اور اس کے بعد حدیث (زبانی قانون) اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح ہے۔ شریعت، اسلامی قانون، ان احکام و قوانین پر مشتمل ایک ایسا نظام ہے جس کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔
دو قسم کے اسلام کا کوئی وجود نہیں ہے، اور نہ ہی کسی اعتدال پسند اسلام اور نہ ہی کسی بنیاد پرست اسلام کا کوئی تصور جائز ہے۔ قرآن صرف ایک ہی ہے؛ اسی میں جہاد کی آیات اور کافروں کے خلاف جنگ کی آیتیں اور وہ تمام آتیں بھی مووجود ہیں جن میں "غیر مسلموں" کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
اسی طرح بنیاد پرست اور معتدل میں حدیث کی بھی تقسیم کی کوئی حقیقت نہیں ہے؛ حدیث کا صرف ایک ہی مجموعہ ہے جس میں متشدد اور اعتدال پسند دونوں قسم کے نظریات پر مشتمل حدیثیں شامل ہیں۔
بالکل اسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات اعتدال پسندی اور بنیاد پرستی کی تعلیمات پر مبنی نہیں ہے؛ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہی سوانح حیات ہے جس میں اعتدال پسند اور بنیاد پرست اور متشدد نقطہ نظر دونوں پر مبنی روایتیں موجود ہیں۔
شریعت بھی صرف ایک ہی ہے جس میں چور کے ہاتھ کاٹنے جیسے انتہاء پسند اور غریبوں کی دیکھا بھال کرنے جیسے معتدل اصول و قوانین بھی شامل ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ "اعتدال پسند اسلام" اور "انتہاء پسند اسلام" کی تقسیم درست نہیں ہے، اور اسلام صرف ایک ہی ہے جس میں بنیاد پرستی سے لیکر اعتدال پسندی تک کی تعلیمات شامل ہیں۔ عملی طور پر، اگر ہم مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والوں کو دیکھتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ ان میں سے کچھ انتہا پسند اور کچھ اعتدال پسند ہیں، اور وہ تمام لوگ زندگی اور معاشرے سے متعلق اپنے معتقدات و معمولات کے جواب میں وہی آیات، نظریات، مثالیں اور قوانین پیش کرتے ہیں، جن سے قرآن، حدیث، سورت اور شریعت میں ان کی تائید ہوتی ہے۔ بنیاد پرست مسلمان ان احادیث اور آیات کا حوالہ پیش کرتے ہیں جن سے ان کے افکار و نظریات کی حمایت ہوتی ہے اعتدال پسند مسلمان ان احادیث اور آیات کا حوالہ پیش کرتے ہیں جن سے ان کے افکار و نظریات کی حمایت ہوتی ہے۔
انتہائی بنیاد پرست اور انتہائی اعتدال پسند دونوں طرح کے مسلمان "صحیح" ہیں، اس لیے کہ یہ دونوں جائز اسلامی مصادر و ماخذ پر انحصار کرتے ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کسی دوسرے نے اسلام کو "اغوا" کر لیا ہے۔ دنیا بھر کے تمام تقریبا ڈیڑھ ارب مسلمان مرد، عورت اور بچے کہیں نہ کہیں اعتدال پسند یا انتہاء پسند مسلمانوں کا ہی حصہ ہیں۔ وہ انفرادی یا خاندان، قبیلے، تنظیم اور معاشرے کے ایک حصے کے طور پر زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
اسلامی ریاست ایک ایسی ریاست ہے جسے معاشرے کے انتہائی بنیاد پرست مسلمانوں اور نومسلموں کے بہت بڑے طبقے نے قائم کیا ہے اور اسے انہیں کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے۔ حماس، حزب اللہ اور دیگر تمام دہشت گرد تنظیموں کی طرح القاعدہ بھی انہیں میں سے ہے۔ جب کہ معاشرے کے دوسرے طبقے میں ٹورنٹو، کینیڈا میں رہنے والے وہ اعتدال پسند مسلمان ہیں جو مکمل طور پر اعتدال پسند مسلمانوں کے ایک گروپ "مسلمز فار ٹومارو" تنظیم کے ارکان ہیں۔
جب کہ اس کے علاوہ معاشرے کے تمام دوسرے مسلمان کہیں نہ کہیں انتہا پسندی اور اعتدال پسندی کے درمیان کوئی ایک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ معاشرے میں ان کا مقام مستحکم نہیں بلکہ متحرک ہے، اور ہو سکتا ہے کہ کوئی اعتدال پسند مسلمان بنیاد پرستی کا شکار ہو جائے اور کوئی بنیاد پرست انسان اعتدال پسندی کو قبول کر کے اور بھی زیادہ اعتدال پسند بن جائے۔ انسانی زندگی ہمیشہ معاشرے کے ساتھ تغیر پذیر ہے ، اور اس دنیا میں کسی فرد یا جماعت کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیشن گوئی کرنا ایک انتہائی مشکل ترین امر ہے۔
اعتدال پسند مسلمان تارکین وطن جہاں ہجرت کرتے ہیں وہاں کے غیر ملکی معاشروں کے ساتھ مکمل امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایسے مسلمان جس ملک میں ہجرت کرتے ہیں وہاں کے معاشرے کے ساتھ امن اور ہم آہنگی قائم کرتے ہیں، ذریعہ معاش پیدا کرتے ہیں، ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور وہاں کی معیشت اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جبکہ نئے معاشرے میں ہجرت کرنے والے بنیاد پرست مسلمان انہیں حدود اور دائرے میں رہتے ہیں جن سے ان کی ثقافت اور طرز زندگی کی حفاظت ہوتی ہے، وہ اس معاشرے میں صرف جزوی طور پر شریک ہوتے ہیں، اور جس معاشرے نے انہیں پناہ دیا ہے وہ اسے اپنے مقاصد کے لیے متاثر کرنے اور بدلنے کی مسلسل کوشش میں رہتے ہیں۔
ماخذ:
http://www.israelnationalnews.com/Articles/Article.aspx/17876

No comments:

Post a Comment