راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
10 اکتوبر 2015
ہم ہمارے آباؤ اجداد کے طریقے کی پیروی کریں گے
مذکورہ بالا ذیلی سرخی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت کے جواب میں ہے جو انہوں نے اپنی قوم کو دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں: (نہیں) بلکہ ہم تو اسی (روش) پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت پر ہوں۔’’ (2:170)
اگر چہ مذکورہ آیات کا سیاق و سباق "کھانا" ہے، لیکن دیگر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں بھی کافروں نے یہی جواب دیا تھا جب انہیں ان کے طریقوں کی اصلاح کرنے اور رسولوں کے پیغام پر عمل کرنے کی دعوت دی گئی تھی:
‘‘اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں (تو) کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی (طریقہ) پر پایا اور اﷲ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے’’ (7:28) آیت 11:68 بھی دیکھیں
اس حقیقت کا کہ منکرین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی وحی الٰہی کا انکار کر رہے ہیں اور ان باتوں پر عمل کرنے پر اصرار کر رہے ہیں جن پر ان کے باپ دادا عمل پیرا تھے؛ مطلب یہ ہے کہ کافر ان لوگوں سے رجوع کر رہے ہیں جنہیں قرآن میں زمانہ جاہلیت کا کافر کہاگیا ہے۔ اور اس طرح، جو مشرکین ان کی پیروی پر زور دیتے ہیں وہ رضاکارانہ طور پر مشرک ہی رہنا چاہتے ہیں۔
سادہ لفظوں میں، قرآن ایسے لوگوں کو ان کفار کی صف میں شمار کرتا ہے جنہوں نے پیغام نازل ہو جانے کے بعد بھی، جان بوجھ کر اس سے مکمل طور پر انکار کر دیا۔ ایسے لوگ کم خطرناک ہیں اس لیے کہ وہ اسی وقت 'دشمن' ہوتے ہیں جب وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں۔
اور کافرون کا دوسرا گروہ وہ ہے جس نے چہرے پر تو اسلام کے پیغام کو قبول کر لیا؛ لیکن عمل طور پر اس نے اسلام کے پیغام کو مسترد کر دیا ہے۔ انہیں منافق قرار دیا گیا ہے۔ لہذا، وہ سب سے زیادہ خطرناک دشمن ہیں!
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر ان لوگوں سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔
یہ تمام چیزیں انسان کو کس سمت میں لے جاتی ہیں؟
عصر حاضر میں سلف کے پیروکاروں کا ایک گروہ یہ تاثر دیتا ہے اور بے شک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنے آبا و اجداد کی پیروی کر رہے ہیں، اور وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے جنہوں نے قرآن مجید میں ان کو دی گئی تمام ہدایات کی پیروی کی تھی۔ لہذا وہ سچے مسلمان، یعنی مومن تھے۔ اور اس وجہ سے ان کے پیروکاروں بھی سچے مسلمان ہیں۔
اس دعوی کا فیصلہ صرف دو گروپ یعنی آبا و اجداد اور پیروکاروں کے معمولات کا موازنہ کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔
لیکن قرآن تو یہ کہتا ہے کہ ان کے باپ دادا:-
-ایک دوسرے کے ساتھ مشفق اور مہربان تھے۔
-تمام مسلمان بھائی بھائی تھے۔
-انہوں نے بنی نوع انسان کو ایک ہی قوم مانا۔
-ان کے لیے ایک معصوم زندگی لینا پوری قوم کو قتل کرنے اور ایک معصوم شخص کی زندگی بچانا پوری قوم کی زندگی کو بچانے کے مترادف تھا۔
-بے گناہ لوگوں کو ان کے گھروں اور ان کے ٹھکانوں سے نکالنا ایک گناہ تصور کیا جاتا تھا!
تاہم مندرجہ بالا باتیں ماضی میں پائی جاتی تھیں اور ان کا کسی اور کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
‘‘ایک امت تھی جو گزر چکی، ان کے لئے وہی کچھ ہوگا جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لئے وہ ہوگا جو تم کماؤ گے اور تم سے ان کے اعمال کی باز پُرس نہ کی جائے گی’’ 2:134۔
لہٰذآ، باپ داداؤ پر انحصار کرنے اور ان کے نام کو پکارنے کی دوسرے کے لیے کوئی اہمیت نہیں۔
آج نام نہاد اسلام پرست، مجاہدین اور جہادیوں کے اعمال اوپر دیئے گئے ان کے باپ دادا کے اعمال کے مقابلے میں بہت ناقص ہیں! انہیں ایک ایک کرکے شمار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کی سرگرمیوں کی خبریں ہر گھنٹہ ہمارے گھر تک پہنچ رہی ہیں۔
کیا محض یہی اسلام فوبیا ہے؟ اس میں تو کوئی حقیقت ہے ہی نہیں؟
لاکھوں پناہ گزین پناہ کی تلاش میں غیر ملکی سرحدوں کی طرف بڑھ رہے ہیں، کسی زمانے میں موجود خوبصورت شہروں کا ملبہ، معصوم لوگوں کے سر قلم کرنے کی بربریت، غلامی، عصمت دری، اغوا اور جبری تبدیلیٔ مذہب اور بنی نوع انسان کے قدیم تاریخی ورثے کو دھماکے سے اڑانا۔ کیا یہی وہ تمام اسلام ہراس تصوریں ہیں جو ہمارا دشمن میڈیاپیش کر رہا ہے؟
آخری مثال سے ایک آسان سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ: کیا تمہارے وہ آبا و اجداد جنہوں نے کتاب کے مطالبہ کے مطابق، لوگوں کے لیے تاریخی علم کے مصدر و ماخذ کے طور پر صدیوں تک ان یادگاروں کو محفوظ رکھا تھا وہ تمام کافر تھے؟
تو تم اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر کیوں نہیں چلتے؟ کیا تمہارا اسلام قرآن کا اسلام نہیں ہے؟
اب کسی کو اس نتیجے پر پہنچنے کے لئے قرآن مجید کا 'عالم' ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کے آبا و اجدا کا دعویٰ ایک ‘‘مکمل دھوکہ’’ ہے، اور ان کا عمل کفر ہے۔
تاہم قرآن میں ایک آیت ایسی ہے جو ان کے دعوں کو باطل کرنے کے لیے کافی ہے، اس لیے کہ اس میں ایک ایک کر کے ان کے جھوٹے دعوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔
‘‘پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کر رہے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کے وطن سے باہر نکال رہے ہو اور (مستزاد یہ کہ) ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کے ساتھ (ان کے دشمنوں کی) مدد بھی کرتے ہو، اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پا س آجائیں تو ان کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو (تاکہ وہ تمہارے احسان مند رہیں) حالانکہ ان کا وطن سے نکالا جانا بھی تم پر حرام کر دیا گیا تھا، کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو شخص ایسا کرے اس کی کیا سزا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ دنیا کی زندگی میں ذلّت (اور رُسوائی) ہو، اور قیامت کے دن (بھی ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں’’ 2:85۔
لوگوں کے ایک خطرناک گروپ یعنی داخلی دشمن سے قوم مسلم کو خبر دار رہنا چاہیے، جیسا کہ قرآن اس کی تنبیہ کرتا ہے۔
قوم کو آج جس ہوشیاری اور عقلمندی کی ضرورت ہے وہ واضح ہے؛ اور وہ ان باتوں سے واقف ہونا جن کی عبادت گاہوں میں علماء تبلیغ کر رہے ہیں۔ اس بات کا ریکارڈ موجود ہے کہ کچھ علماء تو میڈیا سے کچھ بھی بول دیتے ہیں۔ باہر تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے، لیکن اندر کی کہانی تو کچھ اور ہی ہے۔ لہٰذا،ان پیغامات اور خطبات سے ہوشیار رہنا چاہیے جو ان لوگوں کے نام پر پہنچایا جا رہا ہے جو ‘گزر چکے ہیں’۔
ان پیغامات سے خبردار رہنا جن کے ذریعہ نوجوانوں کے زرخیز ذہنوں کو فتح کیا جا رہا ہے۔
ان چیزوں سے خبردار رہنا جن کے ساتھ نوجوان نسل منسلک ہے۔ اپنی اولاد اور بچوں کے تئیں آج کے والدین کی سب سے زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ ان کے کندھوں پر ان کے خاندان، معاشرے اور سوسائٹی کی جانب سے ایک بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
یہاں موضوع گفتگو سیاہ نام نہاد اسلامی لباس میں ملبوس وہ پندرہ سالہ نوجوان لڑکا ہے جو دن کے اجالے میں محکمہ پولیس کے ایک آسٹریلیائی معصوم ملازم کو ہلاک کرتا ہے اور پھر خود بھی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ وہ اسلام کے نام پر ایک بالکل انتہاپسند، غیر مشتعل اور لاپرواہ عمل تھا۔ ان کے والدین اور ان کی مذہبی کمیونٹی کو اس کی آمد اور اسے روکنے کا علم کیوں نہیں ہوا؟
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آج کل امریکہ میں بھی اسکولوں میں گولی مار کر قتل کیا جانا ایک روزانہ کا معمول بن چکا ہے! لیکن اسے "بندوق کی ثقافت" کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے جو کہ اپنے پاؤں جمانے والا ہے۔
والدین کو اس بات سے خبردار ہونا ہوگا کہ یہ خطرناک عنصر کوئی چھوٹا گروپ نہیں ہے اور یہ جلدی ختم ہونے والا بھی نہیں ہے۔ ان کے نمائندے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے حامی بکثرت اور طاقتور ہیں اور ان کے اپنے ایجنڈے ہیں۔
ان کی تجارت کا ہتھیار مذاہب کا استعمال ہے، اور یہ مسلمانوں کے درمیان بکثرت موجود ہیں، لیکن دو سب سے اہم ہیں اور وہ سنی اور شیعہ کی تقسیم ہے۔
اسی لیے قرآن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قوم کو منتشر کرنے والوں کے ساتھ تمام تعلقات کو منقطع کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے:
‘‘اور بیشک ان میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبانوں کو مروڑ لیتے ہیں تاکہ تم ان کی الٹ پھیر کو بھی کتاب (کا حصّہ) سمجھو حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے، اور کہتے ہیں: یہ (سب) اﷲ کی طرف سے ہے، اور وہ (ہرگز) اﷲ کی طرف سے نہیں ہے، اور وہ اﷲ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور (یہ) انہیں خود بھی معلوم ہے’’ 3:78۔
قوم مسلم کو خبردار کرنے کے لیے خدا کی تنبیہ اور کتنی واضح ہو سکتی ہے؟
نیو ایج اسلام کے ایک مستقل کالم نگار راشد سمناکے ایک (ریٹائرڈ) انجینئر ہیں
URL for English article:
URL for this article: http://www.newageislam.com/urdu-section/راشد-سمناکے،-نیو-ایج-اسلام/is-this-all-islamophobia?-is-there-no-truth-in-it?---کیا--یہ-سب-محض-اسلام-فوبیا-ہے؟-اس-میں-تو-کوئی-حقیقت-ہے-ہی-نہیں؟/d/104896
No comments:
Post a Comment