Where are the People who Praise the Sanctity of the East ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
آفتاب احمد، نیو ایج اسلام
24 April, 2015
گذشتہ ماہ افغانستان کی راجدھانی کابل میں مسلمانوں کے ایک مشتعل ہجوم نے اسلامیات کی ایک جوان ٹیچر فرخندہ کو عین دن کی روشنی میں بے دردی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔اس کی موت کے بعد اس کی لاش کو جلادیاگیا۔ اس پر یہ الزام تھا کہ اس نے قرآن کو جلایاتھا۔رپورٹوں کے مطابق فرخندہ کے والد نے کہا تھا کہ اس کی بیٹی ذہنی طورپر غیر متوازن تھی ۔ پھر بھی اسے مار دیا گیا۔بعد میں اس کے والد کا یہ بھی بیان آیا کہ چونکہ علاقے کے انتہاپسند اس کے خلاف ہوگئے تھے اور اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں اس لئے اس نے اپنی بیٹی کو بچانے کے لئے کہہ دیاتھا کہ وہ ذہنی مریض تھی۔ جبکہ وہ پوری طرح صحت مند تھی اور بچوں کو اسلامیات کا درس دیتی تھی۔
فرخندہ پہلے ایک اسکول میں ریاضی کی طالبہ تھی لیکن اپنے دینی مزاج کی وجہ سے اس نے ریاضی کی تعلیم چھوڑ کر ایک مدرسے میں داخلہ لیا اور وہاں دینی تعلیم حاصل کی ۔مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد اس نے کابل یونیورسٹی میں اسلامیات کے شعبے میں داخلے کے لئے فارم بھرا۔ یونیورسٹی میں پڑھائی شروع نہیں ہوئی تھی اس لئے وہ خالی وقت میں بچوں کو دینی تعلیم دینے لگی۔اس نے کم از کم تیس بچوں کو قرآن پڑھنا سکھایا تھا۔اس کے بھائی کے مطابق وہ بہت ہی دینی مزاج کی حامل تھی اس لئے اس کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ قرآن کو جلانے کا ارتکاب کرسکتی ہے ۔ ایک ایسی کتاب جس کی وہ دل و جان سے عزت کرتی تھی۔اس پر کچھ لوگوں نے الزام لگایا تھاکہ اس نے کابل سے باہر دری نام کے ایک جگہ میں واقع ایک مزار پر قرآن کے اوراق جلائے تھے۔
فرخندہ نے قرآن جلایا تھا اس الزام کی کوئی انکوائری نہیں کی گئی اور صرف الزام کی بنیاد پر اس کے خلاف ایک ماحول تیار کردیا گیا اور ایک دن اسے راستے میں پکڑکر مشتعل ہجوم نے بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔کسی نے یہ جاننے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ آیا وہ الزام صحیح بھی ہے یا کسی نے سازش کی ہے۔کابل کے ایک سرکاری عہدیدار نے بھی کہا کہ اس کے خلاف قرآن جلانے کاکوئی ثبوت نہیں ملا۔ تو پھر اصل ماجرا کیاتھا؟
دراصل ، فرخندہ اسلام کے نام پر ڈھونگی ملاؤں اور تعویذ گنڈے کی تجارت کرنے والے باباؤں کی مخالفت کرنے لگی تھی۔ کابل میں ان کا کاروبار کافی ترقی پر ہے۔ ایک ناخواندہ معاشرے میں جہاں تعلیم کا نظام ترقی یافتہ نہیں ہے اور نہ ہی اچھے اسپتال ہیں ، مسلمان ہر چھوٹی بڑی بیماری کے لئے انہیں باباؤں کے پاس جاتاہے اور یہ بابا انہیں تعویذ گنڈے دیتے ہیں ۔ حتی ٰ کہ اگر کسی کے سر میں درد ہو تو وہ کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے کسی بابا کے پا س جاتاہے۔ وہ ایک کاغذ میں کچھ کلمات لکھ کر اس کوایک سفید کپڑے میں لپیٹتاہے پھر اس سفید کپڑے پر سرخ کپڑا لپیٹتاہے اور اسے بیمار کو دیتے ہوئے کہتاہے اسے اپنی پگڑی میں رکھ لو سر کا درد ٹھیک ہوجائے گا۔اسی طرح زندگی کے دوسرے مسائل کا حل بھی کم پڑھے اور جاہل مسلمان انہیں ملاؤں اور باباؤں کے پاس ہی تلا ش کرتے ہیں۔ فرخندہ نے دری کے مزار پر جگہ دعاتعویذ کی کسی کتاب کو جلادیا تھا۔ اسلئے ان باباؤں کے نیٹ ورک نے فرخندہ کے خلاف یہ الزام لگایا کہ اس نے قرآن کریم کو جلایادیا ہے۔
وہ ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال لڑکی تھی اور اس نے کچھ عرصے سے انہی تعویذ گنڈوں کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف ایک اصلاحی مہم چھیڑ رکھی تھی ۔ وہ لوگوں کو سمجھاتی تھی کہ یہ بد عقیدگی ہے اور ان تعویذوںں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کی اس مہم سے ان باباؤں کی تجارت کو نقصان ہونے لگاتھا۔ اس لئے اسے راستے سے ہٹانا ضروری تھا۔ اور اس مقصد کے لئے اس سے بہتر راستہ اور کوئی نہیں تھا کہ اس پر قرآن کو جلانے کا الزام لگادیا جائے ۔ اور جب بات قرآن کی ہوتو پھر مسلمان کسی دلیل کسی ثبوت کا انتظار نہیں کرے گا۔ کسی قانونی چارہ جوئی کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس قتل کے بعد کابل میں ان باباؤں کے کے خلاف ماحول گرم ہے اوروہ روپوش ہوچکے ہیں۔مگر کابل کے باہر کے علاقوں اور دوسرے شہروں میں ان کاروبار بے روک ٹوک چل رہاہے۔پولیس نے کئی تعویذ بیچنے والوں کو گرفتار بھی کیا ہے مگر اس طرح کے ہنگامی اقدامات ہر معاشرے اور ہرملک میں کسی بڑے واقعے کے بعد ہوتے ہیں۔کابل میں ان کے خلاف عوام نے احتجاجی جلوس بھی نکالے ہیں اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیاہے۔
مگر اس واقعے نے کئی بنیادی سوالات بھی اٹھائے ہیں۔کیا اسلام کسی کو یہ اجازت دیتاہے کہ خواہ وہ معاملہ دینی ہو، خدا، رسول اور قرآن سے متعلق ہو صرف کسی الزام پر قانون اپنے ہاتھ میں لے ا ور مشتعل ہجوم کسی ملزم کی قسمت کا فیصلہ کردے ۔ کیا اسلامی معاشرے میں پولیس ، عدالت، تفتیش ور استغاثہ کا کوئی نظام نہیں ہوگا؟کیا اسلام اجازت دیتاہے کہ مردکسی عورت ملزم کو ہاتھ بھی لگا سکیں۔اسلامی نظام عدل کا یہ سنہرا اصو ل ہے کہ دس قصور وار بچ جائیں مگر ایک بے قصور نہ ماراجائے ۔ دنیا کے غیر مسلم ممالک میں بھی عورت ملزم کی تلاشی یا گرفتاری کے لئے خاتون پولیس کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے۔کئی علاقوں میں اس مقصد کے لئے خواتین تھانے بھی قائم کئے گئے ہیں۔تو پھر ایک ایسے ملک میں جہاں طالبان ایک غالب طاقت ہے اور جہاں عورتوں کا چہرہ بھی ستر کی حیثیت رکھتاہے اور غیر محرم عورت کو دیکھنا تک حرام ہے ہاتھ لگانا تو دور کی بات ہے ، ایک عورت کو بیچ بازار میں مرد نہ صرف مار پیٹ کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ دست درازی کرتے ہیں اس کے کپڑے پھاڑتے ہیں اور مکوں لاتوں سے مارتے ہیں ، ڈنڈے سے سر پھاڑتے ہیں ، پھر اس کے جسم سے ایک ٹویوٹا کار کو گذارا جاتاہے اور اس کے مرجانے کے بعد اسے ندی کے کنارے لے جاکر جلادیا جاتاہے۔ کیایہ ایک اسلامی معاشرے کی پہچان ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کا وطیرہ ہے؟ اس واقعے کے دوران پولیس بھی جائے واردات پر موجود تھی مگر ان مذہبی جنونیوں کے سامنے بے بس تھی کیونکہ معاملہ قرآن کا تھا۔ اگر انہوں نے ہجوم کی مخالفت کی ہوتی تو ایک ’’کافرہ ‘‘ کی حمایت کرنے کے جرم میں انہیں بھی کافر قراردے کر ہجوم نے ٹھکانے لگادیاہوتا۔
قرآن کو جلانے کے جرم میں مسلمانوں ہی کو مسلمانوں کے ہی ہجوم کے ذریعہ ہلاک کرنے اور جلانے کے واقعات پاکستان میں بھی ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے ایک رسالے نے ایسے ہی ایک واقعے کی دل سوز روداد شائع کی تھی۔ ایک حافظ قرآن اپنے گھر میں قرآن کی تلاوت کررہاتھا۔ اس کی بیوی نے چولہے پر دودھ ابالنے کے لئے چڑھایاہواتھا اور اسی دوران وہ اپنے بچے کو گود میں لیکر پاس کے ہی دوکان سے شکر لینے چلی گئی۔ اس دوران دودھ ابلنے لگا تو تلاوت میں مصروف حافظ قرآن رحل سمیت قرآن کو ہاتھ میں اٹھائے چولہے کے پاس دوڑا دوڑاگیا اور دودھ کو چولہے سے اتارا مگر غلطی سے قرآن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر چولہے میں گرگیا۔ جب تک وہ دودھ کو ایک طرف رکھ کر قرآن کو چولہے سے اٹھاتا، قرآن کے کئی اورارق جل چکے تھے ۔ اسی وقت اس کی بیوی دکان سے واپس آئی تو جلے ہوئے قرآن کو دیکھ کر گھبرائی گئی کیونکہ پاکستان میں قرآن کا کسی سے غلطی سے بھی جل جانا ایک جرم ہے۔ اس نے گھبراہٹ میں پڑوس سے کی عورت سے کہہ دیا کہ یا اللہ قرآن جل گیا۔ پڑوس کی عورت نے محلے والوں کو جاکر بتادیا۔ محلے میں اس حافظ کے کچھ مسلکی دشمن تھے فورا اسے محلے کی مسجد میں جاکر اعلان کردیا کہ فلاں حافظ نے قرآن جلادیاہے۔ آن کی آن میں مسلمانوں کے ہجوم نے اس کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ حافظ نے مکان کا دروازہ اندر سے بند کرلیا اور کھڑکی سے لوگوں کو بتانے لگا کہ قرآن غلطی سے اس کے ہاتھ سے گرگیا ہے اس نے اسے جلایا نہیں ہے ۔ مگر ہجوم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ پولیس آئی اور حافظ کو گرفتار کرکے لے گئی تاکہ اسے ہجوم سے محفوظ رکھا جاسکے مگر مشتعل ہجوم نے مقامی ملاؤں کے اکسانے پر اس ’’دشمن قرآن ‘‘ کو تھانے سے زبردستی چھڑا لیا اور پھر اسے سڑک پر لاکر اسے بیدردی سے پیٹنے لگے۔اسی دوران سڑک سے اینٹوں سے لدی ایک ٹرک گذری ،۔ ہجوم نے اس ٹرک کو روک کر اینٹین اتاریں اور پھر اینٹوں سے اسے مارنا شروع کردیا۔ جب وہ مرگیا تو اس کی لاش کو ایک موٹر سائکل کے پیچھے باندھ کر سڑک پر گھسیٹا گیا۔ آخر میں اسے بھی جلادیا گیا۔
کیا ایک مسلمان حافظ قرآن ، کتاب مقدس کو جان بوجھ کر جلاسکتاہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو ہجوم کی شکل میں مسلمانوں ہی کو قرآن جلانے کے الزام میں ہلاک کرتے ہیں؟ اس ہجوم میں کتنے تو ایسے ہونگے جنہوں نے قرآن کو مہینوں پڑھا نہیں ہوگا۔ پڑھا ہوگا تو اس کے معنی و مفاہیم کو سمجھا نہیں ہوگا، نمازیں نہیں پڑھتے ہوں گے مگر اس حافظ یا اس اسلام کی اس سچی پیروکار فرخندہ کے مقابلے زیادہ قرآن سے محبت کرنے والے بن گئے۔ ان کی ذہنیت کیاہوتی ہے۔ انہیں کون سی اسلامی تعلیم دی جاتی ہے کہ ان کے نزدیک ایک مسلمان کے جان کا کوئی احترام نہیں ہوتا؟اس طرح جاہل اور اسلامی تعلیمات سے ناواقف افراد اسلام اور قرآن کے ٹھیکیدار بن کر پورے اسلامی معاشرے کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے پولیس اور حکومت بے بس بنی ہوئی ہے۔ ان کے سامنے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی بے بس ہے ۔یہ تعلیم یافتہ طبقہ صرف اس بات سے خوش ہے کہ اسے جلسوں اور تقریبوں میں صدر یا مہمان خصوصی کی حیثیت سے بٹھایا جائے اور وہ چند رسمی جملے بول کرچلے آئیں۔ وہ ان جہلا کے خلاف کچھ بولنے سے ڈرتے ہیں اور ان کی اسی بزدلی کا فائدہ اس طرح کے مذہبی جنونی اٹھاتے ہیں۔آج اسلام کے تحفظ کا ٹھیکہ انہی قرآن اور اسلام کی صحیح تعلیمات سے ناواقف یہ ٹھیلہ والے قسم کے لوگ قرآن اور اسلام کے نام پر ظلم وتشدد کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ، مسلمانوں میں فرقہ بندی اور منافرت کی آبیاری کررہے ہیں اور اسلام زندہ باد کے بجائے مسلک زندہ باد کا نعرے لگارہے ہیں او ر تعلیم یافتہ طبقہ خاموش تماشائی بناہواہے۔ یہ ہر مسلم معاشرے میں ہوریاہے ۔چاہے وہ افغانستان ہو، پاکستان ہو، بنگلہ دیش ہو یا ہندوستان۔ کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے اترپردیش میں ایک مسلک کی طرف سے گاؤں گاؤں جاکر لوگوں نے پمفلٹ بانٹے جس میں لکھا گیاتھا کہ مخالف مسلک کے افراد کے ساتھ کسی طرح کا سماجی تعلق رکھنا شادی بیاہ، موت اور شادی میں شرکت ، لین دین وغیرہ سب حرام ہے۔ اس پمفلٹ مہم کے شروع ہونے کے بعد تقریباً پچاس مسلم لڑکیوں کا رشتہ ٹوٹ گیا کیونکہ وہ رشتے دونوں مسلک کے ماننے والوں کے بیچ اسلامی بنیاد پر طے ہوئے تھے ۔
مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ یہ اچھی طرح جانتاہے کہ مذہب کے نام پر اس طرح کا طرزعمل غیر اسلامی ہے ۔ اسلام مساوات، عدل، نرم روئی ، درگذراور صبر وتحمل کا تقاضا کرتاہے۔ اگر کسی سے جرم یا غلطی سرزد ہوجائے تو اسے تائب ہونے اور کفارہ اداکرنے کا موقع دیتاہے۔ خدا بھی کہتاہے کہ انسانوں کے بہت سے گناہ وہ اپنی شان رحیمی کے صدقے میں خود ہی معاف کردیتاہے کیونکہ وہ اگر انسان کی ہر حرکت پر گرفت کرنا شروع کردے تو پھر پیر تلے چیونٹی کے کچلے جانے پر بھی سزا دے دے کیونکہ کمزور چیونٹی بھی خدا کی مخلوق ہے اور خدا کو چیونٹی سے بھی اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ انسان سے۔
کابل کے واقعے کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ کسی مسلمان صحافی یا فاضل مضمون نگار نے اس المئے پر مضمون لکھنا گوارا نہیں کیا کیونکہ اس میں قصوروار مسلمان تھے ۔ مسلمانوں پر ظلم ہو اور اظلم کرنے والے غیر مسلم ہوں، یا پولیس ہو یا غیر مسلم ملک کی حکومت ہو تو یہ طبقہ فوراًحرکت میں آجاتاہے اور آنا بھی چاہئے کیونکہ ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرنا بہترین جہاد ہے ۔مگر ان فاضل مضمون نگاروں کا یہ بھی اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے ذریعہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو بھی نے نقاب کرکے ، اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور اسلام اور قرآن کے نام پر جو غیر اسلامی عقائد اور نظرئیے پھیلائے جارہے ہیں اس کی روک تھام کے لئے قلمی جہاد کریں ۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ کسی نے فرخندہ کے ساتھ ہونے والے اس غیر انسانی اور غیر اسلامی سلوک پر مضمون لکھنا گوارا نہیں کیا۔ یہ واقعہ صرف ایک خبر بن کر رہ گیاجبکہ اس نے ہر انسانیت پسند کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کیا اس نے ان فاضل مضمون نگاروں کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑا؟اگر کہیں ایک آدھ مضمون کسی نے لکھا بھی ہوگا تو وہ صدا بہ صحرا ثابت ہواہوگا۔اگر مسلمانوں پر ظلم یا انصافی ہوتو اس کے خلاف لکھنے پر مسلمانوں میں بیباک اور بے خوف صحافی کی امیج بنتی ہے اور لوگ اسے ملت کا سچا خیر خواہ سمجھتے ہیں مگر جب ظلم مسلمانوں ہی نے مسلمانوں پر کیا ہوتو اس پر لکھنے سے مسلمانوں کا ایک طبقہ صحافی کا مخالف ہوسکتاہے ۔ اس لئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے معاملے میں خاموش رہاجائے ۔ اسی مصلحت پسندی کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں خود احتسابی کا عمل ناپید ہے اور ہم ا پنی ذات کے خول میں بند ہوچکے ہیں۔ ہم اپنی ہر غلط روی کا الزام دوسروں پر تھوپ کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ اپنی بدحالی کے لئے ہم خود کتنے ذمہ دار ہیں۔
No comments:
Post a Comment