Sunday, April 19, 2015

Outlaw Takfir to Curb Jihadism جہادزم کو ختم کرنے کے لئے تکفیریت کو مسترد کیا جانا ناگزیر

Outlaw Takfir to Curb Jihadism جہادزم کو ختم کرنے کے لئے تکفیریت کو مسترد کیا جانا ناگزیر


 کنور خلدنِ شاہد
16 اپریل، 2015

پاکستانی دانشوروں کے درمیان ایک بالعموم اتفاق رائے یہ ہے کہ شمال مغرب میں فوجی کارروائی کی خوبیوں (یاخامیوں) کے باوجود ریاست کو اسلام پرست عسکریت پسندی کے خاتمے کے لئے ضرب عضب ہی کی طرح ایک نظریاتی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کو مٹانے کے لیے صرف جہادیوں کو ہی ختم کرنا کافی نہیں ہو گا؛ اس کے لیے ہمیں جہادی نظریہ کی بیخ کنی کرنے اور اس کی جگہ اعتدال پسند، جامع اور تکثیریت پسندنظریہ کی شکل میں ایک نعم البدل پیش کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
اب، اس نظریاتی انقلاب کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ-اب جب کہ ہم نے آخر کار یہ دریافت کر ہی لیا کہ جہادی ہمارے دشمن ہیں اور جہادیت ہمارے لیے ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے- اسلام کے ساتھ جہادیت کے ربط کے مقابلے میں ہماری مدافعانہ پوزیشن ہے۔ اس بات پر گفتگو کرنے کے بجائے کہ کس طرح عسکریت پسند اسلام پرستی کا مصدر اسلامی مصادر و ماخذ ہیں ہم ہماری اجتماعی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہیں ، اس لعنت کا مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے۔
یہ بات مکمل طور پر سمجھ میں آنے والی ہے کہ انہیں مذہبی صحیفوں پر ایمان رکھنے والوں کی اکثریت، جن پر طالبان ایمان رکھتے ہیں، تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی اور صحیفوں کے درمیان تعلق اور ربط کی وجہ سے تکلیف محسوس کرے گی۔ لیکن جب قومی اور بلکہ یہ کہا جائے کہ عالمی سیکورٹی داؤ پر لگی ہو تو ذاتی یا اجتماعی جذبات کو پس پشت ڈال کر منطقی طور پر حقائق کا سامنا کیا جانا چاہئے۔
جہادیت کی نظریاتی ساخت راسخ الاعتقاد مذہب میں فطری طور پر موجود ایک عام خیال پر مبنی ہے جس کا ہم میں سے اکثر د اور ہمارے ریاستی ادارے فخر کے ساتھ اقرار کرتے ہیں اور وہ ‘‘مذہبی برتری کا زعم’’ ہے۔
جو بھی اسلامی ریاست ایک مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق پیدا کرتی ہے-جیسا کہ اکثر ہوتا ہے-تو وہ جہادی رجحان کے لئے ایک عملی زمین تیار کرتی ہے۔
مراعات فراہم کرنے والے کسی کلب کی طرح، جہادی بھی ہر ممکنہ حد تک مسلم کلب کی رکنیت کو محدود کر رہے ہیں۔ اور اسے تکفیر یعنی کسی شخص یا جماعت کو اسلام سے خارج کرنے کا کسی مسلمان کا عمل،کہا جاتا ہے۔ تکفیر کا عمل جہادیوں کے لیے سب سے پہلا اور سب سے اہم قدم ہے، اس لیے کہ جہاد مسلمانوں کے خلاف شروع نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ہم جب بجا طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلامی دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے تو ہم اس حقیقت کو نظر کر دیتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ وہ مارے جائیں جہادی ان پر بالعموم کفر و ارتداد کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سلمان تاثیر سے لیکر ملالہ یوسف زئی تک اور پشاور میں اسکول کے بچوں سے لیکر شکارپور مسجد کے اندر نماز ادا کرنے والے مسلمانوں تک کو مارنے سے پہلے ان تمام لوگوں کی تکفیر کی گئی تھی اور ان پر ارتداد کا الزام لگایا گیا تھا۔
طالبان نے  اے پی ایس اسکول کے بچوں کو  ‘مرتد فوجی افسران’ کی اولاد ہونے کی وجہ سے کافر قرار دیا  جبکہ  ان  فوجی افسران کو امریکی جنگ لڑنے کی وجہ سے مرتد قرار دیا ۔ ملالہ یوسف زئی کو ‘کافر رہنما براک اوباما کی تعریف کرنے’ اور'طالبان کے خلاف سازش' رچنے کی وجہ سے کافرہ اور مرتدہ قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح بے شمار پاکستانی شہریوں کو اسلامی خلافت نہیں بلکہ جمہوریت کے 'کافرانہ نظام' میں شریک کار ہونے کی وجہ سے اسلام سے خارج کر دیا گیا ہے۔ تکفیر میں اس شدت نے مسلمانوں کی شرح اموات میں اضافہ کر دیا ہے۔ طالبان اپنے زعم باطل میں یہ مانتے ہیں کہ وہ اللہ کی اس دنیا کو کافروں سے پاک کر رہے ہیں۔
اگر واضح الفاظ میں کہا جائے تو امر واقعہ یہ ہے کہ جب کسی بازار یا کسی عوامی مقام پر اچانک حملے میں مسلمان مارے جاتے ہیں تو یہ طالبان کا کافروں کے قتل کرنے کا عمل ہے، جبکہ ہم مسلمانوں کی لاشیں دیکھتے ہیں۔ جب طالبان امام بارگاہوں میں شیعوں کا قتل کرتے ہیں تو وہ یہ ان کا کافروں کے قتل کرنے کا عمل ہے، جبکہ ہم مسلمانوں کی لاشیں دیکھتے ہیں۔ جب احمدیوں کا ان کی 'عبادت گاہوں' یا ان کے گھروں میں بے دریغ قتل کیا جاتا ہے تویہ طالبان کا کافروں کے قتل کرنے کا عمل ہے اور اس مقام پر ہم ان سے متفق ہیں۔
ہم میں سے بیشتر لوگ عیسائی، ہندو یا احمدیوں کی طرح 'کافروں' کے قتل کو معاف نہیں کر سکتے جبکہ ہم میں سے اکثر تہ دل سے (غیر مسلموں) پر ہماری (مسلمانوں) کی برتری پر یقین کرتے ہیں۔ برتری کے اس خیال کا منطقی نتیجہ اس نظریہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ صرف انہیں ہی جنت کی نعمتوں سے نوازا جائے گا جو اس خاص نظریہ کے پیرو کار ہیں باقی تمام لوگ آخرت کی زندگی میں ابدی عذاب الٰہی کا شکار ہوں گے-اور اسی نظریہ پر تمام مذہبی صحیفوں کی بنیاد ہے ۔
حال ہی میں جاری ہونے والی 'پاکستان 2014 میں احمدیوں پر ظلم و ستم' رپورٹ میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح اس برادری کے 11 ارکان کو ان کے مذہب کی بنیاد پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جن میں کینیڈین نژاد امریکی ماہر امراض قلب ڈاکٹر مہدی علی قمر بھی شامل ہیں جو پاکستان ایک چیریٹی (صدقہ) مشن پر آئے ہوئے تھے۔ گوجرانوالہ فسادات گزشتہ سال ان احمدیوں پر ہونے ظلم و ستم کے واقعات میں ایک نادر واقعہ تھا، جو مذہبی انتہا پسندوں کی وجہ سے بری طرح افرا تفری کا شکار ملک پاکستان میں متشدد مذہبی انتہا پسندو ں کا شکار ہیں۔
احمدیہ برادری کے ساتھ ہمارے اجتماعی سلوک سے ہم سب کے اندر تکفیری رجحانات کی نمائش ہوتی ہے، اور اس بات کا اندازہ ہوتا ہےکہ 'کفر' کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہتھیار نہ اٹھانے کے باوجود ہم طالبان کے ساتھ قس قدر مشترک ہیں۔ اس کا ایک محرک یہ بھی ہے کہ ایک 2014 پیو سروے میں یہ پایا گیا کہ 41 فیصد پاکستانیوں کا یہ ماننا ہے کہ شیعہ مسلمان نہیں ہیں جبکہ 60 فیصد لوگوں نے احمدیوں کو کافر قرار دیا ہے، اس سے ہماری عصبیت المناک انداز میں واضح ہوتی ہے۔
جس نئے نظریے کو ہم نظریہ جہادیت سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں اس میں تکفیریت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ تیونس کی طرح، مذہبی تعصب کے رواج کے باوجود، تکفیریت کی بیخ کنی کرنا نظریہ جہادیت کا مقابلہ کرنے کی سمت میں پہلا قدم ہو گا۔ تاہم، المیہ یہ ہے کہ اس کا آغاز تبھی ہو سکتا ہے جب پاکستان کے آئین کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔
آئین کی وہ دوسری ترمیم جس میں جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں نے 1974 میں احمدیوں کو اسلام سے خارج کرنے میں ایک خود مختارانہ کردا ادا کیا تھا، اس نے ہمارے آئین پر تکفیریت کی چھاپ چھوڑ دی ہے، اور ایک ایسی مثال قائم کر دی ہے جو اور اہل سنت والجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) اور لشکر جھنگوی (ایل ای جے) جیسی جماعتوں کو شیعہ برادری کی آئینی تکفیر کے لیے آواز بلند کرنے کی تحریک دے رہی ہے۔
جب ‘سیکولر اور لبرل’ پارٹی کے رہنما اور جمہوری طور پر منتخب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے اعلی ترین عہدے سے تکفیریت پر عمل کرتے ہیں؛ جب اعظم طارق اور احمد لدھیانوی جیسے شیعہ فوب لوگ پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہو جاتے ہیں، جب پاکستان پینل کوڈ کے آرڈیننس XX میں ایک کمیونٹی کو قرآن پڑھنے یا 'مسلمانوں کی وضع قطع ' اختیار کرنے سے روک دیا جاتا ہے، تب بھی ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم نے آئینی تکفیر کے ذریعے جہادیت کو کس طرح فروغ دیا ہے؟
ہمارے آئین اور طالبان کے درمیان فرق صرف اتنا ہے طالبان مکمل طور پر کافروں کا کام ہی تمام کر دیتے ہیں جبکہ ہمارا آئین کم ازا کم اتنا روادار ہے کہ وہ 'کافر' غلاموں کی زندگی بسر کر سکیں۔
اور مذہبی صحیفوں کے اندر تکفیری جڑوں کو تلاش کرنے اور انہیں تسلیم کرنے کی اہمیت دین کو ترک کرنے کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے سے عبارت نہیں ہے، بلکہ یہایک جدید ریاست کے آئین کو سیکولر بنانے کی موزونیت کو اجاگر کرنا ہے۔ خواہ جنت اور جہنم کے سادہ تصور کے ذریعے خواہ اس نفرت انگیز تقریر کے ذریعے جس کی تشریح جہادی لوگ الفاظ کی تلوار کے ذریعہ کرتے ہیں، تکفیر کا جواز پیش کرنے کے لیے مذہبی مصادر کا استعمال کیا جاتا ہے اور کیا جا سکتا ہے، اور جس کے نتیجے میں (دہشت گرد اور قانون ساز دونو) دیگر کمیونٹیز کی تباہی میں ایک خود مختارانہ کردار ادا کرتے ہیں۔
1953 میں، جسٹس محمد منیر کی انکوائری رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ کس طرح مختلف فرقوں کے دو مولویوں نے مسلمان کی ایک عام اور مشترک تعریف پیش کرنے پر عدم اتفاق کیا۔ 2015 میں زیادہ کچھ نہیں بدلا ہے۔ امید ہے کہ 10 سال کے عرصے میں مسلمان صرف مختلف مکابت فکر کے مسلمانوں کو ہی گلے لگانے کے لیے تکثیریت پسند نقطہ نظر نہیں اپنائیں گے بلکہ غیر مسلموں کے تئیں بھی ایک مزید جامع نقطہ نظر اپنائیں گے، جس میں کسی کے بھی حقوق یا آزادیوں میں امتیازی سلوک کی عدالتی اور عوامی سطح پر مذمت کی جائے گی۔
ماخذ:
http://nation.com.pk/columns/16-Apr-2015/outlaw-takfir-to-curb-jihadism

No comments:

Post a Comment