Monday, February 3, 2014

Destruction of heritage in Saudi Arabia and Islamic Teachings آثار مبارکہ کاتحفظ اور اسلامی تعلیمات
 
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
31 جنوری، 2014
عربی زبان میں کسی چیز کے باقی رہ جانے والے ایسے وصف یاجزو کو ’’اثر ‘‘کہتے ہیں جس سے اس کی شناخت کی جاسکتی ہے، جیسے کپڑے پر رنگ لگ گیاہو ، اسے دھویا جائے لیکن رنگت ختم نہ ہو، اس کورنگ کا بچاہوااثر کہتے ہیں۔اسی طرح خوشبو کا اثر ، بدبو کااثر وغیرہ تعبیر ات اختیار کی جاتی ہیں۔ کسی قوم کی تہذیب وثقافت یا کسی مذہبی گروہ کے مذہبی تصورات کی جونشانیاں باقی رہ جاتی ہیں، ان کو بھی اثر کہتے ہیں ، جس کی جمع ’’آثار‘‘ ہے،اسی کو اہل لغت نے ’’مخلفات ثقافیۃ لقوم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ آج پوری دنیا میں تاریخی آثار کوغیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے، اوراس کو کسی بھی ملک یاقوم کے لئے باعث انتخاب سمجھاجاتا ہے؛ اس لئے ہر مذہبی اورتہذیبی گروہ اپنے تاریخی آثار کی حفاظت کی کوشش کرتا ہے اوربعض تاریخی یادگار یں تو ایسی ہیں کہ ان کو عالمی ورثہ (World Heritage) قرار دے دیاگیا ہے۔ جہاں یہ آثار موجود ہیں ، وہاں کی حکومتیں ان کو محفوظ رکھنے کی پابند ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو حقیقی تاریخی ورثہ کو مصنوعی آثار کے ذریعہ زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، جیسے یہودیوں نے ہولوکاسٹ کے مصنوعی میوزیم بنائے ہیں ، یاجاپان میں ایٹم بم کی ہلاکتوں کیلئے علامتی شناخت بنائی گئی ہے۔ 
اسلام میں بھی تاریخی آثار کو اہمیت دی گئی ہے۔ ان میں بعض آثار وہ ہیں جن سے عبرت و موعظت متعلق ہے، ان کا تعلق ان قوموں سے ہے جن پر عذاب نازل ہوا، جیسے قوم عادوثمو د کے پہاڑوں سے تراشے ہوئے پرشکوہ محلات حجاز سے قریب ہی تھے، مشرکین مکہ کو متوجہ کیاگیاکہ وہ ان آثار سے عبرت حاصل کریں کہ کیسی کیسی طاقتور ، علم وفن سے آگاہ اوراپنے عہد کی غالب وفاتح قومیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اوراس کے بھیجے ہوئے پیغمبر وں کے ساتھ سرتابی وسرکشی کی وجہ سے نیست ونابود کردی گئیں، صفحہ ہستی سے ان کانام و نشان مٹ گیا، اسی طرح قوم لوط پر ایسا عذاب نازل ہوا کہ سطح زمین ان پر پلٹ کررکھ دی گئی، اوراس وقت ان کی بستی پر بے حد نمکین پانی کاایک ایسا بحیرہ موجود ہے، جس کو بحرمردار کہا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بعد والوں کے لئے ایک نشانی بنا دیا ہے،نشانی سے مراد عزت وسربلندی کی نشانی نہیں ہے ، عبرت وموعظت کی نشانی ہے، غرض کہ وہ آثار جن سے عظمت وتقدیس متعلق ہے ان کی اہمیت تو ہے ہی لیکن جوآثار عبرت ہیں ، ان کو بھی اسلام نے اہمیت دی ہے، اورتلقین کی ہے کہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔ 
جومقامات روحانی اعتبار سے مقدس اور قابل احترام ہیں، ان کی اہمیت تو ظاہر ہے، قرآن و حدیث میں اس کی واضح بنیادیں موجود ہیں۔ مقدس آثار میں اولین ورثہ ’کعبہ ٔ مشرفہ ‘ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخی قدامت اورقدیم ترین تاریخی ورثہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کائنات ارضی میں پہلا گھر ہے، جو مکہ مکرمہ میں انسان کے عبادت کرنے 

No comments:

Post a Comment