Saturday, February 15, 2014

Accepting Offers of Peace امن کی پیشکش قبول کریں






مولانا وحید الدین خان
11 فروری 2014
قریش مکہ کی حملہ آوری ان کے اور مسلمانوں کے درمیان ایک جنگ کا سبب بنی۔ اس موقع پر جو آیتیں نازل کی گئیں ان میں سے چند یہ ہیں:
‘‘اور اگر وہ (کفار) صلح کے لئے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بیشک وہی خوب سننے والا جاننے والا ہے، اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشی’’۔ (8:61-62)
قرآن کی ان آیات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے مطابق امن ایک ایساراستہ ہے کہ جہاں تک بھی ہو سکے ممکنہ حد تک امن پر قائم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور اس حد تک امن بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے جب تک کہ اس سے کوئی خطرہ مستلزم نہ ہو اگر صورت حال ایسی بھی ہو تب بھی یہی نظریہ قبول کیا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ اگر حالت جنگ میں بھی فریق مخالف امن کی پیشکش کرے تو تاخیر کیے بغیر ہی اسے قبول کر لینا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر اس بات کا شک بھی موجود ہو کہ امن کی پیشکش میں کوئی دھوکہ دہی یا سازش شامل ہے تو بھی اس پیشکش کو قبول کیا جانا چاہیے، اس بات پر ایمان رکھ کر بھی فریق مخالف کے ساتھ امن قائم کیا جا سکتا ہے کہ اللہ ہمیشہ امن چاہنے والوں کے ساتھ ہےدھوکہ اور فریب دینے والوں کے ساتھ نہیں۔
اس سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ آج امن قائم کرنے کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں وہ بلند ہمت لوگ ہیں۔ اس دنیا میں لوگوں اور جماعتوں کو ہمیشہ ایک دوسرے سے کوئی نہ کوئی پریشانی ہوتی ہے۔ یہاں ہمیشہ حقوق کی پامالی اور نا انصافی کا مسئلہ پیش آتا رہے گا۔ ایسے حالات میں وہی امن قائم کر سکتا ہے جو کسی بھی قیمت پر امن قائم کرنے کے لیے دوسروں کو آمادہ کرے گا۔ صرف اس قسم کے باہمت لوگ ہی اس دنیا میں امن قائم کر سکتے ہیں۔ جن کے اندر ایسی ہمت نہیں ہو گی وہ صرف اختلافات ہی پیدا کر سکتے ہیں اور امن قائم کرنے میں اپنا کوئی تعاون نہیں پیش کر سکتے۔
ایک عظیم تدبیر


 

No comments:

Post a Comment