Sunday, February 15, 2015

Qur’an Does not Mention any Punishment for Apostasy قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ مرتد کو سزا دی جائے

Qur’an Does not Mention any Punishment for Apostasy قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ مرتد کو سزا دی جائے

امام سید شمشاد احمد ناصر ، نیو ایج اسلام
14 فروری، 2015
قرآنی ہدایت :
سورۃ القلم کی ابتدائی آیات کا ترجمہ پیش ہے جس میں بہت مفید نصائح مومنوں کے لئے بیان کی گئی ہیں۔              
۱۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہاء رحم کرنے والا بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
ن۔ قسم ہے قلم کی اور اسکی جو وہ لکھتے ہیں۔
تو اپنے رب کی نعمت کے طفیل مجنون نہیں ہے۔
اور یقیناًتیرے لئے ایک لامتناہی اجر ہے۔
اور یقیناًتو بہت بڑے خلق پر فائز ہے۔
پس تو دیکھ لے گا اور وہ بھی دیکھیں گے
کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے
یقیناًتیرا رب ہی سب سے زیادہ جانتا ہے اسے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہی ہدائت یافتہ لوگوں کو بھی سب سے زیادہ جانتا ہے۔
پس تو جھٹلانے والوں کی اطاعت نہ کر۔
وہ چاہتے ہیں کہ اگر تو لوچ سے کام لے تو وہ بھی لوچ سے کام لینگے اور تو ہرگز کسی بڑھ بڑھ کر قسمیں کھانے والے ذلیل شخص کی بات نہ مان جو سخت عیب جو اور چغلیاں کرتے ہوئے بکثرت چلنے والا ہے۔ جو بھلائی سے بہت روکنے والا، حد سے تجاوز کرنے والا اور سخت گناہگار ہے۔ (13۔1:68)
دہشت گرد کبھی کامیاب و بامراد نہیں ہوں گے:
مسلمانوں کے اندر آج کل ایسا فتنہ اٹھا ہوا ہے جس کا بظاہر کوئی علاج کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا۔ البتہ ہر شخص پریشان ہے۔ ہر ملک اس فتنہ کی بھینٹ بھی چڑھ رہا ہے اور بظاہر ہر شخص پر عزم لگتا ہے کہ اسے جڑھ سے اکھیڑنے میں وہ کامیاب ہو جائے گا۔
میں چند حقائق تو بیان کروں گا ہی مگر اس سے قبل مندرجہ بالا آیات جن کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے کہ بارے میں کچھ ذکر کر دوں۔
ان آیات میں ظالمین ، منکرین اور کافروں نے ، نیز منافقوں نے آنحضرت ﷺ کی ذات مقدسہ پر ’’مجنون‘‘ ہونے کا الزام لگایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اس کی تردید فرما دی کہ نہیں ایسا ہر گز نہیں کہ تو مجنون ہے بلکہ تو ’’بہت بڑے خلق پر فائز ہے‘‘ پس جس بات کی خداد تردید کر دے۔ اور بھلا کون ہے جو پھر اس عظمت اور اس منصب کی خدا سے زیادہ حفاظت کر سکتا ہے؟
خدا کے رسول کو ان کی زندگی میں کیا کیا دکھ نہ دیا گیا۔ کیا کچھ نہ کہا گیا اور برے القاب سے نوازا گیا مگر آپ نے ہمیشہ خوش خلقی کا مظاہرہ کیا۔ نہ کسی کو یہ کہا کہ چونکہ اس نے میری نعوذ باللہ اہانت کی ہے اسے قتل کر دو۔ اور نہ ہی خداتعالیٰ نے سارے قرآن شریف میں کہیں بھی اشارۃ یا کنایۃ اس کا ذکر کیا کہ تم اس شخص کی گردن زنی کر دو۔
ذرا حقائق سے پردہ اٹھائیں۔ اور حقیقت کی دنیا میں آئیں۔ تاریخی حقائق کو سامنے رکھیں۔
اگرچہ ان دہشت گردوں سے اس وقت بہت سے ملکوں میں بہت جانی نقصان ہورہا ہے مگر ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ دہشت گرد ناکام اور نامراد ہوں گے۔ یہ دہشت گرد کس کی پیداوار ہیں۔ اور یہ ہیں کون؟ وطن عزیز پاکستان میں تو ہر ایک کو معلوم تھا جیسا کہ اب بیانات سے ظاہر ہے کہ یہ کون تھے؟ اور ان کے عزائم کیا تھے۔ مگر وائے افسوس ارباب حل و اقتدار نے اپنی کرسی بچانے کی خاطر ان سے تعرض کیا اور کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔ میں تو کہوں گا کہ اگرچہ دہشت گردی کی بنیاد ملک میں پہلے سے تھی۔ مگر قانونی حیثیت اور قانونی بنیاد اس کی 1974 ؁ء میں بھٹو حکومت کے دور میں رکھی گئی جب احمدیہ جماعت کو قانون کی خاطر اسمبلی کے ارکان نے مولوی کے زیر اثر ’’ناٹ مسلم‘‘ قرار دیا ۔
اس وقت جماعت احمدیہ کے افراد نے کہا تھا کہ جس جن کو بوتل میں سے نکالنے لگے ہیں اور جسے قانونی حیثیت دینے لگے ہیں وہ جن کبھی بوتل میں واپس نہ جائے گا بلکہ اس کی زد میں اور لوگ اور فرقے بھی آجائیں گے مگر اس وقت یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ پھر 1984 ؁ء میں ڈیکٹیر ضیاء نے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے احمدیہ جماعت کے افراد کو السلام علیکم کہنے ۔ بسم اللہ پڑھنے لکھنے ، کلمہ پڑھنے ۔ آذان دینے اور دیگر باتوں سے قانونی طور پر منع کر دیا۔
اور آج حالت یہ ہے کہ اس قانون کی وجہ سے ہی تمام اقلیتیں اس کی زد میں آ گئی ہیں اور یہ ایک ایسی ننگی تلوار ہے جسے ختم نہیں کیا جا رہا جب تک یہ تلوار لٹکتی رہے گی دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس قانون کی آڑ ہی میں سب سنگین جرائم ہوئے ہیں اس کا نام آپ جو چاہیں دے دیں ۔
لیجئے چند دنوں کی کچھ خبریں ملاحظہ فرمائیں۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے حکام کے مطابق ضلع شکار پور کی امام بارگاہ میں دھماکے سے کم از کم 60 افراد ہلاک اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے واقع کی تحقیقاتی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھیڑنے کا عزم کئے ہوئے ہیں (بی بی سی اردو)
اس سے قبل جنوری 2013؁ء میں شکارپور شہر میں واقع درگاہ ، غازی شاہ میں بم دھماکے میں گدی نشین سمیت 4 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 
اس سے قبل ہزارہ میں بسوں میں سے آدمی نکال نکال کر ہلاک کر دئے گئے تھے۔
مسیح آبادی میں آگ لگا کر انہیں اجاڑ دیا گیا۔ ان کے چرچوں پر حملے کئے گئے۔ اسی طرح شعیہ لوگوں کی ۔ عیسائیوں کے چرچوں ، ہندؤں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے کے واقعات ہوتے رہے محض اسی قانون کی آڑ میں۔ جب کہ اس سے پہلے احمدیہ جماعت کے سینکڑوں افراد کو ایک ایک کر کے قتل کر دیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ مئی 2012 ؁ء میں لاہور میں دو مساجد پر حملہ کر کے 86 سے زائد افراد کو لقمہ اجل بنا دیا گیا۔سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
ارباب حل و اقتدار یہ کہتے تھکتے نہیں کہ وہ اسے جڑ سے اکھیڑ پھینکنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔مگر یہ دہشت گرد آخر کس کی پیداوار ہیں۔ انہوں نے کس کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ کیا یہ ایک دن میں پیدا ہو گئے ہیں کیا انہیں کسی کی پشت پناہی حاصل نہ تھی۔ یہ سب جانتے ہیں مگر اپنی کرسی بچانے کی خاطر ان سے ہمیشہ تعرض کیا گیا صرف یہی نہیں آئیندہ کرسی پر بیٹھنے کے لئے بھی انہی کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہیں۔ پس جب تک یہ قانونی حیثیت رہے گی اور جب تک ہر اس شخص کا محاسبہ نہیں ہو گا جو کسی پر ناموس رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر قید میں ڈلواتا ہے اور مولوی کے چیلے اس کے خلاف نعرے لگا کر نہ ہی انہیں زندہ جلانے سے دریغ کرتے ہیں نہ ہی ان کو قتل کرنے سے خوف آتا ہے نہ ہی ان کی اموال لوٹنے سے انہیں فرصت ہو گی۔ پس قانون کو ختم کرائیں۔ اور ہر شخص کا محاسبہ کریں۔ لیکن اب تک ہو کیا رہا ہے ۔لیجئے بی بی سی کی ہی خبر پڑھ لیں۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل اور مجرم ممتاز قادری کے وکیل اور لاہور ہائی کورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے والے فرانسیسی میگیزین پر حملہ کرنے والوں کو اپنا ہیرو قرار دیا ہے ۔ کیا اب بھی ارباب حل و اقتدار کو پتہ نہیں لگ رہا کہ دہشت گرد کون ہیں اور اسلام کے نام پر کون ظلم کر رہا ہے۔ اسلام کہیں اجازت نہیں دیتا کہ جو تحفظ ختم نبوت کے خلاف بات کرے۔ یا نعوذ باللہ ناموس رسالت پر حملہ کر کے اسے قتل کردو۔
ٰٓٓایک طرف تو عدالت یہ کہتی ہے کہ جب ملک میں توہین مذھب کا قانون موجود ہے تو پھر اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار عدالت کے پاس ہے کسی شخص کے پاس نہیں۔
مگر اب تک عملا کیا ہوا ہے اس پر کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پس کسی کو اختلاف عقیدہ اور خیالات کی بنا پر ، سزا دینا مجرم سمجھنا اور گرداننا اور اس کا بائیکاٹ کرنا وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے بارے میں معاشرہ کو مذھبی رواداری اپنانی پڑے گی۔ برداشت کا مادہ پیدا کرنا پڑے گا کیوں کہ اسی بات کا ذکر اوپر والی آیات میں ہے کہ اس میں رسول اللہ ﷺ ایک خلق عظیم پر فائز ہیں۔ خلق کا تو پتہ ہی اس وقت چلتا ہے جب ہر چیز مخالف ہو۔ عام حالات میں سچ بولنا، اس کی بھی حقیقیت ہے مگر اصلی سچ بولنا تو اس وقت ہوتا ہے جب جان کو خطرہ ہو پھر سچ بولا جائے۔
سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کر دے۔ ہر شخص کو مذھبی آزادی ہے ۔ سورۃ بقرہ میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں!
سورۃ نساء کی آیت 38میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے پھر انہوں نے انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر کفر میں اور بھی بڑھ گئے اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کر سکتا۔(نساء 138)
یہاں پر کہیں نہیں لکھا کہ مرتد کو سزا دی جائے اور اسے قتل کر دیا جائے۔ پس اسلام نے ہر ایک کو مکمل مذھبی آزادی دی ہے۔ اسی وجہ سے یہ امن پسند مذھب ہے ۔ اس کی تعلیم امن کی ہے یہ امن آشتی و صلح اور محبت اور رواداری کا مذھب پس جب تک ان تعلیمات پر عمل نہ ہو گا، کامیابی ممکن نہیں۔

No comments:

Post a Comment