Sunday, February 15, 2015

Sufism should not be promoted merely as a Western tool تصوف کو محض سیاسی انتہا پسندی اور مذہبی بنیادپرستی کے مقابلہ میں ایک مغربی آلۂ کار کی شکل میں فروغ نہ دیا جائے

Sufism should not be promoted merely as a Western tool تصوف کو محض سیاسی انتہا پسندی اور مذہبی بنیادپرستی کے مقابلہ میں ایک مغربی آلۂ کار کی شکل میں فروغ نہ دیا جائے
 


خصوصی نامہ نگار،  نیو ایج اسلام
13 فروری 2014
عصری جامعات کے  دانشوران، ریسرچ اسکالرز اور مفکرین نے مذہبی انتہا پسندی کے حملوں سے نمٹنے کے لئے تصوف اور فقہ حنفی کو تمام سنی مکاتب فکر میں سب سے زیادہ معتدل اور جامع افکار کا حامل  قرار دیا۔
 تاریخ میں ایران، افغانستان، وسطی ایشیا اور اناطولیہ (ترکی) کا ہندوستان اور خاص طور پر اس کے شمالی حصے سے بڑا گہرا رابطہ رہا ہے۔ مختلف مذہبی افکار و معتقدات اور متفرق نسلی، ثقافتی اور لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے ان علاقوں کے باشندے صدیوں سے پر امن بقائے باہمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جیسا کہ اس کا مشاہدہ ان کے درمیان وقوع پذیر ہونے والے  مذہبی نظریات و معتقدات کے متعلق تبادلۂ خیالات سے کیا جا سکتا ہے۔  مگر اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اور وسطی ایشیا میں تصوف کے روحانی سلاسل مضبوط ہیں جنہیں 7ویں اور 8ویں صدی میں فروغ حاصل ہوا تھا۔
ان افکار وخیالات کا برملا اظہار ہندوستان اور وسطی ایشیاءمیں تصوف اور اس کے خوبصورت روحانی عقائد وتعلیمات کی افادیت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں مولانا محمد علی جوہر انٹرنیشنل اسٹڈیز اکیڈمی کے اسکالرز اور مفکرین نے "ہندوستان اور وسطی ایشیا میں تصوف" کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کیا۔








  اس سیمینار کا مقصد وسطی ایشیا اور ہندوستان میں تصوف کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا اور خطے میں اس کے کردار کا ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا تھا۔ سیمینار میں ہندوستان، وسطی ایشیا اور دنیا کے دیگر حصوں کے متعدد ممتاز محققین، اسکالرز اور مفکرین نے شرکت کی۔ بنیادی طور پر انہوں نے صوفی ادب و لٹریچر کا سروے، مشائخ تصوف اور علم تصوف، صوفی معتقدات و معمولات کی اہم خصوصیات، ذات الہی کا تجرباتی علم، روحانی سلاسل کا قیام، تصوف کےروحانی معتقدات و معمولات اور ہندوستان اور وسطی ایشیا میں علاقائی صوفی مراکز اور ان کے باہمی روابط جیسے اہم موضوعات پر گفتگو کی۔ نامور مفکرین، تاریخ دان اور دیگر موضوعات کے ماہرین نے سماجیات، معاشیات، تاریخ، سیاسیات، ادب، انتھروپولوجی، لسانیات اور فلسفہ جیسے مختلف موضوعات کی روشنی میں تصوف  کے بوقلمونی گوشوں پر اپنے تحقیقی مضامین پیش کئے۔
 سیمینار میں پیش کیے گئے تحقیقی مضامین کا مرکزی عنوان یہ تھا کہ صوفیاء خالق کائنات اور اس کی تمام مخلوقات سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، قربت خداوندی کے حامل  اور مشتاق ہوتے  ہیں اور ابدی نجات حاصل کرنے کے لئے مذہب اسلام کے روحانی نظام پر چلتے ہیں۔ صوفیاء کی طرف سے پیش کیے گئے اسلام کی روحانی تشریح کے مطابق انسان کے لئے خدمت کے دو طریقے ہیں: وہ خلوت میں اللہ کی عبادت، ذکر ومراقبہ اور اس کی تسبیح و تحلیل میں مشغول رہے اور جلوت میں اس کی مخلوق خاص طور پر بنی نوع انسان کی خدمت کرتا رہے۔ صوفیاء ذات پات، نسل، مذہب، عقیدے اور جنس سے قطع نظر تمام لوگوں کی مدد کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ درحقیقت وہ آفاقی شعور اور انفسی بصیرت رکھنے والے معتدل، وسیع الفکر اور روشن ضمیر افراد ہوتے ہیں جو  اسلام کی اس روشن فکر پر عمل کرتے ہیں جس کی بنیاد محبت الہی اور انسانی ہمدردی پر ہے اور جو راست بازی، نیکی، سچائی اور رحم دلی کا بھی مظہر ہے۔
اس بین الاقوامی سیمینار کا افتتاح جوائنٹ سکریٹری وزارت امور خارجہ، حکومت ہند جناب شمبھو ایس کمارن نے کیا۔ پہلے اجلاس کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمدنے کی اور موصوف نے خطبہ استقبالیہ بھی پیش کیا۔ جب کہ جمہوریۂ آذربایجان کے سفیر ایچ ای ابراہیم اے ہاجیہ مہمان خصوصی تھے۔ جناب شمبھو ایس کمارن نے اپنے خطاب میں ہندوستان میں سماجی و مذہبی ثقافت کی ساخت پر روشنی ڈالی اور ایک تاریخی اور سیاسی نقطہ نظر سے وسطی ایشیا کے ساتھ ہندوستانی ثقافت  کا رابطہ ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ سینٹرل ایشیا سمیت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تصوف کے موضوع پر ہونے والی گفتگو میں مزید علمی بصیرت کا اضافہ ہونا چاہئے۔
 پروفیسر طلعت احمد نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں ہندوستان کی تاریخ میں صوفیاء کرام کے اہم کردار پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے تاریخی اور سیاسی نقطہ نظر سے ہندوستان کی سماجی و مذہبی ثقافت اور وسطی ایشیا کے ساتھ اس کے تعلقات کو اجاگر کرتے ہوئے اس موضوع کی اہمیت پر ایک جامع گفتگو کی۔ انہوں نے وسطی ایشیا سمیت ہندوستان میں تصوف کی پرامن سرگرمیوں پر خاص توجہ دیا۔
ایچ۔ای ابراہیم اے ہاجیہ نے ہندوستان اور وسطی ایشیا کے تناظر میں اسلام میں تصوف اور اس کی سماجی و سیاسی اہمیت پر علمی مباحث کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ساتویں صدی میں ہندوستان میں تصوف کی آمد کے بعد سے ہی وسطی ایشیا میں ہندوستانی ثقافت، سیاسی رویے اور اقتصادی تعامل کے تعین میں اس کا اہم کردار رہا ہے"۔ لہٰذا  اس کی تجدید و احیاء کا عمل نہ تو حیران کن بات ہے اور نہ ہی بعید از قیاس۔ "
دن کے پہلے پہر میں ہندوستان اور وسطی ایشیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے تاریخ اور تصوف کے کئی دیگر معروف علماء کرام نے اپنے مقالے پیش کیے۔ ان میں ممتاز ترین پروفیسر ایس۔ایم۔ عزیز الدین حسین اور ڈاکٹر سراج الدین ایس نرمیٹو  وغیرہ تھے۔ پروفیسر ایس۔ایم۔ عزیز الدین حسین نے کہا کہ " سوویت دور میں غیر سرکاری مذہبی سرگرمیوں پر پابندی کے باوجود تصوف کو عوام کی سطح پر بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہاں تک کہ اسلام کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کے تناظر میں بھی تصوف کو امن و سکون پھیلانے کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کے کئی حصوں پر تصوف کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ اسے مقبول عام و خاص مذہبی عقائد و معمولات کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے۔"
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبۂ پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر جناب زبیر نذیر نے وسطی ایشیا اور بالخصوص تاجکستان میں سیاست، حکومت اور ایڈمنسٹریشن پر تصوف کے اثرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: " تاجکستان کی سیاست اور انتظامیہ میں تصوف نے جو کردار ادا کیا ہے ہم اس سے واقف ہیں۔ سوویت دور میں بھی تصوف نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا جب کہ حالات بہت مشکل تھے۔ تصوف اور اسلامی روحانیت تاجکستان میں اسلامی ثقافت اور روایات کی حفاظت کے لیے ایک اہم قوت تھی۔ دراصل سوویت دور میں تاجکستان میں مختلف نسلی گروہوں کو جوڑنے والا قومی شعور اور قومی تشخص بھی براہ راست صوفی برادری کی کوششوں کا نتیجہ تھے’’۔
پروفیسر زبیر نذیر نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے  مزید کہا کہ: ‘‘تاجکستان میں خانہ جنگی کے دوران صوفی مشائخ نے امن وشانتی کو یقینی بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا اور اس تشدد و بربریت کی شدید مذمت کی تھی جس میں بہت سے تاجک باشندوں کی زندگیاں تباہ ہو چکی تھیں۔"
انہوں نے تصوف کے ساتھ منسلک روحانی اسلامی نقطۂ نظر کو فروغ دے کر انتہاپسندانہ مذہبی رجحانات کی روک تھام کے لئے تاجکستان کے سیاسی حکام کی پالیسیوں پر بھی گفتگو کی، جن کا تعلق قومی روایات کے تحفظ اور مذہبی وسماجی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے بعد کے ادوار میں دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرح تاجکستان کی حکومت اور مذہبی حکام نے بھی انتہا پسندی کے خلاف بہترین طرز عمل اپنایا اور انہوں نے نقشبندی سلسلہ سمیت صوفی حنفی فقہ کو فروغ دیا، جسے  چاروں مکاتب فکر(حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی)  میں سب سے زیادہ معتدل ، ہمہ گیر اور جامع تصور کیا جاتا ہے اور  جو ان کی رائے میں وسطی ایشیا کی اسلامی تاریخ  و روایات کی سب سے بہترین عکاسی کرتا ہے۔"
ازبکستان کے سفیر ڈاکٹر شیخ ایناگومو نے کہا کہ: "معاصر مسلم ممالک اور خاص طور پر وسطی ایشیا میں تصوف کی ناقابل تسخیر روحانی و وسماجی طاقت کو کم نہیں کیا جا سکتا"۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی ایشیا کی حکومتیں قومی منصوبے کے اہداف کو آگے بڑھانے اور حکومت کی جانب سے فروغ دیے جانے والے قومی ایجنڈہ اور پالیسیوں کا محرک بننے کی اس کی صلاحیت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔"
درگاہ اجمیر شریف کے گدّی نشین پروفیسر سید لیاقت حسین معینی نے کہا کہ ‘‘کسی بھی قسم کی مذہبی عدم رواداری تصوف یا اس کی روایات کا حصہ نہیں رہی ہے۔ تصوف نے ہمیشہ بقائے باہم، ثقافتی ہم آہنگی، مذہبی آزادی، اعتدال پسندی اور اجماع امت  و اتفاق رائے کی حمایت کی ہے۔’’
مشہور مورخ پروفیسر آئی۔ایچ صدیقی نے بھی اس موقع پر اپنا خطاب پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہندوستانی ریاستوں کی سماجی، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی ساخت پر تصوف کے اثرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مختلف تکنیکی سیشن پر مشتمل اس سمینار میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی، جموں یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، جواہر لال نہرو، نیشنل کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ ، کرکشیتر یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، جیسے مختلف ملکی تعلیمی اداروں کے علاوہ افغانستان، ازبکستان، ترکی، بیروت، قزاقستان، اور پاکستان جیسے دنیا کے مختلف حصوں سے پروفیسرز، محققین اور ماہرین علوم وفنون نے شرکت کی۔ سبھوں نے سیمینار میں متعلقہ ذیلی موضوعات پر تحقیقی مقالات پیش کئے۔
 اس علمی مباحثہ  کے دوران متعدد دانشوروں نے یہ رائے ظاہر کی کہ تصوف کا فروغ محض ایک بیرونی رجحان کے طور پر نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ تصوف کی تبلیغ حقیقی طور پر ظاہری اور باطنی صورت میں کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تصوف  کومحض بنیاد پرستی اور سیاسی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے مغربی آلۂ کار کے طور پر فروغ نہیں دیا جانا چاہئے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ  مغرب نے پہلے تو کمیونسٹوں سے لڑنے کے لئے جہاد کے نام پر افغانی مجاہدین کو فروغ دیا اور اب یہ مذہبی انتہاپسندوں اور بنیاد پرستوں سے لڑنے کے لئے تصوف کو فروغ دے رہا ہے جسے وہ اعتدال پسند سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تصوف کی تبلیغ ظاہری و باطنی طور پر حقیقی انداز میں کی گئی تو اس میں وہ صلاحیت ہے کہ اس نے ہمیشہ کامیابی کے ساتھ مذہبی انتہاپسندی کا مقابلہ کیا ہے اور انسانی ثقافتی، سماجی اور ہمہ جہت انسانی فلاح و بہبود کو فروغ دیا ہے ۔







  
اس سیمینار کے کوآرڈنیٹر مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ڈاکٹر ناصر رضا خان تھے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنا  تحقیقی مقالہ پیش کیا  بلکہ سیمینار کے اختتام پر تمام شرکاء اور سامعین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اخیر میں ڈاکٹر ایم اے انصاری آڈیٹوریم، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دیر شام کانفرنس کے ایک حصہ کے طور پر صوفی موسیقی اور قوالی کی ایک خصوصی ثقافتی تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔

No comments:

Post a Comment