Thursday, February 5, 2015

The study of Deen in the light of the Quran دین کا بنیادی مطالعہ قرآن کریم کی روشنی میں

The study of Deen in the light of the Quran دین کا بنیادی مطالعہ قرآن کریم کی روشنی میں

آفتاب احمد،نیو ایج اسلام
5 فروری، 2015
دین ایک ایسا لفظ ہے جس کی تشریح اور تعبیر خود قرآن کریم میں مختلف ہیں۔ قیامت میں عدالت الہیٰ کے لئے مالک یوم الدین (سورہ فاتحہ ) کہا گیا ہے۔کیونکہ اس دن اللہ کے دین کو غلبہ حاصل ہوگا اور کفر یعنی شیطان کے دین کو شکست ہوگی ۔پھر علماء عہد نے عہد بہ عہد جو تحریکیں چلائیں اس پہ اس لفظ کو منطبق کرکے رکھ دیا۔ مثلاً اقامت دین کو ایک نئی حکومت کے قیام کے لئے علامہ مودودی نے استعمال کیا۔اسی طرح اب مولانا وحیدالدین خاں علم کو اسلامیانے کے لئے استعمال کررہے ہیں اور اپنے الرسالہ کے ذریعہ اس کو فروٖغ دے رہے ہیں۔لیکن یہ سب محض فلسفے ہیں جو علماء عہد نے وضع کئے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ خود قرآن کریم نے اس لفظ پر زور دیا ہے تو خود قرآن نے اس لفظ کے کیا معنی لیاہے۔
لفظ اسلام اور مسلمین قرآن میں معتدد بار اللہ کے فرمابردار اور اللہ کی فرماں برداری کے معنوں میں مستعمل ہواہے۔ یعنی تاریخی اسلام سے قبل کے افراد جو اللہ پر ایمان لےآئے وہ بھی اپنے آپ کو مسلم کہتے تھے سبا کی رانی نے بھی حضڑت سلیما ن کے آگے اللہ پر ایمان لاکر ’’اسلمت‘‘ کہا۔ اسی طرح فرعون کے جادوگر وں نے بھی ایمان لاکر اپنے آپ کو مسلم قرار دیا۔ اسی طرح تمام ابنیاء خود کو مسلم یا اسلام قبول کرنے والا کہتے ہیں۔ لفظ اسلام اور مسلمین قرآن میں معتدد بار اللہ کے فرمابردار اور اللہ کی فرماں برداری کے معنوں میں مستعمل ہواہے۔ یعنی تاریخی اسلام سے قبل کے افراد جو اللہ پر ایمان لےآئے وہ بھی اپنے آپ کو مسلم کہتے تھے ۔
ان الدین عنداللہ الاسلام
یعنی دین کہتے ہیں اللہ کے سامنے جھک جانے کو۔ عنداللہ کے معنی ہیں ’’اللہ کے آگے‘‘ اور اسلام کے معنی خدا کے آگے مکمل خود سپردگی بلا کسی شرط کے۔ اس معنی کی توثیق سورہ الکفرون میں آیت لکم دینکم ولی دین سے ہوتی ہے۔ جس میں حضرت محمدﷺ دین کفر اور دین اسلام کو واضح فرماتے ہیں یعنی کہ کافروں کا دین الگ ہے وہ غیراللہ کے سامنے جھکتے ہیں یا شرک کرتے ہیں اور ہمارا دین یہ ہے کہ ہم اللہ کے سامنے جھکتے ہیں۔ یہی وہ پیغام ازلی ہے جو ہر نبی کو وحی کے ذریعہ عطا ہوا اور ہر بنی نے اپنی زبان میں اپنی قوم کو دیا۔ نبوت اور قرآن کریم کی زبان واضح ہے تو علماء عصر کا اپنی اپنی تحریکات پر اس لفظ کو منطبق کرنا اور خواہ مخواہ تعبیروں کی فہرست طویل تر کرنی اچھی بات نہیں ہے۔ ہمیں ان تعبیرات دین پر اعتراض نہیں جو دین یعنی اسلام کے بنیادی پیغام سے میل کھاتے ہیں۔
علامہ الیاس رحمتہ اللہ علیہ کی تحریک تبلیغ جس میں بنیادی طور پر نماز کی تبلیغ کے ذریعہ انسانوں کو اللہ کے سامنے جھکایاگیاہے قرآن کے مفہوم سے میل کھاتی ہے لیکن اس سے وابستہ افراد اکثرافراد کا ظاہری کردار ، اس تحریک کی کچھ پالیسیاں اور کچھ تکنیکی طریقے ہندوستان کے بعض قومی اور سماجی تناظر میں فٹ نہیں بیٹھتے ۔ لٰہذا علماء عہد اس کی اصلاح فرمائیں ۔
حضرت محمد ؐ تک آتے آتے انسانی نسل بت پرستی اور کفر و شرک میں مبتلا ہوچکی تھی جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کا گھر بنایا،نمرود کی دھکتی آگ میں توحید سے اپنی وابستگی کا امتحان دیا۔ خود حضرت ابراہیم کے دور تک انسانی معاشرہ ببت پرست، بادشاہ پرست اور مشرک ہوچکا تھا۔نمرود کے عہدمیں خود حضرت ابراہیم کے والد بتوں کی تجارت کرتے تھے لیکن اللہ نے حضرت ابراہیم کو ایک جلیل القدر پیغمبر کی حیثیت سے چن لیااور وہ روایات سابقہ سے اپنے انسلاکات کو توحید کی طرف موڑتے ہیں اور اپنی بت پرست قوم سے فرماتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو شرک سے بری کرتاہوں اور اللہ کی ذات کے آگے جھکتاہوں۔انی اسلمت لرب العالمین و انی بریّ مما تشرکون۔
دین ایک بنیادی و ازلی پیغام ہے جو اللہ نے اپنے تمام ابنیاء کے ذریعہ اپنے بندوں تک پہنچایا۔حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت ابراہیم اور پھر حضرت ابراہیم سے لیکر حضرت محمد ؐ تک ایک ہی پیغام دین تھا جو تمام انبیاء دیتے آئے لیکن جب نبوت تا نبوت کا وقفہ طویل تر ہوگیا توآدمی اللہ کو بھول کر اپنے نبی، باپ دادا، شیوخ وغیرہ کے آگے جھکنے لگا اور جب وہ مرگیا تو انکی تصویریں اور مٹی کے بت تیار کرلئے۔پھر آنے والے نبی نے ان شرکاء کی طرف سے ان کا ذہن صاف کیااور اللہ کے سامنے جھکا دیا۔جنکے قلوب پہ انکار حقیقت کی وجہ سے مہر لگادی گئی تھی وہ حق بات سننے سے قاصر رہے اور صم بکم عمی بن گئے اور اپنے سابقہ دین پر اڑے رہے اور جن کے قلوب صاف تھے انہوں نے بنی کی بات مان لی اور اللہ کے سامنے جھک گئے یعنی دین قبول کرلیا۔انہیں اللہ نے مغضوب کی فہرست سے نکال کر انعمت علیہم کی فہرست میں شامل کرلیا۔
دین محض ایک اہم مگر مختصر ترین تقاضا ہے وہ یہ کہ اللہ کو رب العالمین مان کر اسی کے سامنے جھکنا، عمل صالح کرتے رہنا۔ تکمیل نبوت در اصل تکمیل دین ہی تھی۔ اسی لئے اس کی صراحت اس وحی میں کردی گئی۔
’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔‘‘
URL:

No comments:

Post a Comment