Thursday, February 5, 2015

Message of Prophet Muhammad (pbuh) need of today's world آج دنیا کی ضرورت : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام

Message of Prophet Muhammad (pbuh) need of today's world آج دنیا کی ضرورت : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام

ڈاکٹر محمد بدیع
30 جنوری، 2015
اس وقت پوری دنیا کو کسی ایسی ہستی  کی اشد ضرورت ہے جو انسانیت کو ظالمانہ مادی طوفان سے نجات دلا سکے ، جو اسے اخلاقی تباہی، روحانی خلا، معاشرتی ظلم  اور نسلی امتیاز کی دلدل سے باہر نکال سکے، جو انسانیت کو اصول و قانون اور اقداوروایات کی پامالی سے روک سکے۔ اس پامالی نے انسان کو تھکا ڈالا ہے، اُس  کو حقو ق سےمحروم کر رکھا ہے اور عزتِ نفس کو مجروح کرکے رکھ دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ  یہ سلسلہ انسان کو تعذیب و تشدد سے دو چار رکھنے تک جا پہنچا ہے۔حتیٰ کہ دین، اخلاق اور ضمیر کی آواز کو خاطر میں لائے بغیر بے گناہ بچوں اور عورتوں کا خون بہانا اور انہیں قتل کرنا معمول بن گیا ہے۔ برباد ہوتی انسانیت کو اس بد ترین صورت حال سے وحی الہٰی  اور اللہ تعالیٰ  کے فرستادہ رسول کی ہدایت کے سوا کوئی نجات نہیں دلاسکتا ، اور یہ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں  کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اور رحمت اللعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
نزول وحی اور بعثتِ انبیاورسل کا سلسلہ تخلیقِ آدم اور حضرت آدم علیہ السلام و حوا علیہ السلام کے زمین پر آباد ہونے کےساتھ ہی شروع ہوگیا تھا، تاکہ انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ طریق زندگی سے آگاہ کیا جاسکے۔ یہ مخلوق  پر اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی کہ انبیا ورسل کی تعداد اچھی  خاصی رہی ، حتیٰ کہ بعض اوقات تو ایک سے زائد نبی ایک ہی زمانے میں بھیجے گئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، اور حضرت لوط علیہ السلام  کا زمانہ نبوت ایک ہی ہے۔اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کا زمانہ بھی ایک ہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام  ہیں ۔ حصرت ذکریا علیہ السلام ، حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک ہی عہد کے نبی گزرے ۔ یہ تمام نبی صرف اپنی اپنی  اقوام کی طرف بھیجے گئے ۔ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل میں آخری نبی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی تصدیق فرمائی اور بنی اسرائیل  پر سے اُن پابندیوں کو ہٹا یا جو اُن  کے اپنے ظلم کی بنا پر تھیں ۔ نبوت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی آخر الزماں  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت بھی دی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نےواضح کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے بشیر و نذیر ہوں گے۔ قرآن کے بیان کے مطابق : ‘‘ اور یاد کرو عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم علیہ السلام  کی دو بات جو اس نے کہی تھی کہ  ‘‘ اے بنی اسرائیل ! میں  تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، تصدیق کرنے والا ہوں اُس رات کی ، جو مجھ سےپہلے آئی ہوئی موجود ہے اور بشارت  دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے  بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔’’ ( الصّف 61:6)
یہ  تو قرآن مجید کا بیان ہے۔ خود لفظ ‘ انجیل’ کا سریانی زبان میں مفہوم ‘ بشارت’ اور ‘ خوش خبری’ ہے۔ انجیل یوحنا  میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بقول : ‘‘ جب یہ روحِ حق ( کا داعی نبی) آجائے گا تو وہ مکمل حق کی طرف سے نہیں بولے گا بلکہ وہی کہے گا جو وہ سنے گا ، اور وہ آئندہ کے امور کے بارے میں  بھی تمہیں خبر دے گا۔’’ ( یوحنا :12:61) انجیل برنا باس میں ہے: ‘‘ عنقریب اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا نمائندہ ( رسول) آئے گا جو پوری دنیا کے لیے رسول ہو گا۔۔۔ پھر اس وقت پوری دنیا میں اللہ کو سجدہ کیا جائے اور دنیا پر رحمت سایہ فگن ہوگی’’۔ ( 18:16:82)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے درمیان 576 سال کا طویل وقفہ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزماں  بن کر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت و رسالت کو چودہ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن کوئی اور نبی نہیں  آیا ۔یہ بات اس عقیدے کو قطعی و حتمی اور وحی الہٰی کو حق ثابت کرتی  ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی آخری نبی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی قیامت تک آخری نبی ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی رسالت کے دائمی او ر عالم گیر ہونے کے اسباب ساتھ لے کر آئے ۔ آج دنیا کے ایک حصے کا دوسرے حصے کے ساتھ رابطہ نہایت آسان ہوچکا ہے، لہٰذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے عالم گیر پھیلاؤ کی خبر سچ ثابت ہو چکی ہے: ‘‘ یہ دین  وہاں تک پہنچ کررہے گا جہاں رات دن کا سلسلہ قائم ہے۔’’ اور فرمایا : ‘‘ یہ دین کسی شہری ، دیہاتی اور پتھر کے عہد کے گھر میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔’’
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو 40 برس کی عمر میں نبوت عطا ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر  کے اگلے 23 برس اس طرح گزارے کہ اللہ تعالیٰ  کے نازل کردہ طریق زندگی کی سب سے پہلے اپنی ذات پرنافذ کیا ۔ پھر اپنے اہل خانہ پر پھر اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ  پر اور پھر تمام لوگوں پر اس کا نفاذ فرمایا۔  آپ لوگوں کے درمیان رہتے اور انہیں  یہ تعلیم دیتے رہے کہ  آسمانی طریق کے مطابق زمین پر زندگی کیسے گزاری جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے عقیدے کو درست کرتے رہے ، عبادات کی وضاحت کرتے رہے، اخلاقی رویوں کی اصلاح کرتے رہے، اور لوگوں کے کردار کو بہتر بناتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت نافذ کرتے اور معاملات کو سدھارتے رہے۔ اس ساری جد و جہد کا مقصد پوری انسانیت کے لیے عدل و مساوات کو ممکن بنانا تھا تاکہ انسان بیک وقت دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرسکیں ۔ ‘‘ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ہو وہ مومن ، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ( آخرت میں ) ایسے لوگوں کو اُن کے اجر، اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے ۔’’ ( النحل  97:16)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم واحد نبی ہیں جن کے ہر قول و عمل بلکہ خاموشی پر مبنی کیفیت کو بھی محفوظ کر لیا گیا ۔ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے پورے 63 برس کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی کتاب قرآن مجید  کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بھی تمام انسانیت کے لیے قیامت تک دائمی ہدایت کے طور پر باقی رکھنا تھا ۔
نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو عدم سے وجود میں لاکر اور اُسے کمال کے درجوں پر پہنچا کر دکھایا۔ پھر اس اُمت کی روشنی پھیل  گئی ۔ اس کے اصولوں نے دنیا کی اور تین براعظموں پر اس کی حکمرانی کا دور دورہ رہا ۔ یہ سب کچھ صرف 30 برس کے بھی کم عرصے  میں ہوا۔ اس کے بعد اس اُمت کا نور مزید پھیلا او رمشرق اور مغرب کی تمام تر انسانیت کو منور کرتا رہا۔ یہ نور یوروپ  پہنچا تاکہ اُسے قرون وسطیٰ کے اندھیروں سے نکال کر تہذیب و تمدن  کی روشنی میں کھڑا کردے۔ تہذیب و تمدن کی یہ روشنی اسلامی تہذیب کے گہوارے اندلس کے توسط سے بلادِ غرب کو نصیب ہوئی۔ اس بات کی شہادت  مشرق و مغرب کے تمام انصاف پسندوں نے دی ہے۔ رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے روح اور جسم کے درمیان  عادلانہ توازن قائم فرمایا، تاکہ انسان کو نفسیاتی سکون مہیا ہو سکے ۔ عین اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو آخرت کے لیے عمل کرنے کی ترغیب دی ،انہیں یہ حکم بھی  دیا کہ وہ دنیاسے اپنا حصہ وصول کرنا نہ بھول جائیں ۔ ‘‘ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔’’ ( القصص 77:28)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے لیے گھر یلو امن و سکون کو ممکن بنا دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان  کے فطری  تقاضے کی تکمیل  ، نفس کی پاکیزگی اور معاشرے کی تطہیر  کے ساتھ زمینی آبادی کی غرض کو پورا کرنے کے لیے شادی کا حکم دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے بندھن کو اس قدر اعلیٰ تقدس عطا کیا کہ اسے پختہ معاہدے ( میثا قاً غلیظاً) کا نام دیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کے تعلقات کو گھر کی سربراہی ، اخراجات ، بچوں کی نگہداشت اور وراثت کے اُمور کی صورت میں باقاعدہ قانونی نظام کا پابند کردیا ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےانسان اور اس کے ماحول کے درمیان بھی ایک توازن  قائم کیا ۔ یہ توازن انسان کو کائنات کے وسائل سے استفادے کے مواقع بھی فراہم کرتاہے اور ساتھ ہی ماحول کو آلودہ ہونے سے بچنے  اور اُسے صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری بھی سونپتا ہے ۔ کیونکہ اس ماحول میں صرف  ایک ہی انسان کے حقوق نہیں ہیں بلکہ کئی نسلیں اس سے  مستفید ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ زمین میں خرابی پیدا کرنے سے منع کیا گیا ہے: ‘‘زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے’’ ( اعراف 56:7) بلکہ زمین کی آبادی اور اس کی بہتری و ترقی کا حکم فرمایا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاشت کاری  کی ترغیب اور بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا حکم دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل اس وقت بھی انجام دینے کا حکم فرمایا جب قیامت قائم ہوجائے ۔ فرمایا :  ‘‘ جب قیامت قائم ہوجائے  اور تم میں سے کسی  کے ہاتھ میں شجر کاری کے لیے ایک کھجور کا پودا ہو تو بھی وہ اسے لگا دے’’۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالتِ جنگ میں بھی آبادی  کی حفاظت اور اس کے اوپر رحم کا حکم دیا ہے۔ فرمایا : ‘‘ اللہ کے نام پر لشکر کشی کرو، کسی بچے، عورت اور عمر رسیدہ بوڑھے کو قتل نہ کرو، کسی مکان کو مسمار نہ کرو اور کسی  درخت کو نہ کاٹو’’۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ رحمت و شفقت انسان سے شروع ہوئی اور حیوان تک کےلیے عام ہوگئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘ اللہ تعالیٰ نےاُس آدمی کو بخش دیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا جو پیاس کی شدت سےکیچڑ کھا رہا تھا ’’۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے : ‘‘ ہر زندہ چیز ( کےساتھ اچھا برتاؤ کرنے) پر تمہارے لیے اجر ہے۔’’
اسی بنا پر انگریز مؤرخ ولیم میور نے اپنی کتاب ( Life of Muhammad) میں کہا ہے : ‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات کے واضح ہونے اور دین کے آسان ہونے کے اعتبار سے ممتاز حیثیت  رکھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکاموں کو ایسے  مکمل کر دکھایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تاریخ  نے کوئی  ایسا مصلح  نہیں دیکھا  جس نےاتنے مختصر عرصے میں اس طرز پر دلوں کو بیدار کیا ہو، اخلاق کو زندگی بخشی  ہو اور اخلاق قدروں کو بلند تر کردیا ہو۔ جس طرح پیغمبر اسلام ( حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا۔’’
عظیم روسی فلسفی ٹالسٹائی نے کہا : ‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بانی اور رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن عظیم ترین افراد میں سے ہیں  جنہوں نے انسانی معاشرے کے لیے جلیل القدر  خدمات انجام دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت کی نور حق کی طرف رہنمائی کی ، اسے سکون و سلامتی سے ہم کنار کردیا اور اس کے لیے تہذیب و ترقی کی شاہراہ کھول دی۔’’
امریکی دانش و رمائیکل ہارٹ کہتا ہے : ‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ انسانی میں واحد انسان ہیں جنہو ں نے دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں کامل کامیابی  حاصل  کی اور سیاسی و عسکری قائد قرار پائے’’۔ فرانسیسی فلسفی والٹر کہتا ہے : ‘‘محمد صلی اللہ علیہ وسلم جتنے طریقے بھی لائے وہ تمام نفس کو مطیع کرنے اور اُسے مہذب بنانے والے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےحیرت انگیز حد تک ان طریقوں کا حُسن و جمال دین اسلام میں پیدا کیا ۔ اسی  لیے تو دنیا کی متعدد قومیں اسلام لے کر آئیں ،حتیٰ کہ وسط افریقہ کے زنگی اور جزائر بحر الکاہل کے باشندوں نےبھی اسلام کے سایے تلے سکون محسوس کیا۔’’
معروف انگریز مصنف برنارڈ شا کہتا ہے : ‘‘ آج دنیا کو محمد جیسی  شخصیت کی شدید ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا کے پیچیدہ و مسائل کو اتنی دیر میں حل کردے جتنی دیر چائے کی ایک پیالی  پینے  میں لگتی ہے۔’’ وہ کہتا ہے: ‘‘ یورپ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و دانائی  کو محسوس کرنے اور اُن  کے دین  کی طرف کھینچنے  لگاہے۔ اسی طرح یورپ اسلامی  عقیدے کو ان الزامات سے بھی جلد پاک  کردے گا جو قرون وسطیٰ میں یورپ کے دروغ گو افراد نے لگائے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہی  وہ نظام ہوگا جس کے اوپر امن و خوش حالی کے ستون استوار ہوسکیں گے ۔ پیچیدہ مشکلات کے حل اور گنجلک امور کی عقدہ کشائی کے لیے فلسفۂ اسلام ہی کا سہار ا لیا جائے گا’’ برنارڈ شا نے تو خوش خبری  میں یہاں  تک مبالغے سے کام لیا ہے: ‘‘ میرے ہم وطن اور دیگر  یورپی کثیر تعداد میں اسلام کی تعلیمات  کو مقدس جانیں گے۔ اسی لیے میرے لیے یہ ممکن  ہوا  ہے کہ میں یہ خوش خبری دوں کہ اسلامی عہد کی ابتدا قریب ہے’’۔
دنیائے مغرب کو چاہیے کہ وہ اپنے دانشوروں کی آواز اور فلسفوں کے اقرار و اعتراف کو سُنے اور رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو برُا بھلا کہنے کے بجائے علمی اور شائستہ انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف حاصل کرے۔ تاکہ ، اُسے معلوم ہوسکے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ہی کی رسالت واحد رسالت ہے ، جو اُن کی مادی تہذیب کو روحانی ترقی اور اخلاقی بلندی سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ یہی انہیں  آخرت کی سعادت، دنیا کی فلاح اور قلب و ضمیر کا اطمینان و سکون فراہم کرسکتی ہے۔
ہر محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ حقیقتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام بردار بننے  او رپوری امانت داری کےساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو حقیقت  کے متلاشیوں  تک پہنچائے اور دنیا میں  پھیلادے ۔ دنیا آج ایک گاؤں بن گئی ہے، جس میں انفرادی و اجتماعی ربط و تعلق کے ذرائع اپنے عروج کو پہنچ چکے ہیں ۔ اس بنا پر ہمارے لیے ممکن  ہے کہ ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو دنیا کے تمام گوشوں میں پھیلا دیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نور تمام دنیا میں پھیل جائے ۔‘‘ کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی ، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنےوالوں  سےمیرا کوئی واسطہ نہیں ۔’’ ( یوسف 12:108)
30 جنوری، 2015  بشکریہ : روز نامہ خبریں، نئی دہلی
URL:

No comments:

Post a Comment