Monday, July 2, 2012

عورت اور ا ن پر مردوں کی جھوٹی فضیلت : قسط 30, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
عورت اور ا ن پر مردوں کی جھوٹی فضیلت : قسط 30
درحقیقت نکاح کا یہ اصول کی روٹی ٹکڑے کا آرام ہو جائے ایک فرع ہے اس عام غلط اصول کی کہ عورت مر د کے آرام کے لئے ہے۔ اسی وجہ سے باپ بیٹوں کو خدمت گار سمجھتا ہے۔ بھائی بہنوں کو خدمت گار جانتا ہے اورمیاں بیوی کو باندی بنا کر رکھتا ہے اور اس اصول کی بنیاد ہے خود غرضی اور طمع کیونکہ بحالت مساوات حقوق زن و مرد اخراجات خانگی المضاعف ہوجاتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ اصول اپنی اصلی صورت میں نمایاں ہوتا ہے جب کہ بعض لوگ ایسے امری شخص کی بیٹی سے شادی کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں جو اولا د نرینہ نہ رکھتا ہو کہ بیوی کی بدولت مال کے وارث بنیں ۔ پس جب جوروں کی کمائی کھانا نکاح کا اصول ٹھہرا تو ایسے اصول پر چلنے والوں کو کیا ضرورت ہے کہ بیوی کے پسند اور منتخب کرنے کی زحمت اٹھائیں نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ ناموافقت مزاج ہونے کی وجہ سے جو اس قسم کے نکاحوں کو با الطبع لازم غیر منفک ہے تمام عمر عذاب میں گزرتی ہے اور اصلی نکاح سے جس قدر برکتیں اور راحتیں پیدا ہوتی ہیں اتنی ہی ان نکاحوں سے رنجشیں اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اور آخر کار بجز اس کے کوئی چارہ نہیں پاتے کہ اس شادی کو جو ماں باپ نے کرائی تھی کا لعدم سمجھ کر کسی اور عورت کو جو خوش صورت وخوش سیرۃ ہو رفیق بنائیں ۔مگر قوم کی حالت وستور اجازت نہیں دیتا کہ اپنا اختیار وپسندیدیگی پورے طور پر کام میں آسکے۔ ہر چند رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہے کہ نکاح کرنے سے پہلے دیکھ لو مباد ا ن میں کوئی عیب یا ایسا امر ہو جو بعد نکاح موجب ناموافقت ہو مگر کون خدا اور کس کا رسول ۔یہاں فرضی ناموس اکبر سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ لاچار شرفا کے بچے بجز کسبیوں کے اور کسی کو نہیں پاتے جو اس حکم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کااستعمال اپنے پر ہونے دیں ۔لاچار ہو کسبیو ں کو گھر میں ڈالتے اور شریف خاندانوں کو بدنام کرتے اور اپنے بڑوں کی عزت کو جو ضروری ڈوبنی چاہئے تھی ڈبو تے ہیں۔

No comments:

Post a Comment