Thursday, January 22, 2015

Light up the World with the name of Muhammad (PBUH) دہر میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اجالا کردے




حامد میر
15 جنوری، 2015
سیاسی مغالطے کچھ کم نہ تھے کہ شعر و ادب پرمغالطوں کے سائے لہراتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آج کل یورپ کے کئی اخبارات و جرائدآزادی ٔ اظہارکے نام پراسلام اور مسلمانوں کے خلاف گستاخیوں میں مصروف ہیں۔ یورپ یا امریکہ میں دہشت گردی کے ہرواقعے کے پیچھے پاکستان کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض مغربی دانشوروں نے یہ الزام بھی لگانا شروع کیا ہے کہ پاکستانیوں میں انتہاپسندی کی ایک وجہ پاکستان کا قومی شاعر علامہ اقبالؒ بھی ہے جو مسولینی کی فاشزم سے متاثر تھا۔
مسولینی اٹلی کا حکمران تھا جس نے ہٹلر کے ساتھ اتحاد کیا تھا ۔ کچھ مغربی دانشور1931میں علامہ اقبالؒ کی مسولینی کے ساتھ ایک ملاقات کو بنیاد بنا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کا قومی شاعرمسولینی سے متاثر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1931میں علامہ اقبالؒ لندن سے واپس آ رہے تھے جب وہ روم پہنچے تو اٹلی کی فاشسٹ پارٹی کے سربراہ اور ملک کے حکمران مسولینی کو پتہ چلا کہ برصغیر پاک و ہند کا ایک بہت بڑا شاعر اس کے شہر میں موجود ہے۔ مسولینی نے علامہ اقبالؒ کو ملاقات کا پیغام بھیجا۔ اقبالؒ ملاقات کے لئےپہنچے تو مسولینی نے پوچھا کہ میری فاشسٹ تحریک کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟ اقبالؒ نے کہا کہ آپ نے نظم و ضبط کو بڑی اہمیت دی ہے جواسلام کے نظام حیات میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے لیکن اگر آپ اسلام کا پورا نظام حیات اپنالیں تو پورا یورپ آپ کےتابع ہوگا۔ مسولینی نے علامہ اقبالؒ سے کوئی اچھی سی نصیحت کی فرمائش کی تو فلسفی شاعر نے کہا کہ ہر شہر کی آبادی مقرر کرکے اسے ایک حد سے نہ بڑھنے دیں۔ آبادی حد سے بڑھ جائے تو پھرنئی بستیاں بنائی جائیں۔ مسولینی نےحیران ہو کر پوچھا کہ اس میں کیا مصلحت ہے؟ علامہ اقبالؒ نے جواب میں کہا کہ شہر کی آبادی میں جس قدراضافہ ہوتا ہے اس کی تہذیبی و اقتصادی توانائی کم ہوجاتی ہے اورثقافتی توانائی کی جگہ برائیاں لے لیتی ہیں۔ اقبالؒ نے مسولینی کو بتایا کہ یہ میرا ذاتی خیال نہیں ہے بلکہ میرے پیغمبر حضرت محمدﷺ نے 13سو سال قبل یہ ہدایت فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کرجائے تو شہر میں مزید لوگوں کوآبادکرنے کی بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔ یہ حدیث سنتے ہی مسولینی کرسی سےکھڑا ہو گیا اور دونوں ہاتھ میز پرمار کر کہا ’’کتناشاندار خیال ہے۔‘‘
اٹلی سےواپسی پر علامہ اقبالؒنے مسولینی کے بارے میں کہا:
فیض یہ کس کی نظر کا ہے؟ کرامت کس کی ہے؟
وہ کہ جس کی نگاہ مثلِ شعاعِ آفتاب
لیکن جب اقبالؒ کومسولینی کے ظلم و ستم اور ہوس ملک گیری کی خبریں ملنے لگیں تو پھرفرمایا:
اے وائے آبروئے کلیسا کا آئینہ
روما نے کردیا سر بازار فاش فاش
علامہ اقبال ؒ کو مغرب میں سب سے پہلے پروفیسر نکلسن نے متعارف کروایا۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ 1915میں شائع ہوئی اور نکلسن نے 1920میں ’’اسرارِ خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ برطانیہ میںشائع کیا۔ اٹلی میں پروفیسر بوزانی نے اقبالؒ کواطالوی میں ترجمہ کیا۔ 1955میں فرانس کی ادبیہ ایواماریوچ نےاسلام کےمتعلق علامہ اقبالؒ کے خطبات کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا اور یہ خطبات پڑھ کر وہ خود بھی مسلمان ہوگئیں۔ جرمن دانشور ڈاکٹراین میری شمل نے ’’جاویدنامہ‘‘کا 1957میں ترجمہ کیا اور اقبالؒ کے ذریعہ ڈاکٹرشمل کو رومیؒ جیسے صوفی سے آشنائی ملی۔رومیؒ کا پرستار اقبالؒ فاشسٹ کیسے ہوسکتا ہے؟ اقبالؒ پر تنقید اور بے بنیاد الزامات کی بڑی وجہ اسلام اور نبی کریم ﷺکے ساتھ ان کی محبت ہے۔ یہ وہی اقبالؒ ہے جس پر نامی گرامی علما نےکفر کے فتوے لگائے تھے اور آج کچھ لبرل اور سیکولر دانشوراقبالؒ کو مذہبی انتہاپسند بھی کہتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کو انتہاپسند کہنے والوں کو لبرل فاشسٹ کہا جائے تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ لبرل تو فاشسٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر لبرل فاشسٹ کوئی شے نہیں تو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کےمحبوب نبی حضرت محمد ﷺکامذاق اڑانا کیا ہے؟ ہر سچا مسلمان اقبال ؒ کےان الفاظ میںاپنے پیارےنبی ﷺ سےمحبت کرتا ہے:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
عام پاکستانیوں کی اقبالؒ سے محبت اور عقیدت کا یہ عالم ہے کہ ہر اچھا شعر اقبالؒ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اقبالؒ کے حوالے سے یہ شعرسنا ڈالتے ہیں۔
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
مذکورہ شعر علامہ اقبالؒ کا نہیں بلکہ سیالکوٹ کے ایک شاعر صادق حسین صادقؔ کا ہے۔ ایک اور مشہور شعر بھی اقبالؒ سےمنسوب کیاجاتا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ شعر اقبالؒ کا نہیں بلکہ مولانا ظفر علی خان کا ہے۔ پاکستان میں اقبالؒ کے بعد جن شاعروں کو بہت پذیرائی ملی ان میں فیض احمدفیضؔ بہت اہم ہیں۔ فیض صاحب نےہمیشہ اقبالؒ کوعلم و ادب کا ایک سمندرقرار دیا لیکن مغالطوں کے شکار لوگ اگر اقبالؒکو عاشق رسول ﷺ قراردیتے ہیں تو فیض کو دہریہ اوردین سےبیزار کہتے ہیں۔ اگرفیض کو ایک ترقی پسندانقلابی شاعرکہتے ہیں تو اقبالؒ کو مذہبی انتہاپسند قرار دے کر خود کو اہم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقبالؒ اور فیض دو مختلف ادوارکے شاعر ہیں لیکن دونوں عاشق رسول ﷺہیں۔ فیض کی ایک فارسی نعت کا شعر ہے۔
اے تو کے ہست ہر دل محزوں سرائے تو
آوردہ ام سرائے دِگر از برائے تو
ترجمہ (اے حضورؐ! ہررنجیدہ دل آپ کی رہائش گاہ ہے۔ میں بھی ایک اور رہائش گاہ آپ کے لئے لایا ہوں تاکہ آپ میرے دل میں قیام کرکے میرے درد سےآشنا ہوجائیں) اسی نعت کاایک اور شعر ہے:
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویشِ ملک و مال
ہر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
ترجمہ (حاکم جو تخت پر بیٹھا ہے وہ ملک اوردولت کی فکر کا غلام ہے آپ کاخاک پر بیٹھا ہوافقیر شہنشاہ ِ وقت کے لئے حسرت اور رشک بناہوا ہے)
فیض کوئی مذہبی آدمی نہ تھے لیکن ان کی نعت کے اشعار ایک دنیادار مسلمان کی اپنی پیارے نبی ﷺ سے محبت کی عکاسی کرتے ہیں۔ آج جب مغرب میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کے توہین آمیز خاکے اور کارٹون شائع کئے جارہے ہیں تواس پرہمیں ضروراحتجاج کرنا چاہئے لیکن یہ احتجاج پرامن ہونا چاہئے۔ پرامن احتجاج کی طاقت پرتشدد ردعمل سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ پیرس کے مزاحیہ جریدے کے غیرمسلم ایڈیٹرک نے ایک غیرمسلم کارٹونسٹ کا توہین آمیز خاکہ شائع کرکے یقیناً ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچائی لیکن ان لوگوں کےبارے میں کیاخیال ہے جنہوں نے راولپنڈی کی ایک امام بارگاہ میں محفل میلادپرحملہ کیا اور اپنے پیارے نبی ﷺپر درود و سلام بھیجنے والوں کے جسموں کے ٹکڑے اڑا دیئے؟ کیا یہ بھی اسلام کے دشمن نہیں؟ ہمیں اپنےنبی ﷺ سے عشق کی قوت کو تشدد کے لئے نہیں روشنی پھیلانے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ اقبالؒ عالم دین نہیں تھے لیکن ان کی تحریر میں اتنی طاقت تھی کہ فرانس کی ادیبہ نے اسلام قبول کرلیا۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کردے
15 جنوری، 2015  بشکریہ: روز نامہ جنگ ، کراچی
URL:

No comments:

Post a Comment