سید عبدالرافع
وزیر اقلیتی امور سلمان خورشید نے ملک کے مسلمانوں سے یہ کہا ہیکہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ریزرویشن ایک دودھاری تلوار ہے اور جو بعض وعداوت ،دشمنی درقابت اورمخالفت ومزاحمت کا سبب بنے گی۔ اپنی وزارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد مسٹر سلمان خورشید نے پہلی بات مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کے سوال پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جب کہ ان کے پیش رو مسٹر عبد الرحمن انتولے اپنی پوری وزارتی مدت کے دوران اس مسئلے پر بالکل خاموش رہے ۔ انہوں نے مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کی نہ تو مخالفت کی تھی اورن نہ ہی حمایت ۔ انہوں نے ملت کے سامنے کوئی متبادل بھی کبھی نہیں رکھا ۔ لیکن ان کے جانشین نے ایک خصوصی انٹرویومیں مسلم ریزرویشن کے مضمرات پر بھی روشنی ڈالی اورمتبادل کے طور پر چند نکات بھی پیش کئے۔ جہاں تک مضمرات کا تعلق ہے تو اس سے بہرحالانکارنہیں کیا جاسکتا ۔ ریزرویشن بلاشبہ ایک دودھاری تلوار ہے جو اگر استعمال کی گئی تو مسلمانوں کو اس سے فائدہ تو کم پہنچے گا البتہ اس کے نقصانات خاصے ہوں گے۔ کیونکہ مسلم ریزرویشن کے سوال پر بی جے پی نے ملک کے اندر جس طرح ماحول سازی کی ہے اور اس کو جس طرح مسلمانوں کے مذہب سے جوڑدیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ ملک گیر سطح پر مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردے گی۔ حالانکہ ریزرویشن کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں ہے ۔ اور مسلمان بھی صرف اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ دلتوں کو بھی اقتصادی پسماندگی کی بنیاد پر ہی ریزرویشن دیا گیا ہے اور اسی بناپر ہندوؤں کی اعلیٰ ذات کے لوگوں کو بھی ریزرویشن دینے کی بات کہی جاری ہے اور جس میں خود بی جے پی پیش پیش ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ اور اس میں کی گئی سفارشات کی بی جے پی نے جس شدت کے ساتھ مخالفت کی تھی اس سے کون ہے جو واقف نہیں۔ ان سفارشات پر پارٹی نے حق وانصاف کے تقاضوں کو درکنار کرتے ہوئے مسلم نوازی اورمسلم منہ بھرائی کا لیبل چسپا کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ اور اگر مسلمانوں کو ریزرویشن مل گیا تو اس کے مخالفت ومزاحمت میں وہ کسی بھی پستی تک جاکستی ہے ۔ البتہ اگر حکومت مضبوط ہو اور پارلیمنٹ میں اس کے پاس آنکڑے بھی ہوں اور وہ انتخابی سیاست کی مجبوریوں کو نظر انداز کرنے کا حو صلہ بھی رکھتی ہو تو مسلمانوں کو ریزرویشن دینا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی سفارشات کی منظوری اور ان کے نفاذ کے معاملے میں جس طرح کا تذبذب، تامل ،پس وپیش کا مظاہرہ ہوا ہے اس کے پیش نظر کیوں کر یہ امید رکھی جائے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن مل ہی جائے گا۔سچر کمیٹی کی سفارشات کے علاوہ رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ بھی ابھی تک حکومت کے ٹھنڈے بستے میں پڑی ہوئی ہے۔ ریزرویشن تو بہت بڑی چیزہے مسلمانوں کے لئے تعلیمی وظائف کی رقم بھی بمشکل جیب سے نکلتی ہے خود وہ مرکزی حکومت کی جیب ہویا مختلف ریاستی حکومتوں کی جیب ۔ اگر مرکز نے وطائف کی رقم فراہم بھی کردی تو ریاستی حکومتیں اس کو لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اسکول، کالج (میڈیکل اور انجینئر نگ وغیرہ) کھولنے کے لئے بھی مسلمانوں کو سہولتیں فراہم ہمیں کی جاتی ہیں باوجود اس کے کہ دستورکے آرٹیکل 29اور 30کے تحت انہیں اس کا حق دیا گیا ہے ۔ ان کے راستے میں طرح طرح کی قانونی اور فرضی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور کسی حوصلہ مند نے اگر کسی نہ کسی طرح اعلیٰ تعلیم کے ادارے کھول لینے میں کامیابی حاصل بھی کرلی تو اس کو تسلیم کرنے اور اس کے الحاق کے سلسلے میں اس غریب کو اتنا دوڑایا جاتا ہے کہ اس کی ایڑیاں لہولہان ہوجاتی ہیں ۔ اس معاملے میں جو رازہائے وردن پردہ ہیں ان کو باہر لانے کی چنداں ضرورت نہیں اس لئے ککہ سبھی اس سے واقف ہیں کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے۔
http://www.newageislam.com/urdu-section/مسلمانوں-کیلئے-ریزرویش-واقعی-دودھاری-تلوار-ہے/d/1471
No comments:
Post a Comment