Saturday, June 30, 2012

عورت اور ان پر مردوں کی جھوٹی فضیلت :قسط 43, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
عورت اور ان پر مردوں کی جھوٹی فضیلت :قسط 43

حقوق النسواں مولوی ممتاز علی کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1898میں لکھی گئی تھی۔ مولوی ممتاز علی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کے ہمعصر تھے ۔ حقوق النسواں اسلام میں عورتوں کے حقوق پرپہلی مستند تصنیف ہے۔ مولونی ممتاز علی نےنہایت مدلل طریقے سے قرآنی آیات اور مستند احادیث کی مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ مردوں کی عورتوں پر نام نہاد برتری اور فضیلت اسلام یا قرآن کا تصور نہیں، بلکہ ان مفسرین کے ذہنی رویہ کا نتیجہ ہے ،جو مردانہ شاونیت (Chauvanism) کے شکار تھےاس کتاب کی اشاعت نے 111سال پہلے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا تھا۔ کچھ نے اس کتاب کی سخت مخالفت کی ،لیکن بہت سے علما نےاس تصنیف کو خیر مقدم کیا اور کچھ نے خاموشی ہی میں بہتر سمجھی روزنامہ ‘‘صحافت’’ ممبئی اسے اس لئے سلسلہ وار شائع کررہا ہے کہ ایک صدی بعد بھی یہ تصنیف اور اس کے مضامین آج کے حالات میں مطابقت رکھتے ہیں، اس لئے بالکل نئے معلوم ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مضامین بغور پڑھے جائیں گے اور اس عظیم الشان تصنیف کا شایان شان خیر مقدم کیا جائے گا۔ایڈیٹر

بڑی مشکل ہے بہو کو بہو کی حیثیت میں صرف چار پانچ مہینے رہنے دیتی ہوں گی۔ اس کے بعد ان کی خوشی صرف اس بات میں ہوتی ہے کہ وہ بہو ان کے آگے برے گھر کی باندی کی طرح رہے اور ساس نند اس پر وہ حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں جو صرف خریدی ہوئی لونڈیوں پر ہوسکتی ہے۔ ہم نے ایک ساس کو دیکھا جو اپنی چار مہینے کی بیاہی ہوئی بہوکی نسبت اتنا گوارا نہیں کرسکتی تھی کہ وہ رنگا ہوا دوپٹہ اوڑھ سکے۔ ہر وقت بناؤ سنگار کے طعنے دیتی تھی اور دن رات اس کا دل جلاتی تھی اور بہو کا ذکر کیا جاتا تھا تو یہ ان کی چکی پستی ہے ۔ڈھکی اناج چھڑتی ہے۔ فلانی کے کپڑے بالکل مٹی کے رنگ کے رہتے ہیں اور تیرا بناؤ سنگا رہی ختم نہیں ہوتا ۔ لاچار مجبور ہوکر اس غریب نے سفید دوپٹہ میرے بیٹے کی بدشگونی منانے کے لئے اوڑھا گیا ہے۔

غرض اس آفت زدہ بہو کی جان عذاب میں تھی اور کسی کل چین نہ تھا ۔ ساس کی اس قسم کی بدسلوکیاں عموماً ایسی حالت میں ہوتی ہیں جب کہ بیٹا خود کوئی ذریعہ معاش نہیں رکھتا بلکہ مع اپنی بیوی کے اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا ہے اور وہ ہی متکفل ان کے اخراجات کے ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں ساس کو نہایت ناگوار گذرتا ہے کہ بہو اور ساس کا نکھٹو میاں مفت کی روٹیاں کھایا کریں۔ اور بہو کا ذرا سا آرام بھی ساس سے دیکھا نہیں کہ جب تک کوئی ذریعہ معاش حاصل نہ ہوجائے۔اس وقت تک ہر گز ہرگز شادی نہ کی جائے اس کی احتیاط اگر خود مرد نہ کرے تو لڑکی والوں کو تو ضرور ہی کرنی چاہئے کہ وہ اپنی لڑکی ایسے مرد کو نہ دیں جو کوئی مستقل ذریعہ معاش نہ رکھتا ہو۔ بعض شوہر ایسی حالتوں میں اپنی دانست میں نہایت ہی منصفی کرتے ہیں اور اپنی غایت درجہ کی بے تعصبی ظاہر کرتے ہیں جب کہ وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ جھگڑے عورتوں عورتوں کے باہمی تکرار ہیں اس میں مردوں کو دخل نہیں دینا چاہئے شوہر کی عدم مداخلت کی وجہ سے ساس نند یں اور بھی شیر ہوجاتی ہیں۔اور بے چاری بہو کو رات دن ستایا جاتا ہے اور یہ عدم مداخلت پر لے درجہ کی بے انصافی زوجہ کے حق میں ہوتی ہے۔

http://www.newageislam.com/urdu-section/عورت-اور-ان-پر-مردوں-کی-جھوٹی-فضیلت--قسط-43/d/2256

No comments:

Post a Comment