Saturday, June 30, 2012

عورت اور ان پر مردوں کی جھوٹی فضیلت :قسط 45, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
عورت اور ان پر مردوں کی جھوٹی فضیلت :قسط 45
مگر بعض لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ عورت کو عام طور پر کچھ حقوق حاصل ہوں، مگر بیوی بن جانے کے بعد وہ ایک طرح کی مملوک بن جاتی ہے اور اس لئے وہ گوارا نہیں کرتے کہ بعد نکاح اس کے ساتھ طریق مساوات مرعی رکھا جائے ۔ اس قسم کے لوگوں میں یہ بات نہایت شرم کی شمار ہوتی ہے کہ عورت کو ہمسری کا رتبہ دیا جائے بلکہ جو لوگ اپنی بیبیوں کے ساتھ درجہ مساوات برتتے ہیں اور ان کو ہر طرح پر اپنے برابر آرام دیتے ہیں ان کو وہ طرح طرح کے حقیر ناموں مثلاً ‘‘جو ڑو سے دبنے والے’’ اور ‘‘جوڑو کے غلام ’’ سےیاد کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص بی بی پر حاکمانہ رعب داب نہیں رکھتا یا جس کی طرز گفتگو میں اتنا اثر نہیں کہ اس کو سن کر بی بی تھرّااٹھے وہ مرد ہی کیا ہے۔ میں نے ایک نہایت معزز شریف مسلمان کو دیکھا جن کا یہ قاعدہ تھا کہ جب وہ اپنے گھر میں جاتے تو ہمیشہ کسی جھوٹی سچی بات پر کسی نوکر وغیرہ پر خوب خفا ہولیتے اور بکتے اور جھڑ کیا ں دیتے ہوئے گھر میں چلے جاتے۔

اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ ان کا عضبناک انداز دیکھ کر گھر کی عورتیں سب خوف زدہ ہوجائیں ۔ ایک اور معزز عہدہ دار کا گھر میں جانے کا طریق یہ تھا کہ وہ کبھی گھر میں ہنس کر کسی سے بات نہ کرتے تھے اور بہت مختصر بات کرتے تھے تاکہ ان کے رعب میں کمی نہ آجائے ۔کھانا کھانے کے سوا اور کسی وقت گھر میں نہیں جاتے تھے ۔ جب وہ گھر میں جاتے تھے تو سب عورتیں اپنے اپنے قرینہ پر مودبانہ خاموش بیٹھ جاتی تھیں۔ ان کی بی بی اور بیٹیوں کی مجال نہ تھی کہ ان سے کسی شے کاسوال کریں۔ خواہ وہ کیسا ہی واجبی ہو ۔ ان کی ہر حاجت کا پورا ہونا انہیں سرپرست خاندان کی خود مختارانہ خوشی پر تھا جس کا وہ اکثر بے رحمی سے استعمال کرتے تھے۔

اس طبقہ کے بعض لوگ ایک نہایت شرمناک تمیز قائم کیا کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے لئے عمدہ نفیس کھانا علیحدہ تیار کرواتے ہیں اور عورتو ں کےلئے ادنیٰ درجہ کا علیحدہ تیار ہوتا ہے ۔بعض لوگ اپنی بیبیوں اور لڑکیوں کو پوشاک اپنی حیثیت کے لحاظ سے ایسی ذلیل پہناتے ہیں کہ ا س بے حد خست کے چھپانے کے لئے انہیں ایک اور جابرانہ قاعدہ باندھنا پڑتا ہے کہ وہ کہیں برادری میں نکلنے نہ پائیں اور نہ برادری کی کوئی عورت ان کے گھر آنے پائے۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ غربا میں نکاح کا اصول یہ ہے کہ روٹی ٹکرہ کا آرام ہوجائے اور تسلیم کیا ہے کہ ا س طبقہ میں یہ قابل اعتراض نہیں ۔مگر اس طبقہ کے مرد جب تعلیم میں کوشش کرکے یا اور اسباب سے ترقی حاصل کرکے اپنے سے اعلیٰ طبقہ میں پہنچ جاتے اور عزت میں برتری او رمال میں فراخی اور وسائل معاش میں وسعت حاصل کرلیتے تو عموماً یہ دستور ہے کہ وہ اپنی ان ترقیوں کی متناسب ترقی مستورات کی حالت میں نہیں کرتے۔ ان کی غریبانہ ومفلسانہ حالت اسی طرح غیر متغیر وغیر متبدل رہتی ہے ۔ تعلیم کے درجوں اور فضیلت کے اسند اور عہدہ کی عزت سے جو کچھ تہذیب وشائستگی حاصل ہوتی ہے اور طریق معاشرت میں جو آرام پیدا ہوتے ہیں اور خوراک ولباس میں جو رطافت ونفاست اختیار کی جاتی ہے اس کی سرحد زنانے مکان کی دہلیز ہے۔

http://www.newageislam.com/urdu-section/عورت-اور-ان-پر-مردوں-کی-جھوٹی-فضیلت--قسط-45/d/2270


No comments:

Post a Comment