Friday, March 13, 2015

Quran and the Purified Wives قرآن اور ازواج مُطہرات

Quran and the Purified Wives قرآن اور ازواج مُطہرات



  



میجر (ر) سردار خاں اورکزئی
قارئین کرام اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے پیغمبر اسلام کی جو تصویر پیش کی ہے ۔ وہ تو شہکار ہیں  وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ (68:4) بلا شبہ آپ اخلاق کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز ہیں ۔ یہ تو مسلم امہ کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارے پاس قرآن کریم محفوظ شکل میں موجود ہے۔ جس میں اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی تعریف فرمائی ہے ۔ مگر کتب روایات میں دشمنوں نے ان کے کردار کو مسخ کر کے رکھ دیا، اغیار ہمیں طعنے دیتے ہیں کہ آپ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے لاتعداد شادیاں کی ہیں حالانکہ اللہ کی طرف سے چار کی اجازت ہے اس کا جواب میجر (ر) سردار خان اورکزئی پیش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقصد  تحریر یہ کہ مضمون ھٰذا لکھتے وقت خاکسار کادل خون کے آنسو رو رہا ہے ، کیونکہ ملوکیت کے درباری مولوی نے تعداد کے حوالے سےجناب خاتم النبین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے کچھ ایسی باتیں بھی منسوب کی ہیں جن کاکوئی وجود ہی نہیں  تھا ۔لیکن ان باتوں کو غلط ثابت کرنابھی بہت مشکل ہورہا ہے اور مشکل بھی اس لئے ثابت ہورہا ہے کہ ہمارے اکابرین آئمہ  کرام رحمۃ اللہ علیہ فقہ و حدیث بھی ان باتوں میں درباری مولویوں کے ہم خیال معلوم ہوتے ہیں ۔ خاکسار پہلے ہی اس بات کی وضاحت کرچکا ہے کہ ہمارے یہ قابل آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ تو پہلی صدی ہجری کے اوآخر میں اور اس کے بعد پیدا ہوئے ہیں،جب کہ عجمی درباری مولوی قرآنِ کریم میں موضوع روایات کے ذریعہ معنوی تحاریف کر کے ان کو رواج دے چکا تھا ۔ لہٰذا اُس وقت اس میں تحقیق کا کام اس لئے نہیں ہوسکا تھاکہ حصول علم سے مکاتب کی باگ ڈور بھی درباری مولویوں کے ہاتھوں میں تھی ۔ اور وہی دینی معاملات پر فتوے دینے کا مجاز تھا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے مولویوں کے نام تاریخ نے حذف کردیئے ہیں ۔ ان کے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب ایک خلیفہ وقت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو قاضی القضاء کے عہدے پر مقرر کرنا چاہتا تھا اور آپ نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار فرمایا تھا ، تو ظاہر ہے کہ اس وقت کوئی درباری مولوی ہی اس عہدے پر فائز تھا ۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ۔
خاکسار زیر نظر مضمون میں ازواج مطہرات اور ان کی تعداد پر بحث کرنے سے پہلے ان باتوں کی تردید ثابت کرنا چاہتا ہے۔ جو سورۂ احزاب کی آیت  50:52 کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منسلک کی گئی ہیں ۔ ان باتوں کی تردید ہوجانے سے ازواج مطہرات کی تعداد یا نوعیت خود بخود واضح ہوجائے گی ۔تردید کے لئے استدلال کا طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے ایک آیت کریمہ کا متن پیش کیا جائے گا پھر جو عام طورپر تراجم یا تفاسیر میں لکھا ہوا نظر آتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ مفہوم  بھی پیش کیا جائے گا جو ہمارے  مولوی صاحبان اس سے اخذ کرتے ہیں ۔ اس کے بعد ترجمہ پر عربی لغت اور گرائمر کی روشنی میں تنقید پیش کر کے ثابت کیا جائے گا کہ مولوی کا ترجمہ اور مفہوم دونوں غلط ہیں اور حقیقی  مفہوم یہ بنتاہے ۔ تینوں آیات  مبارکہ کے مفاہیم میں ربط ہی ان کے درست ہونے کی دلیل بن سکتی ہے۔
 حلال کا مفہوم ۔ پہلی آیت کریمہ میں وارد الفاظ ۔ إِنَّا أَحْلَلْنَا ۔۔۔ وَهَبَتْ نَفْسَهَا اور يَسْتَنكِحَهَا کے مفاہیم کو ایسا مروڑا گیا ہے کہ کسی کو اس پرشبہ نہیں ہوسکتا ، آپ آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیں ۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ( 33:50)
غلط ترجمہ :۔اے نبی ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں اور جو خدا نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں ( سب حلال ہیں) او رکوئی مومنہ عورت جو اگر اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے ( یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی اس سے نکاح کرناچاہیں وہ بھی حلال ہے ۔ لیکن یہ اجازت اےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم خاص تم ہی کو ہے۔ سب مسلمانوں کو نہیں ہے۔ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ( جو مہر واجب الادا) مقرر کردیاہے ہم کو معلوم ہے ( یہ اس لئےکیا گیا) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔
تنقید بر ترجمہ :۔ اس ترجمے اور اس سے اخذ کردہ مفہوم میں کم از کم بارہ غلطیوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔ مفہوم کو تو بین قوسین کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ قوسین کی عبارت محو کرنے سے ترجمہ بےمعنی  ہوکر رہ جاتا ہے یہ ترجمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجی زندگی سے متعلق ایک نا پسندیدہ نقشہ پیش کررہا ہے مولوی آیت کو صرف مہر سے متعلق کرتا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مہر کی  ادائیگی معاف کردی  گئی تھی۔ قارئین کرام اب عربی زبان کی لغت اور گرائمر کے حوالے سے ترجمے میں غلطیوں  کا شمار فرمائیں ۔
(1) إِنَّا أَحْلَلْنَا ترجمہ ‘‘ ہم نے حلال کردی ہے ’’ کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا  ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجات کریمات (أَزْوَاجَكَ) پہلے سے اُن صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال نہیں تھیں جو اب حلال کردی گئی ہیں؟۔اور حلال کا لغوی ترجمہ کیا بنتا ہے؟ حرام حلال کھانے پینے کی چیزوں ،پہننے اور برتنے کی چیزوں میں بھی ہوتاہے تجارت ،اور ازدواجی معاملات میں بھی ہوتا ہے ،لہٰذا یہاں اگر نکاح کے حوالے سے حلال کرنا مراد ہو تو عقل سلیم اسے کیسے تسلیم کرسکتی ہے کہ نکاح شدہ ازدواج مطہرات کو اب حلال کیا جارہا ہو۔ اس پیچیدگی کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس آیت کریمہ کا تعلق نکاح یا زوجیت کے حرام و حلال سےنہیں ہے بلکہ ترجمہ میں تمام  مذکورہ خواتین کی سکونت سے ہے۔ کیونکہ تمام ازواج کے علاوہ تمام خواتین غیر محرم تھیں اور وہ سب ہجرت کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ مدینہ منورہ آئی تھیں ان کے ولی وارث مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے۔ یہاں وہ کسی غیر محرم کے ساتھ سکونت پذیر نہیں  ہوسکتی تھیں ۔ یہ اجازت بلکہ ذمہ داری اللہ نے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالی ہے کیونکہ وہ امین  ہے۔ دوسرے مومنین کےلئے ایسی  اجازت نہیں تھی کہ  ان کےساتھ چچا زاد یا ماموں زاد بہنیں  سکونت اختیار کریں لہٰذا خالصتاً لک کا اطلاق اس مومنہ عورت تک کی سکونت پر ہوتا ہے اور إِنَّا أَحْلَلْنَا کا لغوری ترجمہ (Lawful, Legal, Allowed) یعنی ہم نے جائز کیا بنتا ہے۔
(2) اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ نکاح کےلئے تو حلال عورتوں کی فہرست سورۃ نساء کی آیت نمبر 23:24 میں دی گئی ہے اس فہرست کی رو سے چچا، پھوپھی ،ماموں، خالہ کی بیٹیاں نکاح کے لئے حلال ٹھہرتی ہیں، پھر یہاں ان کا ذکر حلّت کے حوالے سےکیا معنی رکھتا ہے؟ ۔ لہٰذا یہاں معاملہ سکونت کے جائز ہونے کا ہے،سکونت کاذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔
(3) وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۔ مال غنیمت کی لونڈیاں کیا گیا ہے، مولوی کے مذہب کےمطابق تو یہ بھی پہلے سے ہی حلال تھیں تو اب دوبارہ حلال کرنے کا کیا مطلب ہے؟ ۔ کوئی مولوی صاحب صرف اتنا بتادے کہ ماملکت کے الفاظ قرآن میں کسی جگہ جنگ میں پکڑی گئی عورتوں کے لئے مستعمل ہوا ہو اور یہاں تو أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ واضح طور پر بتارہا ہے کہ یہ جنگ میں پکڑی ہوئی عورتیں نہیں تھیں بلکہ انہیں کسی جنگ کے بغیر اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر لایا ۔ عقل کا اندھا بھی یہ اندازہ کرسکتاہے کہ یہ وہ خواتین ہیں جو کافر معاشرے سےبھاگ کر دارالسلام میں آئی تھیں اور آرہی تھیں ۔ لہٰذا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک یمین  قرار پائیں ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان کے ولی وارث بنے ۔ یہ سب عورتیں بھی چونکہ غیر محرم تھیں  اس لئے ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا بھی حلال یعنی جائز قرار دیا گیا ۔
(4)چچا پھوپھی کی بیٹیوں کے ساتھ لفظ ہجرت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ جو واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے والدین نےیا تو ہجرت نہیں کی یا وہ ایمان ہی نہیں لائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ صرف ان کی سکونت کی ذمہ داری  ڈالی گئی بلکہ ان کے لئے برتلاش کرنے کا فریضہ بھی سونپا گیا ۔ اس بات کی تصدیق آیت کریمہ  کےاگلے حصے سے بھی ہوتی ہے۔
(5) إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا سے مراد نکاح کے لئے خود کو پیش کرنا لیا گیا جو سراسر غلط ہے ان کو ہبہ کرنا بخشنا مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نکاح کے بارے میں سارے اختیارات دینا ہے مہر یا مہر کےبغیر نکاح کرادیں ۔ اسی لئے آگے فرمایا گیا ہے ۔ کہ اگر پیغمبر بھی ایسے اختیارات قبول کر ناچاہے تو ایسی خاتون بھی پیغمبر کے قرب میں سکونت پذیر ہوسکتی ہے۔ مولوی  نےایسے ہبہ کامفہوم یہ بتایا ہے کہ حضور خود نکاح کرناچاہیں ، غلط ہے یہاں لفظ (يَسْتَنكِحَهَا) ناز ل ہوا ہے جو باب استقعال سے ہے جو کبھی خود نکاح کرلینے نکاح کرنے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ نکاح کرانے کے معنوں میں استعمال کیا جاتاہے۔ لہٰذا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اگر پیغمبر بھی اُس کے نکاح کرانے کے اختیارات اس سے لینا چاہیں ورنہ نہیں ۔ اگر یہ خود نکاح کرنے کی بات ہوتی تو یہاں لفظ يَنكِحَهَا ہوتا۔
(6)اس سے آگے فرمایا کہ ایسی سب نا محرم عورتیں کی صرف تیرے ساتھ جائز ہے دوسرے مومنین کے ساتھ جائز نہیں ہے اور فرمایا کہ ہم جانتےہیں کہ ہم نے صرف ان کی بیویوں اور لونڈیوں کو ان کے ساتھ رہنے کی اجازت دی ہے ( حالانکہ لونڈیاں  بھی غیر محرم ہیں) لیکن مومنین  کے ساتھ رہ سکتی ہیں اور وہی ان کا نکاح کرانے کے ذمہ دار ہیں۔ قرآن  میں دوسرے مقامات پر بھی کافر معاشرے سےآنےوالی مہاجر خواتین کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان کو جانچ لو اور اگر وہ مومنات ہوں تو ان کو واپس نہ کرو۔ ان کے ساتھ نکاح بھی کرلو اور ان کو مہر بھی ادا کرو۔ یہ سب خواتین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک یمین قرار دی گئی ہیں ۔ یہ قیدیوں کے زمرے میں نہیں  آتیں ۔ ان میں سے جو شادی شدہ تھیں مسلمانوں کو ان کے خرچے بھی کافروں کو دینے کی ہدایت دی گئی تھی۔ اسی طرح مسلمانوں سے بھی بعض عورتیں  کافر معاشرے میں چلی گئی تھیں جن کے خرچ کفار سے طلب کرنے کا حکم دیا گیا تھا یہ سب ذکر سورۃ المتحنہ کی آیات 10:11 میں موجود ہے ۔
(7) سورۃ احزاب کی آیت نمبر (50) کے آخر میں فرمایا کہ سکونت کے حوالے سےان  احکامات کی وضاحت اس لئے کی گئی ہے کہ اے نبی تم پرکوئی حرج نہ ہو اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ مولوی نے حرج کا ترجمہ تنگی کیا ہے حالانکہ  اس کا مفہوم الزام تراشی اور انگشت نمائی ہے۔ یعنی کفار اور مشرکین یہ نہ کہہ سکیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم عورتوں کو اپنے ہاں جگہ دی ہے۔ قرآن کریم  میں 13 مقامات پر لفظ حرج وارد ہوا ہے اِن میں سے چار مقامات پر تو یہ تنگی اور تکلیف کے معنوں میں نازل ہوا ہے اور نومقامات پر یہ الزام اور گناہ کے معنوں میں مستعمل ہے۔ لہٰذا اس مقام پر سیاق و سباق کے لحاظ سے لفظ حرج کا ترجمہ الزام تراشی اور انگشت نمائی  ہی  ٹھیک بیٹھتا ہے ، تنگی یا تکلیف  سےبے ربط ہوجا تا ہے ۔ خاکسار نے لفظ (يَسْتَنكِحَهَا) کا جو مفہوم بیان کیا ہے اس کی تصدیق روایات سےبھی ہوتی ہے ۔ اور ہبہ نفس کا معنی بھی اجاگر ہوتا ہے۔
صحیح بخاری کےباب النکاح میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ عورت نےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو اپنے آپ کو پیش کیا یعنی ہبہ کیا تو ایک آدمی نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مجھ سے نکاح کرا دیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تیرے پاس کیاچیز ہے ( یعنی مہر میں  دینے کےلئے ) وہ بولا میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ فرمایا جاکر ڈھونڈو اگر چہ لوہے کی انگوٹھی  ہی کیوں نہ ہو۔ وہ گیا دوبارہ آکر کہا میرے پاس کچھ بھی نہیں ملا او رمایوس ہوکر بیٹھ گیا ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے  قرآن کی کون سی سورتیں یاد ہیں ؟۔ کہاں فلاں سورت یاد ہیں ۔ فرمایا تمہیں قرآن مجید  کی فضیلت  کے سبب اس عورت کا مالک بنا دیا ۔ اس روایت سے ان إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا اور يَسْتَنكِحَهَا  کے مفاہیم بالکل واضح ہوتے ہیں ، لیکن مولوی اس کو تسلیم نہیں  کرے گا کیونکہ وہ عجیب ذہنیت رکھتا ہے۔
کفو کی تلاش ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت 51 مذکورہ بالا غیر محرم عورتوں کی کانٹ چھانٹ ان کے لئے مناسب برکی  تلاش کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ لیکن مولوی اسےازواج مطہرات رضی اللہ عنہ میں خلوت کی باری مقرر کرنے یا باری  کو نظر انداز کرنے کے اختیار سےمنسوب کردیا ہے سبحان اللہ ‘‘ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے’’ قارئین کرام اس آیت مبارکہ کو صرف پڑھ کر ہی اندازہ کرلیں گے ۔ کہ مولوی کی سوچ کتنی ٹیڑھی ہے فرما دیا ۔
تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ (33:51) مولوی کا ترجمہ ملا حظہ فرمائیں ۔ ( اور تم کو یہ اختیار ہے کہ) جس بیوی کو چاہو علیحدہ رکھو اور جس بیوی کو چاہو اپنے پاس رکھو۔ جس کو تم علیحدہ کردیا تھا اگر اس کو پھر اپنے پاس طلب کر لو تو تم پر کوئی گناہ نہیں  ، یہ اجازت اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمناک نہ ہوں او رجو کچھ تم ان کو دو اسے لے کر سب خوش رہیں ۔
ترجمہ پر تنقید ۔ اس ترجمہ کا آیت کریمہ کے متن سے کوئی ربط نظر  نہیں آتا کیونکہ لفظ ترجی کا ترجمہ علیحدہ رکھو غلط  ہے درست  ترجمہ ڈھیل دو بنتا ہے  یعنی مؤخر کرو اور رخصت کرو، اس لحاظ سے درست مفہوم یہ ہے کہ ان غیر محرم عورتوں میں سے آپ جنہیں  چاہیں  اپنے پاس رہنے کی جگہ دیں۔ اور جن کو رخصت کردیا تھا اگر مناسب برمل جائے اور آپ نہیں دوبارہ طلب کریں تو بھی آپ کوئی گناہ اس لئے نہیں ہے کہ اس طرح سب خواتین کو اطمینان رہیں گی، غمناک نہ ہوں گی کیونکہ ان کو یقین ہوگا کہ آپ ان کے نکاح کےلئے سعی  کررہے ہیں ۔ لفظ  تُئْویْٓ بھی  اس مفہوم کی تصدیق ہے ۔ جو جگہ دینے کے معنوں میں رخصت کرنے کے مقابلے میں نازل ہوا ہے اور ترجی کے معنوں میں بھی واپسی کی امید بھی لگتی ہے ۔ اب اسی حوالے سے جب ہم اگلی آیت کریمہ کاجائزہ لیتےہیں تو ربط نمایاں ہوجاتاہے او رمعاملہ نکھر کر سامنے آجاتاہے ۔ کہ لفظ يَسْتَنكِحَهَا کا مفہوم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا خود نکاح کرنا نہیں بلکہ اپنا آپ ہبہ کرنے والی خواتین کے نکاح کرانا ہے،مولوی نے اگلی آیت کریمہ کا ترجمہ بھی ایسا گڈ مڈ کردیا کہ کچھ  نہ سمجھے خدا کرے کوئی کے مرادف ہوگیا ہے ۔ آیت کریمہ ملا حظہ فرمائیں ۔
لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا ( 33:52) مولوی کا ترجمہ : اے پیغمبر ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ  ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں  کر لو چاہے ان کاحسن تم کو کیسا ہی اچھا لگے،مگر جو تمہارے دائیں ہاتھ کامال ہے یعنی لونڈیوں کے بارے میں تم کو اختیار ہے اور اللہ ہر چیز پرنگاہ رکھتا ہے۔
ترجمہ پر تنقید۔ مِن بَعْدُ کا ترجمہ ان کے سوا اور عورتیں غلط ہے۔ درست ترجمہ اس کے بعد بنتا ہے اس طرح لَّا يَحِلُّ حلال نہیں ہے یعنی آپ اور نکاح نہیں کرسکتے او رنہ یہ کہ کسی ایک بیوی  کو چھوڑ کر دوسری بیوی کرلو اگر چہ کوئی عورت آپ کو بہت اچھی لگے ۔ دوسری عورتوں میں بھی وہ شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ کافر معاشرے سےتیری طرف پھیر لایا ہے ۔ اگر ترجمہ ان کے سوا عورتیں کیا جائے، تو اس کامفہوم یہ بن جائے گا کہ چچا پھوپھی خالہ اور ماموؤں کی بیٹیوں  کےساتھ تو نکاح کرسکتے ہو، لیکن  دوسریوں کےساتھ نہیں کرسکتے ۔ آیت کریمہ کی یہ منشاء نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اس کے بعد آپ  کوئی نکاح نہ کریں ۔ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ کے ساتھ  الااستثنیٰ معنوں میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ عطف اور استغراق کے معنوں میں نزول کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں ۔  يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ ۔ إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( 27:10:11)  اس آیت کریمہ میں اگر الا کو استثنیٰ مانا جائے تو پھر ترجمہ یہ ہوگا کہ اےموسیٰ ڈرو مت کیونکہ میرے پاس پیغمبر ڈرا نہیں کرتے سوائے اس کے جس نےظلم کیا  اور پھر برائی کےبعد اسے نیکی  سےبدل دیا تو میں بخشنے والا مہربان ہوں ۔
 اس کا مفہوم  تو یہ بنتا ہے کہ پیغمبر جو زیادتی  کرے گا  وہ ڈرے گا ۔ لیکن اگر الا کو عطف یا استغراق کے معنوں میں لیا جائے تو مفہوم یہ بنے گا کہ وہ بندہ بھی نہیں ڈرے گا جس نے کوئی زیادتی  کی ہو پھر اس کے بعد برائی کو نیکی  سےبدل دیا ہو۔
ھبہ نفس ۔ سورۃ احزاب کی مذکورہ بالا آیت  کے درست تراجم سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم نفس ھبہ کرنے والی خواتین  سے خود نکاح کی اجازت  نہیں ملی تھی جیسا کہ مولوی نے یہ اجازت آپ سے منسوب کی ہے۔ بلکہ ان کو ایسا نکاح کرانے کا فریضہ سونپا گیا تھاجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا بھی کیا سورۃ احزاب اور سورۃ ممتحنہ  کی مذکورہ آیت کریمہ عبوری  دور کے اسلامی معاشرے میں طہارت اور پاکیزگی کو فروغ کی کوششوں کی گواہی دیتی ہیں ۔ اب ہم قرآن کریم سے ہی ازواج مطہرات کی نوعیت  اور تعداد معین کرنے کی کوشش کریں گے۔ روایات  تو ان کی تعداد تیرہ بتاتی ہیں جن میں سے ایک وقت  میں گیارہ بقید حیات تھیں بعض  تعداد گیارہ اور نو بتاتی ہیں، ہمارےلئے یہ اہمیت  نہیں رکھتا  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےکل کتنے نکاح کئے بلکہ اہم سوال یہ ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک وقت میں کتنی بیویاں ہوتی تھیں ۔ جب ہم معیشت او ر معاشرے سےمتعلق قرآنی احکامات کاجائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان میں ایسا کوئی حکم نہیں ملتا جس میں پیغمبر اور امت کے درمیا ن تفریق رکھی گئی ہو۔ صرف سورۃ احزاب میں غیر محرم خواتین کی سکونت او ران کے نکاح کے بارے میں کچھ تحصیص اس لئے بیان کی گئی ہے تاکہ نو مسلم عورتوں کو در بدر پھرنے سےبچایا جائے اور ان کےلئے مرکزی  طور پرمناسب برتلاش کیا جائے یہ حکم بھی عبوری نوعیت کا تھا ۔ مستقل  حیثیت  کا نہ تھا ۔ اب ہم قرآن میں یہ بھی دیکھتے  ہیں کہ اللہ تعالیٰ  نے یتیموں  اور بیواؤں  کی خبر گیری کے پش نظر صاحب استطاعت شادی شدہ مسلمانوں کو مزید تین بیواؤں سےنکاح کرنے کی اجازت  بلکہ ترغیب دی ہے یعنی  ایک مسلمان اس طرح چار بیویاں رکھ سکتا ہے تو ہم یہ کیوں نہ مانیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک وقت میں چار بیویاں رکھی ہیں جن میں سے تین بیوائیں ہوتی تھیں ، ہمیں اس امر کے تعین کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی ایک وقت میں کون کون سی تھیں ۔ یاہ عقیدہ غلط نہ ہوگا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب نکاح منشائے ایزدی پر مبنی  تھے اور شریعت  کے عین مطابق تھے اور جہاں تک آپ کا لونڈیوں سےتمتع کرنے کی بات کا تعلق ہے تو یہ سفید جھوٹ ہے کیونکہ قرآن گواہی دیتا ہے کہ خیبر فتح ہونے پر تمام یہودیوں کو امان دی گئی، ان میں سے اکثر ترکِ وطن کر کے چلے گئے اور اپنےساتھ اپنے مکانات کا کار آمد ملبہ بھی لےگئے ۔
علاوہ ازیں قرآن اہل کتاب کی آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت تو دیتا ہے ۔ لیکن اہل کتاب لونڈی  سےنکاح کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اور مولوی تو جنگ میں گرفتار لوگوں کو غلام اور لونڈی قرار دیتا ہے ۔ اسلام نے غلامی ختم  کردی ہے پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ ازواج مطہرات میں ایک خیبر کی لونڈی بھی تھی ۔
قارئین کرام قصہ مختصر یہ کہ اگر درباری عجمی مولوی آیات ربانی  پراس طرح کے تراجم اور مفاہیم چسپا ں نہ کرتا اور اس کے لئے روایات نہ گھڑتا تو ملوک  کےلئے مفتوحہ علاقوں میں خاندانی اور باعزت خواتین کو ہر گز باندیاں اور کنیزیں  نہ بنا سکتا ۔ لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ موجودہ دور کے مولوی ایسی باتوں میں قرآن حکیم سے رہنمائی کیوں حاصل نہیں کرتے جو ہر مسئلے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیتا ہے ۔ فتدبروا۔
فروری ، 2015  بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی

No comments:

Post a Comment